فضیلتِ شہادت اور مقصدِ شہادتِ امام حسینؓ
تحریر: محمد یوسف اکبر سروری قادری۔ لاہور
شہادت کے معنی و مفہوم
شہادت سے مراد ہے امرِ حق پر مارا جانا ،بے قصور و بے خطا مارا جانا، راہِ حق میں جہاد کرتے ہوئے مارا جانا، راہِ حق میں جان قربان کر دینا اور شہید سے مراد خدا کی راہ میں قربان ہونے والا، گواہی میں امانت دار، مقتول فی سبیل اللہ، وہ جو ہر بات سے مطلع ہو، وہ شخص جو راہِ خدا میں قتل ہو۔
شہید عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ شَھِدَ ہے اور اس کا لغوی معنی موجود ہونا،حاضر رہنا یا نظروں کے سامنے رہنایا رکھنا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آخر اس لفظ شہید کا اطلاق اس شخص پر کیوں ہوتا ہے جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جاتا ہے غور کیاجائے تو اس کی بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں ، ان میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
1 ۔ شہید کو اس لئے شہید کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت اور اسکے فرشتے اسے جنتی ہونے کی گواہی اور خوشخبری دیتے ہیں۔
2 ۔ شہید روزِ قیامت اللہ عزّ وجل سے دعا کرے گا کہ اسے بھی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ سابقہ امتوں پر گواہ قرار دینے کی عزت افزائی کا وہ سہانا منظر دیکھنے کا موقع ملے اور اللہ جل شانہٗ اس کی یہ خواہش پوری کرے گا۔
3 ۔ چونکہ قرآن کی آیات سے ثابت ہے کہ شہید زندہ ہے وہ دیکھتا سنتا ہے لہٰذا اسے شہید کہا جاتا ہے۔
4 ۔ فرشتے اس کی شہادت کے گواہ ہیں اور شہید چونکہ زندہ ہے اور اس کے نامہ اعمال میں خیرو عبادت کا صفحہ بند نہیں کیا جاتا وہ ہمیشہ اللہ ربّ العزت اور اس کے برگزیدہ بندوں کی تصدیق کرتا رہتا ہے لہٰذا وہ شہید کہلا تا ہے۔
شہید کی فضیلت اور مقام قرآن کریم کی روشنی میں
1 ۔وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتُ ج بَلْ اَحْیَآءٌ (البقرہ۔154)
ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کر دئیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔
2 ۔ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا ج بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ۔ (آلِ عمران۔169)
ترجمہ: جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے جائیں انہیں ہرگز مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے ربّ کے حضور زندہ ہیں اور انہیں رزق دیا جاتا ہے۔
3۔ وَمَنْ یْقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا۔ (النساء۔74)
اور جو اللہ کی راہ میں جنگ کرے خواہ وہ قتل ہو جائے یا غالب آ جائے تو ہم (دونوں صورتوں میں) اسے اجرِ عظیم عطا فرمائیں گے۔
4 ۔ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ ج یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ ۔ (التوبہ۔111)
ترجمہ: بیشک اللہ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال ان کے لیے جنت کے عوض خرید لیے ہیں ۔ وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں سو وہ (دورانِ جنگ) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کیے جاتے ہیں۔
5 ۔وَمَنْ یُطِعَ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ والشُّھَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا ۔ (النسا۔69)
ترجمہ: اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔
شہید کی فضیلت اور مقام احادیث کی روشنی میں
حضور سرکارِ مدینہ سرورِ قلب و سینہ فرماتے ہیں:
* ما یجد الشہید من القتل الا کما یجد احدکم من القرصہ ۔(ابنِ ماجہ 2802)
ترجمہ: شہید کو اپنے قتل سے اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی کہ تمہیں چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے۔
عتبہ بن عبدالسلمیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کوئی بھی مومن جو اپنی جان و مال کے ذریعے اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور اگر وہ مارا جائے تو وہ شہید ہے جس کی آزمائش خود اللہ ربّ العزت نے کی ہے اور وہ اس آزمائش میں کامیاب ہو گیا ہے۔ ایسا شخص قیامت کے روزاللہ کے عرش کے سائے میں ہو گا اور اس پر اللہ کی خاص رحمت ہوگی اس شہید میں اور نبی کریم رؤف الرَّحیم کے درمیان سوائے درجہ نبوت کے اور کوئی فرق نہ ہوگا۔
غزوہ بد ر میں جب ’’عتبہ بن ربیعہ‘‘ نے عبیدہؓ بن الحارث بن عبدالمطلب کو شہید کیا تو حضرت امیر حمزہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان کا جسدِ خاکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ ٖ وسلم کی خدمتِ اقدس میں لیکر حاضر ہوئے پھر مولا علی شیر خداؓ نے اس موقع پر ہادیٔ برحق رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سوال کیا کہ اے اللہ کے پیارے رسول! کیا میری قسمت میں شہادت کی موت لکھی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہاں میں جواب دیا۔ غزوہ بدر کے معرکہ میں شہادت کا عظیم رتبہ نہ ملنے پر حضرت علی شیر خدا بے چین ہوگئے تھے۔ بہر حال القصہ مختصر شہادت ایک عظیم منصب و مرتبہ ہے جو صرف صاحبانِ سعادت کو نصیب ہوتا ہے۔ مفکر و شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے اسی پر فرمایا:
شہادت ہے مقصود و مطلوبِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
واقعہ کربلا
واقعہ کربلا کو آج تقریباً ۱۳۷۹ سال گزر چکے ہیں مگر یہ اس قدر المناک، دل خراش و دل فگار (غمزدہ) کر دینے والا سانحہ ہے کہ پوری ملتِ اسلامیہ کے دل سے محو نہ ہوسکا ۔ یہ واقعہ نواسۂ رسول، جگر گوشہ بتول اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لختِ جگر حضرت امام حسینؓ کی شہادت سے وابستہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں دورِ خلافت کے بعد یہ رقت انگیز واقعہ اسلام کی دینی، سیاسی اوراجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والا ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی شہادت اور قربانی کے اس عظیم سانحہ نے بلاشک و شبہ اور بلامبالغہ دنیا کے کسی بھی حادثہ یا سانحہ پر نسل انسانی کو اس قدر غمزدہ نہ کیا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے جسمِ اطہر سے جس قدر خون دشتِ کر بلا میں بہایا گیا اس کے عوض پوری امتِ مسلمہ اشک ہائے رنج و غم کا ایک سیلاب بہا چکی ہے اور مسلسل بہا رہی ہے او ر بہاتی رہے گی۔
اللہ ربّ العزت نے واقعہ کربلا کو دوام بخشا اور زندہ و جاوید بنا دیا تاکہ تمام انسان خصوصاً اہلِ ایمان اس واقعہ سے سبق حاصل کرتے رہیں۔
حضرت امام حسینؓ کی ولادت با سعادت
آ پؓ کی ولادتِ با سعادت ۵شعبان المعظم ۴ ھ مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ سرکارِ دو عالم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپؓ کے گوش مبارک میں اذان دی، منہ میں لعابِ دہن ڈالا اور آپؓ کے لئے دعا فرمائی۔ پھر ساتویں روز آپؓ کا نام مبارک ’’حسین‘‘ رکھا اور عقیقہ کیا۔
کنیت
حضرت امام حسینؓ کی کنیت ابو عبداللہ ہے۔
لقب مبارک
سبطِ رسول اور ریحانِ رسول ہے۔
حضورؐ کا حسنین کریمین کے ناموں پر فخر
حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ہارونؑ نے اپنے بیٹوں کا نام ’’شبر اور شبیر‘‘ رکھااور میں نے اپنے بیٹوں کا نام انہی کی طرز پر ’’حسن اور حسین‘‘ رکھا۔ (صواعق المحرقہ) اسی لیے حسن و حسین ؑ کو شبر اور شبیر کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔
سریانی زبان میں حسنین کریمین کے ناموں یعنی شبروشبہر اورعربی زبان میں ’’حسنؓ و حسینؓ‘‘ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔(صواعق المحرقہ)
ایک حدیث مبارکہ میں ہے:
* اَلْحُسَیْنُ مِنِّیْ وَ اَنَا مِنَ الْحُسَیْنَ ۔
ترجمہ: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ (صواعق المحرقہ)
ابنِ الاعرابی حضرت مفضلؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ ربّ العزت نے یہ نام مخفی رکھے یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے نواسوں کا نام حسنؓ اور حسینؓ رکھا۔
حضرت امام حسینؓ کے فضائل و مناقب
آپؓکے فضائل میں بہت حدیثیں ملتی ہیں۔ ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت یعلیٰ بن مروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
* احب اللہ من احب حسین ۔
ترجمہ: حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں۔
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت امام حسینؓ کو اپنے انتہائی قریب فرمایا ہے گویا کہ دونوں ایک ہیں حسینؓ کا ذکر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر ہے۔ حسینؓ سے دوستی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دوستی ہے۔ حسینؓ سے عداوت رکھنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عداوت و دشمنی ہے۔ حسینؓ سے لڑنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے لڑنے کے مترادف ہے۔
حضور ؐ نے فرمایا
* احب اللہ من احب حسین
ترجمہ۔ جس نے حسینؓ سے محبت کی اس نے اللہ ربّ العزت سے محبت کی۔ (مشکوٰۃ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا چھوٹا بچہ کہاں ہے؟ حضرت امام حسینؓ دوڑتے ہوئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی گود مبارک میں بیٹھ گئے اور اپنی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی داڑھی مبارک میں داخل کر دیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انؓ کا بوسہ لیا اور فرمایا:’’اے اللہ میں اس (حسینؓ) سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور اس سے بھی جو اس سے محبت کرے۔‘‘ (نورالابصار)
مولانا احمد رضا خاںؒ نے کیا خوب ترجمانی فرمائی ہے:
کیابات ہے رضا اس چمنستانِ کرم کی
زھراؓ ہے کلی جس میں حسنؓ اور حسینؓ پھول
معرکہ حق و باطل اور امام حسینؓ
یہ معرکہ حق و باطل میدانِ کربلا میں وقوع پذیر ہوا یہ عظیم سانحہ 10 محرم الحرام 61 ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ء) کو موجودہ عراق میں مقامِ کربلا میں پیش آیا۔ یہ حق وباطل کا معرکہ نواسۂ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسینؓ اور یزیدی افواج کے مابین ہوا۔ یزیدی لشکر نے آپؓ اور آپؓ کے اہلِ خانہ کو نہایت بے دردی سے شہید کیا۔ حضرت امام حسینؓ نے افضل جہاد کی ایک بے نظیر مثال قائم کی، ظالم، جابر اور بے عمل بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہا اور دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے میدانِ عمل میں اُترے اور دنیا کو بتایا کہ دینِ اسلام دینِ برحق ہے اور کسی طور طوائف الملوکی بادشاہت اور آمریت کا اور اس سے مماثل طریقہ کا داعی نہیں۔ یہ اسلام کی روح کے قطعاًخلاف ہے اور یہ واضح پیغام دیا کہ مومن حکومت و سلطنت، ظلم و جبر اور طاقت و قوت کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کر سکتا۔
آپؓ نے یزیدی بیعت و امارت، سلطنت اور طریقہ حکومت کا انکار کرتے ہوئے کسی طور یزیدی حکومت کی اطاعت قبول نہ کی اور اسکی بیعت کو ٹھکرا دیا ور اعلان کر دیا کہ
مرِ دِ حق باطل سے ہر گز خوف کھا سکتا نہیں
سرکٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں
آپؓ نے دینِ حق کی خاطر جان کی قربانی پیش کرنے میں ذرا سی بھی لرزش نہ دکھائی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امام حسینؓ نے خود ہی اپنے قافلہ کے لوگوں کو اجازت مرحمت فرما دی تھی کہ جسے واپس جانا ہو وہ جا سکتا ہے مگر آپکے رفقا نے آپؓ سے وفاداری کا ثبوت دیا، آپؓ کو اپنا مرشدِ کامل اکمل ماننے ہوئے آپؓ کا بھر پور وفاداری سے ساتھ نبھایا ۔
حضرت امام حسینؓ نے یزیدی لشکر کے سپہ سالار اور اس کی فوج کے سامنے حجت کے طور پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو! رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی بھی ایسے حاکم کو دیکھے کہ ظلم و بربریت کرتا ہے، اللہ کی حدود کو توڑتا ہے، سنتِ مصطفویؐ کی مخالفت کرتا ہے، سر کشی سے حکومت چلاتا ہے اور وہ اسے دیکھنے کے باوجود بھی اس ظالم کی مخالفت نہیں کرتا اور نہ ہی اسے روکتا ٹوکتا ہے تو ایسے آدمی کا اچھا ٹھکانا نہیں۔ دیکھو! یہ لوگ شیطان کے پیرو کار ہیں، رحمان سے برسر پیکار ہیں، حدودِ الٰہی معطل ہے، حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرایا جارہا ہے، میں ان کی اس سرکشی کو حق اور عدل سے بدل دینا چاہتاہوں اور اس کے لئے سب سے زیادہ حق دار بھی ہوں۔ اگر تم میری بیعت پر قائم رہو تو تمہارے لئے ہدایت ہے ورنہ عہد شکنی عظیم گناہ ہے یعنی بیعت کو باطل کرنا یا توڑنا عظیم گناہ ہے میں حسینؓ ابن علیؓ ہوں، ابنِ فاطمہؓ ہوں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نواسہ ہوں مجھے اپنا قائد بنالو، مجھ سے منہ نہ موڑو، میرا راستہ نہ چھوڑو، یہ صراطِ مستقیم ہے۔‘‘
اس حقیقت پر مبنی خطبہ کا لوگوں پر بہت اثر ہوا مگر لالچ اور خوف کی وجہ سے خاموش رہے۔
9 محرم الحرام کی رات تھی آپؓ رات بھر عبادتِ الٰہی میں مشغول رہے صبح دسویں محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا دونوں اطراف میں افواجِ لشکر کی صف آرائی جاری تھی بعد نمازِ فجر عمرو بن سعد اپنی فوج لیکر نکلا ادھر امام حسینؓ بھی اپنے احباب کے ساتھ تیار تھے آپکےؓ ساتھ 72 نفوسِ قدسیہ جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین شامل تھیں‘ کا قلیل لشکر تھا۔ دوسری جانب یزیدی فوج کا لشکرِ جرار تمام سامانِ حرب سے لیس تھا جس کی تعداد بائیس ہزار تھی۔ آپؓ نے جس جوانمردی سے اس لشکر کا مقابلہ کیا اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی، امام حسینؓ جس جانب رخ کرتے یزیدی فوج بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگ کھڑی ہوتی، معاملہ بہت طول پکڑ گیا اور سنگین ہوگیا، معصوم اورشیر خوار بچے اپنی جان کانذرانہ پیش کرنے لگے۔ بھوکے پیاسے نواسہ رسول میدانِ کربلا میں صبر کا پہاڑ بن کر جمے رہے اور پائے استقامت میں ذرا لرزش نہ آئی۔ یزیدی دور سے تیر برساتے رہے پھر ایک مرحلہ آیا کہ جب بدبخت شمر آپؓ کے قریب آیا تو آپؓ نے پہچان لیا کہ یہی بدبخت سفید داغ والا ہے جس کے بارے میں سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ میں (محمدؐ) اپنے اہلِ بیتؓ کے خون سے اس (بدبخت) کے منہ کو رنگا دیکھتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔
شمر لعین کے لئے بدبختی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقدر بن گئی۔ حضرت امام حسینؓ نواسہ رسول جگرگوشہ بتول تیروں سے نڈھال سجدہ میں گر گئے اور شمر لعین کی تلوار نے حضرت امام حسینؓ کے سر مبارک کو گردن سے جدا کر دیا۔ یہ یومِ عاشور 10 محرم الحرام جمعہ کا دن تھا 61 ھ میں یہ دلخراش دل سوز واقعہ پیش آیا جب حضرت امام حسینؓ مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے اور سید الشہدا کا عظیم المرتبت لقب حاصل کیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک تقریباً 55 سال تھی۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ۔ مولانا محمد علی جوہر نے کہا
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
کسی شاعر نے کیا خوب کہا:
نہ یزید کا وہ ستم رہا نہ ظلم ابنِ زیاد کا
جو رہا تو نام حسینؓ کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
ضرورت اس بات کی ہے کہ شہادتِ حضرت امام حسینؓ کے فلسفۂحقیقی اور مقصد کو سمجھا جائے اور اس سے جو ہمیں سبق اور پیغام ملتا ہے اسے دنیا میں عام کیا جائے۔
پیغام شہادتِ امام حسینؓ
سید الشہدا امام حسینؓ کی شہادت سے جو ہمیں سبق اور پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے ۔
* ایمان والا اپنے خون کا آخری قطرہ بہہ جانے تک حق و صداقت پر قائم رہتا ہے۔باطل قوتوں سے مرعوب ہو کر حق کو نہیں چھوڑتا۔
* باطل، یزیدی خصلتوں کے حامل لوگوں سے خود کو دور رکھے اور امام حسینؓ کی پیروی کرتے ہوئے رہبرِ کامل کا دامن نہ چھوڑے۔ فسق و فجور والا کام نہ کرے اور غلط لوگوں کو چھوڑ دے۔ ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے بلکہ رفقاءِ حسینؓ کی طرح وفاداری کے ساتھ رہبر کامل اکمل کا دامن تھامے رکھے۔
* ظاہری قوت کو دیکھ کر مرعوب نہ ہوجائے اور حق کا راستہ نہ چھوڑے ۔
* اسلام کا سرمایہ حیات یزیدیت نہیں بلکہ حسینیت ہے جس کا عملی نمونہ امام حسینؓ نے کربلا میں پیش کیا۔
* اسلامی طرزِ زندگی کو قائم رکھے، اسلامی رنگ و روپ کی بحالی کے لئے صداقت، حقانیت، جہدِ مسلسل اورعمل پیہم میں حسینی کردار اور حسینی جذبہ ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرے۔
* اقتدار کی طاقت جان تولے سکتی ہے مگر ایمان نہیں۔ اگر ایمان کی طاقت قوی ہوگی تو اس کے عزم و استقلال میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور یہ رہبرِ کامل اکمل کے بغیر ممکن نہیں ۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ارشاد فرماتے ہیں:
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ
دین است حسینؓ دین پناہ است حسینؓ
سر داد نداد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لاالہ است حسینؓ
آخر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت شہدائے کربلا خصوصاً سید الشہدا حضرت امام حسینؓ کے طفیل ہمیں رہبرِ کامل اکمل کی رہبری میں منازلِ طریقت اور فقر کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین