کربلا میں خواتین کا کردار–Karbala Main Khawateen Ka Kirdar


Rate this post

کربلا میں خواتین کا کردار

تحریر: مسز فائزہ سعید سروری قادری۔سوئٹزر لینڈ

10محرم کو حق و باطل کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا جس میں بظاہر باطل کامیاب نظر آیا لیکن قیامت تک کے لیے حق سر خرو ہوگیا۔ کربلا کے آخری شہید حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے فرزندِ عظیم امامِ وقت حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ تھے۔
10 محرم تک کی تاریخ تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے رقم کی اور انتہائی دلیری اور استقامت کے ساتھ دشمنانِ اسلام کا مقابلہ کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے۔ جب آپؓ اور آپکے تمام مرد اصحاب پروانہ وار اپنے امام و سپہ سالار کے نیک مقصد پر جانیں قربان کر چکے تو اس قافلے کے پسماندگان میں حضرت زین العابدینؓ کے علاوہ تمام عورتیں اور بچے باقی رہ گئے۔ ان پر مزید مشکلات و مصائب کا آغاز 11 محرم کی صبح کو ہوا جب انہیں کوفہ لے جانے کا حکم دیا گیا۔
یہاں یہ بات واضح کرتے چلیں کہ اسیرانِ کربلا کا یہ قافلہ جب سے کربلا آیا اور کوفہ والوں کی بے وفائی کا پتہ چلا تب سے لے کر جب ان پر پانی بند کیا گیا اور ان کے پیاروں کو ان کے سامنے شہید کیا گیا تب تک مسلسل اذیت ناک حالات سے دوچار رہے لیکن عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس قافلے کے صبرواستقامت میں ذرہ برابر بھی کمی نہ آئی۔ نہ ہی عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کم ہوا نہ ہی قدم لڑکھڑائے بلکہ ان کا حوصلہ بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔ آفرین ہے ان خواتین پر کہ جب ان کے اپنے بھائی، شوہر اور اولاد کو ایک ایک کر کے ان کے سامنے شہید کیا گیا اور پھر ان کے اجساد کو بے گورو کفن تپتے صحرا میں چھوڑ کر آنا پڑا تو انہوں نے مردانہ وار ان تمام مصائب کا سامنا کیا۔ ان کو بے پردہ کوفہ و شام کی گلیوں میں پھرایا گیا لیکن وہ مقصدِ شہادت نہ بھولیں نہ ہی مصیبت سے بچنے کے لیے یزید ملعون کے سامنے سر جھکایا۔ بلند ہو ان شہزادیوں اور کنیزوں کا مقام جنہوں نے نہایت ہمت و دلیری کے ساتھ مقصدِ حسینؓ کو زندہ رکھا۔
مضمون کا آغاز کرنے سے پہلے ایک بہت اہم سوال کا جواب دینا نہایت ضروری ہے۔ اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہ عنہٗ جانتے تھے کہ کربلا میں شہید کر دئیے جائیں گے تو اپنے ساتھ عورتوں اور بچوں کو کیوں لے کر گئے، تو یقین جانیئے کہ نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور فرزندِ علیؓ کا کوئی قدم بھی حکمت سے خالی نہیں، اگر امام حسین رضی اللہ عنہٗ صرف مردوں کو لے کر چلے جاتے اور عورتوں کو نہ لے کر جاتے تو پھر نتیجہ یہ ہوتا کہ حضرت امام حسینؓ اور ان کے اصحاب کو کربلا میں شہید کر دیا جاتا اور ان کی قربانی کربلا میں دفن ہو کر رہ جاتی۔ مقصدِ امام حسینؓ دنیا تک نہ پہنچ پاتا بلکہ کربلا میں ہی مقید ہو جاتا، جس مقصد کے لیے قربانی دی گئی تھی وہ مقصد فوت ہوجاتا اور لوگ اسے محض اقتدار کی جنگ ہی سمجھتے رہتے۔ اگر میدانِ کربلا میں حضرت امام حسینؓ کی شہادت کا اصل مقصد آج زندہ ہے تو انہی عورتوں اور بچوں کے طفیل جنہوں نے کربلا، کوفہ و دمشق بلکہ ہر مقام پر صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا اور سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے ہر مقام پر اپنی تقریروں کے ذریعے نڈر انداز میں عام لوگوں کے سامنے مقصدِ حسینؓ واضح کیا۔
یزید کے ذریعے قریہ قریہ شہر شہر یہ جھوٹی منادی کروا دی گئی تھی کہ کچھ خارجیوں نے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں‘ کوفہ پر حملہ کیا تھا اور ہم نے ان پر فتح حاصل کی ہے۔ ان کے تمام مردوں کو مار دیا گیا ہے اور ان کے گھر والوں کو شہر کے گلی کوچوں میں نشانِ عبرت بنا کر پھرایا جائے گا۔ ذرا غور کیجئے کہ اگر امام حسینؓ اپنے قافلے میں عورتوں کو شریک نہ کرتے تو یزید کی یہ چال کامیاب ہوجاتی اور اصل مقصدِ حسینؓ ختم ہو جاتا لیکن سیّدہ زینبؓ کی تقریروں نے عوام پر یہ بات ثابت کر دی کہ یہ جنگ اسلام کی بقا کی تھی اقتدار کی نہیں اور جنگی غیر مسلم نہیں بلکہ آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے۔ اس امر کو سیّدہ زینبؓ کی سربراہی میں باقی تمام خواتین نے بخوبی آگے بڑھایا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اگر اسلام زندہ ہے امامِ حسینؓ کی قربانی اور شہادت کی بنا پر، تو نامِ حسینؓ زندہ ہے سیّدہ زینبؓ کی قربانی و تدابیر کی بنا پر ۔
ایک اور وضاحت کرتے چلیں کہ کچھ جاہل لوگ اسے آج بھی اقتدار کی جنگ ہی کہتے ہیں۔ جان لیں کہ اقتدار ایک حاکمیت کے بھوکے کی خواہش کے سوا کچھ بھی نہیں اور خواہشیں اندوہ ناک حالات میں جب جان اور عزت داؤ پر لگ جائے، دم توڑ جاتیں ہیں لیکن عظیم مقصد اپنے اند رعظم حوصلہ اور استقامت رکھتا ہے اور عظیم مقاصد کے حامل ہی ایسی مصیبتوں کا مقابلہ کرتے ہیں جو کہ پہاڑوں کا سینہ بھی چیر دیں۔ چونکہ اس جنگ کا مقصد اسلام کو اصل ڈگر پر لانا تھا اسی لیے نہ تو کوئی مرد جان قربان کرنے سے گھبرایا اور نہ ہی ساتھ آنے والی خواتین ڈگمگائیں اور جب انہیں بے پردہ اور ننگے پاؤں کوفہ کی تپتی گلیوں میں پھرایا گیا تو اپنی مصیبتوں پر رونے کی بجائے خطبوں اور نوحہ گری کے ذریعے امام حسینؓ کے مقصد اور قربانی کو زندہ رکھنے کی کوشش میں لگی رہیں ۔ اس مضمون میں ہم کچھ خاص خواتین کا ذکر کریں گے جنہوں نے اپنے صبر اور حوصلے سے کربلا اور اس کے بعد اپنے کردار سے ایک خاص تاریخ رقم کی۔

سیّدہ زینبؓ
آپؓ حضرت علیؓ اور سیّدہ فاطمہؓ کی بیٹی تھیں۔ آپؓ کا نام رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے رکھا تھا۔ آپؓ کا نام دو الفاظ کا مجموعہ ہے زین اور اب، زین کا مطلب زینت اور اب کا مطلب باپ یعنی باپ کی زینت۔ آپؓ شکل و صورت میں حضرت علیؓ سے مشابہہ تھیں۔ آپؓ اسلام اور انسانیت کی تاریخ کا ایک روشن ستارہ ہیں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا ایک بلند مقام سے جنگ دیکھ رہی تھیں جو آج بھی ٹیلہ زینبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ جب حضرت امام حسینؓ کو شہید کر دیا گیا تو حضرت زینبؓ نے حضرت زین العابدینؓ اور باقی تمام عورتوں اور بچوں کو ایک جگہ اکٹھا کر دیا۔فوجِ یزید قتلِ عام کے بعدآگے بڑھی اور تمام خیموں کو آگ لگادی۔ نواسئ رسول ؐ تپتے صحرا میں لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ اکیلے رہ گئیں۔ تمام عورتوں اور بچوں کی ڈھارس بندھائی جبکہ اپنا سینہ دکھوں اور غموں سے نڈھال تھا۔ اس جنگ میں اپنے بھائی کے ساتھ ساتھ اپنے دوبیٹوں عونؓ اور محمدؓ کی قربانی بھی دی تھی۔ آپؓ نے جس عزمِ راسخ ، جذبۂ ایثار، ذوقِ جہاد، صبر اور استقامت کا مظاہرہ کیا اسکی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ آپؓ نے حضرت حسینؓ ابنِ علیؓ کے مقصد میں بھرپور ساتھ دیا اور شریکتہ الحسینؓ کہلائیں۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں :
حدیثِ عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسینؓ رقم کرد دیگرے زینبؓ
حضرت امام حسینؓ نے شہادت پا کر کربلا میں ایک تاریخ رقم کر دی اور پھر سیّدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کربلا سے دمشق تک کے سفر میں جا بجا تقاریر کر کے اور تمام یتیموں اور بیواؤں کا خیال رکھ کر ایک ایسی تاریخ رقم کی جس کا ایک ایک لفظ آپؓ کی ہمت اور دلیری کی دلیل ہے۔ آپؓ کے دلیرانہ خطبات نے یزید کی ناپاک حکومت کے ستون ہلا کر رکھ دئیے اور اسکو دین و دنیا میں قیامت تک کے لیے ذلیل کر دیا۔
اگر سیّدہ زینبؓ کے کردار پر نظر ڈالیں تو دو پہلو سامنے آتے ہیں:
کربلا کے لیے جو مدینے سے قافلہ چلا اس میں بھائی کے شانہ بشانہ رہیں۔ ایک بہترین مشاورت کرنے والی وزیر کا کردارادا کیا، ایک ایسی بہن جس کے سینے میں اپنے مرشد اور عظیم بھائی کی محبت پل رہی تھی۔ حضرت مسلمؓ کی شہادت کی خبر سے لے کر کر بلا کے آخری وقت تک ہر مشکل میں غمگسار دوست کی طرح ان کی ہمت بڑھاتی رہیں۔
دوسرا کردار کربلا کے بعد ادا کیا جب مصائب کا پہاڑ ٹوٹا تو آپ ایک لٹے ہوئے قافلہ کے بچاؤ کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگئیں اور ایک با ہمت سپہ سالار، لیڈر اور ایک عالمہ کا کردار ادا کیا۔ فوجِ یزید اس لٹے ہوئے قافلہ کو لے کر کوفہ کی طرف روانہ ہوئی تو سیّدہ زینبؓ کو اپنے پیاروں کے لاشوں کو بے گوروکفن تپتے صحرامیں چھوڑ کر کوفہ جانا پڑا۔
کربلا سے کوفہ کا سفر 56 میل کا ہے، یہ فاصلہ بہت سرعت سے طے کیا گیا اور 11 محرم کی شام کو اہلِ بیتؓ کا یہ عظیم قافلہ کوفہ پہنچ گیا۔ مسجد حنانہ میں شہدا کے سرِ اقدس رکھے گئے اور اہلِ بیتؓ کو مسجد حنانہ سے بے پردہ کوفہ کی تنگ گلیوں میں پھراتے ہوئے ابنِ زیاد کے محل تک لایا گیا۔ کوفہ میں پہلے ہی اعلان ہو چکا تھا کہ کچھ غیر مسلم خارجیوں نے کوفہ پر حملہ کیا اور ناکام ہوئے، ان کے اہلِ خانہ کو لایا جا رہا ہے۔ تمام شہر میں فتح کے شادیانے بجوائے جارہے تھے۔
جب سیّدہ زینبؓ محل میں تشریف لائیں تو ابنِ زیاد نے کہا کہ غور سے سنو یہ میری فتح کے شادیانے بج رہے ہیں۔ سیّدہ زینبؓ اسکی بات کو خاطر میں نہ لائیں۔کچھ ہی دیر میں اذان شروع ہوئی اور شادیانے بجنے بند ہو گئے تو سیّدہ زینبؓ کچھ یوں گویا ہوئیں ’’غور سے سن اس اذان کو، اس میں تیرے نہیں میرے اور میرے بھائی کے آباؤ اجداد کا ذکر ہے۔ تیرے یہ شادیانے عنقریب بند ہو جائیں گے اور یہ اذان ہمیشہ یونہی سنی جائے گی۔‘‘ ابنِ زیاد نے کہا ’’خدا نے تمہارے بھائی کو مارا اور تم کو رسوا کیا اور تمہارے دعویٰ کو آشکار کیا۔‘‘ تب شہزادی زینبؓ کہ جن کی آواز کسی غیر مرد نے کبھی نہ سنی ہوگی اپنے خاص رعب اور دبدبہ کے لہجے میں ایک تقریر ارشاد فرمائی ’’ شکر ہے خدا کا جس نے ہم کو بزرگی اور کرامت عطا فرمائی، اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے پاک کیا اور عنقریب فاسق ذلیل اور رسوا ہو گا۔ میں نے خدا کی جانب سے نیکی کے سوا کوئی چیزنہیں دیکھی۔ ہم اہلِ بیتؓ کے لیے اللہ نے شہادت مقدم فرمائی وہ اللہ کی راہ میں لڑے اور شہید ہو گئے۔ تجھے ایک دن ا للہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے، اس دن کے لیے تیار ہو جا۔ تو عارضی حکومت کے نشے میں چور ہے، دنیا ختم ہونے والی چیز ہے۔‘‘ شہزادی زینبؓ کی اس نڈر تقریر کے بعد کوفیوں پر اس قافلے کی حقیقت کھلی تو ابنِ زیاد کو بغاوت کا خوف محسوس ہو ا اور اس نے جلد از جلد اس قافلے کو دمشق کی طرف روانہ کیا۔ راستے میں اس قافلے نے تیس جگہ قیام کیا۔ ہر جگہ سیّدہ زینبؓ نے تقاریر کیں، کبھی اہلِ بیتؓ کی ہمت بڑھانے کے لیے توکبھی عوام الناس کو واقعہ کربلا کی حقیقت سے آگاہ کرنے کے لیے ۔
اٹھارہ دن کی مسافت کے بعد یہ قافلہ دمشق پہنچا توانہیں ایک زندان میں قید کر دیا گیا۔ اگلے دن اس قافلے کو شہر کی گلیوں سے بے پردہ گھماتے ہوئے یزید کے محل کے باہر لاکھڑا کیا گیا۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ سیّدہ زینبؓ نے اہلِ بیتؓ کے ساتھ سترہ اذانیں محل کے باہر سنیں کیونکہ جھوٹی کامیابی کے جشن کے لیے محل کو آراستہ کیا جارہا تھا۔ جب شہزادی محل میں داخل ہوئیں تو آپؓ کی چال ڈھال میں اور چہرہ مبارک پر ایک خاص رعب و دبدبہ تھا جو کہ اہلِ بیتؓ کا خاصہ تھا۔ آپؓ نے یزید کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایک کونے کا رخ کیا اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گئیں۔ جب یزید نے کہا کہ اللہ نے ہمیں تمہارے مقابلے میں عزت و کامیابی عطا کی ہے تو شہزادی زینبؓ نے ایک تاریخ ساز خطبہ دیا جس نے محل کے درودیوار ہلا کر رکھ دیئے۔
حمد و ثنا کے بعد آپؓ نے فرمایا ’’اے یزید! گردشِ افلاک اور ہجومِ آفات نے مجھے تجھ سے مخاطب ہونے پر مجبور کر دیا۔ یاد رکھ ربّ العزت ہمیں زیادہ عرصہ اس حال میں نہ رکھے گا نہ ہی ہمارے مقاصد کو ضائع کرے گا۔ تو نے ہمیں نہیں اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے۔ آہ کہ تیرے آدمیوں نے نواسۂ رسولؐ کو، اسکے بھائیوں، فرزندوں اور رفقا کو نہایت بے دردی سے ذبح کیا اور پردہ نشین خواتینِ اہلِ بیتؓ کو بے پردہ کیا۔ ہم عنقریب اپنے نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر تیرے مظالم کا ذکر کریں گے۔ وہاں شہیدوں کے چہروں کا خون اور جسموں کی خاک صاف کی جائے گی۔ وہ عادلِ حقیقی نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اولاد اور ان کے ساتھیوں کو قتل کرنے والوں سے ضرور بدلہ لے گا وہی ہماری امید گاہ ہے۔ اے یزید! تو اپنی پوری لڑائی لڑلے، سارا مکرو فریب کر لے اور اپنی ساری طاقت ہماری دشمنی میں جھونک دے مگر یاد رکھ خدا کی قسم ! تو ہمارے ذکر کو نہیں مٹا سکے گا۔‘‘
سیّدہ زینبؓ کا خطبہ سن کر یزید سکتے میں آگیا اور اسکو خطرہ ہوا کہ کہیں لوگ خاندانِ رسالت کی حمایت میں میرے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ اس نے قافلے کو فوراً مدینہ واپس بھیجنا مناسب سمجھا اور حضرت نعمان بن بشیر انصاریؓ کی زیرِ حفاظت قافلۂ اہلِ بیتؓ کو مدینہ روانہ کیا۔ واپس آکر جب سیّدہ زینب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قبر مبارک پر تشریف لائیں تو یہ الفاظ زبانِ مبارک پر جاری ہوگئے:
’’اے میرے مقدس نانا جان صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! میں آپ کے فرزند اور اپنے بھائی حسینؓ کی شہادت کی خبر لائی ہوں۔ آپ کی اولاد کو رسیوں سے باند ھ کر بے پردہ کوفہ اور دمشق کی گلیوں میں پھرایا گیا۔‘‘ پھر آپؓ اپنی والدہ محترمہ حضرت بی بی فاطمہؓ کی قبر پر تشریف لائیں اور کربلا کا تمام حال ایسے دردناک الفاظ میں بیان کیا اور اتنی گریہ وزاری کی کہ پتھروں کا کلیجہ بھی چھلنی ہو جائے۔
بے پناہ مصائب نے شہزادی زینبؓ کے دل و جگر کے ٹکڑے کر دئیے تھے۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی 62 ھ میں انہوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی اور یوں یتیمانِ اہلِ بیتؓ کی سر پرست، شہدائے کربلا کی یادگار اور دشمنوں کو عذابِ خدا سے ڈرانے والی بے مثال خطیبہ اپنے محبوب اور مظلوم بھائی سے جنت الفردوس میں جا ملیں۔

حضرت اُمِ کلثومؓ
شہزادی زینبؓ کے بعد خواتین میں سب سے اہم کردار حضرت اُمِ کلثومؓ کا تھا ۔ آپؓ سیّدہ زینبؓ کی بہن تھیں۔ بڑی بہن کی طرح آپؓ بھی بھائی کی غمگسار تھیں۔ ہر قدم پر بھائی کا حوصلہ بڑھایا اور دلجوئی کی۔ جہاں شہزادی زینبؓ تمام خواتین اور بچوں کا حوصلہ بڑھاتی اور ان کا سہارا بنتی رہیں وہاں شہزادی اُمِ کلثومؓ اپنی بڑی بہن کو سہارا اور حوصلہ دیتی رہیں۔ اہلِ بیتؓ کا حصہ ہونے کی بنا پر بہترین حکمت عملی اپنانا آپؓ کا شیوہ تھا۔ جب یزید نے یہ جھوٹی منادی کرا دی کہ یہ سب خوارجی ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تو شہزادی اُمِ کلثومؓ نے تمام عورتوں اور بچوں کو نصیحت کی کہ جیسے ہی کسی شہر میں داخل ہوں تو باآوازِ بلند قرآن کی تلاوت کرتے رہیں۔ ایسا کرنے سے لوگ جان گئے کہ یہ لوگ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ ان کے طریقہ تلاوت سے ظاہر ہوتا تھا کہ کسی اعلیٰ عربی خاندان سے ان کا تعلق ہے۔

حضرت اُمِ ربابؓ
آپؓ حضرت امام حسینؓ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ آپؓ کے بطن سے دو اولادیں تھیں، بیٹی حضرت سکینہؓ اور بیٹا حضرت علی اصغرؓ۔ آپؓ مدینے کے ایک اعلیٰ پائے کے شاعر امرو القیس کی بیٹی تھیں اور خود بہت اچھی شاعرہ تھیں۔حضرت علی اصغرؓ کی عمر واقعہ کربلا کے وقت صرف 6 ماہ تھی۔ جب ننھے حضرت علی اصغرؓ پیاس کی شدت سے نڈھال ہوگئے تو امام حسینؓ انہیں اُٹھا کر خیمے سے باہر لائے اور فرمایا کہ بچے کو تھوڑا پانی دے دو۔ فوجِ یزید کے نامراد سپاہیوں نے بچے پر تیروں کی برسات کر دی اور انہیں شہید کر دیا۔ شہزادی سکینہؓ نے باقی تمام اہلِ بیتؓ کے ساتھ کربلا، کوفہ اور دمشق تک کی صعوبتیں بہت تحمل سے برداشت کیں۔ بس اپنے بابا کو یاد کر کے بہت روتی تھیں اور آخر کار زندانِ دمشق میں مصیبتوں کی تاب نہ لاسکیں اور اپنے بابا کے پاس جنت الفردوس میں چلی گئیں۔یوں حضرت اُمِ ربابؓ نے اسلام کو زندگی دینے کے لیے اپنے سب پیاروں کو قربان کیا اور کوئی شکوہ شکایت نہ کی بلکہ کوفہ سے دمشق تک اپنے اشعار کے ذریعے نوحہ کرتی رہیں اور لوگوں پر مقصدِ حسینؓ کو بھی واضح کرتی رہیں۔ آپ نے باقی تمام زندگی دربارِ حسینؓ پر گزاردی اور جب تک زندہ رہیں دربار پر آنے والوں کو رو رو کر قصۂ کربلا اور مقصدِ حسینؓ سناتیں۔ بعض روایات میں لکھا ہے کہ آپؓ باقی زندگی کبھی سایہ میں نہ بیٹھی تھیں۔

حضرت لیلیٰؓبنت عروہ
آپؓ بھی حضرت امام حسینؓ کی زوجہ محترمہ تھیں اور آپؓ نے شہزادہ حضرت علی اکبرؓ کو جنم دیا جو کہ والد محترم کے شانہ بشانہ لڑے اور جامِ شہادت نوش کیا ۔ حضرت لیلیٰؓ بھی حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے وقت میدانِ جنگ میں موجود تھیں۔ اپنے شوہر اور بیٹے کی شہادت کے نہایت صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیا۔

حضرت فروہؓ
آپؓ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ آپؓ کے بطن مبارک سے دوشہزادوں حضرت قاسمؓ اور حضرت عبد اللہؓ نے جنم لیا۔ حضرت امام حسینؓ نے بچہ ہونے کی وجہ سے حضرت قاسمؓ کو جہاد میں حصہ لینے سے روکا تو حضرت فروہؓ خود حضرت امام حسینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور بیٹے کو جہاد میں بھیجنے کی سفارش کی جو کہ قبول کر لی گئی اور آپؓ کے دونوں بیٹوں نے بھی شہادت کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا۔ کربلا کے بعد آپؓ نے بھی تمام لوگوں کا بہت خیال رکھا اور شہزادیوں کے شانہ بشانہ مصائب کا مقابلہ کیا۔

حضرت فضہؓ
جب مظلومانِ کربلا کا یہ عظیم الشان قافلہ کوفہ کی گلیوں سے گزر رہا تھا تو ایک خاتون نے اپنے گھر سے چادریں، کھجوریں اور بھی کافی سامان ان کی خدمت میں پیش کیا۔ سیّدہ زینبؓ نے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہ سامان ہمیں کیوں دے رہی ہو؟ تو اس نے کہا ’’میرا نام فضہ ہے۔ میں شہزادی فاطمۃ الزہرہؓ کی خدمت گزار تھی۔ ان کی وفات کے بعد مدینہ میں دل نہ لگا تو یہاں آگئی۔ میں نے ان کو اور حضرت علیؓ کو ہمیشہ قیدیوں کی مدد کرتے دیکھا۔ آپؓ کے قافلے کو دیکھ کر ان کی یاد آگئی تو میں نے اپنے مالکان کا عمل دہرایا۔‘‘ شہزادی زینبؓ نے اس سے پوچھا ’’جانتی ہو ہم کون ہیں؟‘‘ اس نے کہا نہیں، تو آپؓ نے فرمایا ’’مَیں اسی شہزادی فاطمۃ الزہرہؓ کی بیٹی ہوں۔ جو سر نیزے پر ہے وہ انہی کے بیٹے امام حسینؓ کا ہے اور جو قیدی ہیں یہ انہیں کا کنبہ ہے۔‘‘ اس پر فضہؓ تڑپ کر رہ گئیں خوب روئیں، سینہ کوبی کی اور پھر کوفہ سے واپس مدینہ تک آپؓ نے قافلے کا ساتھ نہ چھوڑا اور شہزادیوں کی خوب خدمت بھی کی ۔

حضرت فاقیہاؓ
آپ حضرت اُمِ ربابؓ کی خاص خادمہ تھیں۔آپؓ کے بیٹے جناب قارب نے جہاد میں شرکت کی اور شہید ہوئے لیکن آپؓ نے رونے دھونے کی بجائے خدا کر شکر ادا کیا اور اپنا غم بھلا کر تمام سفر کے دوران اہلِ بیتؓ کی بہت خدمت کی۔
حضرت امام حسینؓ کی کربلا میں آمد اور شہادت سے قبل حضرت مسلم بن عقیلؓ کوفہ میں تشریف لائے تھے جہاں اہلِ کوفہ نے ابنِ زیاد کے خوف سے ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں چند خواتین ایسی تھیں جنہوں نے مردانہ وار حضرت مسلم بن عقیلؓ اور ان کے رفقا کی حتی الامکان مدد کی۔ ان میں سے چند کے نام اور ان کا کردار تحریر کیا جا رہا ہے:

حضرت طاؓ
حضرت ہانی بن عروہؓ کی شہادت کے بعد حضرت مسلم بن عقیلؓ کو فہ میں تنہا رہ گئے تھے۔ کوفہ کی فوج حضرت مسلم بن عقیلؓ کو شہید کرنے کے لئے ڈھونڈ رہی تھی۔ جب آپؓ چلتے چلتے تھک گئے تو ایک دروازے کے آگے بیٹھ گئے۔ ایک بوڑھی عورت گھر سے باہر آئی اور اس نے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ آپؓ نے اس عورت کو بتایا کہ کوفیوں کے بلانے پر میں نائبِ امام حسینؓ بن کر آیا تھا لیکن اب سب نے مجھے تنہا چھوڑ دیا اور میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ۔یہ بوڑھی عورت حضرت طاؓ تھیں جن کابیٹا ابنِ زیاد کی فوج میں تھا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ ابنِ زیاد نے اعلان کروایا ہے کہ جس نے ان کی مدد کی اس کا انجام برا ہوگا اہلِ بیتؓ کی محبت میں ڈوبی یہ بوڑھی عورت حضرت مسلم بن عقیلؓ کو گھر لے آئی اور ان کی خدمت کی۔حضرت طاؓ کو یہ خوف تھا کہ اگر ان کا بیٹا آگیا تو وہ حضرت مسلم بن عقیلؓ کو ساتھ لے جائے گا اسی لیے آپ نے ساری رات جاگ کر گزاری۔ جو کام کوفہ کے مرد کرنے سے ڈر رہے تھے وہ کام اس بوڑھی عورت نے کر دکھایا لیکن بعد میں مخبری ہوگئی اور حضرت مسلم بن عقیلؓ کو قید کرلیا گیا اور بعد ازاں شہید کر دیا گیا۔

روایہ زوجہ ہانی بن عروہ اور زوجہ معصمِ تمار
جب ابنِ زیاد نے یزید کے شیطانی کھیل میں اسکا ساتھ دیتے ہوئے کوفہ کی باگ ڈور سنبھالی تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ کوفہ کے لوگوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا جس کی بنا پر بزدل اور ڈرپوک کوفیوں نے حضرت امام حسینؓ کا ساتھ دینے کی بجائے گھروں میں چھپ جانا ہی بہتر سمجھا۔ ابنِ زیاد نے جناب مسلم بن عقیلؓ، جناب ہانی بن عروہ اور جناب حنظلہؓ جو حضرت امام حسینؓ کے ساتھی تھے‘ کو حضرت امام حسینؓ کے کوفہ میں آنے سے پہلے ہی شہید کر دیا اور حکم دیا کہ ان کے اجسام کو بغیر کفن کے ایک کھلے میدان میں ڈال دیا جائے تاکہ یہ نشانِ عبرت بنیں۔ کسی کوفی میں ہمت نہ تھی کہ ان کے کفن دفن کا بندوبست کرتا۔ اس وقت یہ دوخواتین جناب روایہ زوجہ ہانی بن عروہ اور زوجہ معصم تمار ‘جو کہ پڑوسن بھی تھیں‘ رات کے اندھیرے میں گھروں سے نکلیں میدان سے تینوں شہیدوں کی لاشوں کو اُٹھایا اور مسجدِ کوفہ سے کچھ فاصلے پر لے جاکر دفنا دیا۔
یہاں صرف چند خواتین کا ذکر کیا گیا ہے لیکن قافلے میں موجود تمام خواتین نے صبر کا جو مظاہرہ کیا وہ قابلِ دید تھا اور مصائب سے گھبر اکر ان میں سے کسی کے قدم نہ لڑکھڑائے۔ ان مصائب سے بچنے کے لیے کسی نے بھی یزید نامراد کو حکمران ماننا گوارا نہ کیا بلکہ اپنی ہمت اور عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ یہ تمام لوگ خاص الخاص عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں اپنے گھروں سے نکلے اور دینِ محمدی کو پھیلانے کے سوا کوئی مقصد نہ رکھتے تھے۔


اپنا تبصرہ بھیجیں