Alif-mahnama-sultanulfaqr-magazine

alif | الف

Spread the love

Rate this post

الف (Alif)

فقیرِ کامل (Faqeer-e-Kamil) کی ضرورت

سن اے عالم باللہ! سن اے عالم ولی اللہ! سن اے غافل! تو کیوں دنیائے مردار کی نجس و نجاست میں غرق ہے ؟دو عمل ایسے ہیں جن کو پانے کے لیے احمق اور بیوقوف لوگوں کی اکثریت پریشان رہتی ہے۔ یہ دونوں عمل ایسے ہیں جن کو پانا انتہائی مشکل و دشوار ہے۔ ایک ’’عمل ِکیمیا‘‘ ہے جو عامل کے بغیر کوئی نہیں سیکھ سکتا اور دوسرا عمل حصولِ معرفت اور قربِ الٰہی ہے جو فقیرِ کامل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ اللہ کا شکر اور احسان ہے کہ میں ان دونوں عملوں پر مکمل تصرف رکھتا ہوں کیونکہ کامل طالب کو ابتدا میں ہی ان دو عملوں پر عبور حاصل ہو جاتا ہے۔ بیت:

ہم عاملم ہم کاملم ہم حق نما
احتیاجی کس ندارم جز خدا

ترجمہ: میں عامل و کامل اور حق نما فقیر  (Faqeer)ہوں اور اللہ کے سوا مجھے کسی کی احتیاج نہیں۔ 

ہاں یہ بات یقینی ہے کہ جو شخص شب و روز حق کی طرف متوجہ رہتا ہے دونوں جہان اور جو کچھ ان میں ہے بشمول فرشتے و جن وانس اس کے فرمانبردارغلام بن جاتے ہیں۔ اللہ بس ما سویٰ اللہ ہوس۔

 سن اے ہوا و ہوس میں مبتلا نفسِ امارہ کے غلام حیوان! سن اے غافل ،بے شعور، معرفت و قربِ الٰہی سے محروم! دفاتر دو طرح کے ہیں،ایک ظاہری اعمال کا اور دوسرا باطنی اعمال کا۔ جو کچھ زبان پر آتا ہے کراماً کاتبین اسے ظاہری اعمال کے دفتر پر درج کر لیتے ہیں اور جو خیال بھی دل سے گذرتا ہے وہ باطنی اعمال کے دفتر پر اللہ حیُّ قیوم کی بارگاہ میں درج ہو جاتا ہے۔ طالب ان دونوں دفاتر سے کیسے نجات حاصل کر سکتا ہے؟ طالب کو چاہیے کہ ولی اللہ مرشد (Murshid) سے علمِ فنا فی اللہ اور استغراقِ انوار مشرفِ دیدار کا سبق اس طرح پڑھے کہ نہ اسے ظاہر میں اقرار باللسان یاد رہے نہ باطن میں تصدیق بالقلب کی خبر رہے۔ یہ ہیں مراتبِ ’ہمہ اوست در مغز و پوست‘۔ پس اقرار باللسان و تصدیق بالقلب کی ضرورت معرفت کی توفیق و طریق کے لیے ہے لیکن جو شخص فنا فی اللہ ہو کر صبح و شام دیدارِ الٰہی میں محو رہتا ہو اسے زبانی اقرار اور تصدیق بالقلب کی کیا ضرورت؟ مندرجہ ذیل حدیثِ مبارکہ اس معاملے پر اعتبار کے لیے کافی ہے:  
حَسَنٰتُ الْاَبْرَارِ سَیِّاٰتِ الْمُقَرَّبِیْنَ ترجمہ:ابرار لوگوں کی نیکیاں مقربین کے نزدیک گناہ شمار ہوتی ہیں۔ 

مقربین کا وہ کون سا ایسا نیک عمل ہے جس میں دیگر تمام نیکیاں سما جاتی ہیں ؟وہ عمل استغراقِ فنا فی اللہ بقا باللہ ہے۔ یہ وہ نیکی ہے جس کے متعلق ارشادِباری تعالیٰ ہے: 
اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ  (سورۃ ھود۔114) ترجمہ:بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔

(اقتباس از کتاب ’’نور الہدیٰ کلاں‘‘۔ تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ)

(Alif)

 


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں