Alif | الف
پاکستان پائندہ باد!
وطن کی محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ ہر انسان کے اندر اپنے وطن سے محبت کا جذبہ فطری طور پر موجود ہے۔ اسلام میں کسی مقام پر بھی وطن سے محبت کی نفی کے متعلق احکامات وارد نہیں ہوئے البتہ مختلف احادیث میں نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے وطن سے محبت کا اظہار فرمایاہے۔ہجرت کے وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ مکرمہ کومخاطب کرکے فرمایا:
مَا اَطْیَبَکِ مِنْ بَلَدٍ وَاَحَبَّکِ إِلَیَّ وَلَوْلَا اَنَّ قَوْمِیْ اَخْرَجُوْنِیْ مِنْکِ مَا سَکَنْتُ غَیْرَکِ (جامع ترمذی3926)
ترجمہ: تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔
وطن سے محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جب کبھی وطن کی سالمیت پر آنچ آنے کا خدشہ ہو تو پھر قربانی سے پیچھے نہ ہٹا جائے۔بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر اور امام سلسلہ سروری قادری سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اس حوالے سے فرماتے ہیں:
مومن جنگ کی خواہش نہیں کرتا لیکن اگر جنگ اس پرمسلط کردی جائے تو وہ سیسہ پلائی ہوئی دیواربن جاتا ہے۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا’’دشمن کے ساتھ جنگ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔ البتہ جب دشمن سے مقابلہ ہو ہی جائے تو پھر صبر اور استقامت کا ثبوت دو۔ ‘‘ اللہ ربّ العزت نے قرآنِ مجید میں فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ۔ (سورۃ الصف ۔ 4)
ترجمہ:بے شک اللہ ان لوگوں کو پسند فرماتا ہے جو (ظلم کے خاتمے اور حق کی مدد کے لیے) اُس کی راہ میں (یوں) صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔
ایک مردِ مومن کے لیے اللہ پاک کی ذات پر کامل توکل ہی سب سے بڑی قوت اور طاقت ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت پر یقینِ کامل ہو تو پھر دشمن کی تعداد بے معنی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اسی نکتہ کی وضاحت میں فرمایا:
ایک مومن جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود بھی توکل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر رکھتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام جنگی حکمت عملیوں کی مکمل منصوبہ بندی کرتے تھے لیکن ان کا توکل اور بھروسا ہمیشہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ پر ہی ہوتا تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃًم بِاِذْنِ اللّٰہِ ط وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔ (سورۃالبقرۃ۔249 )
ترجمہ:’’کئی مرتبہ اللہ کے حکم سے چھوٹا سا لشکر بہت بڑے لشکر پر غالب آجاتا ہے۔ ‘‘
پاکستان یعنی پاک لوگوں کے رہنے کی جگہ۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت سے مالا مال ہے۔ نہ صرف دنیاوی بلکہ روحانی اعتبار سے بھی اس خطۂ زمین پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ سلطان الفقر پنجم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اس سرزمین پر آبادہوئے اوراسے فقرِمحمدیؐ سے سیراب کیا۔ حضرت سلطان باھوؒ کے بعد سے تا حال حاملِ امانتِ فقر اِسی سر زمین سے فقرِمحمدیؐ کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس پاک سرزمین پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاص کرم نوازی اور رحمت ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’پاکستان حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم سے وجود میں آیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ اس دھرتی کو تا قیامت فقرِمحمدیؐ کی وراثت سے مالا مال رکھے اور ہمیں استقامت سے راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں ’’پاکستان حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم سے وجود میں آیا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘