توکل ایمان کی آزمائش ( Tawakkul Iman ki Azmaish)
تحریر: محترمہ نورین سروری قادری۔ سیالکوٹ
توکل دراصل انسان کی باطنی کیفیت کا نام ہے جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے اور عمل کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ’’توکل‘‘ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر اعتماد کا دوسرا نام ہے۔
توکل یہ ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہ پر اعتماد وبھروسہ کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔
حضرت امام غزالیؒ نے توکل کی تفصیلی تعریف یوں بیان فرمائی ہے:
توکل دراصل علم، کیفیت اور عمل تین چیزوں کے مجموعے کا نام ہے۔ یعنی جب بندہ اس بات کو جان لے کہ فاعل حقیقی صرف اللہ پاک ہے، تمام مخلوق، موت وزندگی، تنگدستی و مالداری، ہرشے کو وہ اکیلا ہی پیدا فرمانے والا ہے، بندوں کے کام سنوارنے پر اسے مکمل علم و قدرت ہے، اس کا لطف وکرم اور رحم تمام بندوں پر اجتماعی اعتبار سے ہونے کے ساتھ ساتھ ہر بندے پر انفرادی اعتبار سے بھی ہے۔ اس کی قدرت سے بڑھ کر کوئی قدرت نہیں، اس کے علم سے زیادہ کسی کا علم نہیں ، اس کا لطف وکرم اور مہربانی بے حساب ہے۔ اس علم کے نتیجے میں بندے پر یقین کی ایسی کیفیت طاری ہوگی کہ وہ ایک اللہ عزوجل ہی پر بھروسہ کرے گا، کسی دوسرے کی جانب متوجہ نہ ہوگا، اپنی طاقت وقوت اور ذات کی جانب توجہ نہ کرے گا کیونکہ گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی قوت فقط اللہ عزوجل ہی کی طرف سے ہے۔ اس علم و یقین،اس سے پیدا ہونے والی کیفیت اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والے بھروسے کی مجموعی کیفیت کا نام ’’توکل‘‘ ہے۔
توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لانے کے بعد اہلِ ایمان کو جس کی تعلیم دی گئی ہے وہ اس پر توکل و بھروسہ ہے۔ توکل ایک ایسی عظیم صفت ہے کہ جس شخص میں یہ صفت پائی جاتی ہے وہ کبھی نامراد اور مایوس نہیں ہوتا۔ درحقیقت متوکلین ہی سچے موحدین ہیں، توکل خدا سے ملاتا ہے، اس کی مدد و نصرت کا در کھولتا ہے، اعتماد جگاتا ہے اور حوصلہ بڑھاتا ہے۔ توکل آدمی کو مایوسی کے دلدل سے نکال کر امید کی چوٹی پر پہنچاتا ہے، اندھیرے سے روشنی کی طرف لاتا ہے اور یقینِ کامل پیدا کرتا ہے۔
شاہ محمد ذوقیؒ اپنی کتاب ’’ سرِ دلبراں‘‘ میں توکل کے بارے میں لکھتے ہیں:
خدا پر بھروسہ کرنا اور اپنے جملہ امور خدا کے سپرد کر دینا توکل ہے۔ اس کے بھی مختلف مدارج ہیں:
i) صالحین اور ان سے کمتر درجہ کے لوگ خدا پر توکل تو کرتے ہیں مگر اس خواہش کے ساتھ کہ اللہ ان کے امور کو ان کی مصلحتوں کے مطابق انجام دے۔
ii) محسنین کا توکل یہ ہے کہ وہ اپنے جملہ امورمیں خدا کی طرف رجوع کریں اور خدا کے کئے ہوئے پر معترض نہ ہوں بلکہ خوش ہوں کہ اللہ کا چاہا پورا ہوا۔
iii) صدیقین کا توکل یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے حال سے خدا کی ذات کے حال کی طرف پھر جائیں۔ان کی نظر اپنی ذات پر نہیں پڑتی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے شہود میں مستغرق اور اس کی ذات میں فنا رہتے ہیں، بس یہی ان کا توکل ہے۔(سرِ دلبراں)
توکل کے لیے یہ شرط ضروری ہے کہ غلام ہر اس امر پر خوش ہو جو اس کا آقا اس کے لیے پسند فرماتا ہے لیکن یہ عوام کا کام نہیں بلکہ مومنین ہی کا کام ہے۔اس لئے توکل کا حکم بھی مومنوں کو ہی دیا گیا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور اللہ پر ہی توکل کرو اگر تم ایمان والے ہو۔(سورۃ المائدہ۔23)
توکل قرآن و حدیث کی روشنی میں
قرآنِ مجید میں بار بار توکل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو تو اسی پر توکل کرو اگر تم (واقعی) مسلمان ہو۔ (سورۃ یونس۔ 84)
پس آپ اللہ پر توکل کریں۔ (سورۃ النمل۔79)
اور اللہ پر بھروسہ (جاری) رکھیے اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔ (سورۃالاحزاب۔3)
اللہ (ہی معبود) ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اللہ ہی پر ایمان والوں کو بھروسہ رکھنا چاہیے۔(سورۃ التغابن۔13)
اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے۔ (سورۃالطلاق۔3)
مذکورہ آیات کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی اہلِ ایمان کو توکل کی تاکید کی گئی ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرو جیسے توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں پرندوں کی طرح روزی دی جائے کہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘ (ابنِ ماجہ ، ترمذی)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اگر میرے بندے توکل کریں تو میں رات کو ان پر بارش برساؤں اور دِن میں ان پر سورج طلوع کرتا رہوں اور انہیں گرج کی آواز نہ سناؤں۔‘‘ (مسند امام احمد)
حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور اسے بلاگمان رزق دیتا ہے۔‘‘ (کنز العمال)
توکل اولیائے کاملین کی نظر میں
سیدّناحضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ نے توکل کے متعلق فرمایا کہ ’’تو اپنے درہم اور دینار پر بھروسہ نہ کر کیونکہ یہ تجھے عاجز اور ضعیف بنا دے گا۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ (توکل) کر یہ تجھے قوی بنا دے گا اور تیری مدد کر ے گا۔ تجھ پر لطف و کرم کی بارش برسائے گا اور جہاں سے تیرا گمان بھی نہ ہو گا وہیں سے تیرے لیے فتوحات لائے گا۔ تیرے دِل کو اتنی قوت عطا فرمائے گا کہ تجھے نہ دنیا کے آنے کی پروا ہوگی اور نہ اس کے چلے جانے کی اور نہ مخلوق کی توجہ اور نہ بے رخی کی کچھ پروا ہوگی۔ پس تو اس وقت سب سے قوی بن جائے گا۔ لیکن جب تو اپنے مال و جاہ اور اہل و عیال اور اسباب پر بھروسا کرنے لگے گا تو اللہ تعالیٰ کے غضب کا اور اِن چیزوں کے زوال کا نشانہ بن جائے گا۔ (الفتح الربانی۔ مجلس42)
ابو علی دقاقؒ نے فرمایا : توکل مومنین کا خاصہ ہے اور تسلیم اولیا کا، تفویض (اپنا اختیار اللہ کے حوالے کر دینا) موحدین کا، لہٰذا توکل مومنین کی صفت ٹھہری، تسلیم خواص کی اور تفویض خواص الخواص کی۔‘‘
حضرت سہل بن عبد اللہ نے فرمایا : توکل حضورنبی اکرمؐ کا حال تھا اور کسب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت ہے، جو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حال پر رہے، اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنت کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں ’’اگر زمین و آسمان لوہے کے بن جائیں، اگر آسمان سے پانی نہ برسے اور اگر زمین سے اناج پیدا نہ ہو تو بھی میں اپنے توکل سے نہ پھروں گا۔‘‘
حضرت سیدّنا حمدونؒ فرماتے ہیں ’’توکل اللہ عزوجل کے ساتھ مضبوط تعلق کا نام ہے۔‘‘
حضرت سیدّنا سہل بن عبداللہؒ فرماتے ہیں’’توکل کا پہلا مقام یہ ہے کہ بندہ اللہ عزوجل کے سامنے اس طرح ہو جس طرح مردہ غسل دینے والے کے سامنے ہوتا ہے، وہ اسے جس طرح چاہے الٹ پلٹ کرتا ہے۔‘‘
حضرت سخی سلطان باھوؒ توکل کے بارے میں فرماتے ہیں:
راہِ توکل اختیار کر کے صرف اللہ کے قرب پر راضی ہوجاؤ۔ (عین الفقر)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے توکل کو یوں بیان فرمایا:
توکل فقر کی بنیاد ہے۔ اللہ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام اللہ کے سپرد کر دیا جائے، ظاہری طور پر تو کوشش کی جائے لیکن باطنی طور پر اللہ پر توکل کرکے طالب اپنی مرضی سے دستبردار ہو جائے۔ (شمس الفقرا)
میرے مرشد پاک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس توکل کے بارے میں فرماتے ہیں:
اللہ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام بلکہ اپنا آپ بھی اللہ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔(شمس الفقرا)
جب اللہ کے سوا ہر شے کو ترک کر دیا جائے تب ہی توکل حاصل ہوتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
مومن کے لیے اہم ترین چیز توکل ہے بلکہ توکل اس کا عظیم سرمایہ ہے، یعنی ذاتِ الٰہی پر مکمل اعتماد اور بھروسہ۔ جو شخص ذاتِ الٰہی پر جیسا بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے، اس لیے مومنین کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھیں اور اس سے اچھائی کی توقع رکھیں۔
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اور جب وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اس سے بہتر فرشتوں کی مجلس میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب آتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کے پاس دوڑ کر آجاتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
اللہ تعالی کی ذات سے حسنِ ظن
یہ ایسا اہم نکتہ ہے جس کا ادراک بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ مصیبت و آزمائش کے وقت بہت سے لوگ اللہ کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔سب سے پہلے وہ اپنی قسمت کو کوستے ہیں، پھر ان کی زبان اللہ کے بارے میں بدگمانی کے الفاظ نکالتی ہے کہ دنیا جہان کی مصیبتیں ہم غریبوں ہی کے لیے ہوتی ہیں،یا یہ کہ ہم جیسوں کے لیے تو اس دنیا میں خوشی اور آسانی ہے ہی نہیں ہماری زندگی تو بس مشکلات و مصائب میں ہی کٹ گئی، یہ ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوا وغیرہ وغیرہ۔ اللہ تعالی کی ذات سے یہ بدظنی ایسی بات ہے کہ جس سے بندے اور اللہ کے درمیان کا رشتہ کمزور پڑنے لگتا ہے۔بندہ اللہ کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہوکر بے یقینی میں چلاجاتا ہے اور بھروسہ کھودیتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو توکل ہمارے ایمان کی آزمائش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نعمت و آسائش کی فراوانی اور اچھے حالات میسر نہ ہونے پر بھی ہم اللہ پاک کی ذات پر کتنا یقین کرتے ہیں، کتنا صبر کرتے ہیں اور ہر قسم کے حالات کو اس کی حکمت سمجھ کر ان پر شکر کرتے ہیں یا نہیں۔
مزید برآں آزمائش یا عذاب کی گھڑی میں بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کا جائزہ لے۔ عین ممکن ہے کہ برُے حالات اس کے اپنے گناہوں، بے وقوفیوں، غلط فیصلوں یا اللہ سے بدگمانی کا ہی نتیجہ ہوں۔ ایسے میں بھی اللہ پر توکل ہی اس کے کام آئے گا کہ وہ ذات معاف کرنے والی اور بندے کے الٹے کاموں کو سیدھا کرنے والی ہے۔ درحقیقت توکل کی صحیح آزمائش تو ہوتی ہی برُے حالات اور مصائب کے دوران ہے۔ آسانی کے دور میں تو سب ہی اللہ سے راضی ہوتے ہیں لیکن مشکلات میں صرف مومن راضی برضا رہتے ہیں۔ زندگی کے ہر معاملے میں رہنمائی کرنے والی کتاب قرآن پاک میں مسلم اُمہّ کو ہر قسم کے مصائب وآلام، مشکلات و تکالیف میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اختیار کرنے کی بار بار تاکید کی گئی اور پہلے انبیا کرام علیہم السلام کے توکل علی اللہ کے متعلق بیان کیا گیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام تن تنہا سالہا سال تک اللہ کے بھروسہ پر تبلیغِ اسلام فرماتے رہے،چنانچہ ارشاد ربانی ہوتا ہے کہ
’’ اے پیغمبرؐ! ان کو نوح (علیہ السلام)کا حال سنائیے!جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اے میری قوم کے لوگو !اگر تم پر میرا قیام اورمیرا اللہ کی آیتوں کیساتھ نصیحت کرنا تم پر شاق گزرتا ہے تو(جان لو کہ)میں نے تو صرف اللہ ہی پر توکل کر لیا ہے،(اور تمہارا کوئی ڈر نہیں) تو تم اکٹھے ہو کر (میری مخالفت میں) اپنی تدبیر کو پختہ کر لو اور اپنے (گھڑے ہوئے) شریکوں کو بھی (ساتھ ملا لو اور اس قدر سوچ لو کہ)پھر تمہاری تدبیر(کا کوئی پہلو) پر مخفی نہ رہے،پھر میرے ساتھ(جو جی میں آئے) کر گزرو، اور( مجھے) کوئی مہلت نہ دو۔‘‘ (سورۃ یونس ۔ 71)
ذرا غور کیجیئے! حضرت نوح(علیہ السلام) دشمنوں کے ہر قسم کے مکرو فریب، سازش اور لڑائی جھگڑے کے مقابلہ میں استقلال اور عزیمت کیساتھ اللہ پر توکل اور اعتماد کا اظہار کس پیغمبرانہ شان سے فرما رہے ہیں۔اسی طرح حضرت ھود (علیہ السلام ) کو جب ان کی قوم اپنے دیوتاؤں کے قہر و غضب سے ڈراتی تو وہ جواب میں فرماتے:
بے شک میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان (دیوتاؤں) سے لا تعلق ہوں جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو۔ اس (اللہ)کے سوا تم سب (بشمول تمہارے معبودانِ باطلہ)مل کر میرے خلاف (کوئی)تدبیر کر لوپھر مجھے مہلت بھی نہ دو۔بیشک میں نے اللہ پر توکل کر لیا ہے جو میرا (بھی)ربّ ہے اور تمہارا (بھی)ربّ ہے۔ (سورۃ ھود 54-56)
ہمیں ظاہری اسباب تو اختیار کرنے چاہئیں لیکن بھروسہ صرف اور صرف اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے کہ وہی حقیقی مسبب الاسباب ہے۔ وہ اسباب کے بغیر بھی چیز کو وجود میں لاسکتا ہے اور اسباب کی موجودگی کے باوجود اس کے حکم کے بغیر کوئی بھی چیز وجود میں نہیں آ سکتی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا، جلانے کے سارے اسباب موجود تھے مگر حکمِ خداوندی ہوا کہ آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے سلامتی والی بن جا تو آگ نے انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچایا، بلکہ وہ آگ جو دوسروں کو جلادیتی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی کا سبب بن گئی۔
اسباب وذرائع اور وسائل کا استعمال کرنا منشائے شریعت اور حکمِ الٰہی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسباب و وسائل کو اختیار بھی فرمایا اور اس کا حکم بھی دیا خواہ لڑائی ہو یا کاروبار۔ لہٰذا جائز و حلال طریقہ پر اسباب ووسائل کو اختیار کرنا، پھر اللہ کی ذات پر کامل یقین کرنا توکل علی اللہ کی روح ہے۔
غزوۂ نجد سے واپسی پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک جگہ پر پڑاؤ کیا۔وہاں بہت سے درختوں کے جھنڈتھے۔دوپہر کا وقت تھا، صحابہ (رضی اللہ عنہم) درختوں کے سائے میں اِدھر اُدھر سو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ایک درخت کے نیچے استراحت فرما رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تلوار ایک درخت سے لٹکی ہوئی تھی تو ایک بدو چپکے سے آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تلوار پکڑ کر نیام سے باہر نکالی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے آیا کہ دفعتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیدار ہو گئے۔ دیکھا کہ ایک بدو تیغ بکف کھڑا ہے۔بدو نے پوچھا اے محمدؐ! اب مجھ سے تم کو کون بچا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پرُ اطمینان انداز میں فرمایا ’’اللہ‘‘۔(بخاری شریف، کتاب الجہاد، 2910)
آج ہمارا بھروسہ اللہ پاک کی ذات پر ہونے کے بجائے مادیت پرست ناخداؤں پر ہے۔ آج کے انسان نے اللہ پر یقین کرنے کے بجائے اپنے جیسے انسانوں کو اپنے یقین کا مرکز بنا لیا ہے۔ خصوصاً آج ہمارے ملک میں جو حالات و واقعات ہو رہے ہیں وہ اسی توکل کے فقدان کی وجہ سے ہیں کیونکہ پاکستانی قوم نے اپنا بھروسہ اپنے اپنے پسندیدہ لیڈروں سے منسوب کر رکھا ہے کہ فلاں لیڈر ہمارے لیے کچھ کرے گا، ہمارا منتخب کردہ لیڈر آئے گا تو قوم کی تقدیر بدل جائے گی خواہ ان لیڈران اور ان کے پیروکاروں کے پلے خاک بھی نہ ہو۔ جب اللہ پر بھروسہ کرنے کے بجائے انسانوں سے امیدیں وابستہ کر لی جائیں تو یہ شرک کے مترادف ہے۔ اس کا نتیجہ یہ کہ اللہ کی مدد سے بھی محروم ہوئے اور لیڈروں سے بھی کچھ نہ پایا۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں توکل کی راہ کس طرح اپنائی جائے؟؟
توکل کی راہ اپنانے کے لیے متوکلین کی صحبت اختیار کرنا ہو گی کیونکہ صحبت اثر رکھتی ہے۔ جب بندہ توکل کرنے والوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو اس میں بھی توکل کی صفت پیدا ہو جاتی ہے اور جو ناشکرے لوگوں کی صحبت اختیار کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی بن جاتا ہے۔ لہٰذا توکل کی دولت حاصل کرنے کے لیے متوکلین کی صحبت اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔
الحمدللہ! امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت ایک متوکل ولیٔ کامل کی صحبت ہے۔ آئیے!آپ بھی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت اختیار کیجئے اور رحمتِ الٰہی سے توکل کی دولت پائیے۔
استفاد کتب:
سرِ دلبراں: تصنیف شاہ محمد ذوقیؒ
شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
نجات دلانے والے اعمال کی معلومات۔۔۔مجلس المدینۃ العلمیۃ
ہدایتہ الامتہ علی منہاج القرآن و السنتہ
نوٹ: اس مضمون کو آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube) چینل کو وزٹ فرمائیں۔
مضمون لنک : Tawakkal Iman ki Azmaish | Quality of Tawakkul: Trusting in Allah’s Decisions | Urdu/Hindi Podcast
نوٹ: اس مضمون کو English میں پڑھنے کے لیے وزٹ فرمائیں۔
Link:
Very Informative Article
میرے مرشد پاک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس توکل کے بارے میں فرماتے ہیں:
اللہ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام بلکہ اپنا آپ بھی اللہ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔(شمس الفقرا)
جب اللہ کے سوا ہر شے کو ترک کر دیا جائے تب ہی توکل حاصل ہوتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
Tawakal bohot zaroori hai
توکل یہ ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہ پر اعتماد وبھروسہ کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔
Very nice
Very very great and informative artical
Very informative article beautiful ❤️
توکل آدمی کو مایوسی کے دلدل سے نکال کر امید کی چوٹی پر پہنچاتا ہے
میرے مرشد پاک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس توکل کے بارے میں فرماتے ہیں:
اللہ پاک سے عشق کا تقاضا ہے کہ اپنا ہر کام بلکہ اپنا آپ بھی اللہ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔(شمس الفقرا)
الحمدللہ! امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت ایک متوکل ولیٔ کامل کی صحبت ہے۔ آئیے!آپ بھی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت اختیار کیجئے اور رحمتِ الٰہی سے توکل کی دولت پائیے۔بیشک
حضرت ھود (علیہ السلام ) کو جب ان کی قوم اپنے دیوتاؤں کے قہر و غضب سے ڈراتی تو وہ جواب میں فرماتے:
بے شک میں اللہ کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ میں ان (دیوتاؤں) سے لا تعلق ہوں جن کو تم اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہو۔ اس (اللہ)کے سوا تم سب (بشمول تمہارے معبودانِ باطلہ)مل کر میرے خلاف (کوئی)تدبیر کر لوپھر مجھے مہلت بھی نہ دو۔بیشک میں نے اللہ پر توکل کر لیا ہے جو میرا (بھی)ربّ ہے اور تمہارا (بھی)ربّ ہے۔ (سورۃ ھود 54-56)
توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے۔
جو شخص ذاتِ الٰہی پر جیسا بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرتا ہے، اس لیے مومنین کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھیں اور اس سے اچھائی کی توقع رکھیں۔
بےشک اللہ پر توکل ہی کامیابی کا ذریعہ ہے۔
توکل یہ ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہ پر اعتماد وبھروسہ کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔
توکل ہمارے ایمان کی آزمائش ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نعمت و آسائش کی فراوانی اور اچھے حالات میسر نہ ہونے پر بھی ہم اللہ پاک کی ذات پر کتنا یقین کرتے ہیں، کتنا صبر کرتے ہیں اور ہر قسم کے حالات کو اس کی حکمت سمجھ کر ان پر شکر کرتے ہیں یا نہیں۔
طالبانِ مولیٰ اللہ پر توکل کرتے ہیں
الحمدللہ! امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت ایک متوکل ولیٔ کامل کی صحبت ہے۔ آئیے!آپ بھی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت اختیار کیجئے اور رحمتِ الٰہی سے توکل کی دولت پائیے۔
Bohat behtreen mazmoon ha
توکل دراصل انسان کی باطنی کیفیت کا نام ہے جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہے اور عمل کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ’’توکل‘‘ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر اعتماد کا دوسرا نام ہے۔
توکل یہ ہے کہ اسباب وتدابیر کو اختیار کرتے ہوئے فقط اللہ پر اعتماد وبھروسہ کیاجائے اور تمام کاموں کو اُس کے سپرد کر دیا جائے۔
بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے ۔
حضرت سیدّنا سہل بن عبداللہؒ فرماتے ہیں’’توکل کا پہلا مقام یہ ہے کہ بندہ اللہ عزوجل کے سامنے اس طرح ہو جس طرح مردہ غسل دینے والے کے سامنے ہوتا ہے، وہ اسے جس طرح چاہے الٹ پلٹ کرتا ہے۔‘‘
ابو علی دقاقؒ نے فرمایا : توکل مومنین کا خاصہ ہے اور تسلیم اولیا کا، تفویض (اپنا اختیار اللہ کے حوالے کر دینا) موحدین کا، لہٰذا توکل مومنین کی صفت ٹھہری، تسلیم خواص کی اور تفویض خواص الخواص کی۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح توکل کرو جیسے توکل کرنے کا حق ہے تو تمہیں پرندوں کی طرح روزی دی جائے کہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتے ہیں۔‘‘ (ابنِ ماجہ ، ترمذی)