Alif-mahnama-sultanulfaqr-magazine

alif | الف


Rate this post

الف

تعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ

اللہ تعالیٰ کے طالب کا دل تمام مسافتوں منزلوں کو قطع کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز کو اپنے پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ جب کبھی اس کو راستہ میں ہلاکت کا خوف ہونے لگتا ہے تو وہیں اس کا ایمان ظاہر ہو کر اس اللہ کے طالب کو بہادر بنا دیتا ہے تو وحشت و خوف کی آگ بجھ جاتی ہے اور اس کے بدلہ میں انس کی روشنی اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی مسرت اس کو حاصل ہوجاتی ہے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 1)

تو نابینا ہے، تو اس کو تلاش کر جو تیرا ہاتھ پکڑ لے۔ تو جاہل ہے، ایسے علم والے کو تلاش کر اور جب تجھے ایسا قابل مل جائے تو پس اس کا دامن پکڑلے، اس کے قول اور رائے کو قبول کر اور اس سے سیدھا راستہ پوچھ۔ جب تو اس کی رہنمائی سے سیدھی راہ پر پہنچ جائے گا تو وہاں جا کر بیٹھ جا تاکہ تو اس کی معرفت حاصل کرلے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 4)

محب تو محبین کے پاس ہی جاتے ہیں تاکہ ان کے پاس اپنے محبوب کو پالیں۔ اللہ تعالیٰ کو چاہنے والے اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ ان کو دوست بنا لیتا ہے اور ان کی مدد فرماتا ہے اور ان میں ایک کو دوسرے سے تقویت پہنچاتا ہے۔ پس وہ مخلوق کو دعوتِ الٰہی دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون بنتے ہیں۔  (الفتح الربانی۔ مجلس 17)

برُی صفات سے نجات کا ذریعہ یہ ہے کہ آئینہ دل کو ظاہر و باطن میں مصقلِ توحید (تصور اسمِ اللہ ذات) و علم و عمل و شدید مجاہدہ سے صاف کیا جائے حتیٰ کہ نورِ توحید (نورِ اسمِ اللہ ذات) و صفاتِ الٰہیہ سے دل زندہ ہو جائے اور اس میں وطنِ اصلی کی یاد تازہ ہوجائے اور وطن حقیقی کی طرف مراجعت کا شوق پیدا ہو۔ (سرّ الاسرار۔ فصل نمبر 10)

تجھ پر افسوس ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرتا ہے کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے لیے کچھ شرائط ہیں اور وہ یہ ہیں:
ا۔ اپنے اور غیر کے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی موافقت کرنا۔
ب۔ ماسویٰ اللہ تعالیٰ کے سکون نہ کرنا۔
ج۔ اللہ تعالیٰ ہی سے انس رکھنا اور اس کے ساتھ رہنے میں وحشت میں نہ پڑنا۔

جب اللہ تعالیٰ کی محبت کسی شخص کے دل میں ٹھہر جاتی ہے تو بندہ اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور ہر اس چیز کو دشمن سمجھنے لگتا ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کے انس سے غافل کر دے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 4)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو فقط اپنی معرفت اور وصال کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ لہٰذا انسان پر واجب ہے کہ وہ دونوں جہان میں اُس چیز کی طلب کرے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کی عمر لایعنی کاموں (فضول کاموں) میں ضائع ہو جائے اور مرنے کے بعد اس تضیعِ عمر کی دائمی ندامت اٹھانی پڑے۔ (سرّ الاسرار فصل نمبر12)

 

alif | الف” ایک تبصرہ

  1. بہت خوبصورت اور تفصیل سے ہر پہلو کو بیان کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں