مقصدِ شہادتِ امام حسین رضی اللہ عنہٗ
یزید ی نظریات کے حامل بدبخت لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ معرکۂ کربلا اقتدار کے لیے دو شہزادوں کی جنگ تھی۔ ان گمراہ، فاسق، منافق اور لعنتی لوگوں اور گروہوں کی پست سوچ پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ اے نادانو! عقل کے اندھو! امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کے نزدیک یہ اقتدار کی جنگ کیسے ہو سکتی ہے انہیں تو بچپن سے ہی معلوم تھا کہ کربلا کا سفر کروں گا اور وہاں مجھے جامِ شہادت نصیب ہوگا۔ انہیں تو پہلے ہی آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے معلوم ہو چکا تھا کہ میرا سر زمینِ عراق کا سفر، سفرِ شہادت ہوگا۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ یہ اقتدار کی جنگ تھی، انہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ معاذ اللہ امام عالی مقامؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمانِ مبارک پر یقین نہیں تھا۔ اگر ایسی بات نہیں ہے اور یقین ہے تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ امام عالی مقامؓ اقتدار کے لیے نہیں جا رہے تھے بلکہ وہ تو اپنے انجامِ شہادت کی طرف بڑھ رہے تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی تھی۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ ابھی بچے تھے کہ آقائے دو جہان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت امِ سلمہؓ کو اس جگہ کی مٹی عطا فرمائی جہاں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے شہادت پانا تھی۔
جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو لوگوں نے رخصت کی راہ دکھائی اور کہا کہ کوفی بے وفا ہیں وہ دھوکہ کریں گے۔ اس کے باوجود آپ کے قدم منزلِ شہادت کی طرف کشاں کشاں بڑھ رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ جانتے تھے کہ اتنی مدت کے انتظار کے بعد آج وہ مبارک گھڑی آ رہی ہے جس گھڑی میں میرے نانا جان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جوہرِ شہادت کا ظہور تمام ہونا قرار پایا ہے۔وہ خود کو خوش نصیب تصور کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے میرے جسم کو شہادتِ عظمیٰ کے لیے منتخب فرمایا ہے۔
چنانچہ سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہٗ جب میدانِ کربلا پہنچے تو آپؓ نے اپنے ساتھیوں کو بار بار کہا کہ شہادت میرا مقدر ہو چکی ہے، مجھ کو تو شہید ہونا ہے لیکن میں تم پر شہادت ٹھونسنا نہیں چاہتا۔ تم میں سے جس کسی نے جانا ہے رات کے اندھیرے میں چلا جائے مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہٗ کو معلوم تھا کہ میری شہادت مقدر کر دی گئی ہے اس لیے آپؓ نے جان دینے سے خود کو بچانے کی کوشش نہ کی۔ وہ کسی بھی لمحۂ زندگی میں بارگاہِ خداوندی میں اس انجام سے بچنے کی دعا کرتے نظر نہیں آتے بلکہ رضائے الٰہی کی تکمیل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب تو ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے کہ آپ رضی اللہ عنہٗ اقتدار کے لیے نہیں بلکہ رضائے الٰہی کے لیے میدانِ کربلا میں اترے تھے۔ اقتدار کے لیے جنگ ہوتی تو آپؓ کے ساتھ لاکھوں کے مقابلے میں صرف 72 نفوسِ قدسیہ نہ ہوتے اور ان 72 نفوسِ قدسیہ میں بھی عورتیں، بچے اور بوڑھے شامل تھے۔ آپ رضی اللہ عنہٗ اگر چاہتے تو مکہ اور مدینہ سے عظیم لشکر لے کر روانہ ہو سکتے تھے۔ لہو کو گرما دینے والی تقریروں کے ذریعے عوام کو ان کی محرومی کا احساس دلا کر اور مختلف قبائل کے سربراہان کو منصب اور عہدوں کا لالچ دے کر بڑے سے بڑا لشکر تیار کیا جا سکتا تھا مگر سوال فوج کشی کا نہیں تھا، مسئلہ یہ تھا کہ امام حسین رضی اللہ عنہٗ یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یزیدیت (اسلام کے مخالف گمراہ اصول جو شام میں رائج ہو چکے تھے) کو تسلیم کر لیں یا نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین کو برقرار رکھا جائے ۔ پھر اس لمحہ اگر آپ رضی اللہ عنہٗ خاموش رہتے اور بیعت کر لیتے تو تا قیامت خلافت و ملوکیت ، خیر و شر، حق و باطل کی تمیز مٹ جاتی اور نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ دنیا کو حق و باطل‘ نبوت و خلافت اور خلافت و ملوکیت کے فرق سے آگاہ فرمائیں، اس لیے آپؓ اور آپؓ کے ساتھی شہید ہو کر اسلام کو زندہ کر گئے اور یہی سب سے بڑی فتح تھی جس کو یزید اور اس کے ساتھی نہ سمجھ سکے اور نہ اب تک سمجھ سکے ہیں اور تاقیامت لعنت کے حقدار ٹھہرے۔