sultan ul ashiqeen

شان سلطان العاشقین Shan Sultan-ul-Ashiqeen


4.7/5 - (8 votes)

شان سلطان العاشقین

تحریر:   سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

اگر دیکھنا ہوکہ کس قدر توفیقِ الٰہی تمہارے شامل حال ہے تو دیکھو کہ آزمائشوں میں کتنا کامیاب رہے۔ آزمائش کے بغیر قربِ الٰہی کا حصول نا ممکنات میں سے ہے۔ یہاں تک کہ چنے ہوئے محبوبوں کو بھی آزمائش کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے۔ مرشد کامل ہو تو آزمائش کی پہچان کرواتاہے، پھر ہمت دیتا ہے، پھر گزارتاہے،پھر صبر دیتا ہے پھر آخر میں اللہ کی بارگاہ سے آزمائش کا پھل کئی گنالے کر دیتا ہے۔ اس کی ایک صورت رازِ الٰہی ہے۔ رازِ الٰہی ہی ذاتِ الٰہی کی جانب سفر تلاطم ہے۔ ذات بطون در بطون اور راز بھی تہہ در تہہ۔ ہر راز کے اوپر ایک راز ہے اور ہر راز کے نیچے ایک رازہے۔ سب راز کتابِ مبین میں درج ہیں۔ راز اکھٹے ہو کر با کے نقطے کی صورت میں ڈھل کر ظہور مکمل کرتے ہیں جس کی ظاہری صورت صاحبِ راز ہے، جوکہ اسمِ اللہ ذات ہے۔ جس کا ظہور ھوُ سے شروع اور با کے نقطے پر مکمل ہوا جبکہ انتہا ابتدا کا نام ہے۔ ذاتِ الٰہی کا سفر مشکل ترین ہے مگر جس پر نگاہِ فیض ہو جائے اس کے لیے آسان ترین ہے۔ یہ نگاہ سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ اور میرے مرشد و ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ہے۔ جس نگاہ سے کچھ اوجھل نہیں، وہ نگاہ کسوٹی ہے جو خیر و شر کو علیحدہ علیحدہ  کرنے والی ہے۔یہ وہ نگاہ ہے کہ جس کے سامنے خاک سونا اور سونا خاک ہے۔ اس لیے طالبِ مولی کو خاک بن سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بزم میں آنا لازم ہے کہ اس سے اسکے بخت خیر در خیر کی صورت ہو جاتے ہیں۔

پھر وہ یقین کے گھوڑے پر بیٹھ کر مشاہدے کا سفر طے کرتا ہے۔ یقین کے گھوڑے کی منزل حق الیقین ہے جو کہ تہہ در تہہ ہے۔ یقین کا گھوڑا براق سے تیز تر ہے۔ یقین کے گھوڑے پر بیٹھنا محال ہے جبکہ اسکی سواری آسان ترین ہے۔ اس گھوڑے کا پہلا قدم ابتدا میں تو دوسرا انتہا پر ہوتا ہے۔ پھر سوار سراپا یقین اور صاحبِ یقین ہو جاتاہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم و اجازت سے  مسندِتلقین و ارشاد پرفائز ہوتاہے اور یقین کی لازوال و بیش قیمت دولت خلقت میں سخی ہو کر بانٹتاہے۔ جیسا کہ میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس وہ صاحبِ راز ہیں جو خود رازِ الٰہی ہوتاہے۔

 ابتدا میں طالب کے سامنے ہر لمحہ دو راستے ہوتے ہیں، ایک نفس اور دوسرا دین۔ چونکہ طالب جب مرشد کامل کے پاس آتا ہے تو اسکی مثال اندھے کی سی ہوتی ہے۔ اس اندھے کے لیے بہترین ہے کہ صرف مرشد کی بات مانے۔ یہی وجہ ہے کہ مرشد کی بات نہ ماننے والا شیطان کا ہمنوا بن جاتا ہے اور آخرکار شیطان میں فنا ہو کر شیطان بن جاتا ہے۔ جبکہ مرشد کی بات ماننے والا مرشد میں فنا ہو کر بقا باللہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ بقا صرف اللہ کو ہے۔ اس لیے عقلمند وہ ہے جو مرشد کی بات پر بلا چون وچراں اور بے اختیار ہو کر عمل پیرا ہو جائے۔ یہی صاحبِ معرفت ہونے کی روشن دلیل ہے کہ اللہ کے راستے میں بے اختیار ہونا تصرف کی دلیل ہے۔ طالب جتنا بے اختیاری کو شعار بناتا ہے، اس کا ستر(70) گنا اسے تصرف عطا ہوتا ہے۔ وہ پھرسے  تصرف سے بے اختیار ہوتاہے اور ایک مرتبہ پھر ستر(70) گنا تصرف عطا ہوتا ہے۔ آخرکار وہ صاحبِ تصرف بن جاتا ہے۔تاہم سفریہاں رُکتا نہیں بلکہ وہ تمام تر تصرف کے ہوتے ہوئے صاحبِ تسلیم و رضا بن جاتاہے اور اپنی جان حق کے سپردکر دیتا ہے۔ جیسا کہ سیدّالشہداحضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کامل تصرف ہوتے ہوئے تسلیم و رضا پر قائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرشد کامل صاحبِ تصرف ہونے کے باوجودہر لمحہ رضائے الٰہی پر قائم رہتا ہے۔ صرف ہوشیار طالب جان پاتے ہیں کہ میرا مرشد صاحبِ تصرف ہے جبکہ طالبِ زر اور عقبیٰ مرشد کامل کو (نعوذباللہ) بے اختیار تصور کرتے ہیں۔ یہی شیطان کا پہلا سبق ہے۔اس کے برعکس طالبِ مولیٰ جب اپنے مرشد کو، جیسا کہ میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں، صاحبِ تصرف پاتا ہے اور اس کی رضا کو دیکھتا ہے توطالب کی روح دیوانہ وار مرشد کے نور کا طواف کرتی ہے۔ یہ مقام سلطان الاذکار ھوُ سے حاصل ہوتاہے جو میرے مہربان و شفیق مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس عطا فرماتے ہیں۔ اس طرح ذکر، ذاکر کو مذکور تک لے جاتاہے جس کی انتہا یہ ہے کہ مرشد کو ہی مذکور پاتا ہے۔  

مرشد کامل پہلے روز ہی طالبِ مولیٰ کے سامنے حق کو واضح کر دیتا ہے۔ حق کو باطن کی آنکھوں سے دیکھ کروہ مرشد کی پیروی پر لگ جاتا ہے۔ مرشد کامل اس کو بظاہر اس دنیا میں رکھتا ہے مگر سفر کسی اور دنیا کا طے کرواتا ہے۔ وہ سفر لامتناہی ہے کہ اگر یہ زندگی ختم بھی ہو جائے تو سفر پھر بھی جاری وساری رہتا ہے کیونکہ توفیقِ مرشد کی چابک سے اس کے گھوڑے کو ایڑھ لگائی جاتی ہے جس کی منزل ھوُ لامقام ہے۔ 

وسیلۂ سلطان العاشقین

اللہ پاک ہے اور پاکیزگی سے ہی اس تک رسائی ممکن ہے۔ پاکیزگی کا تعلق وسیلت سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسیلت مقبول و منظور ہے بشرطیکہ وسیلہ ایسا ہو جیسا میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا۔ بیعت کے پہلے روز ہی  پاکیزگی طالب کے اندر اس طرح سرایت کر تی ہے کہ وہ ہر لمحہ نجاستِ نفسی و شیطانی سے پناہ ایزدی مانگتا ہے۔ وسیلہ صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلے سے حضرت آدمؑ میں روح پھونکی گئی۔ جب روح کو مٹی کے جسم میں داخل ہونے میں مشکل پیش آئی تو وسیلۂ محمدیؐ سے بآسانی داخل ہو گئی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاوسیلہ ہی ہے کہ سلطان الفقر کا نور ظاہر ہوا۔ یہ وسیلہ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ سے ہوتا ہوا سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدا لقادرجیلانیؓ تک پہنچا، پھرسلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒسے ہوتا ہوا یہ وسیلہ تسلسل سے میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس تک پہنچتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاص طالبِ مولی پہلے ہی روز ابتدا سے انتہا کو دیکھ لیتا ہے جبکہ کور نظر کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:
جو یہاں اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا اٹھایا جائے گا۔(سورۃ بنی اسرائیل۔ 72)

وسیلہ اگر مرشد کامل اکمل سروری قادری کا ہو تو تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں اور ازل سے ابد تک سب عیاں ہو جاتا ہے۔ اس سفر پر بے وسیلہ چلنے سے انسان گمراہ ہو جاتاہے۔ وسیلہ سے انکار شیطانی خصلت ہے جبکہ کمزور وسیلہ سے عقل کا شیشہ پاش ہو جاتاہے۔ اصل وسیلہ سروری قادری مرشد کامل اکمل ہی ہوتا ہے جیساکہ میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس۔ 

وسیلے کے بغیر کوئی آج تک منزلِ مرادتک نہیں پہنچ پایا۔ وجہ یہ ہے کہ روح صرف وسیلے کے راستے پر سفر کر سکتی ہے ۔اگر پوری زندگی وسیلہ نہ ملے تو روح کا سفر شروع ہی نہیں ہو پاتا۔ اگر روح کا سفر شروع ہونے میں تاخیر کی جائے تو نفس شیطان کی دی گئی چوبیس بانگوں کو اپنانا شروع کر دیتا ہے۔ اگرطالبِ مولیٰ میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا وسیلہ اختیار کرے تو پہلے روز ہی نورِ محمدی سے جڑ جاتا ہے۔ اس وسیلے کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہے جیساکہ حضرت آدمؑ کو بھی معافی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلے سے ملی تھی۔ اس وسیلے سے جڑنا نار ِشیطانی سے یکسر اور دائمی جدائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
 وسیلت فضیلت سے بہتر ہے۔(عین الفقر)

 بہت سے متلاشیانِ خدا نے جب وسیلہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منہ پھیرا تو اللہ نے ان سے منہ پھیر لیاکیونکہ صاحبِ وسیلہ ہی صاحبِ راز ہے اور صاحبِ راز خود راز ہے۔ یہ جاننا چاہیے کہ دنیا میں دو ہی چیزیں ہیں خیر اور شر۔ خیر نورِ محمدی ہے اور شر شیطان ہے۔ نورِ محمدی تک رسائی ہر دور میں بصورت وسیلہ ہوتی ہے۔ اگر انسان اس وسیلے کو پکڑ لے تو انسان نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچ جاتاہے جو خیر ہی خیرہے اور اگر وسیلہ اختیار نہ کرے تو شر ہی شر ہے۔ وسیلہ اگر سروری قادری مرشد کی صورت میں ہو جیسے میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں تو وہ مانند اللہ کی رسی کے ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:
تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ (سورۃ آلِ عمران۔103)

انسان تب تک اللہ سے دور رہتا ہے جب تک کہ وسیلہ احتیار نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے:
اے ایمان والو! تقوی اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو ۔(سورۃ المائدہ۔35)

شیطان کے لیے یہ امر باعثِ صد تکلیف ہے کہ کوئی بندہ اپنے ربّ کی طرف وسیلہ اختیار کرے۔ اس سے گمراہی کی راہیں بند ہو جاتی ہیں۔ یومِ الست بھی جو ارواح اپنے ربّ کے سامنے حاضر و موجود رہیں وہ بدولت وسیلہ تھا۔ جن ارواح نے وسیلے سے نظریں ہٹائیں، وہ شیطان کے چنگل میں پھنس گئیں۔ ذاتِ الٰہی تک ایک ہی راستے سے پہنچا جا سکتا ہے اور وہ راستہ وسیلہ کاراستہ ہے۔ اللہ کی طرف جانے والے متعدد راستوں میں محفوظ ترین راستہ وسیلہ کا ہے کہ باقی سب راہوں میں شیطانی آفتیں ہیں۔ کیا ہی خوشخبری ہے ان کے لیے جو وسیلے کے راستے کو اختیار کرتے ہیں کیونکہ خلوص سے چلنے والا ایک بھی راہی اس راستے پر کبھی ناکام نہیں ہوا ۔اور کیا ہی بدبختی ہے باقی تمام راستوں پر چلنے والوں کے لیے کہ ان پر چلنے والوں میں سے ایک بھی کامیاب و کامران نہیں ہوا۔

مرتبۂ توحید

توحید بالائے عقل و فہم ہے۔ یہ مقامِ لامکاں ہے جہاں الف کی رسائی ہے۔ اسی مرتبہ توحید کے سبب مرشدکامل ہر جگہ ہر لمحہ مرید کو دیکھتا ہے۔ جس کی بدولت سروری قادری مرید کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ توحید تمام تعینات اور مراتب کا منبع ہے۔ اسی سے سب کچھ ظاہر ہوا اور ہر انتہا توحید ہے۔ سراپا توحید ہونا صرف سروری قادری مرشد کا کمال ہے۔ وہ قدمِ محمدؐ پرہوتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ مبارک ہے :
  ’’میں میم کے بغیر احمد ہوں۔‘‘

سروری قادری مرشد کا قدمِ محمدؐ پر ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قاب قوسین کے مقام پر پہنچے جہاں دوری معدوم ہو گئی۔ اس بارے میں ابنِ عربیؒ لکھتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا:   
میرے قدموں پر اپنے قدم رکھیئے۔

 اسی شان کے حامل میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں۔ توحید لامتناہی ہے اور اسی حقیقت کے ساتھ توحید کا مرکز مرشد کامل اکمل کا دل ہے۔ حدیثِ قدسی ہے:
مومن کادل( قلب )اللہ کا عرش ہے۔

کنُ کا راز بھی توحیدِمطلق ہے ۔شمس الفقرا میں درج ہے:
لِسَانُ الْفُقَرَائِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ
فقرا کی زبان رحمن کی تلوار ہے۔
یہی تحریرمیرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے مقام کا پتا دیتی ہے۔

توحید حال، مقام اور بیان سے باہر ہے۔ بنا بریں لامکان کے مکین کی صحبت لازم قرار پائی کہ خود مخلص مرید حق الیقین پائے۔ انسانِ کامل صورتِ نور ہے کہ جدھر نور پر نور ہے۔ وحدت کو دوئی میں جاننا ناممکنات سے ہے۔ وحدت سِرّ ہے جو صرف سراپا وحدت تک محدود ہے۔ یہی معرفت کی انتہا ہے کہ جز کل کی معرفت میں کل ہو جائے۔ یہاں پر خطرات نہیں اور اس سے پہلے خطرات ہی خطرات ہیں جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
جب تک انسان وحدت میں نہیں پہنچ جاتا اس کے لیے خطرات ہی خطرات ہیں۔
ہمہ اوست درمغزو پوست کی صورت کو پہچاننا ممکن قرار نہیں پایا سوائے عشق والوں کے کیونکہ اللہ خود عشق ہے۔ بنا بریں میرے مرشد کی بارگاہ میں وہی آئے جو عشق کا طالب ہے کہ وہ طالب کو مطلوب تک پل بھر میں پہنچادیتے ہیں بشرطیکہ طالب ہمت رکھتا ہو۔ 

وحدت کی پہچان لاحاصل ہے کیونکہ وحدت اکائی ہے۔ اکائی کا سب کچھ اکائی تک محدود ہے جبکہ اکائی لامحدود ہے جو کہ خیر کثیر ہے جس کا منبع میرے مرشدسلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں۔یہ کاملین کی ہی حقیقت ہے جن کی انتہا ہی ابتدا ہے۔ میرے مرشد کی حقیقت وحدت میں سمجھی جا سکتی ہے جبکہ وحدت کے گوشۂ تنہائی میں اکائی ہے۔ جس کی حقیقت صرف وہی ذات جانتی ہے کہ اس کے سوا ادھر کچھ نہیں۔ میرے مرشد مخلص طالبِ مولیٰ کے باطن پرجب چاہیں تجلی فرما کر معرفت کا موتی دل میں اتار دیتے ہیں تاکہ وہ حق الیقین کی صورت اختیار کر لے۔ ایسی بے شمار تجلیات آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین پر فرماتے ہیں، خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں یا جنات میں سے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہِ فیض وحدت کا بھید ہے جس سے اکتسابِ فیض عشق کی بدولت ہے۔ جبکہ آپ مدظلہ الاقدس سلطان العاشقین ہیں جو عاشقوں کا کعبہ ہے۔ سب دیکھنے کے بعد زبان گنگ ہوتی ہے اور جو زبان گنگ نہ ہو اس نے دیکھا کچھ نہیں۔

عشق کے سلطان

عشق ہدایت ہے ۔ میرے مرشد عشق کے سلطان ہیں جن کا عشق بحکمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم روز افزوں ترقی پر ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بلندی ہے جبکہ گزرے ہوئے لمحے کا تعین ناممکنات میں سے ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے چہرۂ مبارک پر اس قدر شدید تجلیات عشق ہیں جو آپ کے ازخود عشق ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس محبوبِ الٰہی ہیں۔ کائنات کا مدار ولایت ہے اور ولایت کا مدار رضا ہے۔ مقام ِرضا کی کاملیت ہی آغاز ِمعراج ہے۔ معراج نام ہے اپنے آغاز کی طرف لوٹ جانے کا۔ آغاز کا آغاز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے جہاں تک صرف ایک راستہ جاتا ہے اوروہ عشق کا راستہ ہے۔ سلطان العاشقین اس عشق کے سلطان و بادشاہ ہیں۔ عشق لا محدود ہے جس کے سفر کے نقطہ ٔ آغاز پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے مزید آگے جانے سے انکار کیا۔ جبکہ میرے مرشد کو آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود عشق کی امانت سے سرفراز فرمایا اور تلقین فرمائی کہ عشق کی دولت طالبانِ مولیٰ میں عام فرمائیں۔ چونکہ عاشق کی انتہا درجۂ معشوق ہے اور حدیث ہے کہ:
اللہ (کامل)ایمان انہیں عطا فرماتا ہے جن سے وہ محبت فرماتا ہے (یعنی جو اس کے معشوق ہوتے ہیں)۔ (المستدرک:7301)

ثابت ہوا کہ محبوبِ خدا ہی صاحبِ ایمان ِکامل ہے۔ابتدا میں عاشق اپنے ربّ کی مرضی کو اپناتا ہے جبکہ اس کا نفسِ مطمئنہ راضیہ ہوتا ہے اور جب وہ درجۂ معشوق سے نوازا جاتا ہے تو پھر اللہ عاشق اور وہ معشوق بن جاتا ہے جہاں نفسِ مطمنۂ مرضیہ ہے کہ ربّ اپنے بندے کی مرضی پوری فرماتا ہے۔ بقول اقبالؔؒ:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

جہاں خدا کی مرضی اپنے بندے کی مرضی ہے وہی وحدت ہے۔ وہاں صرف ایک مرضی ہوتی جو کہ خدائے ذوالجلال کی مرضی ہے اور یہی معشوق کا اعلیٰ ترین مقام ہے۔ 

کرامات سلطان العاشقین

جہاں ولایت ہے وہاں کرامت کا ظہور لازم ہے۔ کرامت ولایت کی گواہی ہے لیکن مدنظر رہے کہ کرامت ظاہری اورباطنی دونوں ہیں۔ ولی کی پہچان کی بنیاد باطنی کرامات کو رکھنا ازحد ضروری ہے کیونکہ یہی ہدایت کا منبع ہے۔ گو کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی کرامات کا شمار ایسے ہی نا ممکن ہے کہ جیسے بحرِ بیکراں کے قطروں کا شمار۔ لباسِ شریعت، گمنامی کی طلب اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے باعث بھی سروری قادری مرشد کامل کی ازحد کوشش ہوتی ہے کہ ظاہری کرامت کا ظہور ناممکن ہو تاکہ طریقت، حقیقت اور معرفت کے عالم میں لازم قرار پائے۔ یہی وہ مواقع ہوتے ہیں کہ جن کے باعث کامل سروری قادری مرشد سے ظاہری کرامت ظاہر ہو جاتی ہے۔ باطن چونکہ عالم ہی طریقت، حقیقت اور معرفت کا ہے جس کے باعث باطنی کرامات لاتعداد ولا فہم رہتی ہیں۔ جس کا جیسا فہم ہے وہ ویسا اور اتنا ہی ادراک پاتا ہے۔ یہ کہنا بھی اپنی جگہ حق ہے کہ باطنی کرامات ظاہر کے پردوں میں لپٹی ہوتی ہیں اور ظاہری کرامات باطن کے پردوں میں بھی چھپی ہو سکتی ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی ظاہری اورباطنی کرامات اہلِ حق کے لیے بھی ہدایت کا موجب ہیں جبکہ صاحبِ حجاب مثلِ خچر ہے، جتنی بھی کتابیں لاد ڈالو اس سے کچھ سیکھ نہیں پاتا۔ دیدہ ور کے لیے ایک شرارہ بھی کافی ہے اور اندھا سورج سے بھی حجاب میں ہے۔ 

تصرف سلطان العاشقین

کاملین کے تصرف میں قلوبِ انسانی دے دیئے گئے ہیں۔ ان کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے۔ حدیثِ نبویؐ ہے:
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناــ’’ انسان کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے کہ چاہے تو قائم رکھے چاہے تو ٹیڑھا کر دے۔‘‘(مسلم) 

یہی میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی شان ہے کہ جن کا قہر وجۂ قہر خداوند اور جن کی محبت سے انسان کو محبتِ الٰہی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا تصرف احاطۂ بیان سے مبرّا ہے۔ اپنے لاتعدار مریدین، خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں، کے بے شمار معاملات میں تصرف فرماکر اپنے طالب کے لیے خیر کا پہلو نکال لاتے ہیں اور اس کے دشمن کے لیے خیر سے شر نکال لاتے ہیں۔ مزید برآں ایک طالب کے بے شمار معاملات میں تصرف فرماتے ہیں، پھر ہر معاملے میں تصرف کی بے شمار جہتیں ظاہر فرما کر طالب کو یقینِ مرشد سے نوازتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے تصرف کے ثبوت کتاب ‘‘سلطان العاشقین‘‘ میں موجود ہیں۔ جو اولیا کرام کو تصرفات سے پہچانتے ہوں ان متلاشیانِ حق کے لیے لازم ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کریں۔کثرت سے تصرفات کا اظہار، ذاتِ الٰہی کا پیامبر ہونے کی مثل ہے کہ جدھر اللہ ہو وہاں کن فیکون کی صدا ہر لمحہ گونجتی ہے۔ 

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ازسرِنو حیات بخشی ہے۔ راہِ تصوف میں آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیمات 24کتب کی صورت میں اُمتِ محمدیہ کے لیے مینارۂ نور ثابت ہوئیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی موجودگی اس بات کی دلیل ہے کہ خداوند تعالیٰ اپنی مخلوق کی بھلائی کے لیے اولیا کاملین کو آج بھی دنیا میں بھیجتا ہے۔سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے لاکھوں لوگوں کے قلوب کو علمِ لدنیّ کے نور سے منور فرمایا اور معراجِ انسانی کا راستہ دکھایا کیونکہ وہاں تک پہنچنا ہی حقیقی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے مسلمانوں کو چلہ کشی وریاضت کی مشکلات سے نجات دِلا کر راہِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر گامزن کیا۔ اسمِ اعظم کے ذریعے فیضِ الٰہی کو ایسے تقسیم کیا کہ کوئی بھی طلبِ الٰہی رکھنے والا پیاسانہ رہا، جس کا ثبوت کتاب سلطان العاشقین میں موجود مختلف لوگوں کی گواہیاں ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اس پرُفتن دور میں متلاشیانِ معرفتِ حق کی امید نو ہیں۔

عوام الناس کے لیے دعوتِ عام ہے کہ دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اسمِ اعظم کی عظیم دولت سے مالا مال ہوجائیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے ہی روز اپنے مریدین کو سلطان الاذکار ھوُ عطا فرماتے ہیں۔ ظاہری وبدنی پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ کا طریقہ بھی سمجھاتے ہیں کیونکہ مشق مرقومِ وجودیہ کے بغیر ذکر و تصور بے اثرہے اور محض ظاہری مشق مرقومِ وجودیہ بغیر ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے تاثیر نہیں پکڑتی۔ لہٰذا معرفت و وصالِ الٰہی کے اعلیٰ باطنی اوصاف کے حصول کے لیے ذکر، تصوراورمشق مرقوم وجودیہ تینوں لازم و ملزوم ہیں بشرطیکہ عطا کرنے والا صاحبِ مسمیّٰ کامل مرشد ہو۔آئیے ! سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی روحانی صحبت اور نگاہِ کامل سے اپنے قلوب میں عشقِ الٰہی کی شمع روشن کریں ۔

 

’’شانِ سلطان العاشقین‘‘ بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے  کلک کریں

 

35 تبصرے “شان سلطان العاشقین Shan Sultan-ul-Ashiqeen

    1. پھر وہ یقین کے گھوڑے پر بیٹھ کر مشاہدے کا سفر طے کرتا ہے۔ یقین کے گھوڑے کی منزل حق الیقین ہے جو کہ تہہ در تہہ ہے۔ یقین کا گھوڑا براق سے تیز تر ہے۔ یقین کے گھوڑے پر بیٹھنا محال ہے جبکہ اسکی سواری آسان ترین ہے۔ اس گھوڑے کا پہلا قدم ابتدا میں تو دوسرا انتہا پر ہوتا ہے۔ پھر سوار سراپا یقین اور صاحبِ یقین ہو جاتاہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم و اجازت سے مسندِتلقین و ارشاد پرفائز ہوتاہے اور یقین کی لازوال و بیش قیمت دولت خلقت میں سخی ہو کر بانٹتاہے۔ جیسا کہ میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس وہ صاحبِ راز ہیں جو خود رازِ الٰہی ہوتاہے۔

  1. وسیلہ اگر مرشد کامل اکمل سروری قادری کا ہو تو تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں اور ازل سے ابد تک سب عیاں ہو جاتا ہے۔

  2. سروری قادری مرشد کا قدمِ محمدؐ پر ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قاب قوسین کے مقام پر پہنچے جہاں دوری معدوم ہو گئی۔

  3. حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سناــ’’ انسان کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے کہ چاہے تو قائم رکھے چاہے تو ٹیڑھا کر دے۔‘‘(مسلم)

  4. بہت عمدہ مضمون ہے۔۔۔❤️👌😍
    میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی شان یہ ہے کہ جن کا قہر وجۂ قہر خداوند ا ہے ور جن کی محبت سے انسان کو محبتِ الٰہی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.

  5. عوام الناس کے لیے دعوتِ عام ہے کہ دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اسمِ اعظم کی عظیم دولت سے مالا مال ہوجائیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے ہی روز اپنے مریدین کو سلطان الاذکار ھوُ عطا فرماتے ہیں۔ ظاہری وبدنی پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ کا طریقہ بھی سمجھاتے ہیں کیونکہ مشق مرقومِ وجودیہ کے بغیر ذکر و تصور بے اثرہے اور محض ظاہری مشق مرقومِ وجودیہ بغیر ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے تاثیر نہیں پکڑتی۔ لہٰذا معرفت و وصالِ الٰہی کے اعلیٰ باطنی اوصاف کے حصول کے لیے ذکر، تصوراورمشق مرقوم وجودیہ تینوں لازم و ملزوم ہیں بشرطیکہ عطا کرنے والا صاحبِ مسمیّٰ کامل مرشد ہو۔آئیے ! سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی روحانی صحبت اور نگاہِ کامل سے اپنے قلوب میں عشقِ الٰہی کی شمع روشن کریں ۔

  6. سروری قادری مرشد کا قدمِ محمدؐ پر ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ معراج میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قاب قوسین کے مقام پر پہنچے جہاں دوری معدوم ہو گئی۔ اس بارے میں ابنِ عربیؒ لکھتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا:
    میرے قدموں پر اپنے قدم رکھیئے۔

  7. یوں تو اولیا اللہ علمِ لدّنی کی بدولت بھی کائنات کے تمام تر علم سے آگاہ ہوتے ہیں لیکن سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے پاس علم لدّنی اور علمِ حضوری( وہ علم جو قلب پر بلاواسطہ وارد ہوتا ہے) کے ساتھ ساتھ علم حصولی(جو علم کتابوں یا دوسرے ذرائع سے حاصل کیا جائے) کا بھی خزانہ ہے جس کا ثبوت آپ کی تصانیف و تعلیمات ہیں۔

  8. میرے مرشدسلطان العاشقین عشق کے سلطان ہیں جن کا عشق بحکمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم روز افزوں ترقی پر ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بلندی ہے جبکہ گزرے ہوئے لمحے کا تعین ناممکنات میں سے ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے چہرۂ مبارک پر اس قدر شدید تجلیات عشق ہیں جو آپ کے ازخود عشق ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔

  9. آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے
    دیدۂ کور کو کیا آئے نظر، کیا دیکھے

  10. اللہ (کامل)ایمان انہیں عطا فرماتا ہے جن سے وہ محبت فرماتا ہے (یعنی جو اس کے معشوق ہوتے ہیں)۔ (المستدرک:7301)

  11. بے شک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہی کامل ہستی ہیں ۔

  12. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس قدمِ محمدﷺ پر ہیں جو اپنی نگاہ کاملہ سے زنگ آلود قلوب کو نور الہٰی سے منور فرماتے ہیں ❤❤🌷

  13. انسان تب تک اللہ سے دور رہتا ہے جب تک کہ وسیلہ احتیار نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے:
    اے ایمان والو! تقوی اختیار کرو اور اللہ تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو ۔(سورۃ المائدہ۔35)

  14. ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین اور بشک سلطان العاشقین موجودہ دور کے کامل اکمل ولی ہیں 💯❤❤❤❤❤

  15. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ازسرِنو حیات بخشی ہے۔

  16. عاشقاں دا سلطان اے
    فقر دا نگہبان اے
    ھو دی پہچان اے
    طالباں تے مہربان اے
    میرا سوہنامرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن اے

  17. عوام الناس کے لیے دعوتِ عام ہے کہ دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت ہو کر اسمِ اعظم کی عظیم دولت سے مالا مال ہوجائیں۔ آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے ہی روز اپنے مریدین کو سلطان الاذکار ھوُ عطا فرماتے ہیں۔ ظاہری وبدنی پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ کا طریقہ بھی سمجھاتے ہیں کیونکہ مشق مرقومِ وجودیہ کے بغیر ذکر و تصور بے اثرہے اور محض ظاہری مشق مرقومِ وجودیہ بغیر ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے تاثیر نہیں پکڑتی۔ لہٰذا معرفت و وصالِ الٰہی کے اعلیٰ باطنی اوصاف کے حصول کے لیے ذکر، تصوراورمشق مرقوم وجودیہ تینوں لازم و ملزوم ہیں بشرطیکہ عطا کرنے والا صاحبِ مسمیّٰ کامل مرشد ہو۔آئیے ! سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی روحانی صحبت اور نگاہِ کامل سے اپنے قلوب میں عشقِ الٰہی کی شمع روشن کریں ۔

  18. وسیلے کے بغیر کوئی آج تک منزلِ مرادتک نہیں پہنچ پایا۔ وجہ یہ ہے کہ روح صرف وسیلے کے راستے پر سفر کر سکتی ہے ۔اگر پوری زندگی وسیلہ نہ ملے تو روح کا سفر شروع ہی نہیں ہو پاتا۔ اگر روح کا سفر شروع ہونے میں تاخیر کی جائے تو نفس شیطان کی دی گئی چوبیس بانگوں کو اپنانا شروع کر دیتا ہے۔ اگرطالبِ مولیٰ میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا وسیلہ اختیار کرے تو پہلے روز ہی نورِ محمدی سے جڑ جاتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں