عشق مگر کس سے ؟ Ishq…Magar Kis Say?

Spread the love

Rate this post

عشق مگر کس سے ؟ 
Ishq…Magar Kis Say?

تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری

عشق ایک گہرا روحانی جذبہ ہے جو کسی شخص یا ذات کے لیے شدید محبت اور وابستگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ صرف ظاہری یا وقتی محبت نہیں ہوتی بلکہ ایک ایسا احساس ہوتا ہے جو انسان کے دل و دماغ کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
بھگت کبیر سے کسی نے پوچھا، ’’عشق کیا ہے؟‘‘جواب دیا’’عشق ایسے ہی ہے جیسے کوئی گونگا گڑ کھائے اور ذائقہ نہ بتا سکے۔ عشق کا پہلا قدم اُٹھانے سے قبل اپنا ہی سر اپنے قدموں میں کاٹ کر رکھنا پڑتا ہے۔‘‘

عشق ایک پاک جذبہ ہے اور اس کا حقدار صرف اور صرف خالقِ حقیقی ہی ہے۔آئیے اسے چند گہرے زاویوں سے سمجھتے ہیں:
1۔ اللہ کی ذات ابدی (ہمیشہ رہنے والی) ہے:
دنیا کی ہر شے، ہر رشتہ، ہر محبت عارضی ہے۔ انسان مرتے ہیں، چیزیں برباد ہوتی ہیں، رشتے بدل جاتے ہیں۔قرآن کہتا ہے:
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔  (سورۃالرحمن۔ 26-27)
ترجمہ: جو کچھ بھی زمین پر ہے فنا ہونے والا ہے۔ اور تیرے ربّ کی جلیل و کریم ذات باقی رہے گی۔
لہٰذا عشق اُس سے کرنا چاہیے جو کبھی نہ فنا ہو، نہ بدلے، نہ چھوڑے۔

2۔ اللہ کی محبت خالص اور بے لوث ہے:
انسانوں کی محبت میں توقعات، خواہشات اور شرائط ہوتی ہیں۔ مگر اللہ کی محبت ایسی نہیں۔ وہ بغیر مانگے دیتا ہے۔ بغیر شرط کے معاف کرتا ہے۔ بغیر تھکے ہماری طرف پلٹتا ہے۔ حدیثِ قدسی میں اللہ فرماتا ہے:
میرا بندہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب آتا ہوں۔ (صحیح بخاری)
تو جس محبت میں خود محبوب ہماری طرف بڑھتا ہو، اُسی سے عشق کیوں نہ ہو؟

3۔ دل کی فطرت اللہ کی طرف مائل ہے:
امام ابنِ تیمیہ فرماتے ہیں:
دل کی اصل بھوک اللہ کی محبت ہے۔ اگر دل کو اللہ کے علاوہ کچھ دے دو تو وہ کبھی سیراب نہیں ہوتا۔
اسی لیے لوگ دنیا میں محبتیں ڈھونڈ کر بھی خالی رہتے ہیں۔ اصل اطمینان صرف اللہ تعالیٰ کی قربت میں ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔     (سورۃالرعد۔ 28)
ترجمہ: خبردار! اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔

4۔اللہ کی ذات ہی ہر نعمت کی اصل ہے:
ہم جس کسی سے محبت کرتے ہیں، وہ جو کچھ ہمیں دیتا ہے (مثلاً محبت، عزت، مدد، دولت، شہرت) حقیقت میں وہ سب اللہ ہی کی دی ہوئی طاقت ہے۔ لہٰذا نعمت کی محبت میں غرق ہونے کے بجائے نعمت دینے والے کی محبت میں ڈوب جانا سچا عشق ہے۔

5۔عشق کا تقاضا کمال کی طرف ہوتا ہے:
عشق کا تقاضا کمال کی طرف ہوتا ہے اوراللہ اپنے جمال، جلال اور قدرت میں کمال ہے۔ عشق فقط اُس ذات سے ہونا چاہیے جو باقی ہے، جو بے لوث محبت کرنے والی اوربے عیب ہے اوروہ صرف اللہ ہی کی ذات ہے۔

یہاں ایک سوال ہے کہ کیا ہمارا عشق اللہ کی ذات سے ہے یا اللہ کی نعمتوں سے ؟
یعنی ہم اللہ کو اس لیے چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں رزق، صحت، محبت، راحت دیتا ہے؟ یاہم اللہ کو اس کی ذات کے لیے چاہتے ہیں، چاہے نعمتیں رہیں یا چھن جائیں؟
یہ سوال بہت نازک ہے کیونکہ اکثر ہمارا عشق اللہ کی عطاؤں سے ہوتا ہے، اللہ کی ذات سے نہیں۔اور سچا عشق صرف اُس کی ذات کے ساتھ مشروط ہوتا ہے ۔ نعمتوں کے بغیر بھی اور خوشی کے بغیر بھی۔

سوال:کیسے پتا چلے کہ ہمارا عشق اللہ کی نعمتوں سے ہے یا اللہ کی ذات سے؟
یہ جاننے کے لیے غور وفکر کی ضرورت ہے۔

۱۔اگر نعمتیں چھن جائیں:

نعمتیں چھن جائیں تو دل کا حال کیا ہوتا ہے؟ اگر اللہ کی دی ہوئی دولت، صحت، عزت، محبت چھن جائے اور ہمارا دل اللہ سے شکایت کرے، مایوس ہو جائے، دور ہو جائے تو یہ علامت ہے کہ ہم نعمتوں سے محبت کرتے تھے، اللہ کی ذات سے نہیں۔
لیکن اگرنعمتیں چلی بھی جائیں اور دل پھر بھی اللہ کی طرف رجوع کرے، شکر کرے، صبر کرے، عاجزی سے جڑا رہے تو یہ عشقِ ذات کی علامت ہے۔قرآن میں اللہ پاک نے فرمایاہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ ج  فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُ ڑ اطْمَاَنَّ بِہٖ ج وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ ڑ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ ج قف خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ  ط  ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ۔  (سورۃالحج۔ 11)
ترجمہ: اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو (بالکل دین کے)  کنارے پر (رہ کر)اللہ کی عبادت کرتا ہے،پس اگراسے کوئی (دنیاوی) بھلائی پہنچتی ہے تووہ اس (دین) سے مطمئن ہوجاتا ہے اور اگراسے کوئی آزمائش پہنچتی ہے تواپنے منہ کے بل (دین سے) پلٹ جاتا ہے۔ اس نے دنیا میں (بھی) نقصان اٹھایا اور آخرت میں (بھی)، یہی تو واضح بڑا خسارہ ہے۔
یہی فرق ہے،سچا عاشق تو آزمائش میں بھی اللہ سے لپٹتا ہے۔

۲۔دعا کا انداز کیا ہے؟

اگر ہماری دعائیں صرف یہ ہوں:
  یا اللہ !میری بیماری دور کر دے۔
  مجھے کامیاب کر دے۔
تو یہ نعمتوں سے محبت کی علامت ہے۔

لیکن اگر دعا میں یہ ہو:
یا اللہ! توُ راضی ہو جا!
مجھے اپنا قرب دے دے!
میرا دل اپنے عشق میں جلا دے!
اگردل سے ایسی دعا نکلے تو یہ اللہ کی ذات سے عشق کی علامت ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اکثر دعائیں اللہ کی رضا کے لیے تھیں نہ کہ دنیاوی نعمتوں کے لیے۔

۳۔عبادت کا ذوق

اگر عبادت (نماز، دعا، ذکر) میں صرف دنیا کی خواہشات کا حصول ہو تو وہ محض ایک سودا ہے، عشق نہیں۔
سچا عاشق تو عبادت میں محبوب کی خوشبو تلاش کرتا ہے،نماز میں اللہ سے راز و نیاز کرتا ہے اورذکر میں اپنی روح کو اللہ میں گم کر دیتا ہے۔

۴۔تنہائی میں دل کی گفتگو

اکیلے میں جب کوئی نہ ہو ،کیا دل دنیاوی چیزوں کی فکر میں ڈوبا ہوتا ہے یادل اللہ کو یاد کر رہا ہوتا ہے، اس سے باتیں کر رہا ہوتا ہے؟
سچا عشق تنہائی میں ظاہر ہوتا ہے نہ کہ محض محفلوں میں۔
اگر اللہ کے بغیر کچھ نہ ملے، پھر بھی دل کہے’’تو ہی کافی ہے!‘‘تو سمجھ لو کہ عشق اللہ کی ذات سے ہے، نعمتوں سے نہیں۔
عشقِ الٰہی محض الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ یہ دل کی وہ کیفیت ہے جس میں بندہ اپنے وجود کی ہر حقیقت اللہ کے لیے وقف کر دیتا ہے۔وہ اللہ کے حکم سے خوش ہوتا ہے، چاہے وہ نعمت ہو یا مصیبت۔وہ اللہ کی رضا کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتا ہے۔وہ اللہ کے ذکر میں ایسا گم ہو جاتا ہے کہ دنیا اور مافیہا کی خبر نہیں رہتی۔حضرت جنید بغدادیؒ نے عشق کی تعریف یوں کی:
عشق یہ ہے کہ دل مکمل طور پر محبوب میں ڈوب جائے اور اس میں غیر کے لیے کوئی جگہ باقی نہ رہے۔

حضرت رابعہ بصریؒ فرماتی ہیں:
میں نہ جنت کی خواہش کرتی ہوں نہ دوزخ سے ڈرتی ہوں۔ میں صرف اللہ کی محبت چاہتی ہوں کیونکہ وہ محبت کے لائق ہے۔
ایک بار رات کے وقت دعا کرتے ہوئے کہا:
’’یا اللہ! اگر میں دوزخ کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں ڈال دے، اگر میں تجھے جنت کی لالچ میں چاہتی ہوں تو مجھے جنت سے محروم کر دے اور اگر میں تجھے صرف تیری ذات کے لیے چاہتی ہوں تو اپنے حسن ِحقیقی کا دیدار نصیب فرما۔‘‘

حضرت رابعہ بصریؒ کا عشق مفاد سے پاک، خالص اللہ کے لیے تھا۔
حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں:
میں نے اللہ کی محبت میں اپنی ذات کو فراموش کر دیا۔ میں باقی نہ رہا، صرف اللہ باقی رہ گیا۔
بندہ اپنی خواہش، اپنی خودی، اپنی انانیت سب قربان کر دیتا ہے۔ بس محبوب کی رضا مدنظررہتی ہے۔

مولانارومیؒ عشق کے متعلق فرماتے ہیں:
عشق آگ کی مانند ہے۔
جو کچھ بھی عشق کے دائرے میں آئے، جل کر راکھ ہو جاتا ہے ۔ خودی، تکبر، دنیا کی محبتیں، سب کچھ۔

اکثر مثال دی جاتی ہے:
پگھلتا ہوا سونا سچ کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح عاشق کا دل عشق کی آگ میں جل کر خالص ہو جاتا ہے  اور وہ اللہ کی حقیقت کو پا لیتا ہے۔
مولانا رومیؒ کے نزدیک عشق بندے کو ’’محبوب‘‘ کے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔
سیدّناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
جب تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو دنیا کی ہر محبت تمہارے دل سے مٹ جاتی ہے اور تم صرف اللہ کے محبوب بندے بن جاتے ہو۔
آپؓ کا کہنا ہے کہ عشق کے بغیر عبادت خالی جسم کی مشقت ہے اور عشق کے ساتھ عبادت روح کی پرواز ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ محک الفقر کلاں میں فرماتے ہیں:
 اے زاہد! تو مجھے آتشِ دوزخ سے کیوں ڈراتا ہے؟ میرے اندر تو عشقِ الٰہی کی وہ آگ بھری ہے کہ اگر میں اس کا ایک ذرّہ دوزخ میں ڈال دوں تودوز خ جل کر راکھ ہو جائے۔
 الٰہی! مجھے سوزِ عشق عطا فرما کہ یہ تیرا عمدہ انعام ہے۔ اگر کوئی اس سے ڈرتا ہے تو یہ مجھے عطا فرما دے۔
 عاشق اُسے کہتے ہیں جو دیدارِ حق تعالیٰ میں غرق ہو اور اگر وہ قہرو جلالیت، ذکر حضوری اور باطن معموری سے ایک آہ بھی بھر دے تو بے شک اسمِ اللہ اور ذکرِاللہ کی گرمی سے مشرق سے مغرب تک ایک سرے سے دوسرے سرے تک ساری دنیا جل کر راکھ ہوجائے۔
 اپنے نفس کو مار دینے کا نام عشق ہے۔
 ذوق آتشِ عشق میں خود کو جلانے کا نام ہے۔( محک الفقر کلاں)

 میرے مرشد میرے ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس خوبصورت الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
عشق کسی انسان سے نہیں ہوتا۔ جو یہ دعویٰ کرتا ہے وہ جھوٹا ہے کیونکہ اللہ خود عشق ہے اور عشق سے ہی عشق ہوتا ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

روح اور اللہ کا رشتہ ہی عشق کا ہے۔عشق ایک بیج کی صورت میں انسان کے اندر موجود ہے مگر سویا ہوا ہے۔ جیسے جیسے ذکرو تصور اسمِ اللہ ذات، مشق مرقومِ وجودیہ اور مرشد کامل اکمل کی باطنی مہربانی سے روح کے اندر بیدار ہوناشروع ہوتا ہے ویسے ویسے روح کی اللہ کے لیے تڑپ اور کشش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر یہی عشق ایک دن عشق (اللہ تعالیٰ) میں فنا ہو جاتا ہے۔(شمس الفقرا)

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے اندر عشق کا پوشیدہ جذبہ بیدار کیسے ہو؟ 

ہمارا عشق تو ان چیزوں، شکلوں اور لوگوں کیساتھ ہوتا ہے جنہیں ہم نے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو غیر مجسم ہے، اسکے ساتھ ہم عشق کیسے کریں؟ فقرا کاملین نے عشقِ حقیقی کو پانے کا ذریعہ عشقِ مجازی یعنی عشقِ مرشد کو قرار دیا ہے۔

عشقِ مجازی

فقر و تصوف میں عشقِ مجازی سے مراد عشقِ مرشد ہے یعنی بظاہر اگر دنیا کے کسی رشتے سے عشق کا حکم ہے تو وہ بھی صرف اُس ہستی سے جو اللہ کی طرف لے جانے کا باعث اور ذریعہ ہے۔ کیونکہ کامل مرشد وہ چراغ ہے جو روح کو روشن کرتا ہے اور نفس کے لیے تیز تلوار جیسا کام کرتا ہے۔ مرشد کامل اکمل کی نگاہِ کامل نفسانی خواہشات میں مبتلا مریضوں کے لیے طبیب کا کام کرتی ہے۔ مرشد کامل ہی کی بارگاہ ہے جہاں عشقِ حقیقی کا جام پلایا جاتا ہے اور طالب اپنی حقیقت سے آگاہ ہونے لگتا ہے۔ اسے اللہ کی ذات کی پہچان اور اس کے قرب و دیدار اور معرفت کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ مرشد کامل اکمل کی مہربانی اور باطنی توجہ سے عشقِ مجازی کا پودا بڑھتا ہے اور طالب عشقِ حقیقی کے سفر پر گامزن ہوجاتا ہے۔

جب روح کو روح کی غذا یعنی کامل مرشد کی صحبت اور مرشد کامل اکمل سے عطا کردہ اسمِ اللہ ذات ملے تو روح نفس پر حاوی ہو جاتی ہے اور لوُں لوُں میں عشق سما جاتا ہے۔اس کیفیت کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اپنے پنجابی بیت میں یوں لکھتے ہیں:

الف اللہ چنبے دی بوٹی، میرے من وِچ مرشد لائی ھوُ
نفی اَثبات دا پانی مِلیس، ہر رَگے ہر جائی ھوُ
اندر بوٹی مشک مچایا، جان پھلّاں تے آئی ھوُ
جیوے مرشد کامل باھوؒ، جیں ایہہ بوٹی لائی ھوُ

مفہوم: اس بیت میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اسمِ اللہ ذات کو چنبیلی کے پودے سے تشبیہ دی ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پہلے عارف ہیں جنہوں نے اسمِ اللہ ذات کے لیے ’’چنبے دی بوٹی‘‘ کا استعارہ استعمال فرمایا ہے۔ چنبیلی کے پودے کی پہلے پنیری (بوٹی) لگائی جاتی ہے اور جب وہ آہستہ آہستہ نشوونماپا کر ایک مکمل پودا بن جاتا ہے توچنبیلی کے پھولوں سے لد جاتا ہے اور اس کی خوشبو پورے ماحول کو مہکا دیتی ہے۔ اِسی طرح جب مرشد طالب کو ذکرو تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرماتا ہے تو گویا اس کے دل میں ایک پنیری لگا دیتا ہے اور اسمِ اللہ ذات کا نور مرشد کی نگہبانی میں آہستہ آہستہ طالبِ صادق کے پورے وجود میں پھیل کر اس کو منور کر دیتا ہے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میرا مرشد کامل ہمیشہ حیات رہے جس نے مجھ پر فضل و کرم اور مہربانی فرمائی اور اسمِ اللہ ذات عطا فرما کر اپنی نگاہِ کامل سے میرے دل میں اسمِ اللہ ذات کی حقیقت کو کھول دیا ہے اور نفی (لَآ اِلٰہَ) سے تمام غیر اللہ اور بتوں کو دل سے نکال دیا ہے اور اثبات (اِلَّا اللّٰہ) کے راز نے مجھے اسم سے مسمّٰی تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ راز اور اس کے اسرار میری رَگ رَگ، ریشہ ریشہ اور مغز و پوست میں سرایت کر گئے ہیں۔ اب تو اسمِ اللہ ذات پورے وجود کے اندر اتنا سرایت کر چکا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ جو اسرار اور راز مجھ پر کھل چکے ہیں ان کو ساری دنیا پر ظاہر کر دوں لیکن خواص کے یہ اسرار عام لوگوں پر ظاہر نہیں کیے جا سکتے اسی لیے ان اسرار اور رازوں کو سنبھالتے سنبھالتے جان لبوں تک آچکی ہے اور ظاہر و باطن میں جدھر بھی نظر دوڑاتا ہوں اب مجھے اسمِ اللہ ذات ہی نظر آتا ہے اور حالت اس آیت کی مثل ہو چکی ہے کہ’’ تم جس طرف بھی دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ ہی نظر آئے گا۔‘‘ (ابیاتِ باھوؒ کامل)

مولانا جامی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

غنیمت داں اگر عشق مجازیست
کہ از بہر حقیقت کارسازیست

ترجمہ: اگر تجھے ذاتِ مرشد کا عشق نصیب ہو جائے تو اسے اپنی خوش نصیبی جان کیونکہ یہ ذاتِ حق کے عشق تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔

حضرت بلھے شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بھی عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کا سرچشمہ ہے۔ عشقِ مجازی سے ہی عشقِ حقیقی پیدا ہوتاہے۔

جے چر نہ عشق مجازی لاگے، سوئی سیوے نہ بن دھاگے
عشق مجازی داتا ہے جس پچھے مست ہو جاتا ہے

ترجمہ: اگر مرشد سے عشق نہیں ہوتا تو انسان خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح سوئی دھاگے کے بغیر سلائی نہیں کر سکتی اس طرح عشقِ مجازی کے بغیر عشقِ حقیقی تک نہیں پہنچا جا سکتا۔

میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

میں نیواں میرا مرشد اُچا اَسی اُچیاں دے سنگ لائی
صدقے جاواں انہاں اچیاں توں جنہاں نیویاں دے نال نبھائی

ترجمہ: میں بہت عاجز اور عام آدمی تھا لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرا مرشد کامل اکمل ہے۔ انہوں نے مجھ عاصی پر اپنی شان کے مطابق مہربانی فرمائی اور مجھے آخر تک اپنی غلامی میں رکھا اور مجھے میری منزل (عشقِ حقیقی) تک پہنچایا۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

گرد مستاں گرد، گر مے کم رسد بوئے رسد
بوئے او گر کم رسد، روئیت ایشاں بس است

ترجمہ: مستوں (اللہ کے عشق میں مست کامل فقرا) کے گرد گھومتا رہ، اگر محبت کی شراب نہ ملے تو کم از کم اس کی بوُ تو حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ بھی نہ ملے تو ان کا دیدار ہی کافی ہے۔

ازل سے یہی روایت چلتی آ رہی ہے کہ اپنے محبوب (مرشد) کی خاطر اپنا مال و دولت یہاں تک کہ جان تک قربان کرنے سے دریغ نہ کیا جائے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اپنا گھر بار اپنے ہادی ومرشد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدموں میں نچھاور کر دیاکیونکہ آپؓ جانتے تھے اللہ پاک سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا گہرا تعلق ہے اور وہی ہستی ہیں جو انہیں عشقِ حقیقی کا جام پلا سکتی ہیں۔

اولیاکرام کی ایسی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جنہوں نے حق کو اپنے مرشد کے ذریعے پہچانا اور اس طرح یار کے رنگ میں رنگ گئے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ عشق کی حقیقت کو ان الفاظ میں قلمبند فرماتے ہیں:

ثابت عشق تنہاں نوں لدّھا، جنہاں تَرٹی چوَڑ چا کیتی ھوُ
نہ اوہ صوفی نہ اوہ صافی، نہ سجدہ کرن مسیتی ھوُ
خالص نِیل پرانے اُتے، نہیں چڑھدا رنگ مجیٹھی ھوُ
قاضی آن شرع وَل باھوؒ، کدیں عشق نماز نہ نیتی ھوُ

ترجمہ: عشقِ حق تعالیٰ تو وہ پاتے ہیں جو راہِ عشق میں اپنا گھر بار تک لٹا دیتے ہیں اور جن پر عشق کا رنگ چڑھ جائے تو اسکو کوئی اتار نہیں سکتا۔ مالکِ حقیقی کے عاشق نہ تو صوفی ہیں اور نہ ہی صافی ہیں اور نہ ہی وہ مساجد میں عبادت میں مشغول رہتے ہیں بلکہ وہ تو عشقِ الٰہی میں جذب ہو کر دیدارِ حق تعالیٰ میں محو ہیں۔ علمائے ظاہر ہمیشہ ظاہر پر زور دیتے ہیں جبکہ عاشق ظاہر و باطن کا جامع ہوتا ہے اور جن پر عشق کا رنگ چڑھ جائے اُن پر دوسرا کوئی رنگ اثر نہیں کرتا اور علمائے شریعت سے ذرا یہ تو دریافت کرو کہ عاشق نے کب نماز ادا نہیں کی، عاشق تو ہر لمحہ سربسجود رہتا ہے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)

سلسلہ سروری قادری میں عشقِ مجازی یعنی عشقِ مرشد اسمِ اللہ ذات کے ذکر و تصور سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بات سے طالب پر حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ میرا مرشد کامل ہے اور میں صراطِ مستقیم پر ہوں۔ پھر یہ عشق بڑھتا ہے اور عشقِ مرشد سے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کی طرف اورپھر اللہ تعالیٰ سے عشق یعنی عشقِ حقیقی میں تبدیل ہو جاتاہے اور طالب فنافی اللہ بقا باللہ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔

حضرت شاہ شمس تبریزؒ عشقِ مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں:

عشق معراج است سوئے بام سلطانِ ازل
از رخِ عاشق فرد خواں قصہ معراج را

ترجمہ: عشقِ حقیقی ہی بارگاہ ِ الٰہی میں باریابی دلاتا ہے۔ اگر معراج کی حقیقی داستان پڑھنی ہے تو کسی عاشق صادق (مرشد کامل) کے چہرے پر نظر جماؤ۔

یاد رہے کہ راستہ وہی دِکھا سکتا ہے جو اس راستہ میں خود کامل ہو۔ مرشد کامل اکمل عشقِ حقیقی کا وہ سمندر ہے جس کی گہرائی اور وسعت کا اندازہ صرف اس کی حقیقت کی پہچان رکھنے والے لگا سکتے ہیں۔ کامل مرشد اللہ سے عشق میں اس مقام پر ہوتا ہے جہاں دوئی کے تمام حجاب ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسے حضرت حسین بن منصور حلاج رحمتہ اللہ علیہ کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اللہ کے سوا ہر چیز باطل ہے اور یہ سمجھ لیا کہ اللہ ہی حق ہے تو اسمِ حق دل میں پختہ ہونے کے باعث وہ اپنا نام بھی بھول گئے اور جب ان سے پوچھا گیاکہ تم کون ہو تو فرمانے لگے ’’اناالحق  (میں حق ہوں)۔‘‘

عشقِ حقیقی کی نعمت اللہ پاک اپنے اُن ولیوں کو عطا فرماتا ہے جو اس کی خاطر موت سے پہلے مرنے کو تیار رہتے ہیں جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا  
ترجمہ: مرنے سے پہلے مرجاؤ۔
حدیثِ قدسی میں بھی عاشق فقیر کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:
جو میرا طالب بنتا ہے بے شک وہ مجھے پالیتا ہے، جو مجھے پا لیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے، جو مجھے پہچان لیتا ہے وہ مجھ سے محبت کرنے لگتا ہے، جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرا عاشق بن جاتا ہے، جو مجھ سے عشق کرتا ہے میں اُسے مار ڈالتا ہوں، جسے میں مارڈالتا ہوں اُس کی دیت میرے ذمے ہو جاتی ہے اور اُس کی دِیت میں خود ہوں۔

عشقِ حقیقی (اللہ تعالیٰ سے عشق) کی ابتدا عشقِ مجازی (مرشد سے عشق) سے ہوتی ہے۔ عشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے خود معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتا ہے۔ عاشقانِ ذات کا دین تو عشق ہوتا ہے۔ وہ نہ ہی رسمی مسلمانوں کی طرح ہوتے ہیں اور نہ ہی زاہدوں اور ظاہری عابدوں کی طرح مساجد میں سر بسجود رہتے ہیں۔ عاشق تو دین کی اصل حقیقت کو جاننے والے ہوتے ہیں اور ہر دم اور ہر لمحہ دیدارِ الٰہی میں محو رہتے ہیں۔یہ عشق ہی ہے جو دیدارِ حق تعالیٰ کا راستہ دکھاتا ہے۔ فقرا نے عشق ہی کے راستہ سے دیدارِ حق تعالیٰ کی نعمت حاصل کی۔عشقِ حقیقی کے سفر پر چلنے کے لیے طالبِ مولیٰ کو اپنا ہاتھ مرشد کامل اکمل کے ہاتھ میں دینا لازم ہے۔

موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ایک فقیرِکامل کی حیثیت سے موجود ہیں اور خلقِ خدا کو اپنی روحانی صحبت سے قربِ الٰہی کی لازوال دولت سے مالا مال کر رہے ہیں۔ جو بھی اللہ کو پانا چاہتا ہے وہ جان لے کہ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ کے علاوہ اور کوئی سچاراستہ نہیں ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو اس راستہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔ابیاتِ باھوؒ کامل:تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں