Kaleed-ul-Tauheed Kalan

کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


2.5/5 - (2 votes)

کلید التوحید (کلاں)
(Kaleed ul Tauheed Kalan)

قسط نمبر 3
مترجم: احسن علی سروری قادری

مدحت حضرت پیر دستگیرؓ

شفیعِ اُمت سرورؐ بود آں شاہ جیلانیؓ
تعال اللہ چہا قدرت خدایش داد ارزانی

ترجمہ: شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ (Sheikh Abdul Qadir Jillani) سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) کی امت کے شفیع ہیں۔ اللہ بزرگ و برتر نے انہیں کس قدر عظیم قدرت عطا کی ہوئی ہے۔

سکندر می کند دعویٰ کہ ہستم چاکر آن شاہ
افلاطون پیشِ علم تو مقر آمد بہ نادانی

ترجمہ: سکندر بھی آپؓ (Sheikh Abdul Qadir Jillani)  کا غلام ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور افلاطون بھی آپؓ کے علم کے سامنے اپنی لاعلمی کا اقرار کرتا ہے۔

کلاہ دارانِ ایں عالم گدایان گدائے تو
ترا زیبد‘ ترا زیبد کلاہ داری و سلطانی

ترجمہ: جہاں بھر کے تاجدار آپؓ کے (در کے) گداؤں کے بھی گدا ہیں۔ آپؓ کی شان کیا ہے؟ جہاں بھر کی تاجداری اور سلطانی آپؓ کی شان ہے۔

گدا سازی اگر خواہی بیک دم بادشاہان را
گدایاں را دہی شاہی بیک لحظہ بہ آسانی

ترجمہ: اگر آپؓ چاہیں تو ایک لمحے میں بادشاہوں کو بھی گدا بنا سکتے ہیں اور گداؤں کو ایک لحظہ میں بآسانی بادشاہی سے نواز سکتے ہیں۔

گدائے درگہت خاقان غلامِ حضرتت قیصر
چہ عالیشان سلطانی اَلَا ای غوثِ ربّانی

ترجمہ: خاقان آپؓ کی درگاہ کا گدا اور قیصر آپؓ کا غلام ہے۔ اے غوثِ ربانیؓ! آپ کی عالیشان سلطانی کی کیا ہی بات ہے!

بایں حشمت بایں عظمت بایں شوکت بایں قدرت
نبود است و نخواہد بود الحق مثل تو ثانی!

ترجمہ: آپؓ جیسی حشمت، عظمت، شوکت اور قدرت نہ کسی کی تھی اور نہ ہوگی اور نہ آپؓ کی مثل کوئی دوسرا ہوگا۔

چہ ناسوتی چہ ملکوتی چہ جبروتی چہ لاھوتی
ہمہ در زیر پائے تو چہ عالی شان سلطانی

ترجمہ: آپؓ کی کیا عالیشان سلطانی ہے کہ سب آپؓ کے قدموں تلے ہیں چاہے اس کی رسائی عالمِ ناسوت تک ہو یا ملکوت، جبروت یا لاھوت تک۔

حقیقت از تو روشن شد طریقت از تو گلشن شد
سپہر شرع را ماہی زہی خورشید نورانی

ترجمہ: حقیقت آپؓ سے روشن ہوئی اور طریقت آپؓکی بدولت گلشن بنی۔ آپؓ نورِ حق کے سورج اور آسمانِ شریعت کے چاند ہیں۔

ز باغ اصفیا سروی ز بزمِ مصطفیؐ شمع
علیؓ را قرأۃ العینی بدین محبوبِ سبحانی

ترجمہ: آپؓ اصفیا کے گلشن کے سرو اور بزمِ مصطفیؐ کی شمع ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور محبوبِ سبحانی آپؓ ہی ہیں۔

دلا گشتی مرید او بہ بین لطف مزید او
چہ اوصافِ حمیدہ او گہ و بیگاہ می خوانی

ترجمہ: اے د ل! آپؓ کا مرید ہو جا اور اس کے بعد ان کی مزید مہربانی دیکھ اور وقت بے وقت انہیں پکار اور (پھر دیکھ) کہ وہ کس قدر اوصافِ حمیدہ کے مالک ہیں۔

زباں را شست شو باید بہ آبِ جنت الکوثر
و زاں پس نام محی الدینؓ بہ پاکی بر زبان رانی

ترجمہ: زبان کو جنت کے آبِ کوثر سے دھونا چاہیے اور پھر اس پاکی کو حاصل کرنے کے بعد زبان پر محی الدینؓ کا نام لینا چاہیے۔

بزرگ و خورد و مرد و زن مریدت شد ہمہ عالم
خطا پوشی عطا پاشی و دین بخشی جہان بانی

ترجمہ: جہان بھر کے بزرگ، بچے اور مرد و خواتین آپؓ کے مرید ہیں اور خطاؤں کو معاف کرنا، نوازنا، دین عطا کرنا اور جہاں بانی آپؓ کا وصف ہے۔

تو شاہِ اولیا و اولیا محتاج درگاہت
مشائخ راس زد بر درگہت از فخر دربانی

ترجمہ: آپؓ اولیا کے سردار اور تمام اولیا آپؓ کی بارگاہ کے محتاج ہیں۔ اس لیے تمام مشائخ آپؓ کی بارگاہ پر سر قربان کرنے اور آپؓ کی بارگاہ کی دربانی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

مطیعِ حکم تو دیوان ملائک چوں پری بندہ
شہنشاہِ شہنشاہان امامِ انس و روحانی

ترجمہ: تمام فرشتے، دیو، پریاں اور انسان سب آپؓ کے حکم کے فرمانبردار ہیں اور آپؓ تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور انسانوں اور جنوں کے امام ہیں۔

چہ عبدالقادری قدرت چنان داری بیک لحظہ
برآری آشکارہ از کرم حاجاتِ پنہانی

ترجمہ: اے عبدالقادرؓ!(Sheikh Abdul Qadir Jillani)  آپؓ اس قدر قدرت کے حامل ہیں کہ پوشیدہ ضرورتوں کو بھی اپنے کرم سے لمحہ بھر میں پورا فرما دیتے ہیں۔

بدنیا درِّ عدن بخشی بہ عقبیٰ جنت الماویٰ
بہ رحمت بحر الطافی بہ شفقت کان احسانی

ترجمہ: اپنی رحمت کے سبب آپؓ بحرِ الطاف اور شفقت کی بدولت منبعٔ احسان ہیں۔آپؓ دنیا میں درِّ عدن بخشتے ہیں اور عقبیٰ میں جنت الماویٰ۔ 

ملاذاً دستگیری تو معاذاً دل پذیری تو
بلطفِ خود رہائی دہ ز گردابِ پریشانی

ترجمہ: آپؓ کی دستگیری اور دلپذیری ہی میرے لیے پناہ گاہ ہے لہٰذا اپنے لطف کی بدولت پریشانیوں کے گرداب سے نجات دلائیں۔

جگر ریشم درون خستہ دل اندر لطفِ تو بستہ
تو ہم از غایت احسان دوا بخشی و درمانی

ترجمہ: میرا جگر نازک اور باطن خستہ ہو چکا ہے لیکن دل اندر سے آپؓ کے لطف کا امیدوار ہے لہٰذا آپؓ احسان فرمائیے اور میرا علاج کر کے دوا عطا فرمائیے۔

ترا چوں من ہزاراں بندہ ہا ہستند در عالم
مرا جز آستانت نیست اگر خوانی و گردانی

ترجمہ: آپؓ کے سامنے تو دنیا میں میرے جیسے ہزاروں بندے ہوں گے لیکن میرے پاس آپؓ کے آستانے کے علاوہ کچھ نہیں۔ چاہے رکھ لیں چاہے لوٹا دیں۔

نہ دارم اندریں عالم بجز درد و غم و شدت
خلاصی دہ ازیں محنت کہ دارم صد پریشانی

ترجمہ: اس جہان میں میرے پاس درد و غم اور مشکلات کے سوا کچھ نہیں لہٰذا جو سینکڑوں پریشانیاں مجھے درپیش ہیں ان سے نجات عطا فرمائیں۔

منم سائل بجز تو نیست غم خوارم کہ گیرد دست
نظر رحمت کنی برمن توئی مختارِ سبحانی

ترجمہ: میں سوالی ہوں اور آپؓ کے سوا میرا کوئی غم خوار بھی نہیں جو میرا ہاتھ تھام لے۔ مجھ پر نظرِ رحمت فرمائیں کہ آپؓ ہی حق تعالیٰ کے خزانوں کے مختار ہیں۔

فقائے بندہ عاجز فتادہ بر سر کویت
عجب نہ بود اگر ایں ذرّہ را خورشید گردانی

ترجمہ: سر جھکائے یہ عاجز بندہ آپؓ کے کوچہ میں آن گرا ہے۔ اگر آپؓ اس ذرے کو خورشید بنا دیں تو کوئی حیرت کی بات نہیں۔

سگِ درگاہِ میراںؓ شو چو خواہی قرب ربانی
کہ بر شیراں شرف دارد سگِ درگاہ جیلانیؓ

ترجمہ: اگر تو قربِ ربانی چاہتا ہے تو درگاہِ میراںؓ کا کتا بن جا کہ شاہ عبدالقادر جیلانیؓ کے کتے کا درجہ بھی شیروں سے زیادہ ہے۔

جوابِ مصنف:

ہر مریدش آفتاب روشنیٔ حق نما
فیض بدہد فیض بخشد برد حاضر مصطفیؐ

ترجمہ: آپؓ کا ہر مرید حق کی روشنی عطا کرنے والا آفتاب ہے جو فیض عطا کرکے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) کی حضوری میں لے جاتا ہے۔

رازِ رحمت فیض فضلش می دہاند از خدا
بی نصیبی کس نہ باشد گفت باھوؒ دل صفا

ترجمہ: اور اللہ سے اس کی رحمت کا فیض و فضل دلاتا ہے۔ باصفا دل والا باھوؒ کہتا ہے کہ کوئی بھی (آپؓ کی بارگاہ سے) بے نصیب نہیں رہتا۔

آپؓ کے مرید اہلِ تجرد مرد اور پرُدرد ہیں۔ ابیات:

عرش و کرسی در دل است لوح و قلم
ہر کہ دل را یافت آنرا نیست غم

ترجمہ: عرش و کرسی اور لوح و قلم دل میں (پوشیدہ) ہیں اور جو دل کی اس حقیقت کو پا لیتا ہے وہ ہر غم سے آزاد ہو جاتا ہے۔

ایں مراتب طفل گانی سِر ہوا
راہِ وحدت غرق فی اللہ باخدا

ترجمہ: یہ (عرش و کرسی اور لوح و قلم) بچوں کے مراتب ہیں جو خواہشاتِ نفس سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ راہِ وحدت تو غرق فنا فی اللہ ہونے میں ہے۔

غیر مخلوق است وحدت نورِ حق
ایں بود مخلوق سیرِ ہر طبق

ترجمہ: وحدت و نورِ حق غیر مخلوق ہیں جبکہ طبقات مخلوق ہیں اور ان کی سیر مخلوق میں مشغول رکھتی ہے۔

تا نگردد غرقِ وحدت ذات نور
عارفانش کی شود اہل از حضور

ترجمہ: جب تک عارف نورِ وحدتِ ذات میں غرق نہ ہو جائے تب تک وہ اہلِ حضور کیسے ہو سکتا ہے!

درمیانِ بندہ و حق دیوار نیست
مردہ دم دل لائق دیدار نیست

ترجمہ: بندہ اور حق کے درمیان کوئی دیوار حائل نہیں لیکن جس کا سانس اور دل مردہ ہو وہ دیدار کے قابل نہیں۔

پردہ را بردار بحق شو ہم سخن
تا ترا حاصل شود کنہش ز کن

ترجمہ: (اپنے اور اللہ کے درمیان) پردے کو ہٹا اور حق تعالیٰ سے ہم کلام ہو تاکہ تجھے کن کی حقیقت معلوم ہو جائے۔

چشم با چشم است و دل با دل نظیر
انتہائے عارفانش ایں فقیر

ترجمہ: عارفین فقرا کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ ان کی آنکھیں اللہ کی آنکھیں اور ان کا دل اللہ کا دل بن جاتا ہے۔

کی تواند بست صورت بی مثال
ہر کہ از خود بہ گزرد بیند جمال

ترجمہ: اس بے مثال صورت کی مثل کون ہو سکتا ہے؟ لیکن جو خود کو فنا کر لے وہی اس ذات کا جمال دیکھ سکتا ہے۔

باھوؒ بہر از خدا وحدت نما
می برد حاضر ترا بامصطفیؐ

ترجمہ: باھوؒ خدا کی خاطر وحدت عطا کرتا ہے اس لیے تجھے بھی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا سکتا ہے۔

ہر کہ منکر از نبیؐ مجلس نبیؐ
عاقبت کافر شود اہل از شقی

ترجمہ: جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) کی مجلس اور اس میں حاضری کا انکار کرتا ہے آخر وہ کافر ہو جائے گا اور اس کا شمار بدبختوں میں ہوگا۔ 

صرف ظاہری اعمال سے انسان کے دل سے نفاق ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی دل سے سیاہی اور زنگار دور ہوتا ہے جب تک کہ اسے اسمِ اللہ  ذات (Personal Name of Allah -Ism e Allah Zaat, Ism e Azam)، عشق، محبت اور معرفت کی آگ میں نہ جلایا جائے اور ذکر ِ خاص کے ذریعے اخلاص قبول نہ کیا جائے کیونکہ ذکر کے بغیر دل زندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی نفس مرتا ہے اگرچہ تمام عمر تلاوتِ قرآن کی جائے اور فقہ کے مسائل پڑھے جائیں کیونکہ صفائے قلب ذکر ِ دوام سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً   (سورۃ الاعراف۔55)
ترجمہ: اپنے ربّ کو عاجزی اور خفیہ طریقے سے پکارو۔

جو کوئی وجود کے حواسِ خمسہ سے خطرات کے خار و خس کو تصور اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah -Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) کی آگ کے ذریعے جلا نہیں دیتا اور دل میں حق تعالیٰ (کے قرب و دیدار) کا شوق پیدا نہیں کرتا تو وہ طالبِ مردار ہے جس کے لیے دیدار محال ہے اسی طرح خام خیال والوں کے لیے معرفت و وِصال محال ہے۔ ابیات:

یا ربّ مرا ز عرفان پیمانہ سرشار دہ
چشمِ بینا و جان آگاہ و دل بیدار دہ

ترجمہ: یا ربّ! اپنے عرفان سے میرے شوق کا پیمانہ بھر دے اور مجھے چشمِ بینا، آگاہ روح اور بیدار دل عطا فرما۔

ہر سرِ مو حواسِ من بہ راہے می رود
ایں پریشان سیر را در بزم وحدت بار دہ

ترجمہ: میرے حواس اور ہر بال الگ الگ راستے پر چل رہے ہیں۔ اس پریشان سیر کو اپنی بزمِ وحدت میں جگہ دیں۔

مدتی گفتار کرد آری کہ کردی مرحمت
روزگاری ہم بمن کردارِ بے گفتار دہ

ترجمہ: ایک مدت سے میں گفتار میں مصروف ہوں اس علم کی بنیاد پر جو تو نے مجھے مرحمت فرمایا لیکن اب محض گفتار نہیں بلکہ مجھے کردار بھی عطا فرما۔ 

شیوۂ اربابِ ہمت نیست جودی ناتمام
رخصت دیدار دادی طاقتِ دیدار دہ

ترجمہ: نامکمل سخاوت اربابِ ہمت کا شیوہ نہیں ہے۔ اب جو توُ نے دیدار کا حکم فرمایا ہے تو (سخاوت فرماتے ہوئے) دیدار کی طاقت بھی عطا فرما۔

ہر کہ در مردار غرقش کی شود دیدار او
غیر اللہ ہر چہ باشد دفتر از دل بشو

ترجمہ: جو مرُدار میں مشغول ہو اُسے دیدار کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ دیدار کرنے کے لیے جو غیر اللہ تیرے دل میں ہے اُسے دھو ڈال۔

تا نگردد غرق فی اللہ بیخبر از خود فنا
ہر کہ از خود برآید دل شود راہبر خدا

ترجمہ: جب تک انسان خود کو مٹانے اور فنا کرنے سے بے خبر رہے وہ اللہ کی ذات میں فنا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جو خود سے فنا حاصل کر لے اُس کا دل (خود) اللہ کی جانب اس کی رہنمائی کرتا ہے۔

(جاری ہے)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں