شانِ عبدہٗ Shan-e-AbduHoo
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
فقر کے باطنی سفر کی انتہا فنا فی اللہ بقا باللہ کے مقام پر پہنچ کر وصالِ الٰہی کا حصول ہے جسے ’’وحدت‘‘کہتے ہیں۔ یہ راہِ فقر کا اعلیٰ ترین مقام ہے جس تک پہنچنے کے لئے بے شمار باطنی مقامات طے کرنے پڑتے ہیں اور اس تک رسائی صرف اللہ کے چنے ہوئے خاص الخاص بندوں کو ہی حاصل ہوتی ہے۔ توحید سے درحقیقت مراد یہ ہے کہ یعنی اللہ واحد کے ساتھ یکتا و یک وجود ہو کر واحد ہو جانا جس طرح قطرہ سمندر میں اپنا وجود فنا کر کے خود سمندر ہو جاتا ہے، پھر اس قطرے کی کوئی ذاتی شناخت نہیں رہتی بلکہ اس کی شناخت سمندر ہی ہے۔ قطرے نے سمندر میں فنا ہو کر سمندر کو پا لیا اور اس کا یہ پانا کیسا ہے یہ صرف وہ قطرہ ہی جانتا ہے اور کوئی نہیں۔
صوفیا کرام بھی ’’روح‘‘ کو ہمیشہ اللہ کے نور کے سمندر سے اُٹھنے والی ایک لہر سے تعبیر فرماتے ہیں جو اس دنیا میں آمد کے وقت اپنے اصل سے، اپنے سمندر سے جدا ہو کر جسمِ انسانی میں قید کر دی جاتی ہے۔ یہ روح ہمیشہ اپنے اصل کی طر ف لوٹنے اور اس سے ملنے کے لیے بے چین رہتی ہے لیکن انسان کی جسمانی ضروریات اس کے دماغ پر اس قدر حاوی رہتی ہیں کہ وہ اپنی روحانی ضروریات کی طرف کبھی توجہ ہی نہیں دیتا بلکہ وہ اپنی روح کی بے چینی کو بھی جسم کی ضروریات سے ہی منسوب کرتا رہتا ہے۔ پس یہ لہر اپنے سمندر کی طرف لوٹنے کے سفر سے محروم رہتی ہے اور جو لہر سمندر کی طرف لوٹتی نہیں وہ ساحل کی ریت میں جذب ہو کر اپنا وجود ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیتی ہے اور کبھی منزل نہیں پا سکتی۔ بقول علامہ اقبالؒ:
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
وحدت کا جہان وہم و فہم سے بالاتر ہے جہاں تک عقل کی رسائی نہیں بلکہ توحید کو سمجھنے کے لیے اللہ کے ساتھ وصال پا کر ہمہ تن توحید ہونا پڑتا ہے۔ راہِ فقر قیل و قال کی راہ نہیں ہے بلکہ مشاہدات اور احوال کی راہ ہے جو باطن میں طے ہوتی ہے کیونکہ تمام عالم انسان کے اندر موجود ہیں۔ جو ان باطنی عالموں یعنی ملکوت اور جبروت سے گزر کر لاھوت لامکان تک پہنچ جائے اور فنا فی اللہ بقا باللہ کا مرتبہ پا کرانسانِ کامل بن جائے وہی حق الیقین سے اس ذات کی وحدانیت کی تصدیق کرنے والا ہوتاہے۔ اس مرتبے پر پہنچے بغیر محض زبانی گفتگو سے وصال اور توحید کے متعلق بیان کرنا اور حق الیقین کا مرتبہ حاصل کیے بغیر محض قیل و قال سے وحدانیت پر پہنچنے کا دعویٰ کرنا کفر ہے۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ الرسالۃ الغوثیہ میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ اَلْاِتِّحَادُ حَالٌ لَا یُعَبَّرُ عَنْہُ بِلِسَانِ الْمَقَالِ فَمَنْ اٰمَنَ بِہٖ قَبْلَ وَرُوْدَ الْحَالِ فَقَدْ کَفَرَ وَ مَنْ اَرَادَ الْعِبَادَۃَ بَعْدَ الْوَصُوْلِ فَقَدْ اَشْرَکَ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ
ترجمہ: اے غوث الاعظمؓ! اتحاد ایک ایسا حال ہے جو زبانی گفتگو سے بیان نہیں کیا جا سکتا پس جس نے وارداتِ حال سے پہلے اُسے مان لیا اس نے کفر کیا اور جس نے وصولِ محویتِ حال کے بعد عبادت کا ارادہ کیا اس نے اللہ عظیم کے ساتھ شرک کیا۔
فنا فی اللہ بقا باللہ کے مرتبہ پر پہنچنے والا صاحبِ توحید انسانِ کامل عبودیت و ربوبیت کا کامل مظہر ہوتا ہے۔ بظاہر وہ عبد ہوتا ہے لیکن عام بندوں سے اس کا مرتبہ اور مقام اعلیٰ و اولیٰ ہوتا ہے۔ ایک جہت سے وہ مقامِ عبودیت پر ہوتاہے اور دوسری جہت سے مقامِ ربوبیت پر ہوتا ہے یعنی ایک لحاظ سے وہ عبد ہوتا ہے اور دوسرے لحاظ سے ھوُ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ (سورۃ الکہف۔110)
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجیے کہ میں تمہاری مثل بشر ہوں لیکن مجھ پر وحی اُترتی ہے۔
آیت کے پہلے حصے کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بشر اور عبد تو ہیں لیکن آیت کے دوسرے حصے میں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عظیم الشان اوربلند مرتبہ کے بارے میں بھی آگاہ کر دیا کہ دل کے اندھوں کو یہ بھی بتا دو مجھ پر وحی اُترتی ہے۔ اب وحی کسی عام انسان پر تو نازل نہیں ہوتی بلکہ وحی انبیا کا ہی خاصہ ہے۔ اللہ سے وصال یافتہ صاحبِ توحید انسانِ کامل کا بشری رُخ عبد اور باطنی رُخ ھوُ ہوتا ہے اس لیے وہ عبدہٗ ہے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ’’جاوید نامہ‘‘ میں فرماتے ہیں:
پیش او گیتی جبین فرسودہ است
خویش را خود ’’عَبْدُہٗ ‘‘ فرمودہ است
ترجمہ: حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ شان ہے کہ زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے پیشانی جھکائے ہوئے ہے یعنی زمانہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی کے حکم پر چل رہا ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اپنے آپ کو ’’عَبْدُہٗ‘‘کہا ہے۔
عَبْدُہٗ از فہمِ تو بالاتر است
زاں کہ او ہم آدم و ہم جوہر است
ترجمہ: عَبْدُہٗ تیری عقل و فہم سے بالا تر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بشر بھی ہیں اور جوہر (نور) بھی۔
جوہرِ اوؐ نے عرب نے عجم است
آدم است و ہم ز آدم اقدم است
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقت(جوہر ، نور) نہ تو عربی ہے اور نہ عجمی۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں تو بشر(انسان) لیکن آدم علیہ السلام سے بہت پہلے ہیں۔
عَبْدُہٗ صورت گرِ تقدیر ہا
اندرو ویرانہ ہا تعمیر ہا
ترجمہ: عَبْدُہٗ تقدیر کا صورت گر ہے۔ اس کے اندر ویرانے بھی ہیں اور تعمیرات بھی ہیں۔
عَبْدُہٗ ہم جاں فزا ہم جان ستان
عَبْدُہٗ ہم شیشہ ہم سنگِ گران
ترجمہ: عَبْدُہٗ جان فزا بھی ہے اور جان ستاں بھی، شیشہ بھی ہے اور سنگِ گراں بھی۔ اس شعر میں قرآنِ پاک کی اس آیت مبارکہ کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بشیر(خوشخبری سنانے والا) اور نذیر (ڈرانے والا) بنا کر بھیجا گیا ہے۔
عبد دیگر عَبْدُہٗ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر
ترجمہ: عبد (عام انسان) اور ہے اور عبدہٗ اور ہے۔ عبد اور عَبْدُہٗ میں فرق یہ ہے کہ عبد خدا کی توجہ کا منتظر رہتا ہے اور عبدہٗ کی شان یہ ہے کہ خود خدا یہ دیکھتا رہتا ہے کہ میرا عَبْدُہٗ کیا چاہتا ہے۔
عَبْدُہٗ دہر است و دہر از عَبْدُہٗ است
ما ہمہ رنگیم او بے رنگ و بوست
ترجمہ: عبدہٗ دراصل دہر (زمانہ) ہے اور دہر (زمانہ) دراصل عبدہٗ ہے۔عَبْدُہٗ زمان و مکان (Time and Space ) دونوں کی قید سے بالا تر ہے۔
عَبْدُہٗ با ابتدا بے انتہا است
عَبْدُہٗ را صبح و شام ماکجاست
ترجمہ: عَبْدُہٗ کی ابتدا تو ہے لیکن اس کی انتہا نہیں ہے۔ عَبْدُہٗ کی ہماری طرح صبح و شامیں (زمانہ) نہیں ہیں۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ابتدا (تعین اوّل) تو ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کو سب سے پہلے اللہ نے اپنے نور سے جدا کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی انتہا نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نورِ حق کی طرح لاانتہا ہیں۔
کس ز سِرّ عَبْدُہٗ آگاہ نیست
عَبْدُہٗ جز سِرّ اِلَّا اللّٰہ نیست
ترجمہ: کوئی بھی انسان عَبْدُہٗ کے راز سے آگاہ نہیں ہے۔ عَبْدُہٗ سرّ ِ اِلَّا اللّٰہ کے سوا اور کچھ نہیں ۔
لَآ اِلٰہ تیغ و دمِ او عَبْدُہٗ
فاش تر خواہی بگو ’’ھوُعَبْدُہٗ‘‘
ترجمہ:لَآ اِلٰہ (نفی۔ نہیں ہے کوئی موجود) تلوار ہے (یعنی غیر معبود وں کو قتل کرنے والی) تو اس کی دھار (اس تلوار کو تیز کرنے والا) عَبْدُہٗ ہے۔ اگر تو صاف لفظوں میں سمجھنا چاہتا ہے تو سنو ’’ھُو عَبْدُہٗ‘‘ ہے۔ یعنی جسے ’’عَبْدُہٗ‘‘ کہتے ہیں وہ دراصل ’’ھوُ‘‘ ہے گویا ’’عَبْدُہٗ ‘‘ہی ’’ھوُ ‘‘ہے۔
عَبْدُہٗ چند و چگونِ کائنات
عَبْدُہٗ رازِ درونِ کائنات
ترجمہ: عَبْدُہٗ کائنات کی حقیقت ہے ۔ عَبْدُہٗ کائنات کے اندر کا راز ہے گویا عَبْدُہٗ نہ ہوتا تو اس کائنات کا بھی کوئی وجود نہ ہوتا۔
مدعا پیدا نگردد زیں دو بیت
تا نہ بینی از مقام ’’مارمیت‘‘
ترجمہ: جب تک تو عَبْدُہٗ کو مقامِ’’مارمیت‘‘ سے نہ سمجھے گا تو حقیقتِ حال تجھ پر منکشف نہ ہو گی۔ جنگِ بد رمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کفار کی طرف کنکریاں پھینکیں جس سے کفار کی افواج بھاگ کھڑی ہوئیں۔ قرآنِ کریم میں اس واقعہ کو سورۃ الانفال میں یوں بیان کیا ہے:وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی ترجمہ:’’اے محبوب(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) یہ کنکریاں آپؐ نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہیں۔‘‘
اس شعر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اسی شانِ وحدت کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقام کو سمجھنے کے لیے اس آیت کو سمجھنا ضروری ہے۔
بگذر از گفت و شنود اے زندہ رود
غرق شو اندر وجود اے زندہ رود
ترجمہ: اگر تو عَبْدُہٗ کی حقیقت سے آگاہی و آشنائی چاہتا ہے تو قیل و قال چھوڑ اور اپنے وجود میں غرق ہوجا۔یعنی معرفتِ ذاتِ حق تعالیٰ حاصل کرو تجھ پر عَبْدُہٗ کی حقیقت آشکار ہو جائے گی۔
پس انسانِ کامل کا رُخِ بشریت اس کی عبودیت کا اظہار ہے جبکہ اس کا باطنی رُخ اس کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اتحاد کو ظاہر کرتا ہے جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’نہ وہ خدا ہوتے ہیں اور نہ خدا سے جدا‘‘۔ لیکن بشری لحاظ سے تمام شرعی امور کی پیروی کرنا اس پر لازم ہے کیونکہ شریعت ظاہری آئین و قوانین اور ضابطۂ حیات کا نام ہے جو کہ ظاہری امور اور معاملات سے متعلق ہے۔ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ وحدت پر پہنچ کر تمام شرعی امور اور عبادات انسان پر ساقط ہو جاتی ہیں وہ سراسر غلط کہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو صاحبِ قرآن و شریعت ہیں، جو اللہ تعالیٰ سے قرب و وصال کی انتہا یعنی قابَ قوسین تک پہنچے انہوں نے بھی ظاہری شریعت کی نفی نہیں کی بلکہ ہر حکمِ خدا کی پابندی کی اور تمام ارکانِ اسلام کی ادائیگی پر کاربند رہے۔ حتیٰ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’میں ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں‘‘ جبکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر قسم کے گناہ اور خطاؤں سے پاک ہیں۔ شرح طلب عبارت میں اللہ پاک کے اس فرمان کہ ’جس نے وصال کے بعد اللہ کی عبادت کا ارادہ کیا اس نے شرک کیا‘ سے مراد یہ ہے کہ وحدت کے مرتبہ پر اللہ پاک سے وصال کے بعد انسان کامل ہو جاتا ہے اور اس کی اپنی کوئی مرضی، کوئی خواہش اور ارادہ باقی نہیں رہتا جیسا کہ اللہ پاک نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق فرمایا:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی (سورۃ النجم۔3)
ترجمہ: اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔
پس خواہش اور مرضی سے بات کرنا تو دور انسانِ کامل اپنی مرضی سے ایک قدم بھی نہیں اُٹھاتا۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:
اَحد جد دِتیّ وِکھالی، از خود ہویا فانی ھوُ
قرب وِصال مقام نہ منزل، ناں اُوتھے جسم نہ جانی ھوُ
نہ اوتھے عشق محبت کائی، نہ اوتھے کون مکانی ھوُ
عینوں عین تھیوسے باھوؒ، سِرّ وحدت سبحانی ھوُ
مفہوم: مقامِ احدیت میں جب اللہ تعالیٰ نے تجلیٔ ذات فرمائی تو دوئی ختم ہو گئی اور میں ذات میں فنا ہو کر فانی اور توحید میں فنا ہو کر ہمہ تن توحید ہو گیا یعنی فنا فی ھوُ ہو گیا۔ یہاں پر قرب و وصال، مقام و منزل، عشق و محبت، جسم و روح اور کون و مکان کا تصور ختم ہو جاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حال میں ہم وحدتِ سبحانی کا ’’عین‘‘ (ہوبہو) ہوگئے۔ (ابیاتِ باھوُ کامل)
ارادہ چونکہ نیت کا نام ہے اور نیت باطنی عمل ہے اور وحدت کے مرتبہ پر انسان کے باطن میں صرف اور صرف اللہ کی ذات موجود ہوتی ہے کیونکہ نفس تو تزکیہ کے بعد مطیع و فرمانبردار بن کر مطمئنہ کے مقام پر پہنچ چکا ہوتا ہے تو اللہ سے وصال پانے والا انسانِ کامل عام مسلمانوں کی طرح عبادت کرنے کا دعویٰ نہیں کرتا لیکن ہر لمحہ عبودیت و بندگی میں مشغول ہوتا ہے۔ اس کی عبادت صرف نماز روزہ، ورد وظائف اور تسبیحات تک ہی محدود نہیں ہوتی۔ ظاہری عبادت کا تعلق چونکہ جزا اور ثواب سے ہے اور انسانِ کامل کا ہر عمل اللہ کے لیے خالص ہوتا ہے اس لیے اسے جزا و ثواب کی کوئی تمنا نہیں ہوتی لہٰذا وہ اپنے اعمال کو عبادت کا نام نہیں دیتا اس کی عبادت صرف اللہ کا دیدار اور اس کا عشق ہے۔ اسی عشق کے عالم میں وہ اپنا ہر عمل سرانجام دیتا ہے جو کہ اللہ کے ہاں عبادت شمار ہوتا ہے۔ اس کا سونا عبادت، اس کا جاگنا عبادت، اس کا چلنا عبادت، اس کا بیٹھنا عبادت، اس کا کھانا پینا عبادت، اس کا بیوی بچوں کے پاس بیٹھنا عبادت، اس کا ملازمت یا کاروبار کرنا عبادت غرضیکہ اس کا ہر عمل عبادت ہوتا ہے۔ اس کی طلب بس اللہ کی رضا اور اس کا دیدار ہوتا ہے۔ بقول شاعر:
ہم رندوں کی محفل میں ہر رسم عبادت ہوتی ہے
دلبر کو بٹھا کر سامنے چہرے کی تلاوت ہوتی ہے
لہٰذا انسانِ کامل کے لیے باطن میں عبادت کی نیت اور ارادہ کرنا کفر ہے کیونکہ عبادت بندگی کا اظہار ہے اور بندگی اس بشری وجود کے لیے ہے نہ کہ اس باطن کے لیے جہاں صرف اللہ ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سن! جو شخص مرتبۂ عبودیت سے نکل جاتاہے اور مرتبۂ ربوبیت پر پہنچ کر فنا فی اللہ ہوجاتا ہے وہ ہر وقت مشاہدہِ جمالِ حق میں غرق رہتا ہے ،اُس کا بھلا عبادت و مجاہدہ سے کیا کام؟ (عین الفقر)
اس لیے اللہ تعالیٰ کے فرمان سے معلوم ہوا کہ اتحاد کو قیل و قال اور زبانی گفتگو سے نہیں سمجھا جا سکتا یہ تو حال کی بات ہے۔ گفتگو علم کی بنا پر کی جاتی ہے اور علم عقل کی بنا پر سیکھا جاتا ہے اور وحدت کے اس مقام تک عقل کی رسائی نہیں ہے۔اسی کے متعلق توسلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے رسالہ روحی شریف میں فرمایا:
’’انتہائی سوچ بچار کرتے عقل کے ہزاروں قافلے سنگسار ہو گئے لیکن اس کی ماہیت کو نہیں سمجھ پائے‘‘۔
پس جس نے کسی شے کی لذت چکھی ہی نہیں وہ اس کے ذائقہ کو کس طرح بیان کر سکتا ہے! اسی طرح جو وحدتِ الٰہی تک پہنچ کر توحید کے سمندر میں غوطہ زن ہی نہیں ہوا وہ اس حال کو کیسے بیان کر سکتا ہے؟
توحید کو سمجھنے کے لیے عقل و شعور کی نہیں بلکہ عشق کی ضرورت ہے کیونکہ جہاں عشق کی رسائی ہے وہاں عقل و فہم کی رسائی نہیں۔ عشق آفاقی و سماوی جذبہ ہے جو عقل سے بالاتر ہے۔ اسی بنا پر رسالہ روحی شریف میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اللہ پاک کی ذات کو حضرتِ عشق کے نام سے یاد فرمایا۔
عشق کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچنے کے متعلق حدیثِ قدسی میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
مَنْ طَلَبَنِیْ فَقَدْ وَجَدَنِیْ وَمَنْ وَجَدَنِیْ عَرَفَنِیْ وَمَنْ عَرَفَنِیْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ عَشَقَنِیْ وَمَنْ عَشَقَنِیْ قَتَلْتُہٗ وَمَنْ قَتَلْتُہٗ فَعَلَیَّ دِیَّتَہٗ وَاَنَا دِیَّتُہٗ
ترجمہ: جو میری طلب کرتا ہے پس تحقیق وہ مجھے پا لیتا ہے اور جو مجھے پا لیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے اور جو مجھے پہچان لیتا ہے اسے مجھ سے محبت ہو جاتی ہے اور جسے مجھ سے محبت ہو جاتی ہے وہ مجھ سے عشق کرنے لگتا ہے اور جو مجھ سے عشق کرنے لگتا ہے اسے میں قتل کر دیتا ہوں اور جسے میں قتل کر دوں اس کی دیت میرے ذمے ہوتی ہے اور اس کی دیت میں خود ہوں۔ ـ
اور جسے اپنی ذات کے بدلے اللہ کی ذات مل جائے ،توحید کے اس مقام پر بندہ خود عین وہی ذات بن جاتا ہے۔ اسی کے متعلق حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’میرے جبہ کے اندر فقط ذاتِ حق تعالیٰ ہے اس کے سوا کچھ نہیں۔‘‘ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ نے اتحاد کے اسی حال میں فرمایا ’’سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ یعنی میری ذات پاک ہے اور میری شان بلند ہے۔‘‘
استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ الرسالۃ الغوثیہ: تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
۳۔ عین الفقر: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ