بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen


Rate this post

بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) 
   Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

قسط نمبر 8                                  مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

عاشق کمزور ہوتا ہے

عاشق کمزور ہوتا ہے۔ وہ عشق میں اپنا سب کچھ ختم کر ڈالتا ہے۔ اس کی سب طاقتیں اور خزانے ختم ہو جاتے ہیں اور وہ اکیلا کمزور رہ جاتا ہے۔ عشق آتا بھی وہیں ہے جہاں سب کچھ نکل چکا ہو اور سب کچھ قربان ہو چکا ہو جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ  (سورۃ آل عمران۔ 92)
ترجمہ: تم اللہ کو نہیں پا سکتے جب تک تم سب سے پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کردو۔
اس آیت میں لفظ’’بِرَّ ‘‘استعمال ہوا ہے۔ یہ اللہ کا نام ہے۔ کچھ لوگ اس سے مراد نیکی لیتے ہیں لیکن اصل میں اللہ کا نام ہے۔ ایک  اورجگہ ارشاد فرمایا:
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْہُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (سورۃ النسا۔89)
ترجمہ: (اے محبوبؐ) کسی کو اس وقت تک اپنا دوست نہ بنائیں جب تک وہ اللہ کی راہ میں اپنا گھر بار قربان نہ کر دے۔ 

اس لیے عاشق سب کچھ قربان کر کے فارغ ہو جاتا ہے۔ جب ہر چیز کی نفی ہو جاتی ہے تو پھر اللہ دل میں سماتا ہے۔ نفی کے بعد ہی اثبات ہے۔ عاشقوں کے اردگرد جو لوگ ہوتے ہیں وہ عاشقوں کو مشورے دیتے ہیں کہ ایسے نہ کرو، یہ بیوقوفی ہے، تم پر جادو ہو گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔لیکن عاشق کسی کی نہیں سنتے اور سب کچھ قربان کر کے ہی دم لیتے ہیں۔ عشق کی آگ عام آگ سے زیادہ سخت ہوتی ہے۔ جب جلتی ہے تو ہڈیاں بھی ساتھ جلا دیتی ہے۔

بدگمانی

تزکیۂ نفس میں بدگمانی سے نجات حاصل کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ بدگمانی اندر (دل میں) پیدا ہوتی ہے یا اندر ہوتی ہے۔ کسی سے بدگمان ہونا اندر ہوتا ہے۔ جس شخص سے ہم بدگمان ہوتے ہیں اس کو پتہ بھی نہیں ہوتا یہ مجھ سے بدگمان ہو گیا ہے۔ یہ کوئی ایسی بیماری نہیں کہ خود بنا لی گئی ہے۔ سورۃ الفتح میں اللہ فرماتا ہے:
وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئِ ج صلے وَکُنْتُمْ قَوْمًام بُوْرًا۔  (سورۃ الفتح۔ 12)
ترجمہ: تم نے ایک دوسرے کے بارے میں برا گمان رکھا، اور تم برباد ہونے والی قوم تھے۔
 سورۃ الحجرات میں ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ  اِثْمٌ (سورۃ الحجرات۔ 12 )
ترجمہ: اے ایمان والو! گمان سے بہت زیادہ کام نہ لیا کرو۔ یقینا بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
ایک حدیثِ نبویؐ ہے ’’بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سے بے بنیاد کوئی چیز نہیں۔ ‘‘

 یعنی جس کی بنیاد ہی نہیں ہے بدگمانی وہ چیزہے۔ یہ اندر پیدا ہوتی ہے۔ایک شخص آپ کے سامنے کھڑا ہے اور آپ اس سے بدگمان ہو گئے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ بندہ بدگمان ہوتا ہے، دوسرا یہ ہے کہ اس سے دور ہوتا ہے، تیسرایہ کہ اس سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ 

 سب سے بڑی بدگمانی کیا ہے؟ مرشد کے بارے میں بد گمان ہونا۔ شیطان سب سے زیادہ جو وار کرتا ہے طالب پر، وہ یہ کہ مرشد کے بارے میں بدگمانی ڈالتا ہے۔ بدگمانی باطنی بیماری ہے یا اندرونی بیماری ہے۔ تزکیۂ نفس میں اس سے نجات حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر تو آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے کہ فلاں شخص ایسا ہے تو آپ اس کے بارے میں بدگمانی نہ رکھیں، کوئی اور راستہ اختیار کر لیں۔ اور یہ بدگمانی تعلقات توڑنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گاؤں میں شریکا نہیں ہوتا اس میں زیادہ تر بدگمانیاں ہی چلتی ہیں اور بدگمانی پیدا کرنے میں ایک چغل خور کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔ کبھی چغل خور کے بارے میں بیان کریں گے۔۔۔ چغل خور کا کام کیا ہوتا ہے؟ چغل خور کام یہ کرتا ہے کہ اس نے کوئی بات سنی،اس میں اپنی طرف سے ایک بات ڈالی اور آپ کو بتا دیا۔ اب کہنے والے کی نیت کیا ہے، اس نے کس انداز سے کہی ہے، اس کے کہنے کا مقصد کیا تھا، وہ آپ کے سامنے نہیں لائے گا۔ میں مثال دیتا ہوں کہ میں نعیم صاحب کے بارے میں کسی کو کہتا ہوں کہ نعیم صاحب بہت تیز آدمی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ذہین آدمی ہیں۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہو سکتا ہے لیکن چغل خور جا کر کہہ دے گا جناب!وہ توآپ کو بہت چالاک کہہ رہے ہیں۔ اس سے نعیم صاحب کے دل میں بدگمانی پیدا ہو جائے گی۔ بدگمانی سے بچنے کی بہت تلقین کی گئی ہے۔ ’’شمس الفقراــ‘‘ میں باطنی بیماریوں کے بارے میں جو باب ہے اس میں یہ بیماری بھی درج ہے۔ دیکھیں جو آدمی گناہ کرتا ہے نا، اس سے توبہ بھی کر لیتا ہے۔ لیکن یہ (بدگمانی وغیرہ) ایسے گناہ ہیں جن سے کوئی توبہ ہی نہیں کرتا۔ وہ کہتا ہے میں ٹھیک ہوں۔ بدگمانی، تجسس، تکبر، غرور، جھوٹ بولنا۔ بندہ ہر چیز سے توبہ کر لیتا ہے کیونکہ شہوت کا گناہ بندے کو یاد رہتا ہے لیکن ان باطنی بیماریوں کے بارے میں کبھی کوئی سوچتا ہی نہیں کہ یہ بھی گناہ ہیں۔ اور یہ گناہ لے کر وہ قبر میں چلا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی گناہ ہیں کہ ان کے لیے تزکیہ نفس کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور قرآنِ پاک میں ارشادہے:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا    (سورۃالشمس ۔9)
ترجمہ: یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے تزکیہ کر لیا۔

 تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں اندر (باطن) سے نکال لیں اور اندر کو پاک صاف کر لینا ہے۔ جب تک یہ بت اندر ہیں اس وقت تک آپ کو اللہ کی پہچان نہیں ہو سکتی، اللہ کی معرفت نہیں ہو سکتی۔ تزکیۂ نفس کا کیا مطلب ہے؟ ان تمام بیماریوں کو نکالنا جو شمس الفقرا کے باب میں لکھی ہیں۔ جب ان کو نکال دیں گے تو آپ پاک صاف ہو جائیں گے اور پاک صاف کا کون دوست ہوتا ہے اللہ پاک کی ذات۔

سیدّناغوث پاک رضی اللہ عنہٗ

فرمایا: حضور غوث پاک رضی اللہ عنہٗ ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور باقی مشائخ تصوف کے درمیان کڑی ہیں۔ ان کا مقام بہت بلند ہے۔
طالب مرشد کو خون معاف کرتا ہے
کسی نے پوچھا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒنے فرمایا کہ طالب مرشد کو خون معاف کرتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

فرمایا:
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:

اقبالؔ عشق نے مرے سب بل دیئے نکال
مدت سے آرزو تھی کہ سیدھا کرے کوئی

مرشد طالب کو ٹھیک کرتا ہے۔ اس ٹھیک کرنے کے عمل میں طالب پر آزمائشیں آتی ہیں۔ مرشد جلال برساتا ہے تو طالب سب کچھ خوشی خوشی برداشت کرتا ہے۔ طالب تو وہی ہوتا ہے جو جلال کے دوران اور بعدمیں بھی مرشد کے ساتھ رہے۔ جمال تو ہر کسی کو بھاتا ہے لیکن جلال صرف عاشق ہی سہتے ہیں اور خوشی خوشی سہتے ہیں۔

طالبِ مولیٰ کی تسلی

کسی نے پوچھا طالبِ مولیٰ کب مطمئن ہوتا ہے؟

فرمایا: طالب تب مطمئن ہوتا ہے جب دوئی ختم ہو جائے اور وصال حاصل ہو جائے۔  

ہر کسی کو اپنا کام کرنا چاہیے
فرمایا: عالم کا فرض ہے کہ وہ امت کی ظاہری علوم میں تربیت کرے۔ ایک عالم ہوتا ہے اور ایک عامل ہوتا ہے۔ عامل تو گمراہ ہوتا ہے خواہ وہ نوری علم کرتا ہو خواہ وہ کالا علم کرتا ہو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ وہ تعویز دھاگہ کر کے لوگوں کو ٹھگتے ہیں کہ دنیا میں تمہارا یہ کام ہو جائے گا۔ یہ دنیا دار عامل ہوتے ہیں تو دنیادار ہی ان کے پاس جاتے ہیں۔ لاٹری کے نمبر بتاتے ہیں۔ عامل تو پاکستانی خواتین بھی ہونے لگی ہیں۔اللہ نے بڑی برکت ڈال دی پاکستان میں عاملین پر۔ ۔۔یاد رکھیں! ان کے پاس جانا کفر ہے، ان کے پاس بیٹھنا بھی کفرہے اور یہ لوگ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔

ایک ہوتا ہے پیر یا مرشد۔ اس کا ایک ہی کام ہوتاہے۔ اگر اس سے آگے بڑھنے کی وہ کوشش کرے تو وہ بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ بندے کو اللہ پاک کے قریب کر دے۔ اس کے پاس یہی علم ہوتا ہے۔ بس اگر وہ پیر یا مرشد کامل اکمل ہے تو اس کے پاس یہی علم ہوتا ہے کہ وہ بندے کو اللہ کی معرفت عطا کرے۔ بندے کا تزکیۂ نفس کر دے۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی کام نہیں۔ اسی طرح عالم کو بھی صرف اپنا کام کرنا چاہیے۔ 

 عامل کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عامل پاکستان اور ہندوستان میں پیر بن گئے ہیں۔ نعوذباللہ! یہ پریشان حال لوگوں کو مسئلے حل کرنے کی گارنٹیاں دیتے ہیں۔ نعوذباللہ!کام اللہ نے کرنے ہیں جب کہ  گارنٹیاں تم دے رہے ہو۔

طالب اس راہ پر خود آتا ہے یا بلایا جاتا ہے؟

فرمایا: مرشد اپنے مرید خود چنتا ہے۔ کبھی غلام اپنا آقا نہیں چنتا۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒبھی فرماتے ہیں:

مڑن محال تنہا نوں باھوؒ، جنہاں صاحب آپ بلاوے ھوُ

صاحب سے مراد مرشد، آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یااللہ سمجھ لو۔ چلو اس سے مراد اللہ تعالیٰ لے لیتے ہیں ذرا خوش ہو جاؤ گے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ مرشد ہی اپنے مرید اکٹھے کرتا ہے یا ان کو بلاتا ہے۔ اس دنیامیں مرشد کے پاس وہی مرید آتے ہیں جن سے مرشد نے عہد ِالست کے روز اقرار کروایا تھا۔ 

طالبِ مولیٰ فقیر کب بنتا ہے؟

فرمایا: فقیر وہ طالبِ مولیٰ ہے جو مرنے سے پہلے مر جائے۔ مرنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ چھری پھیر کر مر جایا جائے۔ دنیا اس موت سے ڈرتی ہے جبکہ عاشق کے لیے یہی آبِ حیات ہے۔ جن کو عشق ہو جاتاہے ناں، پھرہو جاتا ہے۔ سمجھے! عشق کیا نہیں جاتا بلکہ ہو جاتا ہے۔ بندے کے بس میں نہیں رہتا۔ جس طالبِ مولیٰ کو عشق حاصل ہو جائے وہ فقیر بن جاتا ہے۔

سبب اور مسبب

فرمایا: عشق میں ساری دنیا سے ہٹ کر یا اسباب سے ہٹ کر مسبب پر نظر لگانی ہوتی ہے اور مسبب ہی اسباب کو پیدا کرنے والا ہے۔ عاشق اور دنیادار میں فرق اتنا ہی ہے کہ دنیادار اسباب پر نظر رکھتا ہے جبکہ عاشق مسبب پر نظر جما کر رکھتا ہے۔ عاشقوں کو پتا ہے کہ یہ دنیا ایسے واقعات سے بھری ہے جدھر سبب کے بغیر ہی اللہ نے کام کر دیا، چاند کو بغیر سبب کے دو ٹکڑے کر دیا،حضرت عیسیٰؑ کو بغیر باپ کے پیدا کر دیا، حضرت ابراہیم ؑپر آگ کو بغیر سبب کے ٹھنڈا کر دیا۔ اس لیے عاشق کو مزید ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

عقل و فکر

 بات عقل و فکر کی طرف چل نکلی تو فرمایا: لاھوت میں عقل و فکر کا کوئی کام نہیں۔ وہاں عقل کے ذریعے نہیں پہنچا جا سکتا۔ وہاں پہنچنے کے لیے عقل کو فنا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی ہر مقام عقل کو فنا کر کے ہاتھ آتا ہے۔ میرے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ ایک بار عمار ہسپتال میں داخل تھے۔ سخت سردیوں کا مہینہ تھا۔ رات کے دو بجے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں نے بیر کھانے ہیں۔ اب دقت یہ تھی کہ بیر کہاں سے لائے جائیں۔  آپ کو پتہ ہے بیر گرمیوں میں ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں آیا کہ مین مارکیٹ میں ایک فروٹ کی دکان ہے جو رات کھلی رہتی ہے۔ اس میں امپورٹڈ فروٹ بھی ہوتے ہیں اور ہر طرح کے فروٹ ہوتے ہیں۔ آجکل مجھے پتہ نہیں اس دکان میں کیا ہوتا ہے۔ میں وہاں چلا گیا۔ وہاں جا کر میں نے دیکھا تو بیر پڑے ہوئے تھے۔ میرے ذہن میں تھا اگر میرے مرشد نے مانگے ہیں تو ضرور مل جائیں گے۔ دکاندار کو جگایا اور کہا بیر لینے ہیں۔ ایک کلو بیر لیے اور اپنے مرشد کو پیش کیے۔ 

عشق تو ایسے ہی ہوتاہے۔ محبوب جو مانگتا ہے پھر دینا پڑتا ہے۔ نیت سچی اور ٹھیک ہوتو انتظام ہو جاتاہے۔ انسان جب عشق کی راہ پر چلتا ہے تو عقل و فکر کا ساتھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ طالبانِ مولیٰ پہلے روز ہی عقل کو چھوڑ کر اس سے نجات حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ سوچنا کہ میں مر جاؤں گا توبچوں کا کیا بنے گا؟ کیا وہ رازق نہیں موجود؟ اربوں یتیم پلے ہیں اور دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ بنے ہیں۔ فلاں ہو جائے گا پیسے نہیں ہوں گے تو پھر کیا ہو گا؟ کیا رازق نہیں موجود؟اسی طرح تو وہ (اللہ پاک)اپنے آپ پر یقین دلواتا ہے۔

عشق کی بازی

فرمایا: فقیری یا عشق خریدنا پڑتا ہے چاہے جان دے کر خریدو یا خدمت کر کے خریدو یا پیسے دے کر خریدو۔ جو تمہارے پاس طریقہ ہے خریدو۔ اگر پیسے ہوں تو پیسے بچا کر صرف خدمت کر کے نہیں خریدا جا سکتا۔ مال و دولت محبوب کے قدموں میں لٹانا پڑتا ہے۔ اگر نہیں لٹا رہے تو دراصل یہ مال و دولت ہی تمہارا محبوب ہے۔ اس دنیا میں ہر ہر مقام و مرتبے کے لوگوں نے عشق کی بازی کھیلی ہے۔ جتنا بڑا آدمی ہوتا ہے دنیا میں، اس کے لیے بازی کھیلنا اتنا ہی مشکل ہوتاہے۔ گداگر آسانی سے کھیل لیتا ہے، غریب آسانی سے کھیل لیتا ہے لیکن دنیاوی لحاظ سے اس کامرتبہ اور مقام جتنا اونچا ہوتا ہے ناں اس کے لیے فقر پر چلنا اور عشق کی بازی کھیلنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔

وحدت

فرمایا: لاھوت میں بھی وحدت ہوتی ہے لیکن ھاھویت وہ مقام ہے جہاں خاص خاص لوگ پہنچتے ہیں۔ اگر طالب سچا اور صدق والا ہو تو وہ لاھوت میں فنا و بقا حاصل کر لیتا ہے۔لاھوت ہی اس کی دنیا ہے۔ انسان کی کہانی شروع ہی وہاں سے ہوتی ہے۔ اسے حقیقتِ انسانیہ بھی کہا جاتا ہے۔ وہاں فنا اور بقا ہونا ایک طالب کے لیے اعلیٰ مقام ہوتا ہے۔ انسان وہاں سے آیا ہے۔ وہاں تک تو اللہ کے ساتھ ہی تھا۔ نیچے (عالمِ لاھوت سے عالمِ ناسوت میں)آ کر پھر اللہ نے علیحدہ علیحدہ کر دیا۔ 

رازِالٰہی

فرمایا: اللہ کے راز کی خبر نہ تو علمائے کرام کو ہے اور نہ پنڈتوں اور نجومیوں کو ۔ ادھر کسی قسم کے علم کی پہنچ نہیں۔ ادھر جب تجلی پڑتی ہے انسان فنا ہو جاتا ہے۔ مقام ِوحدت پر عقل و فکر کی کوئی گنجائش نہیں۔ ادھر جب وہ خود موجود ہے تو پھر کسی اور چیز کی گنجائش بھی نہیں اور ضرورت بھی نہیں۔ جب وہ خود موجود ہے تو پھر علم کیسا۔ اسی مقام پر توحید اور رسالت کی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ جب عاشق پر یہ راز عیاں ہوتاہے تو وہ کسی کو بتا نہیں سکتا۔ عاشق بشری،معاشرتی اور شریعت کی پابندیوں میں جکڑے ہوتے ہیں اس لیے وہ راز آشکار نہیں کرتے۔

کچھ مریدوں کو دیکھتے ہی مرشد خوش ہو جاتا ہے!

فرمایا: درد عشق سے پیدا ہوتا ہے۔ طالبِ مولیٰ ہمیشہ درد میں رہتا ہے۔ یہ درد اس میں شوق پیدا کرتا ہے اور شوق اس راہ کی سواری ہے۔ یہ ہمیشہ اللہ کے دیدار اور وصال کے لیے بے چین اور بے قرار رہتے ہیں۔ عشق میں بے قراری اور بے چینی تو ہوتی ہے۔ ایسے طالبوں کو دیکھتے ہی مرشد کے چہرے پر بھی روشنی آ جاتی ہے۔ ایسے طالب محبوب کے وصال کی خوشی میں ہر غم اور پریشانی برداشت کرتے ہیں اور آخر کار وصال حاصل کر لیتے ہیں۔ جدھر محبوب کا پتہ چلتاہے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ یہ میرا مشاہدہ بھی ہے۔ یہ طالب ہمیشہ مرشد کے دروازے پر رہتے ہیں کہ کہیں وقت نہ نکل جائے۔

(جاری ہے)

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں