حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat


4.2/5 - (115 votes)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات
( Hazrat Ali r.a  kay Daur-e-Khilafat ki Mushkilat)

قسط 2                                                                                                  تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر الزامات کی وجہ

اب جبکہ پہلے بیان کئے گئے حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تودراصل حضرت عثمان غنیؓ کی مدد میں پیش پیش تھے تو یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ حضرت علیؓ پر الزام لگایا کس نے اور کیوں لگایا اور کب اس الزام کی بنیاد رکھی گئی؟

(۱)  حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سمجھانے پر باغی واپس تو چلے گئے لیکن باغیوں کے حضرت عثمانؓ پر اٹھائے گئے اعتراضات کا کچھ اثر مدینہ کے لوگوں پر بھی ہوا اور وہ بھی شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جہاندیدہ صحابی تھے اس لیے انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ سے عرض کی کہ اگر آپ تمام مسلمانوں کو جمع کر کے خطبہ دیں اور ان کے شکوک و شبہات دور کر دیں تو مدینہ میں فضا پرسکون ہو جائے گی اور باغیوں کا راستہ بند ہو جائے گا کیونکہ باغیوں کی کامیابی صرف بد امنی میں ہے اس لیے ضروری ہے کہ آپؓ خطبہ دیں جو امن کا باعث ہو۔

یہ واقعہ تاریخ کی کتب میں کچھ یوں بیان کیا گیا ہے:
مدینہ طیبہ پر جب باغیوں نے پہلی بارشورش کی تو چھ سو(600) شورش پسندوں نے عمرہ کے بہانے مدینہ طیبہ کا رخ کیا۔ شورش پسندوں کے مدینہ کے قریب پہنچنے پر سیدّنا عثمانؓ نے سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ سے کہا کہ ان کو مدینہ داخل ہونے سے قبل ہی سمجھا بجھا کر واپس بھیج دیا جائے۔۔۔ سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے تیس صحابہ کرامؓ کی معیت میں شورش پسندوں کے پاس جا کر انہیں سمجھایا اور انہیں واپس بھیج دیا اور جو کچھ ان لوگوں نے سیدّنا عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ پر اعتراضات اٹھائے ان کے شافی جوابات دیے۔ بعد میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے امیر المومنین کو اس کی اطلاع دی اور کہا کہ آپؓ لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیں۔ (امیر المومنین سیدّنا علیؓ، ص274,275) 

پھر حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کہنے پر ایک خطبہ دیا جس کے متعلق ابنِ کثیر نے لکھا ہے:
حضرت عثمانؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور سب مسلمان بھی زارو قطار رو رہے تھے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 174) 

ابنِ خلدون اس خطبے کے متعلق لکھتے ہیں:
یہ کہہ کر امیر المومنین خود بھی روئے اور حاضرین بھی روپڑے۔ (ابنِ خلدون، جلد دوم، حصہ اوّل، ص375)

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشورے سے عام مسلمانوں کے سامنے ایک تقریر کی اور پھر آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی وضاحت کی۔ اس تقریر کا لوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوا اور ان میں سے اکثر ان کی تقریر سن کر رودیے۔ (خلفائے راشدین، ص 137)

اگر اس خطبے کے اثر کی بات کی جائے تو اس ایک خطبہ کی وجہ سے باغی 3 ماہ تک مدینہ سے دور رہے کیونکہ اس خطبہ کی وجہ سے اہلِ مدینہ کے سب شکوک دور ہو گئے اور اسطرح کوئی بھی باغیوں کی مدد کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ باغیوں نے کافی بار اہلِ مدینہ کو چھپ کر پیغام بھجوایا کہ حضرت عثمانؓ کے خلاف ان کی مدد کریں لیکن کوئی آمادہ نہ ہوا اور جواب دیا کہ امیرالمومنین ہمیں عام خطبہ میں تم لوگوں کی حقیقت بتا چکے ہیں۔ 

یہ سب صرف اور صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔ اگر حضرت علیؓ (معاذ اللہ) باغیوں کے مدد گار ہوتے توان کا راستہ کیوں بند کرتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن گردانتے تھے۔ اس واقعہ سے باغیوں نے اندازہ لگا لیا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ان کے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ اگر حضرت عثمانؓ اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشوروں پر چلتے رہے تو حضرت عثمانؓ کی خلافت ختم نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے اس سلسلہ میں منصوبہ بنایا کہ لوگوں کو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف ورغلا یاجائے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت عثمانؓ کے مخالف ہیں اور ان کو خلافت سے دستبردار کراناچاہتے ہیں۔ اس طرح جب یہ خبر حضرت عثمانؓ اور ان کے گورنروں تک پہنچے گی کہ حضرت علیؓ حضرت عثمانؓ کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں تو حضرت عثمانؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ناراض ہو جائیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا تو بھی کامیابی ملے گی کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے نام پر لوگ حضرت عثمانؓ کو خلافت سے دستبردار کر کے چھوڑیں گے۔ اس لیے دوسری دفعہ مدینہ آنے سے پہلے انہوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور باقی جید اصحاب سے جھوٹی باتیں منسوب کر کے مختلف لوگوں کو خط لکھے اور ان کو حضرت عثمانؓ کے خلاف ورغلایا۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
اہلِ مصر، اہلِ کوفہ اور اہلِ بصرہ نے آپس میں خط و کتابت کی اور ایک دوسرے کی طرف پیغامات بھیجے اور اپنے خطوط میں مدینہ میں مقیم صحابہ کرامؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر کے لوگوں کو ورغلایا اور حضرت عثمانؓ کے ساتھ قتال اور اپنی دانست میں دین کی نصرت پر انہیں برانگیختہ کیا اور کہا کہ یہ اس زمانہ میں جہادِ اکبر ہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 175)

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے اور سمجھنا ضروری ہے کہ یہ خطوط بھی ان بہت سی غلط روایات کی بنیاد بنے جو کہ چند مورخیں نے لکھی ہیں۔ جب باغیوں کو تسلی ہو گئی کہ ان کے خطوط کے باعث نو مسلم حضرت عثمانؓ کے خلاف ہو گئے ہیں تو مصر، بصرہ اور کوفہ سے مختلف ٹولیاں نکلیں اور مدینہ سے کچھ فاصلے پر رک گئیں۔ ایک لشکر ذی خشب کے مقام پر رکا اور دوسرا ذی مروہ کے مقام پر۔یہ لوگ حضرت علیؓ کے پاس گئے اور اپنا مقصد بیان کیا کہ حضرت عثمانؓ کو معزول کر دیا جائے۔ ابنِ کثیر اس پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے جواب کے متعلق لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان سے سخت ناراضی کا اظہار فرمایا اور وہاں سے بھگا دیا اور ساتھ یہ فرمایا کہ صالحین کو معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ذی مروہ اور ذی خشب کے لشکروں پر لعنت فرمائی ہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 186)

ابنِ خلدون نے لکھا ہے:
مصریوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کہا ’’ہم عثمانؓ کی امارت سے بیزار ہیں آپ ہم سے بیعت لے لیجئے۔ ابھی ہم واپس جاتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ غصے سے کانپ اٹھے اور سخت آواز میں فرمایا’’بے شک ذی مروہ اور ذی خشب و اعوض (کے لشکر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ارشاد کے مطابق ملعون ہیں اور اس حدیث کو صلحا مومنین جانتے ہیں۔ تم لوگ میرے سامنے سے دور ہو آئندہ اس قسم کی گفتگو میرے روبرو نہ کرنا۔‘‘ (تاریخ ابنِ خلدون جلد دوم، ص 353-354)

باقی صحابہ کرامؓ نے بھی ان ملعونوں کو مدینہ سے فوراً نکل جانے کو کہا۔ وہ آخر مایوس ہو کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی جب سب صحابہ کرامؓ گھروں کو لوٹ چکے تھے تو مدینہ کی گلیوں میں کہرام مچ گیا، گلی گلی گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دینے لگیں۔ ان باغیوں نے مدینہ کا گھیراؤ کر لیا تھا۔ اہلِ مدینہ ان کے عزائم سے بے خبر تھے۔ حالات پہلے ہی گھمبیر تھے، اس وقت مزیدبے چینی اور خوف پھیل گیاکیونکہ اس طرح کی سیاسی صورت حال اس سے قبل کسی خلیفہ کے دور میں نہیں ہوئی تھی۔ 

طبری نے ان حالات کے متعلق لکھا ہے:
اہلِ مدینہ اپنے گھروں کی چار دیواریوں میں محصور ہو گئے تھے، وہ گھروں سے نہیں نکلتے تھے۔ ان میں سے کوئی تلوار کے بغیر نہیں بیٹھتا تھا کہ ان باغیوں کے ظلم و ستم سے اپنے آپ کی حفاظت کر سکے۔ (تاریخ طبری جلد سوم، حصہ اوّل، ص403)

حضرت علیؓ نے اہلِ بصرہ اور اہلِ کوفہ سے پوچھا کہ تم لوگ واپس کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ اہلِ مصر جب واپس جا رہے تھے تو انہیں ایک قاصد ملا جس کے پاس ان کے متعلق حکم تھا کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔ 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کا جھوٹ پکڑ لیا۔ تاریخ طبری میں ہے کہ سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ نے ان سے سوال کیا:
اے اہلِ کوفہ اور اہلِ بصرہ! مصر والوں کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے کہ انہوں نے ایک قاصد کو پکڑ کر اس سے ایک خط حاصل کیا، اس واقعہ کا تمہیں کیسے علم ہو گیا جب کہ تم کئی منزلیں طے کر چکے تھے اور اب تم سب اکھٹے ہو کر یہاں واپس آ گئے۔ بخدا یہ تو مدینہ میں ہی کی گئی سازش ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ اس کو جس پر چاہیں محمول کر لیں ہمیں تو ان(حضرت عثمانؓ)کی ضرورت نہیں۔ (تاریخ طبری جلد سوم، حصہ اوّل، ص 400)

اس واقعہ کے متعلق پیام شاہجہانپوری لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا مطلب یہ تھا کہ جب سارے مفسد ایک ہی وقت میں مدینہ سے اپنے اپنے علاقوں کو روانہ ہوئے تو جتنا فاصلہ اہلِ مصر طے کر چکے ہوں گے اتنا ہی فاصلہ اہلِ کوفہ اور اہلِ بصرہ نے طے کیا ہوگا۔ خط پکڑا اہلِ مصر نے تو اصولاً صرف اہلِ مصر کو واپس آنا چاہیے تھا اور اہلِ کوفہ و بصرہ کو اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے تھا کیونکہ انہیں تو اس واقعہ کی خبر نہ تھی مگر تینوں علاقوں کے لوگ بیک وقت مدینہ میں داخل ہو گئے۔ (عثمانؓ اور عثمانؓ کی خلافت، ص 377)

جب باغیوں نے دیکھا کہ ان کا جھوٹ پکڑا گیا تو انہوں نے حضرت علیؓ پر الزام لگا دیا کہ آپ نے ہی تو ہمیں خط لکھا تھا کہ واپس آئیں۔ باغیوں نے کہا:
پھر آپ نے ہمیں خط کیوں لکھا؟
حضرت علیؓ نے ان کے جواب میں فرمایا:
بخدا میں نے کبھی تمہاری طرف خط نہیں لکھا۔ (تاریخ طبری جلد ۳)

ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓکے خلاف اہلِ بصرہ، اہلِ کوفہ اور اہلِ مصر نے سازش کی۔ باغیوں کی انہی کوششوں کی وجہ سے لوگ ایسی روایات بیان کرتے ہیں جن کادور دور تک حقائق سے تعلق ہی نہیں۔ 

(۲)  عبداللہ بن سبا ایک یہودی تھا جس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ اس نے حضرت عثمانؓ کے دور میں اسلام قبول کیا۔ اس کا مقصد اسلام کا اتحاد ختم کرنا تھا۔ یہ مختلف عقائد و نظریات کی مدد سے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا نام استعمال کیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لیے تحریک شروع کی کہ انہیں خلیفہ ہونا چاہیے۔اس نے موقف اختیار کیا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصی تھے اس لیے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ مسندِخلافت پر براجمان ہو۔ اس نے کمزور عقیدہ نومسلموں کو اپنے ساتھ ملایا اور حضرت عثمانؓ کے خلاف کھڑا کر دیا۔ جن لوگوں کو اس لعین کی حقیقت معلوم نہ تھی اور جو دور دراز کے علاقوں میں رہائش پذیر تھے وہ یہ سمجھنے لگے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی (معاذاللہ) لوگوں کو حضرت عثمانؓ کے خلاف ابھار رہے ہیں اور خلافت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ عبداللہ بن سبا خود بھی یہ مشہور کرتا کہ اسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے مدد ملتی ہے تبھی وہ یہ کر رہا ہے۔ اسطرح اس ملعون نے امت کو تقسیم کیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر بہتان لگائے۔
اسی پروپیگنڈہ کا شکار کچھ مورٔخ بھی ہوئے اور انہوں نے لکھا کہ حضرت علیؓ خلافت چاہتے تھے۔ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان میں بہت بڑی گستاخی ہے۔ اللہ اس سے سب کو بچائے۔ آمین!

اس کا تفصیلی ذکر اگلے ابواب میں آئے گا جہاں سیر حاصل بحث کی جائے گی کہ کس طرح حضرت علیؓ تو ہمیشہ خلافت کی باگ دوڑ سنبھالنے سے کتراتے رہے یہاں تک کہ آپؓ کو مہاجرین و انصار نے مجبور کر دیا۔

(۳)  جب باغی مدینہ واپس آ چکے تھے تو جمعہ کے روز حضرت عثمانؓ مسجد تشریف لائے اور خطبہ دینا شروع کیا تو ایک لعین جھجاہ نامی شخص کھڑا ہوا اور حضرت عثمانؓ کو برا بھلا کہنے لگا۔ اس لعین نے آپؓ سے عصا کھینچا۔ یہ وہ عصا تھا کہ جس سے خطبہ کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ٹیک لگایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے زیرِ استعمال رہا، پھر حضرت عمرؓ اور پھر حضرت عثمانؓ کے پاس آگیا۔ جھجاہ لعین نے وہ عصا کھینچا اور گھٹنے پر رکھ کر توڑ دیا۔ توڑتے ہوئے اس کی چھوٹی سی لکڑی اس کے گٹھنے میں لگ گئی اور زخم ہو گیا۔ وہ زخم بعد میں ناسور میں بدل گیا اور اس زخم میں کیڑے بھی پڑ گئے۔ چونکہ وہ عصا ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا تو حضرت عثمانؓ نے حکم فرمایا اس کو جوڑ دیا جائے۔ حضرت عثمان منبر سے نیچے تشریف لے آئے اور گھر چلے گئے۔ 

پھر ایک بار جب آپؓ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے تو آپؓ پر سنگ باری کی گئی جس سے آپ ؓزخمی ہو گئے اور بیہوش ہو کر گر پڑے۔ آپؓ کو اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور باقی صحابہ کرامؓ آپؓ کی عیادت کے لیے آئے۔ ابنِ سعد نے لکھا ہے:
 اس دوران حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور بعض دوسرے اکابر صحابہؓ باربار حضرت عثمانؓ کی خدمت میں درخواست کرتے کہ اگر آپؓ اجازت دیں تو ہم مفسدین کا قلع قمع کر دیں۔ (ابن سعد)

اس روز سے باغیوں نے آپؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کچھ روایات کے مطابق تیس اور کچھ روایات کے مطابق چالیس روز رہا۔ طبری نے لکھا ہے:
سیف کی روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ کا محاصرہ چالیس دن رہا اور باغیوں کا قیام ستر دن رہا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص440)

اس دوران حضرت عثمانؓ نے ہر کسی کو تلوار نیام سے نکالنے سے سختی سے روک دیا۔ یہاں تک کہ اپنے غلاموں سے کہا:
جس نے تلوار کو نیام میں کر لیا وہ آزاد ہے۔ (تاریخ ابنِ کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص183) 

باغیوں نے آپؓ کے گھر کے دروازوں کو آگ لگا دی۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی وہاں موجود تھے جو سنگباری کی وجہ سے زخمی ہو چکے تھے۔ 

یہاں یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بعض مورٔخ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر تہمت لگاتے ہیں کہ آپ حضرت عثمانؓ سے ناراض ہو کر مدینہ سے جا چکے تھے۔ ان کم عقلوں کے لیے یہی دلیل کافی کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ادھر موجود تھے۔ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ناراض ہوتے تو کیا اپنے دونوں صاحبزادوں کو ان کی حفاظت پر مامور کرتے جبکہ ان کی جان کو بھی خطرہ تھا۔ 

باغیوں کا جمِ غفیر اشتعال انگیزی کی آخری حد پار کر چکا تھا۔ انہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا۔ طبری نے لکھا ہے:
ان باغیوں نے جو کچھ گھر میں تھا ،سب لوٹ لیا۔ یہاں تک کہ خواتین کے بدن پر جو زیور تھا اسے بھی چھین لیا۔ ایک شخص نے حضرت نائلہ کی چادر چھین لی۔ اس کے بعد باغیوں نے اعلان کیا کہ بیت المال میں جو ہے حاصل کرو۔ یہ لوگ بیت المال گئے اور اسے بھی لوٹ لیا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص447)

ابنِ سعد لکھتے ہیں:
جس روز حضرت عثمانؓ شہید کئے گئے اس روز بیت المال کے خزانہ دار کے پاس پینتیس لاکھ درہم اور ڈیڑھ لاکھ دینار تھے، وہ سب لوٹ لئے گئے۔ (طبقات ابن سعد، جلد دوم، حصہ سوم، ص 146)

ان باغیوں نے اُم المومنین حضرت اُم حبیبہؓ کی شان میں گستاخی بھی کی۔ طبری لکھتے ہیں:
اُم المومنین حضرت اُم حبیبہؓ اپنے خچر پر سوار ہو کر پانی کا ایک مشکیزہ لے کر آئیں تو لوگوں نے کہا یہ تو اُم المومنین ہیں۔ انہوں نے ان کے خچر کے منہ پر طمانچے مارے۔ خچر کی رسی تلوار سے کاٹ دی۔ لوگوں نے اُم المومنین حضرت اُم حبیبہؓ کو پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ انہیں شہید کر دیا جاتا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص441)

کچھ مورٔخ حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر الزام تراشی کرتے ہیں کہ آپؓ نے حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو پناہ دی۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ کوئی عام مسلمان بھی جس میں ذرّہ بھر ایمان ہے وہ مر جائے گا لیکن اس قسم کے انسانوں کو پناہ نہیں دے سکتا جو خلیفہ کے قاتل ہوں، اُم المومنین کے گستاخ ہوں، حضرت عثمانؓ کے گھر کو لوٹنے والے ہوں، حضرت نائلہؓ کی چادر اور زیورچھیننے والے ہوں۔اگر کوئی عام مسلمان ان جیسے خبیث لوگوں کو پناہ دینے سے جان دینا بہتر سمجھتا ہے تو پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ایسا کیونکر کریں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خود باغیوں کو ڈرایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ذی مروہ اور ذی خشب کے لشکروں پر لعنت فرمائی ہے توکیا یہ ممکن تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ان کی مدد کرتے یا حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد ان کو پناہ دیتے! خدارا ایسا سوچنے والوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں کہ بغضِ علیؓ جیسے کبیرہ گناہ میں ملوث ہو کر اپنا ایمان نہ گنوائیں۔ 

حقیقت تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے خلاف سازش بنی کہ ان کو خلافت سے اتار کر طاقت اپنے ہاتھ میں لی جائے، وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت عثمانؓ کے بعد اُمت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے گرد جمع ہو جائے گی اس لیے وہی سازشی لوگ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف بھی سازشوں میں مصروفِ عمل تھے کیونکہ اس کام کے بغیر ان کو کامیابی نظر نہیں آ رہی تھی۔ 

(۴)  مروان بن حکم نے کچھ احکامات ایسے دیے تھے جن کو بنیاد بنا کر باغیوں نے لوگوں کو حضرت عثمانؓ کے خلاف بھڑکایا تھا۔ مروان نے یہ احکامات اپنے تیئں دیے تھے اور حضرت عثمانؓ کو ان کا علم بھی نہ تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حضرت عثمانؓ کو ان احکامات کے برعکس ایسا مشورہ دیتے کہ مروان اپنا مقصد حاصل نہ کر پاتا اس لیے مروان بھی یہ چاہتا تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو راستے سے ہٹایا جائے تاکہ وہ اپنی من مانی کر سکے۔ 

جس خط کا بہانہ بنا کر باغی مدینہ واپس آئے تھے اس خط میں الزام تھا کہ حضرت عثمانؓ نے باغیوں کے قتل کا حکم دیا ہے۔ اس کے بارے میں طبری میں ہے:
حضرت عثمانؓ نے اللہ کی قسم کھا کر فرمایا کہ نہ تو انہوں نے وہ خط لکھا اور نہ انہیں اس کا علم ہے اور نہ ان سے کبھی اس بارے میں مشورہ کیا گیا تھا۔ اس پر حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا ’’بخدا! آپ سچے ہیں مگر یہ مروان کا فعل معلوم ہوتا ہے۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص 428)

مروان بن حکم کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں۔ کچھ لوگوں کی نظر میں وہ صحابی تھا لیکن کچھ کی نظر میں وہ صحابی نہ تھا۔ بہرحال مروان بن حکم کے بارے میں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اس کا ذکر مستند حوالوں سے کرنا ضروری ہے کیونکہ سب سے مدلل وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی ہوئی بات ہی ہمارا ایمان ہے۔ 

اس ضمن میں چند ایک احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’جس کسی کے ہاں بھی بچہ پیدا ہوتا، وہ اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں لاتا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے لیے دعا فرماتے۔ اسی طرح مروان بن حکم کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا گیا۔ آپؐ نے اس کے بارے میں فرمایا ’’یہ وزغ بن وزغ ( بزدل باپ کا بزدل بیٹا ) ہے ، ملعون ابنِ ملعون (لعنتی باپ کا لعنتی بیٹا ) ہے۔‘‘ (مستدرک امام حاکم 8477)
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم اور اس کے بچے پر لعنت فرمائی۔ (مستدرک امام حاکم 8485)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حکم بن ابی العاص کے بیٹے میرے منبر پر چڑھ رہے ہیں جیسے بندر (درخت پر) چڑھتے ہیں۔‘‘ (کنزالعمال 30846)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے جیسے حکم بن ابی العاص کی اولادیں میرے منبر پر بندروں کی طرح پھدک رہی ہیں۔(مستدرک امام حاکم 8481)
 یہ حدیث امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمتہ اللہ علیہ کے معیار کے مطابق صحیح ہے لیکن شیخین رحمتہ اللہ علیہما نے اس کو نقل نہیں کیا۔

ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت عثمانؓ سے ایک موقع پر مروان کے متعلق فرمایا:
مروان آپؓ سے آپؓ کے دین اور عقل کو ضائع کیے بغیر راضی نہ ہو گا۔ اللہ کی قسم مروان اپنے دین اور اپنی ذات کے بارے میں عقلمند نہیں ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ آپؓ کو ایسی جگہ داخل کر دے گا کہ پھر خبر نہیں لے گا۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد ۴، حصہ ہفتم، ص 157)

یہاں تک کہ جب حضرت عثمانؓ کی زوجہ حضرت نائلہؓ نے مروان کا طرز ِعمل دیکھا تو حضرت عثمانؓ سے فرمایا:
اگر آپؓ مروان کی مانیں گے تو وہ آپؓ کو مروا دے گا، اس لیے کہ مروان کو نہ تو اللہ کی قدر ہے اور نہ اس کی ہیبت کی اور نہ اس کی محبت ہے۔ (تاریخ ابن کثیر، جلد 4، حصہ ہفتم، ص 157)
طبری کے مطابق مروان بن حکم بھی حضرت عثمانؓ کو حضرت علیؓ کے خلاف بدظن کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہتا۔ (تاریخ طبری جلد سوم)

پیام شاہجہانپوری نے مروان کے متعلق اپنا نظریہ بہت واضح اور کھل کر لکھا ہے:
جن لوگوں نے مروان کو ’’حضرت‘‘ اور ’’رضی اللہ‘‘ بنانے کی کوشش کی ہے انہوں نے تاریخ کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ جہاں تک ان روایتوں کا تعلق ہے جن سے مروان کی فضیلت ثابت کی جاتی ہے تو ایسی روایات کس کے حق میں موجود نہیں؟ آخر وہ لوگ بھی تو ہیں جو یزید جیسے فاسق شخص کی فضیلت ثابت کرتے ہیں اور وہ بھی اپنے مقصد کے حصول کے لیے اسی قسم کی جعلی اور فرضی روایتوں کا سہارا لیتے ہیں۔ جن لوگوں کی تاریخ پر گہری نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ بنو امیہ کے عہدِاقتدار میں روایات گھڑنے کے کارخانے قائم تھے جن سے روایات ڈھل ڈھل کر نکلتی تھیں۔ ان کی ضد میں بنو ہاشم کے بہی خواہوں نے بھی روایت سازی کے کارخانے قائم کر لئے تھے اور وہ حضرت علیؓ اور دوسرے آئمہ کے حق میں نہایت مبالغہ آمیز روایات گھڑتے تھے۔ ایک غیر جانبدار مؤرخ کو ان دونوں قسم کی روایات قبول کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور واقعات کی بنیاد ان روایتوں پر رکھنی چاہیے جو ان شخصیتوں کے مزاج اور سیرت و کردار سے میل کھاتی ہوں۔ یزید اور مروان کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے جو روایات پیش کی جاتی ہیں چونکہ وہ ان دونوں کے عام اخلاق و کردار سے میل نہیں کھاتیں اس لیے انہیں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ (عثمانؓ اور عثمانؓ کی خلافت، ص 378-379)

ان تمام احادیث، حقائق اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسے،  کب اور کیوں حضرت علیؓ پر الزام لگایا گیا کہ وہ (معاذاللہ) حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے مددگار تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ان مفسدوں اور فتنہ پردازوں کے راستے کی دیوار تھے اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ہی اپنا دشمن گردانتے تھے کیونکہ مفسدوں کا خیال تھا کہ جب حضرت علیؓ کو خلافت کا کہا جائے گا تو وہ حضرت عثمانؓ کا ساتھ چھوڑ دیں گے جبکہ حضرت علیؓ نے ایک لمحہ کے لیے بھی حضرت عثمان ؓکا ساتھ نہ چھوڑا۔ 

(جاری ہے)

استفادہ کتب:
۱۔خلفائے راشدینؓ، مصنف: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس، ناشر : سلطان الفقر پبلیکیشنز
۲۔تاریخ الخلفا ، مصنف: امام جلال الدین سیوطیؒ،ناشر شبیر برادرز لاہور
۳۔ تاریخ ابن ِکثیر، مصنف:حافظ عمادالدین ابوالفداء اسماعیل، ناشر دارالاشاعت کراچی
۴۔ تاریخ طبری، مصنف:علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی
۵۔ تاریخ ابن ِخلدون، مصنف:علامہ عبدالرحمن ابن ِخلدون، نفیس اکیڈمی کراچی
۶۔ طبقات ابن ِسعد، مصنف: محمد بن سعد، نفیس اکیڈمی کراچی
۷۔انساب الاشراف، مصنف: ابوالحسن احمد بن یحییٰ بن جابر بن داؤد
۸۔علیؓ اور ان کی خلافت، مصنف:پیام شاہجہانپوری، اشاعت 1956 

 
 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :    Hazrat Ali r.a Kay Dor-e-Khilafat Ki Mushkilat | Urdu/Hindi | حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کی مشکلات

 
 
 

28 تبصرے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

  1. پھر حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کہنے پر ایک خطبہ دیا جس کے متعلق ابنِ کثیر نے لکھا ہے:
    حضرت عثمانؓ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور سب مسلمان بھی زارو قطار رو رہے تھے۔

  2. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
    حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشورے سے عام مسلمانوں کے سامنے ایک تقریر کی اور پھر آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی وضاحت کی۔ اس تقریر کا لوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوا اور ان میں سے اکثر ان کی تقریر سن کر رودیے۔ (خلفائے راشدین، ص 137)

  3. ابنِ سعد لکھتے ہیں:
    جس روز حضرت عثمانؓ شہید کئے گئے اس روز بیت المال کے خزانہ دار کے پاس پینتیس لاکھ درہم اور ڈیڑھ لاکھ دینار تھے، وہ سب لوٹ لئے گئے۔ (طبقات ابن سعد، جلد دوم، حصہ سوم، ص 146)

  4. اللہ پاک ہمیں حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

  5. حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا دور خلافت مشکلات، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا دور تھا

  6. حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’جس کسی کے ہاں بھی بچہ پیدا ہوتا، وہ اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں لاتا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کے لیے دعا فرماتے

  7. حضرت علی رض کا دور خلافت شروع ہونے سے پہلے جو مشکلات اور سازشیں ہو رہی تھیں ان پر اچھی تحقیق ہے۔

  8. سیف کی روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ کا محاصرہ چالیس دن رہا اور باغیوں کا قیام ستر دن رہا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ اول، ص440)

  9. ان تمام احادیث، حقائق اور واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ کیسے، کب اور کیوں حضرت علیؓ پر الزام لگایا گیا کہ وہ (معاذاللہ) حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے مددگار تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ان مفسدوں اور فتنہ پردازوں کے راستے کی دیوار تھے اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ہی اپنا دشمن گردانتے تھے کیونکہ مفسدوں کا خیال تھا کہ جب حضرت علیؓ کو خلافت کا کہا جائے گا تو وہ حضرت عثمانؓ کا ساتھ چھوڑ دیں گے جبکہ حضرت علیؓ نے ایک لمحہ کے لیے بھی حضرت عثمان ؓکا ساتھ نہ چھوڑا۔

  10. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
    حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشورے سے عام مسلمانوں کے سامنے ایک تقریر کی اور پھر آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی وضاحت کی۔ اس تقریر کا لوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوا اور ان میں سے اکثر ان کی تقریر سن کر رودیے۔ (خلفائے راشدین، ص 137)

  11. (۱) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سمجھانے پر باغی واپس تو چلے گئے لیکن باغیوں کے حضرت عثمانؓ پر اٹھائے گئے اعتراضات کا کچھ اثر مدینہ کے لوگوں پر بھی ہوا اور وہ بھی شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جہاندیدہ صحابی تھے اس لیے انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ سے عرض کی کہ اگر آپ تمام مسلمانوں کو جمع کر کے خطبہ دیں اور ان کے شکوک و شبہات دور کر دیں تو مدینہ میں فضا پرسکون ہو جائے گی اور باغیوں کا راستہ بند ہو جائے گا کیونکہ باغیوں کی کامیابی صرف بد امنی میں ہے اس لیے ضروری ہے کہ آپؓ خطبہ دیں جو امن کا باعث ہو۔

  12. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
    حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشورے سے عام مسلمانوں کے سامنے ایک تقریر کی اور پھر آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی وضاحت کی۔ اس تقریر کا لوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوا اور ان میں سے اکثر ان کی تقریر سن کر رودیے۔ (خلفائے راشدین، ص 137)

  13. حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر بہترین مضمون ہے

  14. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس لکھتے ہیں:
    حضرت عثمانؓ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشورے سے عام مسلمانوں کے سامنے ایک تقریر کی اور پھر آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی وضاحت کی۔ اس تقریر کا لوگوں پر بڑا اچھا اثر ہوا اور ان میں سے اکثر ان کی تقریر سن کر رودیے۔ (خلفائے راشدین، ص 137)

  15. حضرت علیؓ نے ایک لمحہ کے لیے بھی حضرت عثمان ؓکا ساتھ نہ چھوڑا۔

  16. بہترین آرٹیکل ہے
    بہت وضاحت سے حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ۔

  17. حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ان مفسدوں اور فتنہ پردازوں کے راستے کی دیوار تھے اور وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ہی اپنا دشمن گردانتے تھے کیونکہ مفسدوں کا خیال تھا کہ جب حضرت علیؓ کو خلافت کا کہا جائے گا تو وہ حضرت عثمانؓ کا ساتھ چھوڑ دیں گے جبکہ حضرت علیؓ نے ایک لمحہ کے لیے بھی حضرت عثمان ؓکا ساتھ نہ چھوڑا۔

  18. اب جبکہ پہلے بیان کئے گئے حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تودراصل حضرت عثمان غنیؓ کی مدد میں پیش پیش تھے تو یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ حضرت علیؓ پر الزام لگایا کس نے اور کیوں لگایا اور کب اس الزام کی بنیاد رکھی گئی؟

    (۱) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سمجھانے پر باغی واپس تو چلے گئے لیکن باغیوں کے حضرت عثمانؓ پر اٹھائے گئے اعتراضات کا کچھ اثر مدینہ کے لوگوں پر بھی ہوا اور وہ بھی شکوک و شبہات کا شکار ہونے لگے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جہاندیدہ صحابی تھے اس لیے انہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ سے عرض کی کہ اگر آپ تمام مسلمانوں کو جمع کر کے خطبہ دیں اور ان کے شکوک و شبہات دور کر دیں تو مدینہ میں فضا پرسکون ہو جائے گی.

  19. بہت معلوماتی مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اپنے دین کو دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں