سبق آموز حکایات Sabaq Amoz Hikayaat
مراسلہ: وقار احمد ارشاد سروری قادری
باہمت شخص
مولانا رومؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ لومڑی کی بزدلی ضرب المثل ہے۔ لیکن جس لومڑی کی کمر پر شیر کا ہاتھ ہو کہ گھبرانا مت، میں تیرے ساتھ ہوں تو باوجود ضعیف الہمت ہونے کے اس پشت پناہی کے فیض سے اِس قدر با ہمت ہو جائے گی کہ چیتوں کے ریوڑ سے بھی ہرگز خائف نہ ہوگی، شیر پر نظر ہونے کی وجہ سے وہ دلیر ہو جائے گی۔ یہی حال اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کا ہوتا ہے کہ وہ باوجود خستہ حال، شکستہ تن اور فاقہ زدہ چہروں کے باطل کی اکثریت سے خوف زدہ نہیں ہوتے۔
حضرت جعفر طیارؓ ایک قلعہ کو فتح کرنے کے لئے تنہا اس قوت سے حملہ آور ہوئے۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ قلعہ اُن کے گھوڑے کے پاؤں کے سامنے ایک ذرّہ کے برابر ہے۔ قلعہ والوں نے خوف سے قلعہ کا دروازہ بند کر لیا۔ کسی کو بھی سامنے آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بادشاہ نے وزیر سے مشورہ کیا کہ اس وقت کیا تدبیر کرنی چاہیے۔ وزیر نے کہا:
’’ہماری سلامتی اسی میں ہے کہ ہم جنگ کے تمام منصوبوں اور ارادوں کو ختم کر کے اس باہمت شخص کے سامنے شمشیر اور کفن لے کر حاضر ہو جائیں اور ہتھیار ڈال دیں۔‘‘
بادشاہ نے کہا’’آخر وہ تنہا ایک شخص ہی تو ہے تو پھر ایسی رائے مجھے کیوں دی جارہی ہے؟‘‘
وزیر نے کہا:
’’آپ اس شخص کی تنہائی کو بے وقعتی کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔ ذرا آنکھ کھول کر قلعہ کو دیکھیے کہ سیماب کی طرح لرزاں ہے اور اہلِ قلعہ کو دیکھئے کہ بھیڑوں کی طرح گردن نیچی کئے سہمے ہوئے ہیں۔ یہ شخص اگرچہ تنہا ہے لیکن اس کے سینے میں جو دل ہے وہ عام انسانوں جیسا نہیں۔ اس کی عالی ہمتی دیکھئے، اتنی بڑی مسلح اکثریت کے سامنے تنہا شمشیرِ برہنہ لئے کس ثابت قدمی اور فاتحانہ انداز سے اعلانِ جنگ کر رہا ہے۔ (اللہ اکبر)ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مشرق و مغرب کی تمام فوجیں اس کے ساتھ ہیں، وہ تنہا بجملہ لاکھوں انسانوں کے برابر ہے۔ ۔۔کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ قلعہ سے جو سپاہی بھی اس کے مقابلے کے لئے بھیجا جاتا ہے، وہ اس کے گھوڑے کی ٹاپ کے نیچے پڑا نظر آتا ہے۔ جب میں نے ایسی عظیم الشان انفرادیت دیکھ لی ہے تو پھر اے بادشاہ! آپ کو اس اکثریت سے کچھ بھی نہ بن پڑے گا۔ آپ کثرتِ اعداد کا اعتبار نہ کریں، اصل چیز ’’جمعیتِ قلب‘‘ہے جو اس شخص کے دل میں بے پناہ ہے۔ یہ نعمت مجاہدات کے بعد تعلق باللہ کی برکت سے عطا ہوتی ہے۔ اس عطائے حق کو تم اس حالتِ کفر میں ہرگز حاصل نہیں کر سکتے، لہٰذا فی الحال تمہارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس جانباز مردِ مومن کے سامنے ہتھیار ڈال دو اور قلعہ کا دروازہ کھول دوکیونکہ اس کے سامنے ہماری یہ اکثریت بالکل بے کار ہے۔‘‘
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
مولانا رومؒ اقلیت کے سامنے اکثریت کے تعطل اور ضعف کو ان چند مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔
بے شمار ستارے روشن ہوتے ہیں لیکن ایک خورشید عالم تاب کا ظہور سب کو ماند اور کالعدم کر دیتا ہے۔
بے شک چوہے ہزاروں کی تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں، اگر وہاں لاغر نحیف بلی بھی آجائے تو چوہوں کی اکثریت غلبۂ ہیبت و خوف سے بیک وقت مفرور ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک میاؤں کو سنتے ہی ان کے کانوں میں اپنی مغلوبیت کی خوفناک ضربیں گونج اُٹھتی ہیں۔ اس کے دانتوں اور پنجوں کی حرکات ِ جابرانہ چوہوں کو راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چوہوں کے سینوں میں جو قلوب ہیں اور بلی کے سینے میں جو دل ہے اس میں فرق ہے۔ بلی کے دل میں جو جرأت اور ہمت ہے وہ چوہوں کے قلوب میں نہیں۔ چوہوں کی اتنی بڑی جماعت کا ایک بلی کے سامنے حواس باختہ اور ہوش رفتہ ہو جانا اس امر کی دلیل ہے کہ بلی کی جان میں جرأتِ قلبی کا پایا جانا ہی سبب ہے کہ چوہوں کی تعداد اگر ایک لاکھ بھی ہو تب بھی ایک لاغر و نحیف بلی کو دیکھ کر سب مفرور ہو جاتے ہیں۔پس معلوم ہواتعداد کوئی چیز نہیں جرأت اور ہمت ہی اصل چیز ہے۔
بھیڑ اور بکریوں کی تعداد ہزاروں میں ہی کیوں نہ ہو لیکن قصاب کی ایک چھری کے سامنے اتنی بڑی اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔
دن کا وقت ہو یا رات کا، ملازمت کا مسئلہ ہو یا کاروبار کا انسان کے دل و دماغ پر ہزاروں پریشانیاں منڈلاتی رہتی ہیں۔ ان افکار اور حواس کی کثرت پر نیند بیک وقت طاری ہو کر سب کو فنا کر دیتی ہے۔
جنگل میں بڑے بڑے سینگوں والے قد آور اور طاقت رکھنے والے جانور ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں مگر اکیلا شیر کتنی دلیری سے حملہ کرتا ہے اور ان پر غالب آجاتا ہے اور جس جانور کو چاہے ہلاک کر دیتا ہے۔
درسِ حیات:
جب نصرتِ الٰہی پر کامل یقین ہو جائے تو مومن کے دل سے مخلوق کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔
انسان دُنیا میں بہت سے برے کام مختلف قسم کے خوف کی وجہ سے کرتا ہے۔ اگر خدا کی مدد پر یقین کامل ہو جائے تو انسان لا تعداد برائیوں سے بچ سکتا ہے۔