حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے | Syedna Abu Bakr Siddique First Caliph


2.7/5 - (4 votes)

حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے 

آخری قسط                                                                        تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ جو نظام حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے قائم کیا وہ دراصل حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ کی کاوشوں اور فیصلوں کا مرہونِ منت ہے۔ حضرت عمرؓ نے جب نظامِ خلافت سنبھالا تو اس وقت تمام فتنوں کو حضرت ابوبکرصدیقؓ صفحہ ہستی سے مٹا چکے تھے۔ 

حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اسلام کی جو بنیاد رکھی اس بنیاد پر آج اسلام قائم و دائم ہے۔ اسلام کو اگر کسی نے فتنوں سے بچا کر اصل صورت میں نکالا تو وہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہٗ ہیں۔ اگر اسلام آج اصلی صورت میں موجود ہے تووہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہٗ کی خلافت کامرہونِ منت نظر آتا ہے۔ جن نازک موقعوں پر جید صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی فیصلہ سازی میں تذبذب کا شکار ہوئے، ان مواقع پر بھی آپؓ نے رضائے خداوندی کے مطابق فیصلے کئے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دن رات بلکہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ دینِ اسلام کی سر بلندی کے لیے صرف کیا۔ آپؓ نے پیچیدہ اور کٹھن صورتحال میں اتنے مشکل اور حق پر مبنی فیصلے کئے جن کی بدولت تاریخ دان بلا تامل پکار اٹھے کہ جو فیصلے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہٗ نے کئے، اس سے اچھے فیصلے کرنا ناممکن ہے یعنی اس سے بہتر فیصلے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اِس بنا پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ پکار اٹھے کہ اے خلیفۂ رسولؐ! آپؓ نے اپنے بعد آنیوالوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کے دور خلافت کا تجزیہ کیاجائے تو چند چیزیں بہت اہم ہیں:
۱۔ سچ تو یہ ہے کہ ریاستِ مدینہ کی بنیاد آپؓ نے رکھی۔ آپؓ نے تدبر، بہادری اور استقامت کے ساتھ ان فتنوں کو جڑ سے اکھاڑا جن سے اسلام کو خطرہ تھا۔ خلافت کے اختتام پر ریاستِ مدینہ کی مضبوط بنیادیں قائم ہو چکی تھیں۔ 

۲۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو ہر طرح کے فتنے سر اٹھانے لگے۔ ان فتنوں کی وجہ سے امتِ مسلمہ کا شیرازہ بکھر گیا۔ منافقین اور کفار اپنی کثرتِ جماعت پر خوش تھے اور مسلمان اپنی قلتِ تعداد پر پریشان۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ نے جب فتنوں کو ختم کیا توتمام امت یکجا ہو گئی۔ امتِ مسلمہ کا یہی اتحاد حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے دورِ خلافت میں اشاعتِ اسلام کا باعث بنا۔ 

۳۔ وصالِ نبوی کے وقت جو صورتحال پیدا ہوئی وہ بھی خطرناک فتنے میں بدلنے ہی والی تھی کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ نے اس کو سنبھال لیا۔ اگر اس معاملے میں دیر ہو جاتی تو منافقین اور کفار اس سے بہت فائدہ اٹھاتے۔ لیکن حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ کی کمال ہمت کے مظاہرے نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔ اصل میں جب وصالِ رسولؐ کی خبر پھیلی تو منافقین کہنے لگے کہ (نعوذباللہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نبی ہوتے تو آپؐ کا وصال نہ ہوتا۔ یہ پراپیگنڈہ اتنا خطرناک ثابت ہوا کہ نومسلم اسلام سے پھر گئے۔ اس موقع پر جید صحابہ کرامؓ بھی پریشانی کے عالم میں کوئی فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ اس صورتحال میں کیا کیا جائے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے تلوار نکال کر فرمایا کہ کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مردہ نہ کہے۔ اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے صورتحال کو سنبھالا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تجہیز و تکفین کا فیصلہ کیا گیا۔ اسطرح یہ مشکل آپؓ کے فیصلوں سے فوراً ٹل گئی۔

۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے ساتھ ہی جو بیعتِ خلافت کا مسئلہ درپیش آیا اگر وہ فوری حل نہ ہوتا تو اسلام شاید آج صفحہ ہستی سے ختم ہو چکا ہوتا۔ بیعتِ خلافت کا فتنہ اٹھنے ہی والا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق صدیق رضی اللہ عنہٗ کی برکت سے اس کا قلع قمع ہو گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ابھی تدفین بھی نہ ہو پائی تھی کہ انصار اور قریش کے کچھ لوگ خلافت کی بات کرنے لگے۔ کچھ منافقین نے اس کا فائدہ اٹھایا کہ مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ فیصلہ ہونے ہی والا تھا کہ انصار اپنا خلیفہ منتخب کر لیں اور مہاجرین اپنا خلیفہ مقرر کر لیں جو یقیناً بہت سے فتنوں کا پیش خیمہ تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی قوم یا ملک کے دو سردار ہوں۔ اگر خدانخواستہ اس فیصلے پر عمل درآمد ہو جاتا تو اتحادِ امت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بکھر جاتا۔ امت آپس میں ایک دوسرے سے ہی لڑتی رہتی اور اسلام دنیا میں نہ پھیل پاتا۔ لیکن حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ کی فہم و فراست اور حق بات نے سب کو قائل کر لیا۔ یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا تھا کہ’’ عمرؓ یا ابوعبیدہؓ بن جراح میں سے کسی کی بیعت کر لو۔‘‘ یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کا ہاتھ تھاما اور فرمایا میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔ اس طرح حضرت ابوبکر خلیفہ رسول منتخب ہو گئے۔ بلا شبہ اس مسئلے کو حل کرنے والی شخصیت صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہٗ کی ہے۔ اس نازک ترین موقع پر آپؓ کا کردار اور گفتار بلاشبہ اظہار ِحق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہٗ فرماتے تھے کہ اگر ابوبکرؓ ہمارے خلیفہ نہ ہوتے توہم ہلاک ہو جاتے۔

۵۔ اگر منکرینِ زکوٰۃ کے فتنے کی بات کی جائے تو یہ بہت طاقتور فتنہ تھا کیونکہ عرب کے طاقتور ترین قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا۔ اور جب کمزور قبائل نے طاقتور قبائل کا یہ نکتۂ نظر دیکھا تو وہ بھی ان کے ساتھ مل گئے کہ اہلِ مدینہ ان کو شکست نہیں دے سکتے اس لیے ان کا ساتھ دیا جائے۔ منکرینِ زکوٰۃ کا فتنہ ختم کرنانہایت ضروری تھا کیونکہ اگر ایک فریضہ سے چھوٹ دے دی جاتی تو کل کو اِسی کو بنیاد بنا کر جس کو جو فریضہ مشکل لگتا وہ اسے چھوڑنے کے در پے ہو جاتا اور دین کی اصل صورت قائم ہی نہ رہتی۔ مزید برآں یہ کہ اگر اس معاملے میں رعایت برتی جاتی توکفارِ مکہ کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ اگر سچا دین ہوتا تو تبدیل نہ ہوتا۔اسطرح دین صرف کچھ لوگوں تک محدود ہو جاتا۔ جب عرب کے مسلم قبائل نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تو سب صحابہ کرامؓ نے مشورہ دیا کہ ان کے ساتھ فی الوقت صلح کر لی جائے اور پہلے باقی فتنوں کا قلع قمع کیا جائے۔ زکوٰۃ کے منکر زکوٰۃ کو جزیہ اور جرمانہ قرار دینے لگے، یہ فتنہ اتنی خطرناک صورتحال اختیار کر گیا کہ انہوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا کہ زکوٰۃ بھی ویسے ہی فرض ہے جیسے نماز۔ پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ صدیقِ اکبر  رضی اللہ عنہٗ کا فیصلہ درست تھا۔ جو معاملہ امت میں تقسیم کا باعث تھا وہی معاملہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ کے ایک دوراندیش فیصلے کی وجہ سے اتحاد کا باعث بن گیا۔ 

۶۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال مبارک کے فوراً بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ ابھی خلافت سنبھال بھی نہ پائے تھے کہ بہت سے جھوٹے مدعیانِ نبوت سر اٹھانے لگے۔ یہ فتنے بہت خطرناک صورت اختیار کر گئے۔ یہاں تک کہ اسلام کو خطرہ لا حق ہو گیا کہ نعوذباللہ اسلام ختم ہو جائے گا۔ ان فتنوں کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مسیلمہ کذاب نے اتنا بڑا لشکر مدینہ کے خلاف تیار کیا کہ عرب کی تاریخ میں اتنا بڑا لشکر اس سے پہلے تیار نہیں کیا گیا تھا۔ اگر خدانخواستہ مسیلمہ کامیاب ہو جاتا تو اسلام آج شاید موجود ہی نہ ہوتا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے اس فتنے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اسلام کو حیاتِ نو بخشی۔ 

۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کی خبر پھیلتے ہی عرب کے شمالی قبائل اسلام سے پھر گئے۔ ان کے دیکھا دیکھی جنوبی قبائل میں بھی ارتداد کی لہر اٹھی۔ علامہ ابنِ خلدون کے مطابق تقریباً سارا عرب مرتد ہو گیاتھا۔ جو باقی بچ گئے تو زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے لگے۔ پھر ساتھ ہی ساتھ جھوٹے مدعیانِ نبوت منظرِ عام پر آگئے۔ اگر ان تمام فتنوں کی شدت کی بات کی جائے تو لامحالہ یہ حق ہے کہ اگر ان فتنوں کا بروقت تدارک نہ کیا جاتا تو اسلام شاید آج ہم تک نہ پہنچ پاتا۔

عرب میں فتنہ و فساد کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکہ وہ جگہ ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زندگی کا بیشتر حصہ بسر کیا۔ لوگوں نے آپؐ کو قریب سے دیکھا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو یہ بھی تذبذب کا شکار ہو گئے۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ وہاں کے عامل گھبر ا کر نامعلوم مقامات پررُوپوش ہوگئے۔ اب اندازہ کریں اگر مکہ کے یہ حالات تھے تو باقی عرب کے کیا حالات ہوں گے! 

۸۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین حضرت اسامہؓ کے لشکر کو روکنے کی کوشش کرنے لگے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے روانہ فرمانے کا ارادہ فرمایالیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئے۔ اس لشکر کو تمام تر مخالفت کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے روانہ فرمایا۔ پھر تاریخ نے ثابت کیا کہ اِسی فیصلے کی وجہ سے دوررس نتائج نکلے۔ اس فیصلے کی وجہ سے بہت سے قبائل جو ارتداد کا سوچ رہے تھے وہ باز آ گئے کہ مسلمان اگر دنیا کی طاقتور ترین مملکت سے جنگ کی ہمت کر سکتے ہیں تو ارتداد کی راہ اختیار کرنے والوں کو کہاں چھوڑیں گے۔ پھر جب حضرت اسامہؓ کا لشکر کامیاب و کامران لوٹا تو وہ قبائل بھی باز آ گئے جو ارتداد کی راہ اپنا چکے تھے۔ 

مضمون کے آخر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے چند فضائل بیان کئے جا رہے ہیں تا کہ ان کا مقام احادیث کی روشنی میں بھی جانا جا سکے۔ 

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اشاروں کنایوں کو اگر کوئی مکمل سمجھ پاتا وہ صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: 
ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا وہ چن لے جو اللہ کے پاس ہے۔ تو اس بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔ 

اس جملے کو کوئی صحابی نہ سمجھ پایا جبکہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ اس جملے کو سن کر زاروقطار رونے لگے۔ سب صحابہ کرامؓ حیران تھے کہ اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ جبکہ حضرت ابوبکرصدیقؓ جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وصال کی بات کی ہے کہ اس بندے سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی ذاتِ مبارکہ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی متانت اور فہم و فراست کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تعلق جتنا گہرا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ تھا شاید ہی کسی اور صحابی کے ساتھ ہو۔  

یہاں تک کہ حضرت ابوبکر کے وصال کی وجہ بھی وصال نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ 

حضرت سالمؓ بن عبداللہ اپنے والد سے یہ بیان نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے وصال کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہے۔ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انتقال کے بعد) آپؓ کا جسم کمزور سے کمزور تر ہوتا گیا حتیٰ کہ آپؓ کا بھی وصال ہو گیا۔(المستدرک۔4410)

اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کس قدرمحبت رکھتے تھے۔ اس سلسلے میں حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں:
ہم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے۔ (المستدرک۔ 4421)

حضرت ابوبکر صدیقؓ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اپنی ہر چیز اللہ کی راہ میں قربان کر دی۔ آپؓ کی قربانی اس نہج پر پہنچ گئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس نے ابوبکر سے زیادہ مجھ پر اپنی جان و مال کے ذریعہ احسان کیا ہو۔ (بخاری۔467)

جن شخصوں کا میرے اوپر صحبت اور مال میں سب سے زیادہ احسان ہے ان میں ابو بکر (رضی اللہ عنہٗ) ہیں اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل (ولی دوست) بناتا تو وہ  ابو بکر (رضی اللہ عنہٗ)کو بناتا۔ (بخاری شریف۔3654)

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنا مال، جان اور وقت اپنے مرشد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور محبوب کے لیے قربان کر دیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کی کہ محبوبیت کے درجے پر فائز  ہوگئے۔ اس سلسلے میں حدیث درج ہے۔

 حضرت عمروبن العاصؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے کرتے ہیں؟‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ ابوبکر سے۔‘‘(المستدرک ۔6740)

حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں:
ابوبکرؓ ہمارے سردار تھے، ہم میں سے بہتر تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے ۔ (ترمذی شریف)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں:
سب سے آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور ان کے بعد ابوبکر ؓہیں۔(المستدرک۔ 4426)

حضرت ابوموسیٰ سے مروی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے فرمایا ’’کیا میں تمہیں اس امت میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد سب سے افضل شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟‘‘لوگوں نے کہا کہ ضرور بتائیے۔آپؓ نے فرمایا’’ حضرت ابوبکر ‘‘(طبرانی۔178)

حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ کو جو فضیلت عطا ہوئی وہ کسی اور کو عطا نہ ہوئی۔ اس فضیلت کی وجہ خودنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرمائی کہ’’ ابوبکر کی فضیلت نماز روزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے دل میں موجود ایک چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔‘‘

نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں اپنا وزیر قرار دیا۔ اس کے متعلق ابو سعید خدریؓ سے حدیث مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا: 
کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں۔ زمین والوں میں میرے دو وزیر ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔  (بخاری۔ 3680)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وصال مبارک سے پہلے اشاروں کنایوں میں بتا دیا کہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ ہی ان کے خلیفہ ہوں گے۔ اس کی سب سے بڑی مثال نماز کی امامت کا حکم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نماز کی امامت کا حکم صادر فرمایا۔ 

حضرت ابوموسیٰ اشعریؒ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہٗ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا بولیں کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لیے نماز پڑھانا مشکل ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکرؓ سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ تم لوگ صواحب یوسف (زلیخا) کی طرح (باتیں بناتی) ہو۔ آخر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے پاس آدمی بلانے آیااور آپؓ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی۔ (بخاری۔678)

یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ ابوبکر کے ہوتے ہوئے کسی اور کو اجازت ہی نہیں کہ وہ امامت کرے۔‘‘ 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کسی قوم کے لیے مناسب نہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کی موجودگی میں ان کے سوا کوئی اور ان کی امامت کرے۔‘‘ (ترمذی۔ 3673)

یارِ غار، خلیفۃ الرسول سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے وفا و قربانی کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔جب حق کو پہچان لیا تو پھر کسی بھی صورتِ حال میں پیچھے نہ ہٹے ۔اپنی جان، مال اسباب سب کچھ حق پر نچھاور کردیااور محبوبیت کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوئے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ کی حیاتِ مبارکہ سے صدق، استقامت، تدبر، حق گوئی و بے باکی جیسی اعلیٰ روحانی صفات سے متصف فرماکرراہِ فقرمیں کامیاب و کامران کرے۔ آمین

’’حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں اٹھنے والے فتنے‘‘  بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے  کلک کریں

 
 
 

28 تبصرے “حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں اٹھنے والے فتنے | Syedna Abu Bakr Siddique First Caliph

  1. حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کسی قوم کے لیے مناسب نہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کی موجودگی میں ان کے سوا کوئی اور ان کی امامت کرے۔‘‘ (ترمذی۔ 3673)

  2. حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ کو جو فضیلت عطا ہوئی وہ کسی اور کو عطا نہ ہوئی۔ اس فضیلت کی وجہ خودنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرمائی کہ’’ ابوبکر کی فضیلت نماز روزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے دل میں موجود ایک چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔‘‘

  3. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اشاروں کنایوں کو اگر کوئی مکمل سمجھ پاتا وہ صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا وہ چن لے جو اللہ کے پاس ہے۔ تو اس بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔

  4. حضرت ابوبکر صدیق ؓنے اسلام کی جو بنیاد رکھی اس بنیاد پر آج اسلام قائم و دائم ہے۔ اسلام کو اگر کسی نے فتنوں سے بچا کر اصل صورت میں نکالا تو وہ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہٗ ہیں۔

  5. یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ ابوبکر کے ہوتے ہوئے کسی اور کو اجازت ہی نہیں کہ وہ امامت کرے۔‘‘

  6. آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشادفرمایا:
    کوئی نبی ایسا نہیں جس کے دو وزیر آسمان والوں میں سے نہ ہوں اور دو وزیر زمین والوں میں سے نہ ہوں۔ زمین والوں میں میرے دو وزیر ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔ (بخاری۔ 3680)

  7. حضرت ابوبکر صدیقؓ نے دن رات بلکہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ دینِ اسلام کی سر بلندی کے لیے صرف کیا

  8. حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اسلام کی جو بنیاد رکھی اس بنیاد پر آج اسلام قائم و دائم ہے۔

  9. حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنا مال، جان اور وقت اپنے مرشد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور محبوب کے لیے قربان کر دیا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت کی کہ محبوبیت کے درجے پر فائز ہوگئے

  10. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مستحکم سلطنت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالہ کی ۔

  11. حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں:
    ابوبکرؓ ہمارے سردار تھے، ہم میں سے بہتر تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے ۔ (ترمذی شریف)

  12. جن شخصوں کا میرے اوپر صحبت اور مال میں سب سے زیادہ احسان ہے ان میں ابو بکر (رضی اللہ عنہٗ) ہیں اور اگر میں کسی کو اپنا خلیل (ولی دوست) بناتا تو وہ ابو بکر (رضی اللہ عنہٗ)کو بناتا۔ (بخاری شریف۔3654)

  13. آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تعلق جتنا گہرا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے ساتھ تھا شاید ہی کسی اور صحابی کے ساتھ ہو۔

  14. حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنا مال، جان اور وقت اپنے مرشد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور محبوب کے لیے قربان کر دیا

  15. بڑی تحقیق کے ساتھ یہ آرٹیکل لکھا گیا ہے۔ بہت خوب ماشااللّہ۔

  16. اللہ تعالیٰ تحریک دعوت فقر کو دن دوگنی رات چوگنی ترکی کامیابیاں عطا کرے اور حضور مرشد پاک کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قایم دایم رکھیں اور آپ کو صحت تندرستی والی لمبی عمر دیں اور قیامت تک آپ کی آل پاک میں فقر کا بول بالا کرے

اپنا تبصرہ بھیجیں