کلید التوحید (کلاں) (Kaleed-ul-Tauheed-Kalan)
(اللہ کی طرف لے جانے والی) ظاہر و باطن کی ہر راہ علم سے تعلق رکھتی ہے۔بے علم راہِ مولیٰ پر نہیں چل سکتا کیونکہ جاہل نفس کا طالب اور شیطان کا مرید ہوتا ہے۔ نہ جاننے والے (غافل) کا دوسرا نام جاہل ہے اور وہ اپنے افعال سے خود ہی پریشان رہتا ہے کیونکہ جاہل کی تخلیق گوبر کے کیڑے کی مثل ہوتی ہے۔ دنیا میں جہالت اور جاہل سے بدتر اور خوارتر کوئی نہیں جب تک کہ وہ شریعت و علم کی پیروی کرنے کے لیے علمائے حق کا حلقہ بگوش اور تابع نہیں ہوتا۔ مطلب یہ کہ علم سرمایۂ ایمان ہے اور علم ہی علما کا راہنما ہے۔ علم ہی دونوں جہان کی نعمت ہے۔ شیطان کو قتل کرنے والا بھی علم ہے۔ علم نفسِ امارہ کو مسلمان کرنے والا اور صحتِ جان ہے اور علم دوزخ کی آگ کے لیے ڈھال ہے۔ علم سے ہی ظاہر و باطن میں قدرتِ الٰہی کے اسرار منکشف ہوتے ہیں۔ عامل عالم کے لیے علم کی دولت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت سے بہتر ہے۔ جو عالم علم کو پہچانتا اور اس کی قدر جانتا ہے یعنی اس علم پر عمل کرتا ہے وہ عارف باللہ ہو جاتا ہے اور اس سے کوئی بھی شے مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتی۔ علم حق ہے اور حق کی طرف پہنچانے والا ہے۔ جس عالم کو علم مقامِ روحانیت تک لے جائے وہ قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ (اُٹھ اللہ کے حکم سے)کی طاقت کا حامل ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) نے ارشاد فرمایا:
اَلْعُلَمَآئُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآئِ
ترجمہ: علما انبیا کے وارث ہیں۔
ایسے علما مردہ وجود کو دمِ عیسیٰ ؑ کی مانند نئی زندگی عطا کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ صاحبِ قوت، باطن صفا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی مجلس کی دائمی حضوری میں رہنے والے فقرا عارف باللہ ولی اللہ ہوتے ہیں۔ میں غلط نہیں کہتا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی امت کے اولیا اللہ فقرا کے مراتب دمِ عیسیٰؑ سے بھی بہتر ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ کہتے تو مردہ قبر میں زندہ ہو کر اُٹھ کھڑا ہوتا اور زبان سے کلام کرتا اور تقریباً ڈھائی گھنٹے زندہ رہنے کے بعد پھر مر جاتا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی امت کے فقیر اولیا اللہ وجود کی قبر سے قُمْ بِاِذْنِ اللّٰہِ کہہ کر مردہ دل کو زندہ کر دیتے ہیں اور قلب اللہ کے نام کا ذکر کرتا ہے اور زبانِ قلب سے یااللہ یا اللہ پکارتا ہے اور وہ قلب اور قالب دوبارہ ہرگز نہیں مرتے یہاں تک کہ وہ صاحبِ زندہ قلب تمام مراتب طے کر کے جنت میں داخل ہو جاتا اور حیاتِ ابدی اور سعادتِ سرمدی پا لیتا ہے۔
اَلشَّیْخُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ اَیْ یُحْیِ الْقَلْبَ وَ یُمِیْتُ النَّفْسَ
ترجمہ: شیخ زندہ کرنے والا اور مارنے والا ہوتا ہے یعنی وہ قلب کو زندہ کرتا ہے اور نفس کو مارتا ہے۔
ابیات:
باھوؒا زندہ قلبش مردہ قالب زیر ِ خاک
ہم خاک قالب زندہ از ذکر پاک
قبر ایشان خلوت است خلوت گزین
غرقِ وحدت حق شدہ حق الیقین
ترجمہ: اے باھوؒ! زندہ قلب والے مردہ وجود زیرِ خاک اس طرح ہوتے ہیں کہ ذکرِ اللہ کی بدولت ان کی قبر کی مٹی اور وجود بھی زندہ ہو چکے ہوتے ہیں۔ ان کی قبر ایسی خلوت گاہ ہوتی ہے جہاں وہ وحدتِ حق میں غرق حق الیقین کے ساتھ خلوت گزین ہوتے ہیں۔
اگر زمین پر موجود تمام علمائے عامل سچ بولیں اور حلال رزق کمائیں اور علم کو محض اللہ کی خاطر اور نیک عمل کرنے کے لیے سیکھیں اور اپنے شاگردوں کو بھی نیک عمل کی خاطر علم سکھائیں تو اس سے بہتر کیا چیز ہو سکتی ہے؟ وہ شخص جو ساری زمین کو ڈھائی قدموں میں طے کر لے اور ہمیشہ پانچ وقت کی نماز خانہ کعبہ میں سنت طریقے سے باجماعت ادا کرے اس سے بہتر چیز کیا ہو سکتی ہے؟ جو شخص ہمیشہ نبی اللہ جناب حضرت خضر علیہ السلام کا ہم صحبت رہے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ علم کے متعلق گفتگو کرتے رہیں اس سے بہتر کیا چیز ہے؟ جو شخص بارش برستے وقت فرشتوں کو بارش کے ہر قطرے کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں سے زمین پر رکھتے ہوئے دیکھے اور ہر ایک فرشتے کا نہ صرف نام اسے معلوم ہو بلکہ باطنی توجہ سے انہیں پہچانتا بھی ہو تو اس شخص سے بہتر کیا چیز ہے؟ وہ شخص جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر خاتم النبیین (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) تک اور خاتم النبیین سے لے کر روزِ قیامت تک آنے والے تمام انبیا و اولیا اللہ اور صاحبِ مراتب مومن و مسلمانوں کی ارواح سے مصافحہ اور ملاقات کرتا ہو اور ہر ایک روح کا نام جانتا اور اسے پہچانتا ہو تو اس سے بہتر کیا چیز ہے؟ اور زمین پر جتنے بھی صاحبِ ورد وظائف، اہلِ دعوت اور حافظِ قرآن ہیں جو دن رات طہارت کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں ان سے بہتر کیا چیز ہو سکتی ہے؟ صاحبِ ذکر و فکر، صاحبِ محاسبۂ نفس اور صاحبِ مکاشفہ جو مراتبِ جمعیت پر ہو اور تمام مخلوق کے ساتھ اخلاق سے پیش آتا ہواس سے بہتر کیا چیز ہے؟ جو شخص تمام عمر خانہ کعبہ کا طواف کرتا رہا ہو اور اس سے ایک بھی حج نہ فوت ہوا ہو اور نہ ہی زکوٰۃ دینے میں اس سے کوئی کوتاہی ہوئی ہو اور وہ نماز و نوافل سے کسی وقت بھی فارغ نہ رہتا ہو، راتوں کو قیام کرنے والا اور ہمیشہ روزے رکھنے والا صاحبِ ریاضت و تقویٰ ہو اورعلمِ مسائلِ فقہ اور تفسیر کا مطالعہ کرتا ہو تو اس سے بہتر اور کیا چیز ہے؟ جو شخص تمام عمر اللہ کی راہ میں جنگ کرتا رہے اور کفار کو اس جنگ میں قتل کرتا ہو تو ا س سے بہتر کیا چیز ہو سکتی ہے؟ جس شخص کے ہاتھ میں تمام متاعِ دنیا ہو اور وہ دن رات اللہ کی راہ میں سخاوت سے اسے خرچ کرتا ہو اور نافع المسلمین بن کر رہے تو اس سے بہتر چیز کیا ہو سکتی ہے؟ جو شخص ظلِ الٰہی بادشاہ کی مثل مشرق سے مغرب تک لوگوں میں عدل و احسان اور انصاف کرتا ہو اس سے بہتر چیز کیا ہے؟ جو شخص مقامِ ابد اور دونوں جہان کے احوال کا نظارہ ناخن کی پشت اور ہاتھ کی ہتھیلی پر دیکھتا ہواس سے بہتر چیز کیا ہو سکتی ہے؟ جو شخص مراتبِ غوث و قطب یا مراتبِ ابدال یا مراتب ِ اوتاد اور بالائے عرش ستر ہزار مقامات سے تحت الثریٰ تک کے تمام طبقات‘ جو خواہشاتِ نفس سے تعلق رکھتے ہیں کو اپنے تصرف میں لے آئے تو اس سے بہتر کیا چیز ہو سکتی ہے؟ پس یہ سب درجات ہیں اور جملہ تمام درجات تصور اسم ِاللہ ذات کے ذریعے وحدانیت و معرفتِ الٰہی، استغراق فنا فی اللہ نور اور اللہ کی بارگاہ میں منظوری اور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی مجلس کی حضوری تک پہنچنے کے لیے سیڑھی کی مثل ہیں۔ یہ طریقِ حضوری کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے تصور سے حاصل ہوتا ہے۔
بیت:
بہ ابتدا توحید آخر نور شد
ذکر با مذکور آن مغفور شد
ترجمہ: جو ابتدا یعنی توحید تک پہنچ جائے آخر کار وہ نور میں ڈھل جاتا ہے۔ اور جو ذکر اللہ تک لے جائے وہ وجود کو (اللہ کی بارگاہ میں) مغفور کرا دیتا ہے۔
مطلب یہ کہ جو مقامِ فنا فی اللہ پر پہنچ کر نور میں غرق مشاہدۂ حق میں مشغول ہو وہ صاحبِ نور ہوتا ہے جس کا بولنا بھی نور سے ہوتا ہے اور اس کا دیکھنا و سننا بھی نور کے ذریعے ہوتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ صاحبِ نور وہ ہے جس کا نفس تزکیہ کے بعد مطمئنہ ہو کر نور بن چکا ہو اور قلب تصفیہ کے بعد نور بن چکا ہو اور روحِ مقدس تجلیہ کے بعد نور بن چکی ہو اور سِرّقربِ خدا کی تجلیات سے نور بن چکا ہو اور اسرارِ ربانی کا مشاہدہ عطا کرے اور صاحبِ نور وہ ہے جو سر سے قدم تک نور ہوتا ہے اور اس سے ناشائستہ امور ظہور پذیر نہیں ہوتے اور وہ ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں منظور اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) میں حاضر رہتا ہے۔ صاحبِ نور کا نہ نفس ہوتا ہے نہ قلب، نہ روح، نہ سِرّ اور نہ جسم (کیونکہ وہ مکمل طور پر نور بن چکا ہوتا ہے)۔ وہ مخلوق کی قید سے آزاد اللہ کی نظر میں ہوتا ہے۔ یہ باطن آباد صاحبِ نور کے مراتب ہیں۔ صاحبِ نور نایاب اور وجود پر قادر ہوتا ہے۔
بیت:
رفت قلبش رفت روحش رفت نفس سر ہوا
نور بودم و نور باشم غرق فی اللہ باخدا
ترجمہ: میں نفس کی خواہشات ، قلب، روح اور سرّ سے آزاد ہو چکا ہوں۔ اس طرح میں (ازل میں بھی) نور تھا اور (اب بھی) غرق فنا فی اللہ ہو کر نور ہو گیا ہوں۔
نورِ ذات کے یہ مراتب اسم ِاللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کی حضوری میں غرق، اسم ِ اعظم (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) اور آیاتِ قرآن و حدیث اور ذکر ِ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی برکت و خاصیت سے حاصل ہوتے ہیں۔ انسان نفس کی قید سے ہرگز نجات حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی شیطان پر غالب آ سکتا ہے جب تک ترک و توکل کے ذریعے اس کا دل دنیا سے بیزار نہ ہو جائے اور تب تک طالبی کے مراتب نہیں پا سکتا اور نہ طلب میں مرد ہو سکتا ہے جب تک وہ جامع قادری مرشد سے دست ِبیعت نہ ہو۔
ابیات:
شد مطالب دیدن رو مصطفیؐ
شد حضوری غرق فی اللہ باخدا
ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad saww) کے چہرہ مبارک کے دیدار سے تمام مطالب حاصل ہوتے ہیں اور غرق فنا فی اللہ کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔
در ذکر رجعت دعوتش دیوانگی
سکر مستی خام تر بے گانگی
ترجمہ: ذکر سے رجعت اور دعوت سے دیوانگی پیدا ہوتی ہے اس لیے سکر و مستی خام تر ہیں اور (اللہ سے) بیگانگی کا سبب ہیں۔
گر تو خواہی دائماً باشی حضور
ہم نشین قبران بشو اہل از قبور
ترجمہ: اگر تو حضوری میں دائمی طور پر رہنا چاہتا ہے تو اہلِ قبور کی ارواح کی ہم نشینی اختیار کر۔
باھوؒ! بہر از خدا حاضر نما
باتصور اسم اللہ شو فنا
ترجمہ: اے باھوؒ! خدا کے واسطے حضوری عطا کر اور اسمِ اللہ ذات کے تصور کے ذریعے فنا کر دے۔
فقر میں معرفتِ الٰہی کے دو مراتب ہیں ان میں سے ہر ایک مرتبہ کو اکبر کبیر کہتے ہیں کیونکہ ان دو مراتب کی ابتدا اور انتہا کا تعلق ظاہری اعمال سے نہیں کیونکہ وہ ذکر و فکر سے بالاتر ہیں اور ان مراتب کا تعلق محض مشاہدۂ حضور اور نورِ توحید سے ہے جو کہ تصور اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) سے حاصل ہوتے ہیں اور غرق فنا فی اللہ کر کے دوبارہ اسمِ اللہ ذات کی طرف لاتے ہیں۔ ان مراتب کو مراتبِ دیدار اور مراتبِ حضوری کہتے ہیں۔ جو ان دو مراتب کو مرشد کے التفات سے اپنے عمل میں لے آئے تو تمام جملہ مراتب کا مجموعہ ان دو مراتب سے لمحہ بھر میں اسم ِاللہ ذات کے حاضرات سے اسے حاصل ہو جاتا ہے اور اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کی حضوری اور توحید میں غرق کے یہ مراتب اللہ کے حکم اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) کی اجازت سے حاصل ہوتے ہیں کیونکہ حضوری حضورِ حق سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ حکم و حضوری کے بغیر اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کے حاضرات وجود میں تاثیر نہیں کرتے اور نہ نفع دیتے ہیں اور نہ ہی اس سے باطن کھلتا ہے اور نہ ہی نفس تابع ہوتا ہے، نہ دل ذوق حاصل کرتا ہے اور نہ روح فرحت پاتی ہے اور نہ ہی سِرّ فیض و فائدہ دیتا ہے اور نہ وجود کا گلشن بہار اور پھول کھلانے کا آغاز کرتا ہے۔ اگر مرشد کامل جامع سروری قادری طالبِ مولیٰ کو حضوری میں لے جائے تو وہ عین ذات کا دیدار حاصل کر لیتا ہے جس سے وجود میں غلط و غلاظت، غصہ، غیبت اور غم ِ دنیا کی غین باقی نہیں رہتی۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ وہ دونوں جہان سے ہاتھ جھاڑ لیتا ہے جیسا کہ اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) ہمیشہ مشاہدۂ معرفت اور قربِ الٰہی میں غرق رہتے تھے۔ نورِ توحید اور حضوری سے یگانگت کا یہ عالم تھا کہ ایک لحظہ و لمحہ کے لیے بھی حضورِ ربانی کے مشاہدہ سے خالی نہیں رہتے تھے۔ لامکان میں رہنے اور بے انتہا دردِ محبت اور عشقِ توحید کی آگ کے سوز کے باعث پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam) ایک لمحے کے لیے بھی سکون سے نہیں رہتے تھے اور اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کے بارِ گراں کی تپش کے باعث زبانِ مبارک سے یہ فرمایا کرتے:
یَالَیْتَ رَبَّ مُحَمَّدٍ لَمْ یَخْلُقْ مُحَمَّدًا
ترجمہ: اے محمد کے ربّ! کاش تو نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو تخلیق ہی نہ کیا ہوتا۔
بیت:
اسم اللہ بس گراں است بے بہا
ایں حقیقت را بداند مصطفیؐ
ترجمہ: اسمِ اللہ ذات نہایت گراں اور بیش قیمت دولت ہے اور اس کی حقیقت کو صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Alyhe Wasallam)ہی جانتے ہیں۔
جو وجود اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) کے سمندرِ توحید میں اس طرح غوطہ لگائے جیسے مچھلی پانی میں غوطہ لگاتی اور اس میں گم ہو جاتی ہے اسی طرح وہ بھی غرق فنا فی اللہ ہو کر ہر شے بے حجاب دیکھتا ہے۔
بیت:
چنان کن جسم را در اسم پنہاں
کہ میگردد الف در بسم پنہاں
ترجمہ: اپنے وجود کو اسمِ اللہ ذات (Personal Name of Allah – Ism e Allah Zaat – Ism e Azam) میں اس طرح گم کر لے جیسے ’الف‘ بسم اللہ کے بسم میں گم ہوتا ہے۔
معرفتِ فقر، فنا، لقا، باطن صفا اور حقائقِ حق کی حقیقت کو ہر وہ شخص جانتا ہے جو خود کو باطل سے نکال کر حق تک پہنچ چکا ہو۔ مگر ہزاراں ہزار طالبوں اور مرشدوں میں سے کوئی ایک ایسا جامع سروری قادری ہوتا ہے جو وحدتِ اللہ جل شانہٗ میں دائمی طور پر غرق، مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis-e-Mohammadi saww) کا ملازم اور حضرت شاہ عبدالقادر جیلانیؓ (Sayyidina Ghaus-ul-Azam Hazrat Shaikh Abdul Qadir Jilani) کا غلام ہو۔
(جاری ہے)