امیر الکونین- Ameer-ul-Konain

Spread the love

Rate this post

امیر الکونین

قسط نمبر8

فقرا خدا کے ساتھ ہوتے ہیں اور فقرا وہ مومن ہیں جو باادب اور باحیا ہوتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْحَیَآءۡ مِنَ الْاِیْمَانِ۔
ترجمہ: حیا ایمان سے ہے۔
اسی (حیا) کو جمعیتِ کل کہتے ہیں۔ بے حیا لوگ طلبِ دنیا رکھتے ہیں اور اس بنا پر ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ اس کو مکمل اور سراسر جہالت کہتے ہیں۔ اگر تو آئے تو دروازہ کھلا ہے۔لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اگر نہ آئے تو اللہ بے نیاز ہے۔
اَلْاِسْلَامُ حَقٌ وَّ الْکُفْرُ بَاطِلْ۔
ترجمہ: اسلام حق ہے اور کفر باطل ہے۔
جو لوگ باطل کی طلب کرتے ہیں وہ سب عجیب و احمق ہیں کیونکہ مراتبِ توحیدِ حق اور فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو چھوڑ کر مرتبۂ دنیا جو فخرِ فرعون ہے، کو اختیار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو انسان کیسے کہا جا سکتا ہے یہ تو حیوانات سے بھی بدتر ہیں۔ اے جانِ عزیز، صاحبِ دانش و شعور! قبرستان کو دیکھ اور اہلِ قبور کے احوال سے واقفیت حاصل کر کیونکہ کچھ عرصہ بعد تو نے بھی زیرِ زمین ہونا ہے۔ اللہ کی معرفت اور وصال حاصل کر کیونکہ اَلْوَقْتُ سَیْفُ قَاطِعٌ  ترجمہ: وقت کاٹ دار تلوار ہے‘جو عمر اور زندگی کو کاٹ رہی ہے اس لیے اگر تو سمجھتا ہے تو فرصت کو غنیمت جان۔ اور اگر نہیں سمجھتا تو حقیقت یہی ہے کہ آخر تو نے مرنا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
*کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ۔ (آلِ عمران۔185)
ترجمہ: ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
خدا کے اس فرمان کو یاد رکھ اور اس کی فرمانبرداری کر۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
جَمُوْدُ الْعَیْنِ مِنْ قَسْوَۃِ الْقَلْبِ وَ قَسْوَۃِ الْقَلْبِ مِنْ اَکْلِ الْحَرَامِ وَ اَکْلِ الْحَرَامِ مِنْ کَثْرَتِ الذَّنُوْبِ وَکَثْرَۃِ الذَّنُوْبِ مِنْ طُوْلِ الْاَمْلِ وَ طُوْلِ الْاَمْلِ مِنْ نِّسِیَانِ الْمَوْتِ وَنِسِیَانِ الْمَوْتِ مِنْ حُبِّ الدُّنْیَا وَحُبُّ الدُّنْیَا رَاسُ کُلُّ خَطِیْئَۃٍ۔
ترجمہ: آنکھ کا نہ رونا قلب کی سختی کے باعث ہے اور دل کی سختی حرام رزق کی وجہ سے ہے اور حرام رزق گناہوں کی کثرت کے سبب ہے اور کثرتِ گناہ طویل امیدوں کی وجہ سے ہے اور طویل امیدیں موت کو بھول جانے کی بنا پر قائم ہوتی ہیں اور موت کو بھول جانے کا سبب حبِ دنیا ہے اور حبِ دنیا ہر برائی کی جڑ ہے۔
جس کسی کے وجود کے ساتوں اندام تصور اسمِ اللہ ذات سے پاک ہوں اسے اوّل و آخر محاسبہ کا کیا ڈر۔ اے اہلِ ہوس! یہ مراتبِ اولیا ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
*اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔(یونس۔62)
ترجمہ: خبردار! بے شک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ کوئی غم۔
ابیات:

گاہ ابتدا گاہ انتہا دل درمیان ہشیار شد
در یکدمی صد بار پنجاہ معرفت دیدار شد

ترجمہ: اولیا (باطنی طور پر) کبھی ابتدائی مقام پر ہوتے ہیں اور کبھی انتہائی مقام پر‘ لیکن دونوں مقامات پر ان کا دل ہوشیار ہوتا ہے اور ایک لمحہ میں انہیں ایک سو پچاس بار دیدار حاصل ہوتا ہے۔

آتشِ دیدار سوزد ہمچو چوبے خشک را
این ریاضت اولیا را شد نصیبی از خدا

ترجمہ: آتشِ دیدار انہیں خشک لکڑی کی مانند جلاتی ہے۔ یہ ریاضت اولیا کو حق تعالیٰ کی جانب سے نصیب ہوتی ہے۔

نیست آنجا نفس شیطان نیست دنیا دون زشت
نیست آنجا ازل و ابد نیست حورو نہ بہشت

ترجمہ: جس مقام پر اولیا کو دیدار حاصل ہوتا ہے اس مقام پر نہ نفس و شیطان ہیں اور نہ کمینی دنیا۔ اور نہ ہی اس جگہ ازل و ابد ہیں اور نہ حور و بہشت۔

نیست منزل نہ مقام و نیست کونین و مکان
بیمثل باہوش بینم و باقرب او در لامکان

ترجمہ: اس مرتبہ پر نہ منزل و مقام ہیں نہ کونین و مکان۔ میں باشعور رہ کر بے مثال ذاتِ حق تعالیٰ کا دیدار کرتا ہوں اور لامکان میں اس کے قرب میں ہوتا ہوں۔

نیست آنجا ذکر و فکر و نیست ورد و ثنا
غرق فی التوحید گشتم شد حضوری باخدا

ترجمہ: اس مرتبہ پر نہ ذکر و فکر ہیں اور نہ ورد و ثنا۔ اس مقام پر میں توحیدِ حق میں غرق ہو کر حق تعالیٰ کی حضوری میں پہنچ گیا ہوں۔

در حضوری کس نہ گنجد طالبا دیدار ببین
این مراتب طالبان را شد نصیبی بالیقین

ترجمہ: اے طالب! حضورِ حق میں اللہ اور طالب کے درمیان کوئی نہیں ہوتا۔ تو بس اس کا دیدار کر۔ یہ مراتب طالبانِ مولیٰ کو یقین سے حاصل ہوتے ہیں۔

باھوؒ با یاھُو یقین حق الیقین را خوش نگر
این مراتب عارفان کاملان صاحبِ نظر

ترجمہ: باھُوؒ نے ذکرِ یاھُو سے یقین حاصل کر لیا ہے اس لیے وہ حق الیقین سے اللہ کو دیکھتا ہے۔ یہ مراتب ان کامل عارفین کے ہیں جو صاحبِ نظر ہیں۔
اے کاذب طالب اور نفس کے مطالب حاصل کرنے والے اور اے مکھی کی مثل ناقص مرشد سن! معرفتِ حق کی شرح اور معرفتِ باطل کی شرح میں کیا فرق ہے؟ معرفت کے بارہ طریق ہیں جنہیں بارہ قسم کی توفیق سے حاصل اور بارہ طریقے سے تحقیق کیا جا سکتا ہے۔ عالمِ معرفت عارف طالبِ معرفت کو بارہ روز میں مکمل معرفت سکھا دیتا ہے۔ سب سے پہلے یہ جاننا چاہیے کہ معرفت و علمِ معرفت عالمِ معرفت کے سوا کوئی نہیں سکھاتا۔ ایسے عالم کو عالم باللہ کہتے ہیں۔ معرفت علم ہے اور اس کے عالم کو عارف کہتے ہیں۔ علمِ معرفتِ قلب کا عالم عارفِ قلب ہوتا ہے، علمِ معرفتِ نفس کا عالم عارفِ نفس ہوتا ہے، علمِ معرفتِ روح کا عالم عارفِ روح ہوتا ہے اور علمِ معرفتِ سرّ کاعالم عارفِ سرّ ہوتا ہے اور علمِ معرفتِ مخلوق کا عالم عارفِ مخلوق ہوتا ہے۔ علمِ معرفتِ شیطان کا عالم عارفِ شیطان ہوتا ہے، علمِ معرفتِ جن کا عالم عارفِ جن ہوتا ہے اور علمِ معرفتِ مؤکل اور فرشتوں کا عالم عارفِ مؤکل و فرشتگان ہوتا ہے۔ علمِ معرفتِ ذکر فکر کا عالم عارفِ ذکر فکر ہوتا ہے۔ علمِ معرفتِ ورد وظائف کا عالم عارفِ ورد وظائف ہوتا ہے اور علمِ معرفتِ دعوت، تلاوت، حفظِ قرآن کے لیے عالم عارفِ دعوت و تلاوت اور حافظِ قرآن ہے اور علمِ معرفتِ ربانی فنا فی اللہ کا عالم عارفِ ربانی فنا فی اللہ ہوتا ہے۔ علمِ معرفتِ فنا فی اسمِ محمد کا عالم عارف فنا فی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہوتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دائمی حضوری سے مشرف ہوتا ہے۔ علمِ معرفتِ فنا فی الشیخ کے لیے عالم عارفِ فنا فی الشیخ ہے جس کے لیے شرط یہ ہے کہ شیخ کے روپ میں شیطان نہ ہو۔ ایسے شیخ کا تصور بت پرستی ہے۔ فنا فی الشیخ عارف وہ ہے جو صورتِ شیخ کے تصور سے غرق فی التوحید اور معرفتِ الٰہی حاصل کر کے ہر پریشانی سے نجات حاصل کر لے۔ غوث و قطب کے مراتب کے علمِ معرفت کے لیے عالم اور عارف غوث و قطب کے مراتب کا حامل ہوتا ہے جو عرش سے تحت الثریٰ تک تمام طبقات کی سیر کرتا ہے۔ علمِ معرفتِ تصدیق کے لیے عالم عارف باتوفیق صاحبِ تصدیق ہوتا ہے جو باایمان مومن و حقیقی مسلمان ہوتا ہے۔ علمِ معرفتِ ازل کے لیے عالم عارفِ ازل اور علمِ معرفتِ ابد کے لیے عالم عارفِ ابد ہوتا ہے۔ علمِ معرفتِ عقبیٰ کے لیے عالم عارفِ عقبیٰ اور علمِ معرفتِ دنیا کے لیے عالم عارفِ دنیا ہوتا ہے۔ اگر کوئی دنیا میں مقامِ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا (مرنے سے قبل مر جاؤ) چاہتا ہے اسے دائمی لقا سے مشرف کیا جاتا ہے۔ معرفت اور موت دونوں جڑواں بھائی ہیں جو عالم باللہ عارف کے بال و پر کی مانند ہیں۔ جاننا چاہیے کہ اگر کسی کو ظاہری طور پر تصرف، توجہ اور نظر کی باتاثیر توفیق حاصل نہیں تو اسے باطن میں معرفت و فقر کی تحقیق حاصل نہیں ہوتی۔ اور جس کسی کو باطن میں تحقیق کے مراتب حاصل ہوں اسے ظاہر میں ہر تصرف کی تحقیق حاصل ہوتی ہے اگرچہ وہ تصرف مال و دولتِ دنیا پر ہو یا روحانی توجہ پر۔ ایسا انسان عارف ہوتا ہے احمق لوگ ہر کسی کو عارف سمجھتے ہیں اگرچہ وہ مکمل طور پر باطنی مشاہدہ اور معرفت سے بے خبر ہو۔

عارفان را میشناسم و ز فنا
کی بود این عارفان بی حیا

ترجمہ: میں عارفین کو ان کی فنا کے مراتب سے پہچانتا ہوں یہ بے حیا لوگ عارفین کیسے ہو سکتے ہیں۔

ابتدائے عارف مراتب اولیا
انتہائے عارف مشرف بالقا

ترجمہ: عارفین کی ابتدا مراتبِ ولایت ہیں اور عارف کی انتہا وصالِ الٰہی سے مشرف ہونا ہے۔
جملہ احوال کے ہزار دفاتر ایک نکتہ میں سما جاتے ہیں اور وہ نکتہ ہے مرشد کامل اکمل۔ عارف و فقیر اولیا اللہ کے لیے اللہ سے وصال کے لیے دو عمل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ دعوت کے عامل ہوں دوم معرفت میں کامل ہوں۔ بیت:

دعوت از یکدم برآید عامل است
باتوجہ برد حاضر کامل است

ترجمہ: جس کی دعوت ایک دم میں جاری ہو جائے وہ عامل ہے اور جو توجہ سے (طالب کو) حضوری میں لے جائے وہ کامل (مرشد) ہے۔
ایک دم میں جاری ہونے والی دعوت کی شرح یہ ہے کہ تصرف، تصور، توجہ، تفکر سے حبسِ دم کر کے ایک ہی دم میں دعوت پڑھنے والا مقامِ ازل میں انبیا و اولیا اللہ کی صف میں پہنچ جائے اور اسی طریق سے وہ مقامِ ابد و مقامِ دنیا و مقامِ عقبیٰ و مقامِ لاھوت میں پہنچ سکتا ہے پھر اسی ایک دم میں توفیقِ الٰہی سے ہر مومن و مسلمان کی روح سے ملاقات کر سکتا ہے اور انہیں اپنا رفیق بنا کر مجلسِ محمدی کی حضوری میں التماس کرتا ہے اور مشکل کاموں کو آسان بنانے کی درخواست کرتا ہے اور کام کی منظوری کے بعد ایک دم میں حضوری سے باہر آجاتا ہے۔ یہ ہے دعوتِ قبور جو اللہ کا قرب عطا کرتی ہے۔ کامل اسے کہتے ہیں جو نظر کے ساتھ طالبِ مولیٰ کو اس مقام پر پہنچائے اور توجہ سے ہر کام کو آسان بنا دے۔ اور کامل اسے کہتے ہیں کہ اگر کوئی کسی بھی جگہ پر اسے یاد کرے تو نفسانی وجود یا قلبی وجود یا روحی وجود یا سرّی وجود یا نوری وجود کے ساتھ اس کے پاس حاضر ہو جائے اور توفیقِ الٰہی سے اس کی مدد کرے۔ جو کوئی ان صفات کا حامل نہیں ہوتا وہ کامل نہیں بلکہ وہ زیرِ بار سواری کی مثل طالبوں کا بوجھ اٹھانے والا گدھا ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔
جان لو کہ معرفت کا گواہ کون ہے اور عارف کے لیے کونسا راہ ہے؟ معرفت کا گواہ قربِ الٰہی ہے اور عارف کے لیے راہ حضوری ہے جس میں اس کی نگاہ دیدارِ الٰہی پر ہوتی ہے اور وہ ہر طریقۂطریقت سے آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ سلطان العارفین کے مراتب ہیں جو دونوں جہان میں فقر کے بادشاہ ہیں۔ ہر وہ شخص معرفت جانتا ہے جس نے حضوری سے دیدار اور قربِ الٰہی کی لذت چکھی ہو اور اپنی آنکھوں سے ہر شے کو عین دیکھتے ہوئے معرفت تک پہنچ گیا ہو۔ راہِ معرفت گفتگو اور سوال پوچھنے میں نہیں بلکہ دیدار میں ہے۔ عارف کی آنکھ دائمی دیدار پر ہوتی ہے۔ دیدارِ الٰہی کے سوا کچھ دیکھنا اس کے نزدیک مردار ہے۔ یہ عجیب احمق لوگ ہیں جو مراتبِ مردار پر ہوتے ہیں جبکہ دعویٰ کرتے ہیں معرفت اور دیدار کا۔ اس کے علاوہ عارف کا گواہ یہ ہے کہ اس کا طالب روزِ اوّل ہی عارف ہو جاتا ہے اور مرتے دم تک ذکر، فکر اور ورد و وظائف کے لیے اپنے ہونٹ نہیں کھولتا اور نہ ہی کسی قسم کا علمِ ظاہر پڑھتا ہے کہ علم سے عُجب اور خواہشاتِ نفسانی پیدا ہوتی ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانَہٗ۔
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔
اور اگر عارف لب کھولتا ہے تو ایک ہی لفظ میں طالب کو ابتدا اور انتہا کے مطالب تک پہنچا دیتا ہے۔ عارفِ نفس بہت ہیں عارفِ قلب بے شمار ہیں اور عارفِ روح خدا کی طرف سے نشانی ہیں لیکن ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی عارف ہوتا ہے جسے مشاہدۂ نور، حضوری اور دیدار حاصل ہو۔ میرا یہ قول میرے حال کے عین مطابق ہے۔وَ کَفٰی عِلْمِہٖ بِحَالِیْ ترجمہ: ’’اور اس کا علم ہی میرے حال کے لیے کافی ہے‘‘۔

شرح معرفت

کسی کو معرفت تب تک حاصل نہیں ہوتی اور نہ کوئی عارف بنتا ہے جب تک باطن میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دے کر اور اسے بیعت فرما کر تلقین و ارشاد نہ کریں۔مرشد کی کاملیت کی پہلی نشانی ہی یہ ہے کہ طالبِ مولیٰ کو باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تلقین دلائے۔ طالب پر لازم ہے کہ اسے ہی اپنا مرشد سمجھے کیونکہ وہ مرشد کامل اکمل ہے۔ جو مرشد اس صفت سے متصف نہیں ہوتا اس ناقص مرشد سے تلقین لینا طالب پر حرام ہے۔ وہ علم کونسا ہے کہ جملہ علم علوم، رسم رسوم، حیّ قیوم ذات تک پہنچنے کا علم، علمِ توریت ‘ انجیل‘ زبور، علمِ قرآن اور علمِ احادیثِ نبوی و قدسی اور علمِ لوحِ محفوظ، کل مخلوقات کی زبان کا علم اس علم کے ایک ہی نکتۂ قال میں پائے جائیں۔ وہ نکتۂ قال کونسا ہے؟ وہ نکتۂ قال کُن ہے۔ جو نکتۂ قال کن کو اس کی کنہ سے جانتا ہے اسے کوئی علمِ ظاہر و باطن پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ علم نکتۂ کن کہ اگر حاصل ہو جائے تو تمام علم اس ایک ہی سخن میں آجاتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْعِلْمُ نُکْتَۃٌ وَّکَثْرَتُہَا لِلْجُہَالِ۔
ترجمہ: علم ایک نکتہ ہے اور اس کی کثرت جاہلوں کے لیے ہے۔
تمام ذکر فکر نکتۂ حال میں ہیں۔ ذکر فکر اسے کہتے ہیں جو روحانی احوال اور حضورِ حق سے مشرف کر دے۔ حضوری کے بغیر اگر کسی کو ذکر فکر سے جو بھی احوال حاصل ہوتے ہیں وہ محض خام خیال ہیں۔ تمام مراتبِ معرفت روحانی احوال میں سے گزرنے سے حاصل ہوتے ہیں جو طالب کو جمعیت بخشتے ہیں اور اس کے ساتھ بے مثل و لازوال ذوالجلال ذات کے حسن و جمال کا مشاہدہ بخشتے ہیں۔ مرشد کامل‘ طالبِ صادق کو پہلے ہی روز علمِ کن کا سبق دے دیتا ہے اور جو طالب علمِ کن پڑھنے سے عالم بن کر روزِ اوّل ہی تمام علما پر غالب آجائے اس کے ظاہری و باطنی وجود کے تمام اعضا نور بن جاتے ہیں۔ اسی علمِ کن سے طالبِ مولیٰ کو تمام دینی و دنیاوی مطالب حاصل ہوتے ہیں۔ ذکر فکر سے حو روحانی احوال حاصل ہوتے ہیں اس سے مشاہدہ، حضوری، معرفت اور جمعیت عطا ہوتی ہے اور ان احوال سے عین وحدت کا دیدار نصیب ہوتا ہے اور طالب توحید میں غرق ہو کر اللہ کے قرب و جمال اور حضوری کا نظارہ کرتا ہے۔ یہ وہ راہ ہے جس میں طالب اللہ کے قرب سے دستِ بیعت اور تلقین و ارشاد کے مراتب تک پہنچ جاتا ہے اور دونوں جہان اس کے غلام ہوتے ہیں اور عارف فقیر بن کر کونین پر امیر بادشاہ ہوتا ہے۔ بیت:

اگر بخواہی خوش حیاتی طلب کن مرشد ز کن
از کنہ کن جملہ حصولت بس ترا ازین یک سخن

ترجمہ: اگر تو خوشگوار زندگی کا طلبگار ہے تو مرشد سے کن کا علم طلب کر۔اس لفظ کن کی حقیقت تک پہنچنے سے ہی تمام مطالب حاصل ہوتے ہیں۔
مرشد کامل جو کن کی طاقت کا حامل عارف ہو اس کے سامنے تو اپنا مال اور تن من قربان کر دے۔ اور اگر تو دیکھے کہ اس میں مال و دولت کی ہوس غالب ہے تو وہ مرشد ناقص ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ مرشد نامرد ہے اور اس کے پاس توجہ، تصور، تصرف اور تفکر کی طاقت نہیں اور نہ ہی اسے توفیقِ الٰہی حاصل ہے۔ طالب کو اس سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔ اس مرشد کا باطن درست ہوتا ہے جو طالبِ مولیٰ کو باطن میں مجلسِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف کر کے اللہ کی ذات میں غرق کرتا ہے اور معرفتِ الٰہی عطا کرتے ہوئے اللہ کی نظر میں منظور کراتا ہے۔ طالب اس وقت معرفت اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تحقیق کر سکتا ہے۔ جب وہ جنات، خناس، خرطوم، تمام شیطانی وساوس اور نفس کی پریشانی سے نجات حاصل کر لیتا ہے تب اسے مکمل عقل اور شعور کے ساتھ حضوری حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت طالب باطن کو اس کے احوال سے پہچانتا ہے۔ خاص و عام اور حق و باطل کی تحقیق کرتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
خُدْ مَا صَفَا وَ دَعْ مَا کَدَرَ۔
ترجمہ: صاف کو اختیار کرو اورکثیف کو چھوڑ دو۔
بیت

این چنین دعوت کسی عامل تمام
طالبان را میرساند ہر مقام

ترجمہ: اس طرح کی دعوت کا اگر کوئی مکمل عامل ہو جائے تو وہ طالبوں کو ہر مقام تک پہنچا سکتا ہے۔
ان مراتبِ دعوتِ زبانی(زبان سے پڑھی جانے والی دعوت )، دعوتِ قلبی (قلب سے پڑھی جانے والی دعوت)، دعوتِ روحی(روح سے پڑھی جانے والی دعوت)کا سبق مرشد کامل پہلے ہی روز جمعیت کی خاطر دیتا ہے جس سے طالب جملہ مقصود اور مطالب پا کر لایحتاج ہو جاتا ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ یہ نفس پر غالب فقیر کے مراتب ہیں۔ جس کسی نے دولت و عزت، کرامت و شرف، گنج، حلم و علم و حکمت اور جمعیت و مراتب اور منصب، معرفتِ توحید اور بادشاہی پائی اللہ کے فقیر سے ہی پائی۔ فقیر اللہ کے تمام خزانے اور درجات اور ان پر تصرف معرفتِ الٰہی اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کواپنا رفیق، وسیلہ اور پیشوا بنا کر حاصل کرتا ہے۔ یہ فقیر ولی اللہ اہلِ ذات کی ذمہ داری ہے کیونکہ فقیر نے فقر کے مرتبہ مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا پر پہنچ کر ابدی حیات حاصل کر لی ہوتی ہے اور مراتبِ ِ موت فقیر کے لیے حیات ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
*یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَ یُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ۔ (یونس۔31)
ترجمہ: وہ (اللہ) زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے۔(جاری ہے)


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں