کلید التوحید (کلاں)۔ قسط نمبر7
ابیات:
عارفاں ہوشیار وحدت غرق نور
واصلان بمصطفیٰؐ دائم حضور
ترجمہ: ہوشیار عارفین نورِ وحدت میں غرق ہوتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات مبارکہ سے وصال کے بعد دائمی حضوری میں حاضر رہتے ہیں۔
فقر را ختم است آخر این مقام
ہر کہ ایں جا میرسد عارف تمام
ترجمہ: اس انتہائی مقام یعنی وصل پر فقر مکمل ہو جاتا ہے اور جو اس مقام پر پہنچ جائے وہ کامل عارف بن جاتا ہے۔
طالبان را برد کامل باخدا
طالبان را میبرد بامصطفیؐ
ترجمہ: وہ کامل عارف اپنے طالبوں کو بھی اللہ کے قرب اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں لے جاتا ہے۔
لائقِ ارشاد مرشد غرق نور
اینچنین مرشد بود صاحبِ حضور
ترجمہ: لائقِ ارشاد مرشد وہی ہوتا ہے جو نور میں غرق ہو کیونکہ ایسا مرشد ہی صاحبِ حضور ہوتا ہے۔
از نبیؐ ارشاد آں را صد فخر
سرفرازش گشت طالب باظفر
ترجمہ: ایسے ہی مرشد پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فخر فرماتے ہیں جو اپنے طالبوں کو راہِ حق پر فتح سے سرفراز فرماتا ہے۔
ہر کرا قوت نہ باشد ایں چنین
اہل بدعت ناقص و گمراہ دین
ترجمہ: جو مرشد یہ قوت و تصرف نہیں رکھتا وہ بدعتی، ناقص اور دین سے گمراہ کرنے والا ہوتا ہے۔
مرد مرشد حق حضوری باخبر
طالبان را میبرد بایک نظر
ترجمہ: مرد مرشد ہی حضورِ حق سے باخبر ہوتا ہے اسی لیے وہ ایک نگاہ سے طالبوں کو وہاں پہنچا سکتا ہے۔
خاک پائے کاملان شود بالیقین
اہل بدعت مرشد شیطان لعین
ترجمہ: تو یقین کے ساتھ کامل مرشد کے قدموں کی خاک ہو جا کیونکہ اہلِ بدعت مرشد شیطان لعین کی مثل ہوتا ہے۔
سب سے پہلے طالبِ مولیٰ کو دانش و شعور سے علم حاصل کرنا چاہیے کیونکہ دانش و شعور سے ہی قرب، معرفت اور حضوری کا علم حاصل ہوتا ہے۔
بیت:
زمین بر ناخن است در نظر درویش
بہ بیند ہر تماشا بنظر خویش
ترجمہ: درویش کے سامنے تمام کائنات اس کے ناخن کی پشت پر ہوتی ہے اور وہ ہر نظارہ اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
ان مراتب کا تعلق علمِ طبقات سے ہے۔ طالب کو ذات کے مراتب کا علم ہونا چاہیے۔
ابیات:
علم باید از خدا صاحب نظیر
از اسم اعظم دل شود روشن ضمیر
ترجمہ: بے مثل ذاتِ حق تعالیٰ کا علم حاصل کرنا چاہیے اور وہ علم اسمِ اعظم سے حاصل ہوتا ہے جس سے دل روشمن ضمیر ہو جاتا ہے۔
طلب کن تو علم را از مصطفیؐ
علم سرِّ رازِ وحدت از الٰہ
ترجمہ: تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے علمِ حق طلب کر وہ علم جو کہ رازِ وحدتِ الٰہی کا سرّ ہے۔
چوں ختم گردد علم حلم زان مقام
اینچنین تحصیل شد عارف تمام
ترجمہ: جب علم کی حد ختم ہو جاتی ہے تو وہاں سے حلم کا آغاز ہوتا ہے جس کے حصول سے طالب عارف کامل بن جاتا ہے۔
مطلب یہ کہ ناقص مرشد طالب کی مثل ہوتا ہے اور ناقص طالب مرشد کی مثل۔ یہ دونوں ہی ناقص و بے شعور اور رازِ باطن اور معرفتِ الٰہی سے بے خبر ہیں پس ایسا مرشد بیل اور طالب گدھے کی مثل ہوتا ہے۔ ابیات:
خام مرشد ہمچو باشد بیوہ زن
طلب سیم و زر کند با ہر سخن
ترجمہ: خام مرشد بیوہ عورت کی مثل ہوتا ہے جو اپنی ہر بات میں مال و دولت کا سوال کرتا ہے۔
نظر بر نقد است مال و جنس وار
از برائی درمِ دنیا انتظار
ترجمہ: اس کی نظر مال و اشیا پر ہوتی ہے اور وہ پیسہ اکٹھا کرنے کا ہی منتظر رہتا ہے۔
بہ طالبان تلقین و تعلیم است پند
بہر خانہ درم خواہد نقد چند
ترجمہ: وہ اپنے طالبوں کو تعلیم و تلقین سے (مال دو دولت جمع نہ کرنے کی) نصیحت کرتا ہے لیکن خود اپنے گھر میں مال و دولت جمع کرتا ہے۔
خام مرشد ہمچو قصابش نظر
ز استخوان مغزش برآرد بہر زر
ترجمہ: خام مرشد قصائی کی نظر سے دیکھتا ہے اور مال و دولت کی خاطر (مریدین کی) ہڈیوں سے گودا بھی نکال لیتا ہے۔
از خدا حفظ خواہم زیں قصاب
گوشت آدم را خورد بہر از ثواب
ترجمہ: میں ایسے قصاب نما مرشد سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو انسانوں کا گوشت کھانا بھی ثواب سمجھتا ہے۔
ہر طریقہ را کنم تحقیق تر
دوست دارند طالبان را بہر زر
ترجمہ: میں نے ہر طریقے (کے مرشدوں) کی تحقیق کی ہے سب طالبوں کو مال و دولت کی خاطر محبوب رکھتے ہیں۔
دل خبیث و بر زبان گوید حدیث
کی شود نامرد باحق ہم جلیس
ترجمہ: جو زبان سے تو احادیث بیان کر رہا ہو لیکن دل میں خباثت ہو تو ایسا نامرد مرشد کیسے حق تعالیٰ کا ہم نشین ہو سکتا ہے!
باھوؒ قادری مرشد بود حق حق نما
ہر کہ راہے حق نداند سر ہوا
ترجمہ: اے باھوؒ! صرف قادری مرشد ہی حق پر ہوتا ہے جو حق کا راستہ دکھاتا ہے اور جو راہِ حق نہیں جانتا وہ مطلق اہلِ ہوس ہے۔
جان لو کہ مرشدی و طالبی کے مراتب عظیم ہیں کیونکہ ان میں اللہ کریم کی معرفت کے اسرار ہیں۔ جان لو کہ ان چھ مراتب تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا اور اگر کوئی پہنچنے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا، ساحر اور کافر ہوتا ہے جو استدراج کا شکار ہو کر مرتد ہو جاتا ہے۔ وہ خاص الخاص چھ مراتب یہ ہیں:
اوّل مرتبہ یہ کہ آیاتِ قرآن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ کسی پر نازل نہیں ہوئیں۔
دوم مرتبہ یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کسی پر وحی نازل نہیں ہوتی کیونکہ آپ خاتم النبیین ہیں۔
سوم مرتبہ یہ کہ مراتبِ معرفت (کی انتہا) تک سوائے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کوئی نہیں پہنچا (اور نہ پہنچ سکتا ہے)۔
چہارم مرتبہ یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ مقامِ قابَ قوسین پر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی کسی کو ظاہری آنکھوں سے معراج ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو ظاہری آنکھوں سے دیدار ہو سکتا ہے۔
پنجم مرتبہ یہ کہ کوئی شخص بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام صحابہ، اصحابِ صفہ، اصحابِ بدر اور اصحابِ کبار رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔
ششم مرتبہ یہ کہ علمِ روایت میں چار مجتہد مذہب ہیں ان چاروں مجتہد امامین کے مرتبہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اور یہ چاروں مذہب برحق ہیں۔ میں امامِ اعظم حضرت نعمان کوفیؒ کے مذہب پر ہوں جو ایک صوفی تھے اور شرک، کفر، بدعت اور سرود سے تارک فارغ تھے۔
ان چھ مراتب کے علاوہ دیگر مراتب یعنی ولایت، ہدایت، غنایت، غایت الغایت لانہایت، ذکر، فکر، ورد و وظائف، تلاوت، استغراق، معرفتِ الٰہی، قرب و وِصال، مشاہدئہ تجلیاتِ نور حضور، دیدارِ الٰہی کا شوق اور اشتیاق، دعوت، علمِ فضیلت، درویشی، فقیری، ابدالی، اوتادی، فنا و بقا، غوثیت اور قطبیت کے مراتب پر لوگ قیامت تک ایک دوسرے کے قائم مقام ہوتے جائیں گے اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ جان لو کہ مراتبِ غوث و قطب تین قسم کے ہیں اوّل غوث قطب دہقانی جن کے تصرف کی حد بارہ کروہ (فرسنگ) تک ہوتی ہے۔ دوم غوث قطب روحانی جن کا نفس فنا اور روح بقا پا چکی ہوتی ہے اور وہ استغراق کے باعث روزِ الست سے ہی مست ہیں جنہوں نے جامِ شوق مواحد ساقی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ مبارک سے پیا ہوتا ہے اور وہ ہر لمحہ اس ازل کی مستی اور سوزش کے سبب آہ آہ کرتے رہتے ہیں۔ انہیں نہ طالب بنانے کی خواہش ہوتی ہے نہ مرید بنانے کا ذوق بلکہ وہ توحید میں غرق رہتے ہیں۔ یہ غوث و قطب مقامِ تجرید و تفرید پر ہوتے ہیں۔ غوث و قطب کا سوم مرتبہ یہ ہے کہ انہیں وحدت کا غوث و قطب کہا جاتا ہے جیسا کہ قدرت سرّ سبحانی، معشوقِ ربانی، غوث الجن والانس و ملائکہ شاہ عبدالقادر جیلانیؓ۔ یہ ان طالبوں اور مریدوں اور صاحبِ دیدار کے مراتب ہیں جو دیدار کے مشتاق اور معرفتِ الٰہی میں غرق رہتے ہیں۔ وہ اللہ کے ساتھ مشغول و مستغرق خوش رہتے ہیں۔ طریقہ سروری قادری کے طالبوں کو معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری مبارک ہو۔ مطلب یہ کہ مرشد کامل قادری وہ ہے جو معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے علاوہ دیگر کسی راستے کی طلب نہیں کرتا کیونکہ راہِ ذکر فکر اور ورد و وظائف میں رجعتِ نفسانی، معصیتِ انائے شیطانی، رجوعاتِ خلق، حوادثاتِ دنیا کی پریشانی اور بے شمار راہزن ہیں جس کے سبب قلب ضبط ہو جاتا ہے اور قبض و بسط اور سکر و صحو کے احوال پیش آتے ہیں۔اہلِ حضور کے لیے مستی ہوشیاری اور نیند بیداری کے برابر ہوتی ہے۔ جو معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے کوشش نہیں کرتا اور مشاہدہ میں غرق نہیں ہوتا وہ مراتبِ وصال سے محروم اور لاحاصل رہتا ہے۔ وہ ایسا طالب ہوتا ہے جو ابھی تک اپنے مطلب تک نہیں پہنچا ہوتا۔ ایسا کور چشم پیدائش سے موت تک باطنی طور پر اندھا ہی رہتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سورۃ بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: جو اس (دنیا) میں (حق کے دیدار سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔
شرح مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہونے اور حضوری سے مشرف ہونے کے سلوک کی شرح یہ ہے کہ جب طالبِ مولیٰ تصور سے دل پر اسمِ اللہ ذات نقش کرتا ہے تو قرار و سکون حاصل کرتا ہے اور باطن میں اسمِ اللہ ذات کو واضح دیکھتا ہے۔ تب اسمِ اللہ ذات آفتاب کی مثل (طالب کے اندر) طلوع ہو کر صبح صادق کی طرح روشنی بکھیرتا ہے اور پھر نورِ معرفتِ الٰہی کی تجلیات کا شعلہ چمکتا ہے اور دل سے تاریکی و سیاہی اور ظلمتِ نفسانی و شیطانی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مرشد کو چاہیے کہ طالبِ مولیٰ کو کہے کہ باطنی تفکر و تصور سے دل میں اسمِ اللہ ذات کو دیکھ کہ تجھے کیا نظر آتا ہے؟ دل میں اسمِ اللہ ذات دیکھنے سے اگر طالبِ مولیٰ غرق ہو جائے اور باطن میں حضورِ حق کا شعور بھی کھو دے تو معلوم ہوا کہ وہ نورِ معرفتِ الٰہی میں محو ہو گیا ہے اور اگر وہ باطنی طور پر باشعور رہے تو وہ بتاتا ہے کہ دل اور اسمِ اللہ ذات کے گرد ایک وسیع و عریض میدان ہے جس کی کوئی حد اور انتہا نہیں اور پھر طالبِ مولیٰ دل اور اسمِ اللہ ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور جب مراقبہ سے باہر آتا ہے تو بتاتا ہے کہ اس میدان میں روضہ کی مثل ایک گنبد ہے جس کے دروازہ پر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ لکھا ہے اور زبان سے کلمہ طیب پڑھنے اور اس کا ورد کرنے سے ہی وہ دروازہ کھلتا ہے۔
ابیات:
نجات مردم جان لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
کلید قفل چنان لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
ترجمہ: لوگوں کی نجات کا ذریعہلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے اور ہر قفل کی کلید بھی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔
چہ خوف آتش دوزخ چہ خوف دیو لعین
ہر آنکہ کرد بیان لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
ترجمہ: جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھتا ہو اُسے آتش ِ دوزخ اور شیطان لعین کا کیا خوف؟
نبود ملک دو عالم نہ دور چرخ کبود
کہ بود در امان لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
ترجمہ: اس وقت بھی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کادورِ اماں تھا جس وقت نہ دونوں جہان تھے اور نہ ہی نیلا آسمان۔
جب طالبِ مولیٰ اس روضہ میں داخل ہوتا ہے تو اسے مجلسِ خاص الخاص دکھائی دیتی ہے اور اس مجلس میں ذکرِ الٰہی اور آیاتِ قرآن و حدیث کا تذکرہ ہوتا ہے۔ تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے (طالب کو) سات مقامات حاصل ہوتے ہیں اوّل مقامِ ازل، دوم مقامِ ابد، سوم مقامِ دنیا، اور دنیا میں مزید چار مقامات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ اوّل مقام دنیا میں حرمِ مدینہ میں روضہ پاک پر اور دوم حرمِ کعبہ میں جہاں مجلس ہوتی ہے اور باقی دو مجلسِ حضوری کے مقامات بالائے آسمان ہوتے ہیں کہ ایک عرشِ اکبر پر دریائے ژرف میں جو کہ مطلق توحید ہے جس کی ہر موج نورِ معرفتِ الٰہی کی ہے اور ساتویں مجلسِ محمدی لامکان میں‘ کہ جس کی مثال کسی دوسری شے سے نہیں دی جا سکتی۔ ہر مقام پر ذکرِ الٰہی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ جاری رہتا ہے۔
ابیات:
از دل بدر کن بیشۂ خطرات را
بیابی وحدت حق ذات را
ترجمہ: اپنے دل سے خطرات کا خاتمہ کر تب تو وحدتِ ذاتِ حق پائے گا۔
دل کہ ز اسرارِ خدا غافل است
دل نتوان گفت کہ مشتِ گل است
ترجمہ: جو دل اسرارِ الٰہی سے غافل ہو اسے دل نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ مٹی کی ڈھیری ہے۔
وہ صاحبِ تصور طالب جو روحانی طور پر مجلس میں حاضر ہو جاتا ہے اسے مراقبہ و ذکر باطن کی حضوری میں اس طرح لے جاتے ہیں کہ وہ ظاہر میں بے جان ہو جاتا ہے گویا مر چکا ہو۔ اس طریقہ سے مجلسِ محمدی میں داخل ہونا مبتدی طالب کا مرتبہ ہے۔ جب ا سکا ظاہر و باطن ایک ہو جائے تو وہ انتہا پر پہنچ جاتا ہے تب اسے کامل عارف باللہ کہتے ہیں۔ جان لو کہ کاملین کے لیے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آفتاب کی مثل ہر جگہ موجود ہوتی ہے اور طالب اس مجلس کی حضوری میں ذرّے کی مثل ہوتا ہے کیونکہ ذرّہ آفتاب سے جدا نہیں ہو سکتا بلکہ ذرّے کی روشنی آفتاب سے ہی حاصل کردہ ہے۔ مطلب یہ کہ طالبِ مولیٰ ظاہری ورد وظائف اور اعمالِ ظاہر سے ہرگز باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک نہیں پہنچ سکتا اگرچہ تمام عمر ریاضت کرتے ہوئے پتھر سے سر ٹکراتا رہے کیونکہ راہِ باطن‘ صاحبِ باطن مرشد کامل سے حاصل ہوتی ہے جس کے ذریعے طالب ایک لمحہ میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ سکتا ہے اور واصل بھی ہو سکتا ہے۔
جان لو کہ امت پیروی کرنے والے کو کہتے ہیں اور پیروی یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچایا جائے۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو راہِ حضوری کے متعلق نہیں جانتے اور بے حیائی، تکبر، خواہشاتِ نفس، خود پرستی اور نفس پرستی کے باعث عارفانِ باللہ سے طلب بھی نہیں کرتے اور جو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ جاتے ہیں حاسدین اپنے حسد کے باعث ان کو دیکھ نہیں سکتے۔ وہ سراسر احمق اور حیوان ہیں۔ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر اور حضوری میں منظور نہیں وہ امت کے مومن و مسلمان اور فقیر درویش علما فقہا کیسے ہو سکتے ہیں اور امت ان کی پیروی کیسے کر سکتی ہے۔ جان لو کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سرّ ہدایت ہے اور یہ ہدایت ابتدا (کی طرف لوٹنے) میں ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلنِّھَایَۃُ ھُوَ الرُّجُوْعُ اِلَی الْبِدَایَۃِ
ترجمہ: ابتدا کی طرف لوٹنا ہی انتہا ہے۔
مَنْ رَأْنِیْ فَقَدْ رَأَی الْحَقَّ فَاِنَّ الشَّیْطٰنَ لَا یَتَمَثَّلُ بِیْ
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا تحقیق اس نے حق دیکھا۔ بیشک شیطان میری مثل نہیں بن سکتا۔
(جاری ہے)