اےمسلمان سوچ ذرا
تحریر: محسن سعید سروری قادری
دینِ اسلام مسلمان کے لیے اللہ کی طرف ایک راستہ اور رابطے کا ذریعہ ہے اور اس دین پر چل کر ہی ایک مسلمان اپنے اللہ سے اپنا رابطہ بحال رکھ سکتا ہے۔ یہی دین دنیا کے تمام مذاہب سے اعلیٰ و ارفع اور کامل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد گذشتہ تمام مذاہب و ادیان کو چھوڑ کر صرف اسی دین کو اپنانے کا حکم امتِ محمدیہ کے لیے آیا اور جو لوگ اس دین کو اپناتے ہیں وہی مسلمان کہلاتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی بنیاد صرف اور صرف اللہ اور اس کے محبوب نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہی دین اسلام ہے جسے اختیار کرنے کے بعد ایک مسلمان کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ اس کے تمام احکامات کو بجا لایا جائے تاکہ مسلمان پورے کا پورا اس دین میں داخل ہوجائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃٍ ۔(البقرہ)
ترجمہ: اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔
جب تک مسلمان دینِ اسلام کو پوری طرح اپنی زندگی میں نہیں لے آتا وہ حقیقی مسلمان نہیں بن سکتا۔ دین اسلام کے احکامات اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے ہی اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔اللہ کایہ دین بہت وسیع ہے اس میں سے چند آیاتِ قرآن کے ذریعے ایک مسلمان کی پہچان سامنے رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسلمان کو دوسرے لوگوں سے افضل کیوں کہا گیا ہے اور وہ کون سے اعمال ہیں جو اگر سرانجام دئیے جائیں تو ایک مسلمان کو دیگر مذاہب کے لوگوں سے منفرد بناتے ہیں اور قرآنِ کریم کے مطابق مسلمان کی پہچان کیا ہے؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
1 ۔ مسلمان وہ ہے جو جانتا ہے کہ تمام تعریفیں درحقیقت اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔ (الفاتحہ۔1 )
2 ۔ مسلمان وہ ہے جو صرف اللہ تعالیٰ کی بندگی کرتا ہے اور صرف اسی سے ہی مدد کا طالب ہے۔ (الفاتحہ۔4 )
3 ۔ مسلمان ہمیشہ صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت کا طلب گار رہتا ہے۔ (الفاتحہ۔5 )
4 ۔مسلمان اللہ تعالیٰ پر بن دیکھے ایمان لاتا ہے ۔ نماز قائم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق میں سے خرچ کرتا ہے۔ جو کچھ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل کیا گیا اور جو ان سے پہلے نازل کیا گیا اس پر ایمان لاتا ہے آخرت پر یقین رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ اپنے ربّ کی راہنمائی میں ہوگا اور فلاح پانے والوں میں سے ہوگا۔ (البقرہ3-5:)
5 ۔ مسلمان اللہ کے عہد کو پختہ باندھ کر کبھی نہیں توڑتا۔ (البقرہ۔27)
6 ۔ جن رشتوں کو اللہ نے ملانے کا حکم دیا ہے مسلمان انہیں کبھی نہیں توڑتا۔ (البقرہ۔27)
7 ۔ مسلمان زمین میں فساد نہیں پھیلاتا تاکہ وہ نقصان اُٹھانے والوں میں شامل نہ ہو جائے ۔
8 ۔ مسلمان نماز قائم کرتا ہے زکوٰۃ دیتا ہے اور اللہ کے حضور جھکنے والوں کے ساتھ جھکتا ہے۔ (البقرہ۔83)
9 ۔ مسلمان صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے۔(البقرہ۔83)
10۔ مسلمان والدین، رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے۔ (البقرہ۔83)
11۔ مسلمان لوگوں سے احسن طریقے سے بات کرتا ہے، نماز قائم کرتا اور زکوٰۃ دیتا ہے۔ (البقرہ۔83)
12 ۔ مسلمان کو اللہ کا رنگ پسند ہے اسی کو اختیار کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اللہ کے رنگ سے بہتر کسی کا رنگ نہیں۔ (البقرہ۔138)
13۔ مسلمان اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اس کا انکار نہیں کرتا اور اسی کو یاد کرتا ہے تاکہ اللہ اسے یاد کرے۔ (البقرہ۔152)
14۔ مسلمان زمین میں سے حلال اور پاک چیزیں کھاتاہے۔ (البقرہ۔168)
15 ۔ مسلمان کبھی شیطان کے نقشِ قدم پر نہیں چلتا اور جانتا ہے کہ وہ اس کا کھلا دشمن ہے۔ (البقرہ۔169)
16 ۔ مسلمان کسی دوسرے کا مال ناحق نہیں کھاتا۔ (البقرہ۔188)
19۔ مسلمان ازدواجی تعلقات میں بھی ہمیشہ مہربانی کرتا ہے۔ (البقرہ۔237)
20 ۔ مسلمان اللہ کی اطاعت میں کھڑا رہتا ہے اپنی نمازوں اور وسطی نماز (یعنی قلبی نماز) کی حفاظت کرتاہے۔
21۔ مسلمان جانتاہے کہ اللہ ہی رزق کو روکتا اور پھیلاتا ہے اور اسے اسی کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے اس لیے وہ اللہ کو قرضِ حسنہ دیتا ہے۔ (البقرہ۔245)
22 ۔ مسلمان ہمیشہ اپنی اچھی چیزوں میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ (البقرہ۔267)
23 ۔ مسلمان جانتا ہے کہ جو اللہ کی رسی (اسم h ذات) کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے اسے سیدھاراستہ مل جاتا ہے۔ (آلِ عمران۔101 )
24 ۔ مسلمان اللہ (اسم اللہ ذات ) کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور بکھرتا نہیں ۔(آلِ عمران۔103 )
25 ۔ مسلمان ہمیشہ غصے کو ضبط کرتا ہے۔ (آلِ عمران۔134)
26۔ مسلمان لوگوں کو معاف کرنے والا ہوتا ہے۔(آلِ عمران۔ 134 )
27 ۔ مسلمان صبر کرتا ہے، جما رہتا ہے،آپس میں رابطہ رکھتا ہے اور اللہ سے ڈرتا ہے۔(آلِ عمران۔200)
28 ۔ مسلمان کو اگر یتیموں کے مال پر اختیار آجائے تو وہ ان کے مال ان کو واپس کر دیتا ہے اچھے مال کو برے مال سے بدلتا نہیں اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہیں کھاتا۔ (النساء۔2)
29 ۔ مسلمان جانتا ہے کہ اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں فرماتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرنے والا ہو۔ (النساء۔36)
یہ بڑی غور طلب بات ہے اپنی زندگی اور اپنے اردگرد نظر دوڑائیے ہر آدمی موقع ملنے پر اپنے حسب نسب، اپنی تعلیم، اپنے رنگ روپ، اپنی شان، اپنے سٹیٹس، اپنی دولت پر اپنی حد تک مغرور نظر آئے گا اور اپنی بڑائی اور اہمیت جتلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔
30 ۔مسلمان کبھی نہ خود بُخل کرتا ہے اور نہ دوسروں کو بُخل کرنے کی ہدایت کرتا ہے ۔اور جو کچھ اللہ نے اسے عطا کیا ہے اسے کبھی نہیں چھپاتا۔ (النساء۔37)
31 ۔ مسلمان کبھی اپنی پاکیزگیِ نفس کا دعویٰ نہیں کرتا۔ (النساء۔49)
32 ۔ مسلمان جانتا ہے کہ اللہ کو خیانت کار اور گناہ گار پسند نہیں اس لیے کبھی ایسا نہیں بنتا۔(النساء۔107)
33 ۔ مسلمان ہمیشہ نیک رویہ رکھتے ہوئے اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کیے رکھتا ہے۔ (النساء۔125)
34 ۔ مسلمان گناہ اور زیادتی کے کاموں میں کبھی تعاون نہیں کرتا۔ (المائدہ۔2)
35۔ مسلمان ہمیشہ اپنا رخ اس زمین و آسمان کے خالق اور پیدا کرنے والے کی طرف رکھتا ہے۔ (الانعام۔79)
36 ۔ مسلمان ظاہری اور پوشیدہ ہر طرح کا گناہ ترک کر دیتا ہے۔ (الانعام۔120)
37 ۔ مسلمان اللہ کا حکم مانتا ہے اور کبھی شیطان کے قدموں پر نہیں چلتا۔ (الانعام۔142)
38 ۔ مسلمان کسی چیز کو اللہ کا شریک نہیں بناتا۔ (الانعام۔151)
39 ۔ مسلما ن فحاشی اور بے حیائی کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس بھی نہیں پھٹکتا۔ (الانعام۔151)
40 ۔مسلمان ماپ تول انصاف کے ساتھ پورا پورا کرتا ہے۔ (الانعام۔152)
41 ۔ مسلمان اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو ضرور بالضرور پورا کرتا ہے۔ (الانعام۔152)
42 ۔ مسلمان صرف اللہ کے بتائے گئے سیدھے راستے پر چلتا ہے اور جانتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ اختیار کرے گا وہ اللہ کے راستے سے علیحدہ ہوجائے گا۔ (الانعام۔153)
43 ۔ جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے راستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہوگئے ان سے مسلمان کو کچھ کام نہیں ہوتا۔ ان کا معاملہ بس اللہ کے حوالے ہے۔
44 ۔ مسلمان یہی کہتا اور مانتا ہے کہ میری صلوٰۃ، میری قربانی (عبادت) اور میرا جینا مرنا سب اللہ ربّ العالمین کے لیے ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ (الانعام۔162)
45 ۔ مسلمان اللہ سے ڈرتا اور آپس میں صُلح رکھتا ہے۔ (الانفال۔1)
46 ۔مسلمان اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا وہ جانتاہے کہ ایسا صرف کافر کرتا ہے۔ (یوسف۔87 )
47 ۔ مسلمان جانتا ہے کہ اللہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے اس لیے وہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ (الرعد۔27,28)
48 ۔ مسلمان کبھی متکبر نہیں ہوتا یا غرور میں مبتلا نہیں ہوتا کیوں کہ ایسے لوگوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا ۔(النحل۔23)
49 ۔ مسلمان ہمیشہ انصاف کرتاہے ، احسان کرتا ہے اور رشتہ داروں کی مدد کرتا ہے۔(النحل۔90)
50 ۔ مسلمان ہمیشہ اپنی نظریں نیچی رکھتا ہے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے۔(النور۔30 )
مسلمان کی تعریف بہت وسیع اور طویل ہے۔یہ مختصر سا تعارف تھا۔ آئیے ہم بھی سوچیں کہ ہم کس طرح کے مسلمان ہیں اور ہمارا پروردگار ہمیں کس طرح کی نظر سے دیکھنا پسند کرتا ہے اور ہم مسلمان کے کس درجے پر کھڑے ہوئے ہیں۔
مسلمان ذرا سوچ کہ تیرا دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے اور تو کیا کر رہا ہے ہمارے نبی ہمارے آقا ہمارے ہادی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ:
* مَنْ عَرَف نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ۔
ترجمہ: جس نے اپنی ذات کو پہچانا اس نے یقیناًاپنے ربّ کو پہچانا۔ (حدیث)
اس حدیثِ مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کو اپنی ذات کے اندر ضرور سوچنا چاہیے تاکہ اسے اپنی پہچان ہو سکے کہ وہ اس دنیا میں آنے کے بعد اللہ کے ساتھ اپنے معاملے میں کہاں پر کھڑا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے تو انسان کو اس کی تخلیق کا مقصد واضح طور پر بیان فرما دیا ہے اللہ تعالیٰ حدیث قدسی میں فرماتا ہے کہ:
*کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْق ۔
ترجمہ: میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔
مسلمان ذرا سوچ کہ تیرے اوصاف کتنے صاف ستھرے ہیں اگر تو سچا مسلمان ہے تو تو کتنا اچھا انسان۔ مندرجہ بالا اوصاف اور خصوصیات کے مطابق تو کتنا اچھا مسلمان ہے۔ ذرا سوچ کہ اللہ نے تیرے نفس کو تیرے تابع کیا، تجھے جھوٹ سے بچایا، حسد اور بغض کو تیرے اندر سے ختم کیا، کینہ اور لالچ سے تجھے پاک کیا، تجھے دوستوں سے نفرت کرنا نہیں بلکہ پیار کرنا سکھایا، غرور اور تکبر سے پاک کر کے تجھے عاجز بنایا مسلمان ذرا سوچ کہ اللہ نے تجھے زنا سے اور دوسروں کا حق کھانے سے منع کر کے قابلِ اعتبار بنایا تاکہ لوگوں میں تیرا مقام بلند ہو۔ دنیا میں ہر چیز کو تیرے لیے مسخر کیا اور تمام مخلوق کو تیرے تابع کر دیا اگر تو قاضی ہے، تو تجھے فیصلے کا اختیار دیا اگر تو بادشاہ ہے تو پورے ملک پر تجھے حکمرانی دی۔اے مسلمان! تمام برائیوں سے پاک کر کے اللہ نے تجھے اپنی معرفت عطا کی ۔ اللہ نے صرف اور صرف تجھے ہی تمام مخلوق میں سے چن لیا اور اپنی ذاتِ مبارکہ کا کامل مظہر بنا ڈالا۔ اے مسلمان ذرا سوچ کہ تیرے جیسا اور کوئی نہیں۔ یاد رکھ کہ تو صرف اور صر ف اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مبارکہ کے لیے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ اس فانی اور جھوٹی دنیا اور تمام مخلوق کے لیے۔ اللہ کے مقابلے میں دنیا اور مخلوق کو پیار دینا بھی شرک ہے۔ اللہ کے نزدیک اس دنیا کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے اس دنیا میں زیادہ تر مسلمان وہ ہیں جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوئے اور کلمہ طیب اور دینِ اسلام انہیں وراثت میں مل گیا لیکن اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان نصیب نہیں ہوئی جس کے لیے اللہ نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا۔ ہم روایتی مسلمان تو بن گئے لیکن حقیقی مسلمان نہ بن سکے۔ عشقِ حقیقی کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن معرفتِ حق تعالیٰ سے ابھی تک انجان ہیں۔ عاشقِ رسول کے دعویدار تو ہیں لیکن عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں کامل نہیں ہیں اور حقیقتِ محمدیہ سے آج بھی انجان ہیں۔ مسلمان ذرا سوچ اور اپنی حقیقت پہچان۔ اس دنیا میں اپنے بھیجے جانے کے مقصد کو پورا کر اور اللہ کے حضور اس کے محبوب بندوں کی صف میں شامل ہو کر حاضر ہو۔
حقیقی مسلمان بننے کے لیے ضروری ہے کہ انسان باطنی طور پر باصفا ہو کیونکہ اللہ کی نظر نیت پر ہوتی ہے نہ کہ ظاہری زیب و زینت پر۔ باطن کی پاکیزگی مرشد کامل اکمل کی صحبت سے میسر آتی ہے نہ کہ کثرتِ عبادت و ریاضت سے۔
مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا در تحریک دعوتِ فقر کی صورت میں ہر عام و خاص، چھوٹے و بڑے اور مرد و خواتین کے لیے کھلا ہے۔ ہر ایک کے لیے دعوتِ عام ہے کہ تحریک دعوتِ فقر میں شمولیت اختیار کر کے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سے اسم اللہ ذات کے ذکر و تصور کا فیض حاصل کریں اور حقیقی مسلمان کے مرتبہ پر پہنچیں۔