عشق اور حضرت ابراہیمؑ Ishq aur Hazrat Ibrahim (A.S)
تحریر:محترمہ نورین سروری قادری
سیدّنا حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ عظیم المرتبت پیغمبر ہیں جن کو ’’خلیل اللہ‘‘ یعنی اللہ کا دوست، معمارِ بیت اللہ، پدرِ ذبیح اللہ، جدالانبیا، مقتدا و پیشوا، مہمان نواز، صاحب ِگلزار، ترجمانِ توحید ِباری تعالیٰ اور حلیم و کریم جیسے القابات سے نوازا گیا ہے۔
اللہ پاک نے آپؑ کی جائے قیام کو جائے نماز اور اندازِ توحید کو کلمہ باقیہ بنا دیا۔حضرت ابراہیمؑ کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد بار آیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے بعد جتنے بھی پیغمبر آئے وہ سب آپؑ کی اولاد میں سے آئے۔اسی وجہ سے آپ کو ’’ابو الانبیا‘‘ یعنی پیغمبروں کا باپ کہا جاتا ہے۔ یہودیت، مسیحیت اور اسلام تینوں مذاہب میں حضرت ابراہیمؑ کو انتہائی قابلِ احترام اور قابلِ تعظیم سمجھا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ اللہ پاک کے جلیل القدر پیغمبر، ہمارے آقا و مولا خاتم النبییّن حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جدّ ِامجد، ابتلا و آزمائش کے اَن گنت مراحل سے گزرے۔ سفر ِہجرت اختیار کیا، اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور اپنے ننھے فرزند حضرت اسماعیلؑ کو بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑا۔ تبلیغ ِدین کا انقلابی راستہ اختیار کیا۔ گو کہ آپؑ کی ساری زندگی انقلابی جدوجہد سے عبارت ہے۔ حضرت ابراہیمؑ عاشقوں کے قافلہ کے سردار ہیں۔جدالانبیا ہونے کے ناطے قرآنِ پاک میں خصوصیت کے ساتھ آپؑ کے عشقِ الٰہی کی داستان اور امتحان و آزمائش کے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کا پہلا امتحانِ عشق نمرود کی دہکائی ہوئی آگ تھی جس میں آپؑ بے خطر کود گئے۔ جس کے بارے میں روایات ہیں کہ اللہ پاک کی طرف سے فرشتے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ اگر آپؑ چاہیں تو آتشِ نمرود کو اُسی پر اُلٹا دیں لیکن اس پیکرِ تسلیم و رضا نے عشق کے امتحان سے راہِ فرار اختیار نہ کی اور انجام کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ’’بے خطر کود پڑا آتش ِنمرود میں عشق‘‘ کی داستان کا نمایاں عنوان تاریخ میں ثبت کر دیا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْنَا یٰنَارُ کُوْنِیْ بَردًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی اِبرٰہِیْمَ (سورۃ الانبیا۔69)
ترجمہ: (جب آپ کو آتشکدہ میں پھینکا گیا تو) ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیمؑ پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔
یہ اللہ پاک کی طرف سے حضرت ابراہیمؑ کے لیے معجزہ یعنی فطرت کے عام قوانین کے برعکس معاملہ تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ کو سمندر پر اپنی لاٹھی مارنے کا حکم دیا تو سمندر پھٹ گیا۔ایسے ہی اللہ پاک کے حکم سے آگ حضرت ابراہیمؑ کے لیے گلزار بن گئی۔
سیدّنا حضرت ابراہیمؑ کا دوسراامتحانِ عشق اس وقت لیا گیا جب حضرت اسماعیلؑ شیرخوار تھے۔ حکم ہوا کہ اپنی زوجہ حضرت ہاجرہ اور بیٹے کو ویرانے میں لے جا کر چھوڑ آؤ۔ آزمائش کا یہ مرحلہ بھی سیدّنا حضرت ابراہیمؑ نے خندہ پیشانی اور کامیابی سے سر کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ربَّنَآ اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ (سورۃابراہیم۔37)
ترجمہ: میں نے بسا دیا ہے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں جس میں کوئی کھیتی باڑی نہیں۔ تیرے حرمت والے گھر کے پڑوس میں۔
سیدّنا حضرت ابراہیمؑ کے تیسرے امتحانِ عشق کا مرحلہ اس وقت آیا جب حضرت اسماعیلؑ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گئے یعنی اس قابل ہو گئے کہ باپ کا ہاتھ بٹاسکیں تو اللہ پاک کی طرف سے حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑی دعاؤں اور آرزوؤں کے بعد بڑھاپے میں ملنے والے نہایت عزیز بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے اس لیے انہوں نے اسے اللہ کا حکم سمجھ کر کسی بھی تردد کے بغیر اس پر عمل کا پکا ارادہ کر لیا اور بیٹے سے کہا اے میرے پیارے بیٹے! میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، سو دیکھ، توکیا خیال کرتا ہے۔ بیٹے کی رائے پوچھنے کا مطلب یہ نہ تھا اگر وہ نہ مانتا تو اللہ کے حکم پر عمل نہ کرتے بلکہ وہ اپنے ساتھ بیٹے کو بھی اللہ کے حکم کی اطاعت میں شریک کرنا چاہتے تھے اور انہیں امید تھی کہ بیٹا اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے ضرور آمادگی کا اظہار کرے گاکیونکہ اللہ پاک نے انہیں حلیم لڑکے کی بشارت دی تھی۔ قرآنِ پاک میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا گیا ہے:
قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَاتَرٰی ط قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ چ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔ (سورۃ الصافات۔102)
ترجمہ: (حضرت ابراہیمؑ نے) فرمایا:اے میرے بیٹے!میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتا تیری کیا رائے ہے۔ (حضرت اسماعیلؑ نے) عرض کیا میرے والد ِبزرگوار کر ڈالئے جو آپ کو حکم دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
عشق کے اس امتحان میں باپ اور بیٹے نے، جو دونوں ایک ہی ذات کے عاشق اور محب تھے، بلاتامل اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ باپ چھری ہاتھ میں لیے بیٹے کے حلق کی طرف بڑھا اور بیٹا خود سپردگی کے عالم میں اللہ کی رضا پر قربان ہونے کے لیے دل و جان سے آمادہ ہو گیا۔ شیطان نے لاکھ بہکانے اور ورغلانے کے جتن کئے لیکن ان کے پائے استقلال میں ذرّہ بھر لغزش نہ آئی۔ باپ نے بیٹے کی گردن پر تسلیم و رضا کی چھری چلا دی اور چشمِ فلک نے عجیب و غریب منظر دیکھا جس کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔حضرت اسماعیلؑ کے راہِ خدا میں قربان ہونے کا جذبہ قربانی کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ بقول اقبالؒ
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
اللہ پاک کو اپنے ان خاص بندوں کی یہ ادااِتنی پسند آئی کہ اس واقعہ کو ذبحِ عظیم قرار دے کر ہر سال اس کی یاد کی تجدید کا حکم امتِ مصطفویؐ کیلئے شریعت ِمطہرہ کا حصہ بنا دیا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی کا سفر عشق و محبت سے عبارت ہے اور خلیل اللہ کا جو لقب ملا ہے اسی عشق کی معراج ہے ورنہ عقل کے تقاضے تو کچھ اور ہوا کرتے ہیں۔
خاندان اور پورے معاشرے کے رسم و رواج اور خداؤں سے بغاوت اور بتوں کو توڑنا اور ہجرت کرنا، یہ عقل کا پیمانہ نہیں۔
بڑھاپے میں عطا کردہ قابلِ قدر نعمت، پیارا لختِ جگر اور محبوب بیوی کو لق دق صحرا میں چھوڑنا عقل کے نزدیک قابلِ شک عمل ہے۔
جگر کے ٹکڑے کو زمین پر لٹا کر اس کی گردن پر چھری پھیرنا اور ذبح کرنا عقل کے مطابق قابلِ تنقید ہے!گوشت پوست کے بنے ہوئے زندہ انسان کا آتشِ نمرود میں کودنا ماورائے عقل ہے!
عقل علم دیتی ہے، راستہ دکھاتی ہے اور منزل کے قریب بھی کرتی ہے لیکن منزل طے نہیں کرا سکتی۔عقل ہمیشہ اسباب اور نتائج کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر تنقید پر آمادہ ہوتی ہے اور شکوک پیدا کرتی ہے۔ جبکہ عشق ظاہر کو نہیں باطن کو دیکھتا ہے اور انسان کو قربانی پر آمادہ کردیتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
پس خلاصہ یہ ہے کہ اگر زندگی محض عقل کے سہارے جینا ہے تو حقیقت کو پانا مشکل ہی کیا ناممکنات میں سے ہوگا کیونکہ عقل تصورات کا بت کدہ تو بنا سکتی ہے لیکن زندگی کی صحیح رہبری و رہنمائی سے قاصر ہے۔اس لئے حقیقت کو پانے کے لئے اور محبوب تک پہنچنے کا راستہ صرف عشق کا راستہ ہے۔
اسی عشق کے راستے پر چل کر انسان خلیل اللہ کی معراج کو پا لیتا ہے۔
جب حضرت ابراہیم ؑاپنے ربّ کی حقیقت پاگئے تو اعلانیہ اپنی قوم کو اس کی طرف بلانے والے بن گئے، جب ان کے لیے آگ میں ڈالے جانے کی سزا تجویز ہوئی تو بخوشی اس میں کودنے کے لیے تیار ہوگئے۔ ربّ کا حکم ہوا تو بڑھاپے میں حاصل ہونے والی اولاد اور اپنی بیوی کو ایک ویران صحرا میں چھوڑ آئے اور جب وہ اولاد ہوش سنبھالنے کے قابل ہوئی تو ربّ کے اشارے پر اس کے گلے پر چُھری پھیرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ قربانی جتنی بڑی تھی، ربّ نے انعام بھی اُتنا ہی بڑا دیا۔
آپؑ کی نسل میں سے انبیا کا سلسلہ جاری کیا اور قربانی کے عمل کو اُمتِ مسلمہ پر واجب کر دیا۔ صحابہ کرامؓ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا ’’یارسولؐ اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا’’یہ تمہارے باپ ابراہیمؑ کی سنت ہے۔‘‘ا س بات میں ہمارے لیے یہ اشارہ پوشیدہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیمؑ نے اپنی جان، مال، اولاد یعنی ہر شے اللہ کی راہ میں پیش کر دی اِسی طرح جب طالبِ مولیٰ ربّ کی رضا پانے کے لیے راہِ فقر پر چلتا ہے تو اسے عشق کی مختلف منازل سے گزرنا پڑتا ہے کیونکہ راہِ فقر دراصل راہِ عشق ہے۔ اور اس راہ میں کامیابی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتی جب تک طالب اپنی ہر شے کو راہِ حق میں قربان نہیں کر دیتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۃ آلِ عمران۔ 92)
ترجمہ: تم اس وقت تک بِرَّ (اللہ تعالیٰ) کو نہیں پا سکتے جب تک اپنی سب سے پیاری چیز خدا کی راہ میں قربان نہ کرو۔
سب سے بڑی سنت راہِ حق میں گھر بار لٹا دینا ہے۔اللہ پاک نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا:
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (سورۃالنسائ۔ 89)
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ان میں سے کسی کو اپنا ولی (دوست) نہ بنائیں جب تک کہ وہ راہِ خدا میں اپنا گھر بار نہ چھوڑ دیں۔
طالبِ مولیٰ کو زندگی کے ہر میدان میں آزمایا جاتا ہے کیونکہ عشق قربانی مانگتا ہے اور فقرجیسی عظیم نعمت حاصل کرنے کے لئے اپنا مال، جان اور گھر بار سب کچھ داؤ پر لگانا پڑتا ہے۔ اور قربِ الٰہی اس وقت تک حاصل نہیں ہوتا جب تک انسان اپنا گھر بار راہِ خدا میں قربان نہیں کر دیتا۔
حضرت ابراہیمؑ کی طرح ہر طالب کو آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔جتنا طالب کا عشق، جذبہ اور مقام بڑا ہو گا اس کی آزمائش اسی کے مطابق ہو گی۔جو طالبِ مولیٰ عشق میں حضرت ابراہیمؑ کی طرح مکمل ہو جاتا ہے وہی کامیاب ہے جو انسانِ کامل کے مرتبے پر پہنچتا ہے اور اسی کا نام ہمیشہ زندہ رہتا ہے جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
نام فقیر تِنہاں دا باھوؒ، قبر جنہاں دی جیوے ھوُ
موجودہ دور کے انسانِ کامل، پیرِ کامل، مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس عشق کے متعلق فرماتے ہیں :
عشق میں تو وفا ہوتی ہے، وفا قربانی مانگتی ہے اور قربانی دینی پڑتی ہے۔کبھی کبھی عشق قربانی مانگتا ہے لیکن لیتا نہیں ہے۔
حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑکا واقعہ ہی دیکھ لیں، قربانی مانگی تھی لی نہیں تھی۔
عشق کی فتح وفا اور قربانی کی ہی بدولت ہے۔
راہِ عشق میں وفا اور قربانی کا تقاضا یہ ہے کہ وفا میں کبھی بھی کمی یا لغزش نہ آئے اور جب قربانی کا وقت آئے تو منہ نہ موڑا جائے اور نہ ہی قربانیوں کا عوض مانگا جائے۔
طالب کی وفا اور قربانی کی پرکھ ہی درحقیقت اس کے خلوص اور عشق کی پرکھ ہے۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے حکمت سے بھرپور مزید فرمودات پڑھنے کے لیے کتاب ’’تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔