کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

Rate this post

کلید التوحید (کلاں)   Kaleed ul Tauheed Kalan 

قسط نمبر38                                                        مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

عارفین کا دل اللہ کی رحمت سے بھی وسیع ہے کیونکہ رحمتِ الٰہی دل میں سما سکتی ہے لیکن دل رحمتِ الٰہی میں نہیں سما سکتا۔ رحمت نگاہِ الٰہی ہے اور دل نظرگاہِ الٰہی ہے اور ہر طریق سے ثابت ہے کہ ان عارفین کا دل ہر حقیقت سے آگاہ اور ان کا سینہ مقامِ ہدایت ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّھْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِج وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ ط کَذٰلِکَ یَجْعَلُ اللّٰہُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ۔  (سورۃ الانعام۔125)
ترجمہ: پس اللہ جس کسی کو ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے فراخ فرما دیتا ہے اور جس کسی کو گمراہی پر رکھنا چاہتا ہے اس کا سینہ شدید گھٹن کے ساتھ تنگ کر دیتا ہے اور وہ ایسے ہو جاتا ہے گویا بمشکل آسمان پر چڑھ رہا ہو۔ اسی طرح اللہ ان پر عذاب لاتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔

اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ط اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔  (39:22)
ترجمہ: جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے فراخ کر دیا ہو وہ اپنے ربّ کی طرف سے نور پر ہے۔ پس ان کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل ذکرِ الٰہی سے (محروم ہو کر) سخت ہو چکے ہیں اور یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔

اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ۔لا وَ وَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَ (سورۃ الم نشرح1-2)
ترجمہ: کیا ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا سینہ فراخ نہیں فرما دیا اور ہم نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا بار آپ سے اتار دیا۔

وَ لَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرْ (سورۃ العنکبوت۔45)
ترجمہ: اور اللہ کا ذکر سب سے اعلیٰ ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
ذِکْرُ اللّٰہِ فَرَضٌ مِنْ قَبْلِ  کُلِّ فَرَضٍ  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ 
ترجمہ: ہر فرض سے قبل ذکر ِ اللہ فرض ہے   لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ 

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ ط (سورۃ الانعام۔121)
ترجمہ: جس شے پر اللہ کا نام نہ لیا ہو بیشک وہ ناپاک ہے۔

وَ اِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ۔  (سورۃ الم نشرح۔8)
ترجمہ:  اور اپنے ربّ کی طرف راغب ہو جایا کریں۔

جو صاحبِ صدق و شہادت اور باصلاحیت ہونے کا دعویٰ کرے تو (اس کا یہ دعویٰ) درج ذیل آیت کے مطابق ثابت ہو جاتا ہے:
مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔  (سورۃ النسائ۔69)
ترجمہ: (وہ) انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ (ہو گا) اور وہ بہت اچھے رفیق ہیں۔ 

اس مقام پر وہ غرق فنا فی اللہ ہو کر صداقت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ بقا باللہ فقیر اور درویش کے استغراق کے انتہائی مراتب ہیں کہ انہیں مشاہدۂ نورِ اللہ کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ تجلیاتِ ذاتِ حق میں اس طرح غرق ہوتے ہیں کہ خود سے فانی ہو جاتے ہیں اور معرفت کے ذریعے بقا پا لیتے ہیں۔ اس مقام پر نہ تو انہیں رسم و رواج یاد رہتے ہیں نہ طلبِ محبت، نہ جسم و جان یاد رہتی ہے نہ ذکر فکر۔ وہ ذکر ِ حضوری میں اس طرح غرق ہوتے ہیں کہ انہیں صبر اور شکر بھی یاد نہیں رہتا۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ  (سورۃ الکہف۔24)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کریں کہ خود کو بھی فراموش کر دیں۔

یہ مراتبِ یقین نفس کے خلاف چلنے سے صرف اُسے حاصل ہوتے ہیں جو نفس کے ساتھ انصاف کرنے والا، حق شناس اور امین ہو۔ جو ان مراتب کو پا کر استغراق حاصل کر لے اس کا نفس شیطان ملعون کی صحبت سے الگ ہو جاتا ہے اور اس کا دل روح القدس کی جانب صدق اور یقین کے ساتھ پیشوائی کرنے والا وزیر بن جاتا ہے۔ تو نہیں جانتا کہ وجود میں نفس بادشاہ ہے اور شیطان اس کا مقرب وزیر ہے جو ہمیشہ مصلحت و منصوبہ بندی سے انانیت کی تدبیر کرتے رہتے ہیں۔ معرفتِ مولیٰ میں صادق وہ ہے جو یہ خصوصیات رکھتا ہو جن کا تذکرہ حضرت رابعہ بصریؒ کی مجلس میں اولیا کے درمیان ہوا۔ ایک ولی نے حضرت رابعہ بصریؒ کے سامنے صدق کے بارے میں کہا کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق نہیں جو اپنے مولیٰ کی دی گئی تکلیف پر شکر نہیں کرتا۔ دوسرے ولی نے صدق کے متعلق کہا کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق نہیں جو اپنے مولیٰ کی دی گئی تکلیف پر صبر نہیں کرتا۔ تیسرے ولی نے صدق کے متعلق کہا کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق نہیں جو اپنے مولیٰ کی دی گئی تکلیف سے لطف اندوز نہیں ہوتا۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا کہ ایسا صدق تو بچوں کا کھیل ہے جو جدائی کا باعث اور مجازی ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا وہ اپنے دعویٰ میں صادق نہیں جو اپنے ربّ کے دیدار اور مشاہدہ میں مشغول ہو کر اس کی طرف سے دی گئی تکلیف کو بھول نہیں جاتا۔ مصنف صدق کے بارے میں فرماتا ہے کہ وہ شخص اپنے دعویٰ میں صادق نہیں جو اپنے مولیٰ کی دی گئی تکلیف سے صدق کے ساتھ فنا فی اللہ نہیں ہوتا۔ صدق کے معنی یقین ہے اور یقین یقین سے ہی حاصل ہوتا ہے اور یقین خاص دینِ محمدیؐ ہے اور یقین پیشانی کو (اللہ کے حضور) سجدہ میں رکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ جو سجدہ کو ترک کرتا ہے وہ شیطان لعین ہے۔

شرح یقین

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ۔  (سورۃ الحجر۔99)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ یقین حاصل ہو جائے۔ 

ابیات:

عبادت حق ببر تا وقتِ مردن
یقین شد از یقین ایمان بردن

ترجمہ: مرتے وقت تک حق تعالیٰ کی عبادت کر جس سے تجھے یقین حاصل ہوگا اور یقین ہی ایمان کی ضمانت ہے۔

یقین قرآن برو اعمال کردن
یقین آنست خود باحق سپردن

ترجمہ: یقین قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنا ہے اور یقین خود کو خدا کے سپرد کرنے کا نام ہے۔

یقین سرمایۂ ایمان نورش
یقین با معرفت قربِ حضورش

ترجمہ: یقین سرمایۂ ایمان اور اس کا نور ہے۔ اور یقین اللہ کی معرفت، قرب اور حضوری عطا کرتا ہے۔

یقین از یک پدر یک پسر باشد
دوئی شیطان را از دل تراشد

ترجمہ: یقین ایسا ہونا چاہیے جیسے ایک بیٹے کو اپنے باپ کا ہوتا ہے اور یقین ہی دل سے شیطانی دوئی کو نکالتا ہے۔

یقین دیدہ بچشم خویش بیند
کہ صحبت عارفان باہم نشیند

ترجمہ: یقین اپنی آنکھوں سے دیدارِ حق کرنے سے حاصل ہوتا ہے اور یہ دیدار عارفین کی صحبت سے نصیب ہوتا ہے۔

یقین از حق شود حق رازِ اللہ
خطی درکش بگرد لاسویٰ اللہ

ترجمہ: حق پر یقین اسرارِ الٰہی کی طرف لے جاتا ہے اس لیے لاسویٰ اللہ ہر شے کی نفی کر دے۔

یقین ببرد حضوری بے ریاضت
یقین شد از یقین صاحبِ اجازت

ترجمہ: یقین بغیر ریاضت کے حضوری میں لے جاتا ہے لیکن یہ یقین کسی صاحبِ یقین کی اجازت (مرشد کامل اکمل) سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

کسی را شد یقین حق بحاصل
رسد حق الیقین عرفان واصل

ترجمہ: جسے یقین حاصل ہو اسے حق مل جاتا ہے اور وہ حق الیقین کے مراتب پر پہنچ کر حق تعالیٰ کی معرفت اور وصال پا لیتا ہے۔

جان لو کہ اہلِ کفر اور اہلِ حرب، رافضیوں، خارجیوں اور منافقوں کو یقین حاصل نہیں ہوتا۔ یقین پاکی کا نام ہے اور اس کا تعلق حق سے ہے اور یہ خبیث لوگ قرآن، نص و حدیث اور سنی طریقہ و سنت جماعت کے مخالف ہیں۔ ان کا اعتبار باطل ہے کیونکہ غلیظ اور مردار پر اعتماد کرنا باطل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت جماعت کے یقین کا یہ عالم ہے کہ ان کے پاس ایک روز کی غذا بھی نہ ہو اور کوئی انہیں ایک لاکھ سونے کے سکے دے دے تو بھی وہ اپنے یقین سے نہیں پلٹیں گے کیونکہ دینِ محمدیؐ کے طفیل انہیں معرفتِ مولیٰ سے آگاہی اور قربِ اعلیٰ نصیب ہوتا ہے۔ جان لو کہ یقین کے چار حروف ہیں ی، ق، ی، ن۔ یقین کا حرف ’ی‘ حق سے یگانہ کرتا ہے۔ یقین کا حرف ’ق‘ قربِ حق بخشتا ہے۔ یقین کا حرف ’ی‘ دوم یکتا بحق کرتا ہے اور یقین کا حرف ’ن‘ نفس کو ہوا و ہوس سے نیست و نابود کر دیتا ہے۔ یقین طالب ِ مولیٰ کو متوکل بنا دیتا ہے جیسا کہ کہا گیا:
حَسْبِیَ اللّٰہُ (سورۃ التوبہ۔129)
ترجمہ: اللہ ہی میرے لیے کافی ہے۔
وَ کَفٰی بِاللّٰہِ (سورۃ الاحزاب۔39)
ترجمہ: اور اللہ ہی (اپنے بندوں کے لیے) کافی ہے۔

یقین قدرتِ خدا تعالیٰ کو ہر حال اور فعل میں حاضر جاننے کا نام ہے۔ یقین ہدایت کا انتہائی مرتبہ ہے۔ صاحبِ ہدایت و صدیقین کا یقین دینِ الٰہی کی دوستی میں پہاڑ کی مثل ہوتا ہے جو نہ حرکت کرتا ہے نہ لرزتا ہے اور نہ ہی لڑکھڑاتا ہے۔ بے یقین، منافق، بے دین اور بدمذہب شیطان لعین کے تابع ہوتے ہیں جن کا یقین ریت کی مثل ہوتا ہے جو ایک حالت میں برقرار نہیں رہتا۔ ابیات:

یقین تصدیق دل اقرار ازلش
یقین راہبر شود بافیض فضلش

ترجمہ: یقین دل کی تصدیق اور ازلی اقرار کا نام ہے اور یقین اللہ کے فیض و فضل کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

یقین پاکش تعلق روح دارد
چو پاکش شد یقین باروح آرد

ترجمہ: یقین روح کی پاکیزگی سے تعلق رکھتا ہے جیسے ہی روح پاکیزگی حاصل کرتی ہے وہ بایقین ہو جاتی ہے۔

یقین باشد خلاف نفس دائم
یقین با زندگی دل ہست قائم

ترجمہ: یقین ہمیشہ نفس کے خلاف چلنے سے حاصل ہوتا ہے۔ یقین دل کی زندگی کے ساتھ قائم ہے۔

یقین در دل نوشتہ حق نظیرش
ز حق گردد یقین روشن ضمیرش

ترجمہ: یقین حق کو دل پر نقش کرکے اللہ کا دیدار عطا کرتا ہے۔ حق پر یقین سے روشن ضمیری حاصل ہوتی ہے۔

باھوؒ یقین از سہ یقین و سہ مقامش
ز ہر سہ یک شود ختمی تمامش

ترجمہ: اے باھوؒ! یقین کے تین مراتب اور مقامات کو طے کرنے سے کامل یقین حاصل ہوتا ہے۔ جب یہ تینوں ایک ہو جاتے ہیں تو یقین کامل ہو جاتا ہے۔

وہ تین مراتب علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین ہیں۔ کتابِ دل سے تصدیقِ قلب آفتاب کی مثل طلوع ہوتی ہے جس کی بدولت وجود میں سے ظلمات اور بے یقینی ختم ہو جاتی ہے اور یقین یہ ہے کہ طالب ہر حالت یعنی صحت و بیماری، سختی و آسانی میں خدا تعالیٰ کے امور اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع کرے اور ہرگز اپنی حالت سے نہ پلٹے اور نہ ہی خواہشاتِ نفس کی طرف رجوع کرے۔ اور یہ یقین ہی خدا کی طرف وسیلہ ہے جو ذکرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے حاصل ہوتا ہے۔ جان لو کہ محبت، معرفت، طلبِ مولیٰ، ذکر فکر، حضور مذکور، الہام، باطن، قربِ الٰہی اور فنا و بقا سب کی بنیاد یقین ہے۔ بیت:

اصل یقین است یقین گر شود
کار تو از ہفت فلک بہ گزرد

ترجمہ: اصل چیز یقین ہے اگر یہ حاصل ہو جائے تو تیرا معاملہ ساتوں آسمانوں سے بھی آگے نکل جائے۔

مصنف کہتا ہے کہ یہ لوگ غلط کہتے ہیں کہ ناقصوں اور خام لوگوں کو بھی ان کا یقین عرش و کرسی اور لوح و قلم کی طر ف لے جاتا ہے۔ لیکن ان (ناقصوں) کا یہ یقین انہیں معرفت اور وحدانیتِ الٰہی سے جدا کر دیتا ہے۔ صدیقین اور عارفین کا یقین یہ ہے کہ وہ مشاہدئہ معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری میں مکمل غرق رہتے ہیں۔ جسے مرشد اسمِ اللہ ذات کا تصور عطا کرتا ہے تو اس کے قلب، قالب، گوشت پوست، رگوں، مغز، ہڈیوں، روح، سِرّ اور تمام اعضا اور جسم پر جس قدر بھی بال ہیں سب کی زبان پر یَااَللّٰہُ یَااَللّٰہُ  کا ذکر جاری ہو جاتا ہے اور وہ ذکر کرتے ہوئے جوش میں آجاتے ہیں اور ازل سے ابد، دنیا تا عقبیٰ اور عقبیٰ سے معرفت و لقائے الٰہی کے تمام مقامات تصور اسمِ اللہ ذات اور ذکر اللہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے کھل جاتے ہیں۔ یہ ذکر کا ابتدائی مرتبہ ہے جو وصال عطا کرتا ہے۔ جب ذکر  اللہ یہ سب مقامات عطا نہ کرے اور نہ ہی ذاکر کے وجود میں اسمِ اللہ ذات کا ذکر تاثیر کر رہا تو وہ ذکر محض وہم اور خام خیالی ہے۔ یہ ذکر باطن میں کیا جاتا ہے اور برحق ہے۔ اس غیبی ذکر میں نقص نہ نکال کیونکہ یہ ذکر ذاکر کو اس طرح مستغرق کر دیتا ہے جیسے وہ بے جان اور مردہ ہو اور اس کی روح جو کچھ بھی دیکھتی ہے وہ حق ہوتا ہے۔ اسی کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا   
ترجمہ: مرنے سے قبل مر جاؤ۔

لیکن اس کی ایک شرط ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اِسْمٌ اللّٰہِ شَیْئٌ طَاہِرٌ لَّا یَسْتَقِرُّ اِلَّا بِمَکَانٍ طَاہِرٍ 
ترجمہ: اسمِ اللہ پاک ہے اور یہ پاک وجود کے علاوہ کہیں قرار نہیں پکڑتا۔

اسمِ اللہ کی تاثیر اور ذکرِ  اللہ کی بدولت طالبِ مولیٰ روزِ اوّل ہی ظاہری و باطنی تصرف کے مراتب پا لیتا ہے۔ مرشد پر فرضِ عین ہے کہ چند طالبوں کو معرفتِ الٰہی کی تمامیت تک ضرور پہنچائے اور اگر معرفت و ارشاد کے لائق وسیع حوصلہ طالب نہ ملے تو اسے چاہیے کہ یہ نعمتِ معرفت اہلِ اللہ بادشاہ جو ظلِ اللہ کی مثل ہو‘ کو عطا کرے کیونکہ غنی کی قدر غنی ہی جانتا ہے۔ مکب اور اضطراری فقر والے راہِ معرفت پر نہیں چل سکتے۔ تاہم کامل مرشد کے لیے ایک ہی طالب کافی ہوتا ہے اگرچہ اپنی اپنی طلب کے موافق طالب ہزاروں ہزار بلکہ بے شمار ہوتے ہیں۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ مرشد کامل وہ ہے جو طالبِ مولیٰ کو یہ چار مراتب عطا کرے۔ مراتبِ دل جس سے وہ باطن میں ہمیشہ اہلِ دل اولیا اللہ کی مجلس میں رہے۔ یا مراتبِ روح جس سے باطن میں انبیا اور اولیا اللہ کی ارواح کی مجلس میں رہے۔ یا مراتبِ سِرّ جس سے مشاہدئہ معرفتِ الٰہی اور اسرار منکشف ہوں یا مراتبِ خفی کیونکہ خفی ذکر کرنے والے ذاکر سے کوئی بھی چیز مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتی۔ جو اس طریق اور راہِ تحقیق کو نہیں جانتا اسے عارف مرشد نہیں کہا جا سکتا۔

جان لو کہ جب وحدانیتِ حی ّ و قیوم اور معرفتِ الٰہی کا علم سینہ میں آتا ہے تو ظاہری علوم سینے سے باہر نکل جاتے ہیں اور جو علمِ ظاہری و باطنی دونوں پر برقرار رہے وہ لائقِ ارشاد اور صاحبِ معرفت و وِصال ہوتا ہے۔ کیا تو جانتا ہے کہ ایک علم سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام انجان تھے اور وہ حرص، حسد، عجب، تکبر اور خواہشاتِ نفس کا علم تھا کیونکہ یہ علم شرم کا باعث ہے جبکہ شیطان اسی علم کا عالم، فاضل اور قاری تھا اور اسی وجہ سے شیطان علمِ ہدایت اور معرفتِ الٰہی سے انجان اور علمِ استغراق اور وصال سے محروم تھا۔ کیا تو جانتا ہے کہ علم علما عامل اور فقیرِ کامل کی روح پر تاثیر کرتا ہے جس سے نفس خراب حال اور پریشان ہو جاتا ہے اور بے عمل علما اور ناقص فقیر کے نفس پر علم تاثیر کرتا ہے جو دل کو خراب حال اور پریشان کرتا ہے۔ پس عالمِ روحانی اور عالمِ نفسانی کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ علم کے تین حروف ہیں ع، ل، م۔ علم کا مطلب ہے جاننا۔ علم کا ایک سر ہے اور جو علم کا سر یعنی ’ع‘ حاصل کرتا ہے تو وہ علمِ عین عالم کو عین العنایت، عین الولایت، عین الہدایت، عین الوصال، علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین عطا کرتا ہے۔ علمِ’ع‘ حق تک پہنچا کر باطل سے نجات دلاتا ہے۔ جو علمِ ’ل‘ حاصل کرتا ہے تو وہ علم کا وسط ہے۔ علمِ’ل‘ لایحتاج بنا دیتا ہے اور لا نفی ہے اور نفی کرنے سے مراد نفس کو فنا کرنا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ بِالْفَنَآئِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ بِالْبَقَآئِ 
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔ جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا۔

جس نے فنا بقا اور معرفتِ الٰہی کو پہچانا علم سے پہچانا اور وہ ولی ہو گیا۔ کوئی بھی جاہل عارف باللہ نہ ہوا۔ جو علم کی انتہا یعنی ’م‘ کو حاصل کر لے وہ مجلسِ محمدی میں سب (انبیا و اولیا) سے ملاقات کرتا ہے لیکن جو علم کے احکام بجا نہ لائے وہ علم کے خلاف اور اپنے نفس و خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور جو وارثِ انبیا علما کے مراتب کی طرف توجہ نہیں کرتا وہ حرف ’ع‘ سے عاق، حرف ’ل‘ سے لادین اور حرف ’م‘ سے مردار کھانے والا ہو جاتا ہے اور ہمیشہ نفس مردود اور ہوا و ہوس کی قید میں رہتا ہے۔

 (جاری ہے)

 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں