تعلیماتِ سلطان العاشقین قران و حدیث کی روشنی میں
Taleemat-e-Sultan-ul-Ashiqeen (Quran-o-Hadees Ki Roshni Mein)
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے فقرو تصوف کے موضوع پر 24 تصانیف لکھی ہیں جو فقرو تصوف کی تاریخ میں سنگِ بنیاد کی اہمیت رکھتی ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ہر قدم، قدمِ محمدیؐ پر ہے۔ ہر قول و عمل قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے جس طرح علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے عرفانی اور روحانی کلام کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپؒ کا کلام قرآن و حدیث کا ہی بیان اور تفسیر ہے اِسی طرح آپ مدظلہ الاقدس کے فقر و تصوف پر مبنی اقوال اور فرمودات قرآن و حدیث کے عین مطابق بلکہ انہی کی تفسیر ہیں۔
سلسلہ سروری قادری میں مشائخ سروری قادری کو جہاں آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے امانتِ فقر عطا ہوتی ہے وہیں علمِ لدنیّ کا خزانہ بھی آپؐ سے منتقل ہوتا ہے اور یہ علمِ لدنیّ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کاہے اور وہ شیخِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا روحانی وارث ہے۔ اس لیے امام سلسلہ سروری قادری جو بھی تلقین و ارشاد فرماتاہے وہ تعلیماتِ محمدیؐ کا اظہار ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے احکامات کو سمجھنے کے لیے نبی پاکؐ کی سنت پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ سنتِ محمدیؐ کے ذریعے قرآنِ کریم کی روح سمجھ آتی ہے اور فقرائے کاملین کی صحبت، عمل، تلقین، اقوال اور فرمودات کے ذریعے سنتِ محمدیؐ کی روح مومن کے دل پر عیاں ہوتی ہے۔قارئین کے لیے تعلیماتِ سلطان العاشقین سے چند مختلف موضوعات کوپیش کیا جا رہا ہے۔
فقر
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فقر کے متعلق فرمایا:
فقر میرا فخر ہے اور فقرمجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔
فقراللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔ نائبِ رسول سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فقر کے متعلق فرماتے ہیں:
فقر کے لغوی معنی تو تنگدستی اور احتیاج کے ہیں لیکن عارفین کے نزدیک یہ وہ منزلِ حیات ہے جس کے متعلق سرکارِ دو عالمؐ نے فرمایا ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار کمالات عطا فرمائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی پر فخر نہیں فرمایا سوائے فقر کے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فقر کو اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ قرار دیتے ہیں اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ، جنہوں نے سلسلہ سروری قادری کو منظم فرمایا، بھی نعمتِ فقر کو ہی اپنی تصانیف میں خزانہ فرماتے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ ’’محک الفقرکلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:
فقر کی نظربھی خزانہ ہوتی ہے اور اس کے قدموں میں بھی خزانہ ہوتا ہے۔ جسے مرتبہ ٔفقر حاصل ہو جائے وہ لایحتاج اور صاحبِ نظر بن جاتا ہے۔
فقر کی دو قسمیں ہیں ایک فقر وہ ہے جس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فخر فرمایا ہے اور ایک فقر وہ ہے جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں فقر ِمکب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فقرِمکب جسے ’’فقرِاضطراری‘‘ بھی کہتے ہیں، کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
فقرِاضطراری یہ ہے کہ آدمی کسی خاص ذاتی مقصد کے لیے راہِ فقر اختیار کرلے اور جب آزمائشوں کا بوجھ پڑے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے ۔کچھ لوگ کسی دنیاوی پریشانی، تکلیف اور بیماری سے گھبرا کر یا جذباتی ہو کر فقر کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ کسی ولیٔ کامل (صاحبِ فقر) کی وفات کے بعداس کی خانقاہ ومزار کی گدی نشینی اختیار کرنے والے لوگ جو عموماً صاحبِ مزار کی اولاد میں سے ہوتے ہیں، بھی فقر کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ انہیں فقر کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی۔ان کا مقصدِزندگی صرف مزار کی آمدنی تک یا صاحبِ مزار کے مریدوں کے نذرانے تک محدود ہوتاہے یا پھر مشائخ بن کر مقامِ عزو جاہ حاصل کرنا مقصد ہوتا ہے۔ یہ سب فقرِ اضطراری کی راہ پر ہوتے ہیں۔
دیدارِالٰہی
دیدارِالٰہی کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
جو شخص اپنے ربّ کا لقا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اعمالِ صالح اختیار کرے۔ (سورۃ کہف ۔110)
حدیثِ مبارکہ ہے:
حضرت جریر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’قریب ہے وہ وقت جب تم اپنے پروردگار کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے۔‘‘ (صحیح بخاری۔7435)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لقائے الٰہی کے متعلق فرماتے ہیں:
لقا سے مراد دیداریا چہرہ ہے۔ قرآن کی جن آیات میں بھی لقا کا لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد دیدارہی ہے۔
اللہ کا دیدار آخرت میں اور دنیا میں بھی ممکن ہے بلکہ خود ربِ کریم کی یہ چاہت ہے کہ میں پہچانا جاؤں جو کہ دیدار کیے بغیر ممکن نہیں۔
صراطِ مستقیم مانگنے کا مطلب ہے اللہ پاک کو مانگنا یعنی اس کا دیدار اور وصال مانگنا۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا طالبانِ مولیٰ پراحسان ہے کہ انہوں نے صراطِ مستقیم کے اصل معنی اور صراطِ مستقیم کی راہ سے واقف فرمایا۔
دیدارِالٰہی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام
دیدارِالٰہی کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ قرآنِ کریم میں درج ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
اور جب موسیٰ علیہ السلام ہمارے مقرر کردہ وقت پر حاضر ہوئے اور ان کے ربّ نے ان سے کلام فرمایا تو کلامِ ربانی کی لذت پا کر دیدار کے آرزو مند ہوئے اور عرض کرنے لگے ’’اے میرے ربّ! مجھے اپنا جلوہ دکھا کہ میں تیرا دیدار کر لوں‘‘ ارشاد ہوا تم مجھے براہِ راست نہ دیکھ سکو گے مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو۔ پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا دیدار کر لو گے۔ پھر جب ان کے ربّ نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو شدتِ انوار سے اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کیا: تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں سب سے پہلا مومن ہوں ۔ (سورۃ الاعراف۔ 143)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اس آیت میں دیدارِ الٰہی کے متعلق فرماتے ہیں:
نبی وہ دعا کبھی نہیں کرتا جو ناممکن اور ممنوع ہوجیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے اس کے دیدار کی طلب کی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے۔ دیدار کو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کے اپنی جگہ قائم رہنے سے مشروط کیا۔مشروط کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کا دیدار ممکن ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دیدار کی خواہش پر کہا کہ’’لَنْ تَرَانِیْ تو دیکھ نہیں سکتا ‘‘تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ اللہ کو کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا بلکہ صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی مخاطب تھے کہ تو مجھے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا۔ جب اللہ نے تجلی فرمائی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو گئے۔ آپؑ کا بے ہوش ہونا ہی اس بات کی گواہی ہے کہ آپؑ نے کچھ دیکھا تبھی تو بے ہوش ہو گئے یعنی دیدارِ الٰہی کی تاب نہ لا سکے۔ ہوش میں آتے ہی آپ علیہ السلام نے فرمایا ’’میں پہلا مومن ہوں۔‘‘ (سورۃ اعراف ۔143)
مومن وہ ہے جو اللہ کو دیکھ کر اس پر ایمان لائے یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کا دیدار کیا البتہ وہ اس کی تاب نہ لا سکے اور بے ہوش ہو گئے۔
فرموداتِ سلطان العاشقین کی خاصیت ہے کہ طالب جتنازیادہ ان فرمودات کا مطالعہ کرتا چلا جاتاہے قرآن و حدیث کے حقیقی معنی اس کے قلب پر روشن ہوتے چلے جاتے ہیں اور تصوف کے وہ موضوعات جن کے متعلق عالم گفتگو کرنے سے بھی گھبراتے ہیں، سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس آسان فہم زبان میں انہیں بیان فرماتے ہیں۔
ترکِ دنیا
قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور (اے لوگو!) یہ دنیا کی زندگی سوائے کھیل تماشے کے اور کچھ نہیں۔ اور حقیقت میں آخرت کا گھر ہی (صحیح) زندگی ہے۔ کاش وہ لوگ (یہ راز)جانتے ہوتے۔( سورۃ العنکبوت۔ 64)
اوردنیا کی زندگی (کی عیش و عشرت) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں، اوریقینا آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں۔ کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتے۔ (سورۃ الانعام۔ 32)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمانِ عالی شان ہے:
دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ (مشکوٰۃ۔ 5212)
مذکورہ بالاقرآنی آیات و حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دنیاوی محبت ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے لیکن اگر دنیا میں رہیں گے تو دنیا کی محبت ترک کیسے ہوگی؟ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
صوفیا کرام کے فلسفہ کے مطابق ترکِ دنیا سے مرادترکِ ہوسِ دنیا ہے یعنی دنیا سے باطنی لا تعلقی کا نام ترکِ دنیا ہے۔
ترکِ دنیا سے مراد دنیا کو چھوڑنا نہیں بلکہ اپنے باطن میں دنیا اور اس کی خواہشوں کو شکست دینا ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکال دی جائے کیونکہ جب تک دل سے دنیا کی محبت نہیں نکلے گی اللہ کی محبت نہیں آئے گی۔ اس لیے وصالِ الٰہی کے لیے دل سے دنیا اور دنیا کی اشیا اور مخلوق کی محبت نکالنا ضروری ہے ۔
بیعت کے بعد مرشد سب سے پہلے طالب کا تزکیۂ نفس اس طرح سے کرتا ہے کہ وہ دل سے اللہ کے سوا ہر شے کی نفی کر دیتا ہے ۔ طالب کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کا دل بالکل خالی ہے جس میں نہ کسی کے لیے محبت ہے اور نہ ہی نفرت۔ یہ ہے نفی۔
ترکِ دنیاروحانی ہوتا ہے جسمانی نہیں ۔
ریاکاری
اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
اور وہ لوگ جو اپنے مالوں کو لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتے ہیں اور ایمان نہیں لاتے اللہ پر، اور نہ قیامت پر اور جس کا ساتھی شیطان ہو وہ کتنا برا ساتھی ہے۔ (سورۃ الانعام۔38)
حضرت محمود بن لبیدؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا تم لوگوں پر خوف ہے وہ ہے چھوٹا شرک ۔لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! چھوٹا شرک کیا ہے؟ فرمایا ’’ریاکاری‘‘۔ (مسند احمد 24030)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
ریا کی حقیقت یہ ہے کہ خود کو لوگوں کے سامنے پارسا اور نیک ظاہر کیا جائے تاکہ لوگ اس شخص کو زیورِپارسائی سے آراستہ سمجھیں اور وہ ان میں مقبول و ہر دلعزیز ہو جائے، لوگ اسے محترم وقابلِ تعظیم جانیں اور نگاہِ عزت سے دیکھیں اور اسے اخلاقِ حسنہ کا نمونہ خیال کریں۔
نفسِ اماّرہ
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
بے شک نفسِ امارہ برائی کا امر کرتا ہے۔ (سورۃیوسف ۔53)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ارشاد فرماتے ہیں:
یہ نفس کفار، مشرکین، منافقین، فاسقین، طالبِ دنیا اور فاجر لوگوں کا ہوتا ہے۔ اگر اس کی اصلاح اور تربیت نہ کی جائے تو یہ اپنی سرکشی، بغاوت اورطغیانی میں ترقی کرتاہے اور انسان سے حیوان، حیوان سے درندہ بلکہ مطلق شیطان بن جاتا ہے۔
نفسِ لوامہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
خبردار! میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی اور نیز قسم کھاتا ہوں نفسِ لوامہ( گناہوں پر ملامت کرنے والے نفس) کی۔ (سورۃ القیامۃ۔ 1-2)
سلطان الفقر ہفتم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اگر نفس کی اصلاح اور نیک تربیت شروع ہو جائے تو وہ بتدریج اوصافِ حمیدہ اختیار کرتا ہے اور باطن میں عالمِ ملکوت کی طرف ترقی کرتا ہے جہاں نفس امارہ سے لوامہ ہو جاتا ہے۔ لوامہ کے معنی ہیں ملامت کرنے والا یعنی گناہ پر انسان کو اس کا نفس ملامت کرتا ہے اور پشیمانی دلاتا ہے۔ ایسے نفس کو موت، روزِ قیامت اور حساب کتاب وغیرہ ہر وقت یاد رہتا ہے۔
نفسِ ملہمہ
اللہ پاک نفسِ ملہمہ کے متعلق فرماتا ہے:
اور جو شخص اللہ کے روبرو حساب کے لیے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو خواہشاتِ نفسانی سے باز رکھا پس ایسے شخص کا ٹھکانہ بے شک بہشت ہے۔(سورۃ النازعات۔40-41)
انسانِ کامل سلطان العاشقین فرماتے ہیں:
جب نفس کامزید تزکیہ ہوتاہے تو وہ لوامہ سے ملہمہ ہو جاتا ہے اور ترقی کر کے عالمِ جبروت میں داخل ہوجاتا ہے۔ نفسِ ملہمہ گناہ کے ارتکاب سے پہلے انسان کو تائیدِغیبی سے الہام کرتاہے کہ خبردار اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور گناہ سے باز آ جاؤ۔ یہ الہام مختلف طریقوں سے ہوا کرتا ہے۔ بعض دفعہ انسان کو صحیح دلیل اور خیال کے ذریعے گناہ سے روکتا ہے، بعض کو غیب سے بے صوت وآواز القا ہوتا ہے، بعض دفعہ خوفزدہ کیا جاتاہے اور بعض دفعہ خواب کے ذریعے خبردار کیا جاتا ہے جس سے انسان کے دل میں خوفِ خدا موجزن ہو جاتا ہے اور وہ گناہ سے باز آ جاتا ہے۔
نفسِ مطمئنہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک اولیا اللہ کو نہ تو کوئی غم ہوتا ہے نہ کوئی خوف۔(سورۃ یونس۔ 62)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
اے نفسِ مطمئنہ! لوٹ اللہ تعالیٰ کی طرف، ایسی حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہے اور تو اس سے راضی ہے۔ پس میرے بندگانِ خاص کے حلقہ میں شامل اور میری بہشت (قرب و وصال) میں داخل ہو جا۔ (سورۃ الفجر ۔27-30)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس کے متعلق فرماتے ہیں:
جب نفس باطن میں ترقی اور عروج حاصل کرتا ہے اور اس کا تزکیہ مکمل ہو جاتاہے تو وہ عالمِ لاھوت میں پہنچ کر ’’نفسِ مطمئنہ‘‘ ہو جاتاہے گویا نفس اس ازلی راہزن شیطان سے نجات پا کر اپنی منزلِ حیات اور اپنے مقصود کو پا لیتا ہے اور دار الامن تک پہنچ جاتا ہے جو لا تخف ولا تحزن (یعنی خوف و غم سے امن) کا مقام ہے۔
نفسِ امارہ دنیادار لوگوں کا ہوتا ہے، نفسِ لوامہ طریقت والوں کا ہوتا ہے ،نفسِ ملہمہ حقیقت والوں کا ہوتا ہے اور نفسِ مطمئنہ معرفتِ حق تعالیٰ پر پہنچ جانے والوں کا ہوتا ہے۔
حسد
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور جب ہم نے آدم ؑکو سجدہ کرنے کے لیے فرشتوں کو حکم دیا تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔ کہنے لگا: میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔ اس نے پھر کہا کہ یہ وہی ہے جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھے قیامت تک مہلت دیتا تو میں چند لوگوں کے سوا اس کی تمام اولاد کو بہکاتا رہوں گا۔(سورۃ بنی اسرائیل ۔ 61-62)
ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
(اے نبی مکرم!)آپ انہیں آدم (علیہ السلام)کے دو بیٹوں (ہابیل و قابیل)کی خبر سنائیں جو بالکل سچی ہے۔ جب دونوں نے (اللہ کے حضور) قربانی پیش کی تو ایک (ہابیل) کی قربانی اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوئی اور ایک (قابیل) کی نہ ہوئی تواس (قابیل)نے (ہابیل سے حسداًو انتقاماً) کہا:میں تجھے ضرورقتل کر دوں گا، اس (ہابیل) نے کہا کہ بے شک اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں سے ہی قربانی(نیاز) قبول فرماتا ہے ۔ (سورۃ المائدہ۔ 27)
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
حسد وجود میں آنے والی پہلی بیماری اور گناہ ہے جس کا اظہار سب سے پہلے آسمان پر شیطان لعین نے کیا ۔اس نے حضرت آدم علیہ السلام سے حسد کیا کہ ان کو’’ خلافتِ الٰہیہ‘‘ کیوں ملی؟ اسی وجہ سے سرکش ہوا اورنافرمان ہو کر سجدہ نہ کیا۔ پس راندۂ درگاہ ہوا اور فرشتوں کے استاد عزازیل کے درجے سے گر کر ابلیس اور شیطان بن گیا اور پہلا حاسد کہلایا۔
پہلے دو گناہ (ایک آسمان پر اور ایک زمین پر) حسد کی وجہ سے ہوئے۔ اللہ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو فضیلت عطا فرمائی اور ابلیس حسد کا شکار ہو گیا کہ جو فضیلت آدم کو ملی ہے وہ مجھے ملنی چاہیے تھی کیونکہ آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا ہوئے ہیں اور میری تخلیق آگ سے ہوئی ہے۔ زمین پر پہلے گناہ کی بنیاد بھی حسد ہی تھا جب آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا۔
غصہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
جو اللہ کی راہ میں خوشحالی اور تنگی میں بھی خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں سے درگزر کرتے ہیں اور اللہ احسان کرنے والے سے محبت کرتا ہے۔ (سورۃ آل عمران۔134)
غصے کی کیفیت میں انسان کی حالت کیا ہوتی ہے اور یہ انسان کو کس طرح نقصان پہنچاتا ہے اس کے متعلق سلطان العاشقین فرماتے ہیں:
غصہ کی اصل آگ ہے اور اس کی نسبت شیطان سے ہے کیونکہ شیطان کو آگ سے تخلیق کیا گیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے۔ آگ شدتِ اضطراب اور بے قراری کی علامت ہے جبکہ مٹی کا وصف سکون ہے ۔جس پر غصہ حاوی ہو جاتا ہے شیطان اس پر غالب آجاتا ہے اور اس کی نسبت آدم علیہ السلام سے زیادہ شیطان کے ساتھ ہو جاتی ہے۔
اسمِ اللہ ذات
قرآنِ کریم میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ۔ (سورۃ النور۔ 35)
اللہ مومنوں کا دوست ہے جو انہیں ظلمت سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔ (سورۃ البقرۃ۔ 257)
فرمان سلطان العاشقین:
اسمِ اللہ ذات کا ذکر ایسا عمل ہے جو انسان کے دل میں نور ایمان پیدا کرتا ہے۔
اکثر جب ذکر اسمِ اللہ ذات کی بات کی جاتی ہے تو عام انسان اس کے معنی نہیں سمجھ پاتا کہ اسمِ اللہ ذات کے ذکر کرنے سے کیا مراد ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
ذکراسمِ اللہ ذات کے تین طریقے ہیں :ایک پاس انفاس کا ذکر ہے، دوسرا تصور ہے جسے مشاہدہ بھی کہا گیا ہے اورتیسرا مشق مرقومِ وجودیہ۔
ذکر پاس انفاس
پاس انفاس کا ذکر صرف سانسوں کے ساتھ کیا جاتا ہے نہ آواز نکلے نہ ہونٹ اور نہ زبان ہلے۔ یہ ذکر وضو یا وضو کے بغیر چلتے پھرتے ہر وقت کرتے رہنا ہے جب تک کہ قلب جاری نہیں ہو جاتا۔ ابتدائے حال میں اگر کسی وقت بھول جائے تو جب یاد آئے کر لیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور صبح شام ذکر کرو اپنے ربّ کا سانسوں کے ذریعے بغیر آواز نکالے خوف اور عاجزی کے ساتھ اور غافلین میں سے مت بنو۔
مجلسِ محمدیؐ
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی شاید ہی کوئی تصنیف ایسی ہو جس میں انہوں نے مجلسِ محمدیؐ کا ذکر نہ کیا ہو۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں باطن میں دیدارِ الٰہی اور حضوریٔ مجلسِ محمدیؐ دوایسے انتہائی مقام ہیں کہ ان سے بلند باطنی مقام کوئی اور نہیں ۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ دائمی حیاتِ نبویؐ کے سختی سے قائل ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
پس ہر وہ شخص مومن، مسلمان یا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حیات ہی نہیں مانتا۔ وہ جو کوئی بھی ہے جھوٹا، بے دین، منافق اور کذاب ہے۔
جسے حیاتِ نبویؐ پر اعتبار نہیں وہ دونوں جہان میں خوار ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہر وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہے اور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ (کلید التوحید کلاں)
علامہ اقبالؒ حیاتِ نبی ؐکے بارے میں فرماتے ہیں:
میرا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ ہیں اس زمانے کے لوگ بھی ان کی صحبت سے اسی طرح مستفید ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ کرام ؓہوا کرتے تھے لیکن اس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں پر ناگوار ہوگا اس واسطہ خاموش رہتا ہوں۔ (خط بنام نیاز الدین خاں۔ فتراکِ رسول باب سوم ۔اقبال اور عشق رسول، صفحہ 71)
ارمغانِ حجازمیں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بہ مصطفیؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
ترجمہ:تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک خود کو پہنچا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مکمل دین ہیں۔ اگر تو ان تک نہیں پہنچتا تیرا سارا دن ابو لہب کا دین ہے۔
فرمان سلطان العاشقین:
جس طالب کے دل میں مجلسِ محمدیؐ کے متعلق پہلے ہی شکوک و شبہات موجود ہوں وہ اوّل تو اس مجلس تک پہنچ ہی نہیں پاتا اور اگر مرشد کی مہربانی سے پہنچ جائے تو اپنے دل کے میل کی وجہ سے ٹک نہیں سکتا۔
حاصلِ کلام
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی تعلیمات کو ایک مضمون میں بند کرنا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ آج کے موضوع کا مقصد قارئین کے سامنے یہ کاوش پیش کرنا ہے جس طرح آپ مدظلہ الاقدس کاہر قدم ،قدمِ محمدیؐ پر ہے اسی طرح آپ کی تمام تعلیمات کا معدن اورمخزن قرآن و حدیث اور صوفیا کرام کی تعلیمات ہیں۔
نوٹ:
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے تمام فرمودات ’’شمس الفقرا‘‘ اور ’’تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین‘‘ سے لیے گئے ہیں۔