حسد (Hassad)
انیلا یٰسین سروری قادری (لاہور)
اللہ تعالیٰ کسی شخص کو کوئی نعمت عطا کرے اور کوئی دوسرا شخص اس کے لیے اس نعمت کا زوال چاہے، حسد (Hassad) کہلاتا ہے۔ جبکہ انسان دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ جب ہم اپنے کسی بھائی کو اچھی حالت میں دیکھیں تو خوش ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے۔ لیکن حسد (Hassad) وہ بُری خصلت ہے جو کسی کو خوشحال اور پُرسکون دیکھ کر انسان کو بے چین کر دیتی ہے اور وہ اپنے بھائی کی خوشحالی دیکھ کر خوش ہو نے کی بجائے دل ہی دل میں جلتا اور کڑھتا ہے۔
اس کیفیت کا ذکر سورۃ البقرہ میں یوں کیاگیا ہے:
بہت سے اہلِ کفار اپنے دل کی جلن کے باعث یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد تم کو پھر کافر بنا دیں حالانکہ ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے۔ تو تم معاف کر دو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم لائے۔ بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۃ البقرہ۔ 109 )
کیا وہ اس چیز سے حسد (Hassad) کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کر رکھی ہے۔ ہم نے تو ابراہیمؑ کو کتا ب اور حکمت عطا فرمائی اور انہیں بہت بڑا ملک دیا۔ (سورۃ النسا۔ 54 )
حضرت عون بن عبداللہؒ نے ایک بادشاہ کو تین چیزوں سے دور رہنے کی نصیحت فرمائی۔ آپؒ نے فرمایا کہ تکبر سے دور رہ کیونکہ آسمان پر سب سے پہلا گناہ تکبر تھا جس کی بنا پر ابلیس کو ملعون قرار دیا گیا، دوسرا یہ کہ خود کو شہوت سے بچا کر رکھ کہ آدم علیہ السلام نے شہوت کی بدولت نافرمانی کی اور جنت سے نکالے گئے اور تیسرا یہ کہ خود کو حسد (Hassad) سے بچا کیونکہ زمین پر سب سے پہلا ناحق خون حسد کی وجہ سے ہی ہوا جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی کو مار ڈالا ۔
قرآنِ کریم میں اس واقعہ کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور انہیں حضرت آدمؑ کے بیٹوں کے حالات پڑھ کر سناؤ جب انہوں نے قربانی پیش کی تو ایک کی (اللہ کی بارگاہ میں) قبول ہوئی اور ایک کی نہ ہوئی۔ قابیل ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کر دونگا تو دوسرے بھائی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اہل ِتقویٰ ہی کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ (سورۃ المائدہ۔ 27)
اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے:
حاسد اپنی ہی نعمتوں کا دشمن ہے اور وہ میرے حکم سے خفا رہتا ہے اور جو میں نے اپنے بندوں کو عطا کیا ہے اسے پسند نہیں کرتا۔
حسد (Hassad) اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں کیونکہ یہ دیگر روحانی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ حسد (Hassad) کا ظہور کینہ اور بغض کی صورت میں بھی ہوتا ہے اور اس کے اظہار کی ایک صورت غیبت بھی ہے ۔اس لیے حسد کو گناہِ کبیرہ کہا گیا ہے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو محبت اور احساس کی تلقین کرتا ہے لیکن حاسدکے دل میں سوائے نفرت اور جلن کے کوئی شریفانہ جذبہ جگہ نہیں پاسکتا۔ حاسد لوگوں کی نیک نامی اور خوشحالی کو ذلت و خواری میں بدلتے دیکھنا چاہتا ہے۔ پس ایک نہ ایک دن وہ معاشرے کی نظروں میں ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔
حسد (Hassad)کے نقصانات سے بچنے کیلئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) کا ارشاد مبارک ہے:
دیکھو! حسد (Hassad) سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ خشک لکڑی کو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے فرمایا کوئی شخص بھی تین چیزوں سے خالی نہیں ہے :
۱۔ بدگمانی
۲۔بدفالی
۳۔حسد (Hassad)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے ان کے علاج کے بارے میں فرمایا:
اوّل جب تمہارے دل میں کوئی بدگمانی آئے تو تم اس کی تحقیق دل سے مت کرنا اور اس پر قائم نہ رہنا، دوم اگر تم کوئی بدفالی دیکھ لو تو اس پر اعتماد نہ کرنا، سوم جب تمہارے دل میں حسد (Hassad) پیدا ہو تو اپنے دل و دماغ اور ہاتھ و زبان کو اس پر عمل کرنے سے بچانا۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
تم سے پہلی اُمتیں بھی حسد اور عداوت کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا ’’حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ سوکھی لکڑیوں کو اور صدقہ گناہوں کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔ نماز مومن کا نور ہے اور روزہ جہنم سے ڈھال ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ)
ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے ارشاد فرمایا ’’چھ گروہ ایسے ہیں جو بے حساب دوزخ میں جائیں گے: حکام اپنے ظلم کے سبب، مالدار اپنے تکبر کے سبب، سوداگر اپنی خیانت کے سبب، گنوار اپنی نادانی کے سبب، عرب تعصب کے سبب اور علما حسد کے سبب۔‘‘
حضرت انسؓ روایت فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) نے ارشاد فرمایا ’’اس وقت ایک جنتی شخص آرہا ہے۔‘‘ ہم نے سر اُٹھا کر دیکھا تو ایک انصاری جن کے بائیں ہاتھ میں نعلین تھیں اور داڑھی سے وضو کا پانی ٹپک رہا تھا، بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ دوسرے روز بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے یہی الفاظ دہرائے اور وہی شخص خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ تیسرے روز بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یہی الفاظ فرمانے پر یہی اتفاق ہوا۔ حاضرینِ مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک صحابی(حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ) نے ان کے کردار کے بارے میں جاننے کے لیے اُن صحابیؓ سے کہا میرا اپنے والد گرامی سے جھگڑا ہو گیا ہے اور تین شب آپؓ کے ساتھ رہنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ فرماتے ہیں کہ میں نے تین شب اُس شخص میں اس سے زیادہ کچھ نہ دیکھا کہ جب وہ سو کر اُٹھتا ہے تو اللہ کو یاد کرتا ہے۔ آپؓ نے اس انصاری صحابیؓ کو ساری حقیقت بتائی کہ میں اپنے والد گرامی سے نہیں لڑا، میں صرف یہ جاننا چاہتا تھا کہ آپ نے ایسا کون سا عمل کیا ہے کہ جس کی بنا پر آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) نے جنتی ہونے کی بشارت دی ہے۔ اس انصاری نے جواب دیا ’’میرا عمل یہی ہے جو تم نے دیکھا، ہاں ایک بات اور بھی ہے میں کبھی کسی کی بھلائی پر حسد (Hassad)نہیں کرتا ۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ نے ایک شخص کو عرشِ باری تعالیٰ کے سایہ تلے دیکھا۔ آپؑ کے دل میں اس مقام کو پانے کی آرزو پیدا ہوئی اور پھر آپ نے بارگاہِ الٰہی میں سوال کیا یا ربّ العزت! یہ مرد کون ہے؟ اس کا کیا نام ہے؟ حق تعالیٰ نے اس کا نام تونہ بتایا لیکن یہ ضرور فرمایا ’’اے موسیٰؑ! میں اس کے کردار کے بارے میں تجھے خبر دیتا ہوں، نہ اس بندے نے کبھی کسی سے حسد (Hassad) کیا ہے اور نہ کبھی اپنے ماں باپ کی نافرمانی کی ہے اور نہ ہی کبھی اس نے چغل خوری کی ہے۔‘‘
حضرت زکریا علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حق سبحانہٗ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’حاسد ہی نعمت کا دشمن ہے اور میرے بندوں سے خفا رہتا ہے۔ جو میں نے اسے عطا کیا ہے اس پر شکر نہیں کرتا اور میری نافرمانی کرتا ہے۔‘‘
صحابہ کرامؓ نے بھی حسد (Hassad) کرنے سے منع فرمایا ہے :
حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمت پوری کرنا چاہے تو کر کے رہتا ہے حاسد خواہ کتنا ہی حسد کیوں نہ کرے۔‘‘
حضرت عثمان غنیؓ کا فرمان ہے ’’حاسد کو تمہاری خوشی سے افسوس ہوتا ہے یہی اس کے لیے کافی ہے تمہیں بدلہ لینے کی ضرورت نہیں وہ خود ہی اپنی آگ (حسد) میں جلے گا۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’ایک دوسرے سے حسد نہ کرو کیونکہ حسد (Hassad) ایمان کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو۔ حق سے زیادہ کسی کی تعریف چاپلوسی اور خوشامد ہے اور استحقاق سے کم عاجزی یا حسد۔‘‘
حضرت ابو الدرداءؓ فرماتے ہیں ’’جو موت کو بہت یاد کرتا ہے وہ نہ خوش ہوتا ہے اور نہ حسد کرتا ہے۔‘‘
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’یاد رکھ کہ جن لوگوں کے دل میں حسد (Hassad) نہیں وہ مطلق اہل ِ بہشت ہیں اور جن کے دل میں حسد ہے وہ اہل ِ دوزخ سے بدتر زرتشت (آگ کی پرستش کرنے والے )ہیں۔‘‘ ( محک الفقر کلاں)
حسد کی حقیقت بیان کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا ’’ان دوچیزوں کو حسد میں شمار نہیں کیا جاسکتا، ایک یہ کہ کسی کو حق تعالیٰ مال اور علم دونوں عنایت فرمائے اور وہ اپنے مال کو علم کے (موافق) کام میں لائے ،دوسرا یہ کہ کسی کو علم بے مال مرحمت کرے اور دوسرا شخص یہ کہے کہ اگر حق تعالیٰ مجھے بھی مال عطا فرماتا تو میں بھی اس طرح صرف میں لاتا تو یہ دونوں شخص ثواب میں برابر ہیں۔ اگر کوئی شخص مال کو فسق (برائی) میں صرف کرے اور دوسرا کہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس طرح اسے خرچ کرتا تو یہ دونوں شخص گناہ میں برابر ہیں۔ اس عمل کو بھی حسد (Hassad) کہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی فاسق اور ظالم شخص اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمت کو برائی اور ظلم کرنے کے لیے استعمال کرے تو اس ظالم کی نعمت کا زوال چاہنا درست ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کسی شخص کو دولت کی نعمت عطا کرے اور وہ مغرور اور سرکش بن جائے اور معاشرے میں ظلم اور برائی کا سبب بنے تو ایسے شخص کی نعمت کا زوال چاہنا کچھ غلط عمل نہیں۔ حاسد اپنا دشمن خود ہے وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں حسد کرنے میں صرف کر دیتا ہے۔ اس لیے بزرگوں کا کہنا ہے کہ حاسد کی مثال اس شخص جیسی ہے جو اپنے دشمن کو پتھر سے مارنے کی کوشش کرے اور وہ پتھر اس کی ایک آنکھ میں لگ جائے اور آنکھ پھوٹ جائے پھر وہ مزید غصے سے دوبارہ اپنے دشمن کو پتھر مارے اور اس کی دوسری آنکھ بھی پھوٹ جائے۔ اس طرح وہ جتنی بار بھی پتھراٹھا کر مارے خود ہی زخمی ہو اور دشمن صحیح سلامت رہے۔ حاسد کی اس حالت پر شیطان بھی تمسخر کرتا ہے۔ حسدکی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حاسد اپنی زبان سے دوسروں کی غیبت کرے، جھوٹ بولے اور حق بات سے انکار کرے۔
یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی شخص کسی وقت بھی حسد (Hassad) کا شکار ہوسکتا ہے۔ جب صاحبِ عقل شخص جان لیتا ہے کہ حسد زہرِ قاتل ہے تو اسے محنت اور مشقت سے اس کا عملی علاج کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اوّل اسے حسد پیدا کرنے والی چیز کو دل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ کبر و عجب (خود پسندی)، عداوت، جاہ ومال کی محبت وغیرہ حسد (Hassad) کے اسباب ہیں۔ دوم اس کے علاج کا ایک طریقہ یہ بھی ہے جب حسد (Hassad) کی وجہ سے دل میں یہ خیال آئے کہ فلاں بندے پر طعنہ بازی کروں تو اس بندے کی تعریف کرو، اگر دل میں تکبر آئے تو عاجزی پیدا کرو، اگر حسد کے باعث عداوت پیدا ہو تو فوراً اس سے دوستی کرو یقینا یہ عمل انتہائی صبر طلب ہے لیکن اس سے بہتر کوئی علاج نہیں ۔ یہ ایک آدمی کے اختیار میں ہے کہ خواہ وہ اللہ کا بندہ بن کر رہے یا ابلیس کا۔ فقرا اور اولیا کرام کبھی کسی سے حسد نہیں کرتے بلکہ وہ سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں، اُنکی یہی صفت انہیں لوگوں میں ممتاز کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کو عزت والا مرتبہ عطا کرتا ہے۔ احادیث، اقوال اور اس دلیل کی رو سے کہ حسد حکمِ الٰہی کی نافرمانی اور خبثِ باطنی ہے، حسد کرنا حرام ہے۔ راہِ فقر کے طالب کو حسد سے بچنا چاہیے کیونکہ حسد (Hassad) اللہ اور اس کے طالب کے درمیان ایک حجاب ہے۔
حاسد طالب کبھی بھی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا بلکہ یوں کہنا روا ہوگا کہ وہ طالب راہِ فقر کی خوشبو تک کو نہیں پا سکتا۔ ایسا طالب، طالبِ مولیٰ نہیں بلکہ طالبِ دنیا کہلاتا ہے۔ راہِ فقر میں طالب اس وقت حسد کا شکار ہوتا ہے جب اس کا ساتھی (دوسرا طالب) اس سفر میں پہلے طالب سے آگے بڑھ جائے یا پھر مرشد کریم اپنی توجہ اور نگاہِ کرم دوسرے طالب کا شوق اور لگن دیکھتے ہوئے فرما دیں۔ اس صورت میں پہلے طالب کے دل میں حسد پیدا ہو سکتا ہے اور وہ شیطان کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر پہلا طالب دوسر ے طالب پر مرشد کریم کی نگاہِ محبت دیکھتے ہوئے اپنے ساتھی کا زوال چاہے بغیر اس جیسا بننے کی کوشش کرے تو اسے رشک کہتے ہیں۔ رشک اگر دین کے کام میں ہے تو اچھی بات ہے اور واجب بھی۔ پس اے طالب ِ مولیٰ! اگر تو اپنے ربّ کا دیدار چاہتا ہے تو توُ اپنے آپ کو حسد جیسی بیماری سے بچا اور اس سے اپنے پروردگار کی پناہ مانگ۔ حسد سے نجات صرف وہی شخص حاصل کر سکتا ہے جس پر توحید غالب آجائے اور اسے مرشد کا مل اکمل کی صحبت نصیب ہو۔ مرشد کی نگاہِ کیمیا سے طالب کسی کو دوست یا دشمن نہیں سمجھتا اور زندگی کے تمام معاملات میں اللہ کی رضا پر ثابت قدم رہتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) راہِ حق پر آگے بڑھنے کے لیے فرماتے ہیں:
اسمِ اللہ راہبر است در ہر مقام
از اسمِ اللہ یافتند فقرش تمام
ترجمہ: اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah -Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) طالبِ مولیٰ کی ہر مقام پر رہنمائی کرتا ہے اور اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah -Ism e Allah Zaat, Ism e Azam) ہی سے وہ کامل فقر کے مراتب پر پہنچتے ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں نہ صرف راہِ فقر میں بلکہ زندگی کے ہر مقام پر مرتبہ اور ہر حالت میں حسد (Hassad) جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نفس کی بیماریوں کے بارے میں تفصیل سے جاننے کیلئے میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
(Sultan-ul-Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib-ur-Rehman)کی تصنیف لطیف ’’نفس کے ناسور‘‘ کا مطالعہ کریں۔
حسد اللہ تعالیٰ کو بالکل پسند نہیں کیونکہ یہ دیگر روحانی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔
Mashaallah
حسد بہت بڑی روحانی بیماری ہے
اللہ پاک ہمیں حضور پاک کا صدقہ حسد اور تمام باطنی بیماریوں سے اپنی پناہ میں رکھے آمین❤❤❤🌹🌹🌹
حسد بہت بڑی روحانی بیماری ہےـ
بہترین لکھا ہوا ہے ❤💯
بہت بہتر ین مضمون لکھا ہے
حسد جیسی بیماری کا علاج صرف مرشد کامل اکمل کے ہاتھ میں ہے ل
Hassad sub bimariyoon ki jar hai..
بہترین مضمون ہے
حسد کے بارے میں بہہت اچھا مضمون ہے
ارشاد باری تعالٰی ہے
حاسد اپنی ہی نعمتوں کا دشمن ہے اور وہ میرے حکم سے خفا رہتا ہے اور جو میں نے اپنے بندوں کو عطا کیا ہے اسے پسند نہیں کرتا
بے شک حسد گناہ کبیرہ ہے
بہت اچھا لگا پڑھ کر ماشاء اللّٰہ
بے شک حسد گناہ کبیرہ ہے
Haq he
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں نہ صرف راہِ فقر میں بلکہ زندگی کے ہر مقام پر مرتبہ اور ہر حالت میں حسد جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے:
تم سے پہلی اُمتیں بھی حسد اور عداوت کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔
بہترین معلوماتی مضمون ہے۔
اللہ حسد جیسی بیماری سے بچائے۔
حسد بہت بڑی روحانی بیماری ہے
حسد گناہِ کبیرہ ہے
Both acha likha gya hai
ماشااللہ انتہائی خوبصورت آرٹیکل ہے اور اللہ پاک ہمیں حسد سے بچائے۔
حسد تمام برائیوں کی جڑ ہے
حسدکی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حاسد اپنی زبان سے دوسروں کی غیبت کرے، جھوٹ بولے اور حق بات سے انکار کرے۔
Allah hmy hassad sey bachay Ameen
Allah hamen hasad se bachaye
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں نہ صرف راہِ فقر میں بلکہ زندگی کے ہر مقام پر مرتبہ اور ہر حالت میں حسد (Hassad) جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بہترین تحریر ہے جس میں حسد کرنے کی نقصانات واضع بیان کیے گئے ہیں
Allah pak Hassad sey bachaye Ameen
Behtreen article ha
حسد اعمال کو ضائع کر دیتا ہے اللہ پاک اس نفسانی بیماری سےبچائے
اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین انشاء اللہ
المدد یا شبیہ غوث الاعظم دستگیر🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
حسد ایک مہلک بیماری ہے جو انسان کو معرفت الہی کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ ہے۔
اللہ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے
بہت اچھا آرٹیکل ہے
اللہ پاک ہمیں حضور پاک کا صدقہ حسد اور تمام باطنی بیماریوں سے اپنی پناہ میں رکھے آمین
ماشاءاللّٰہ بہترین مضمون ہے
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں نہ صرف راہِ فقر میں بلکہ زندگی کے ہر مقام پر مرتبہ اور ہر حالت میں حسد (Hassad) جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بہت اچھا ارٹیکل ہے
Behtreen mazmoon
بہت اولی
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں نہ صرف راہِ فقر میں بلکہ زندگی کے ہر مقام پر مرتبہ اور ہر حالت میں حسد (Hassad) جیسی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔