خواتین اور راہِ معرفت Khawateen aur Rah-e-Marfat


4.8/5 - (128 votes)

خواتین اور راہِ معرفت (Khawateen aur Rah-e-Marfat)

تحریر:  محترمہ مقدس یونس سروری قادری

اس دنیا کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔معرفت سے مراد جاننا، پہچاننا اور کسی شے یا ہستی کے متعلق علم حاصل کرنا ہے۔ جس طرح دنیاوی علم کا حصول دنیا میں ترقی کرنے کے لیے لازم ہے اسی طرح معرفتِ الٰہی کا حصول قربِ حق تعالیٰ میں ترقی کے لیے لازم ہے۔

علمِ معرفت، دینِ اسلام کی بنیاد اور ہر عبادت کی روح ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو پہچانا نہ جائے اس کی کامل عبادت ممکن نہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ سرّالاسرار میں فرماتے ہیں:
مَنْ لَمْ یَعْرِفُہٗ کَیْفَ یَعْبُدُہٗ 
  ترجمہ: جو اللہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اس کی عبادت کیسے کر سکتا ہے۔
بقول شاعر

تجھی کو جو یاں جلوہ نما نہ دیکھا
برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

اللہ تعالیٰ کی معرفت عقل کے ذریعے حاصل کرنا ممکن نہیں کیونکہ عقل محدود ہوتی ہے جبکہ ذاتِ حق تعالیٰ لامحدود ہے اس لیے عقل کے احاطہ و ادراک میں آہی نہیں سکتی۔ البتہ عقل کے ذریعے کائنات کی تمام اشیا پر غور وفکر کر کے ان کے خالق کے متعلق علم کے حصول میں مدد ضرور حاصل کی جاسکتی ہے۔ روح کا تعلق عالمِ اَمر سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قل روح من امر ربی     (بنی اسرائیل ۔85)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما دیں کہ روح میرے ربّ کا امر ہے۔ 

لہٰذا روح کی رسائی عالمِ امر تک ہے جبکہ عقل عالمِ ناسوت میں قید ہے۔ اس لیے روح ہی اپنے عالم ناسوت سے عالم امر کے سفر کے دوران معرفتِ الٰہی کا حصول اسی طریقے سے کرتی ہے جس طرح ایک انسان اپنے سفر کے دوران مختلف مقامات کے متعلق علم حاصل کرتا ہے۔ جو انسان گھر کی چار دیواری میں ہی قید رہے اور سفر پر نہ نکلے وہ نہ تو منزل پر پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی اس سفر کے مختلف مقامات یا منازل کے متعلق کچھ معلوم کر سکتاہے۔ اسی طرح جو روح جسمِ انسانی میں قید رہے اور عالمِ ناسوت سے عالمِ امر تک اپنے ربّ یعنی اپنی منزل تک سفر ہی نہ طے کرے، وہ نہ اللہ تک پہنچ سکتی ہے اور نہ اس کے متعلق کچھ علم حاصل کر سکتی ہے۔ چنانچہ معرفتِ الٰہی کے حصول کے لیے سب سے پہلی بات جو ضروری ہے ،وہ یہ کہ روح اپنے اللہ سے ملاقات کے سفر پر نکلنے کا ارادہ اور خواہش کرے۔ پھرجب ارادہ مضبوط ہوجائے تو اس سفر کی تیاری کرے۔تیاری کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذکر ِاللہ کازادِ راہ ساتھ لے کسی رہبر (مرشد کامل) کو رفیق بنائے۔

 راہِ معرفت پر چلنے کیلئے بحکم قرآنی،وسیلہ اختیار کرنا پڑتا ہے:
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ   (المائدہ۔35)
ترجمہ: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو۔

میرے مرشد کامل سلطان العاشقین ’’وسیلہ‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں:
شرعی اصطلاح میں وسیلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی ایسی ہستی کو وسیلہ بنایا جائے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہو۔جس نے راہِ سلوک طے کیا ہو اور اس راستہ کے نشیب و فرازسے واقف ہو۔ تصوف میں وسیلہ سے مراد مرشد، ہادی،شیخ یا پیر ہے۔جو خود شناسائے راہ ہو اور راہ ِفقر کی منزلیں طے کرتا ہوا حریمِ قدس تک پہنچ چکا ہو۔(شمس الفقرا)

حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب تک تجھے معرفتِ حق حاصل نہیں تو کسی راہبر مرشد کو تلاش کر تاکہ تو اللہ تعالیٰ کا دوست بن سکے ۔(امیر الکونین)
اسی طرح آپؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

کی ہویاجے راتی جاگیوں جے مرشد جاگ نہ لائی ھوُ
راتیں جاگے تے کریں عبادت ڈینہہ نندیاں کریں پرائی ھوُ

یعنی تیرے شب و روز کی مسلسل عبادت و ریاضت کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں جب تک مرشد کامل تیرے باطن میں معرفتِ الٰہی اور حبِ الٰہی کی جاگ نہ لگا دے۔اگر ایسا نہ ہو توآدمی ایک طرف تو عبادت کرتاہے لیکن دوسری طرف مخلوقِ خدا کی برائی کرنے سے بھی باز نہیں آتا۔یعنی عبادت اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی کیونکہ اس کا باطن محبت الٰہی کی بجائے نجاستِ نفس میں گھر ا ہوتا ہے جس سے نجات کیلئے مرشد کامل کی صحبت و رفاقت کا فیض ضروری ہے۔ 

خواتین کے لیے معرفت کی اہمیت

دیگر بہت سے معاملات کی طرح فقر و معرفت کے حصول کو بھی خواتین کے لیے ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ جس طرح ان کی دنیاوی ترقی میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں اسی طرح دینی ترقی سے بھی روکا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دین کی حقیقت سے لاعلمی ہے۔ راہِ معرفت پربغیر کسی مرشد کامل اکمل کے چلنا ناممکن ہے لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کی بیعت اور کامل مرشد کی صحبت کے متعلق ایک غلط مسئلہ جس کی کوئی بنیاد نہیں مشہور کردیا گیاہے وہ یہ کہ خواتین والد اور شوہر کی اجازت کے بغیر بیعت نہیں کرسکتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر والد یا شوہر خود راہِ طریقت و فقر کو حق ماننے والا ہے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سچا پیروکار ہے، دین کے سلسلے میں حقیقی علم رکھنے والا باشعور اور ہدایت یافتہ ہے تو وہ کبھی اپنی بیٹی یا بیوی کو راہِ خدا پر آگے بڑھنے سے نہیں روکے گا۔ اگر وہ ان اوصاف سے عاری ایک جاہل اور بے ہدایت انسان ہے تو خود ہی سوچیں کہ کیا ایسے شخص کی بات مان کر خواتین کو اپنے اور اللہ کے تعلق کو مضبوط بنانے اور اس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش چھوڑ دینی چاہیے؟ہرگز نہیں۔

 موت کے بعد قبر میں عورت کو نہ اس کا والد بچانے آئے گا نہ شوہر اور نہ ہی اس وقت وہ یہ عذر پیش کرسکے گی کہ میں اللہ کے قرب و معرفت سے اس لیے محروم ہوں کہ میرے والد یا شوہر نے مجھے اللہ کی راہ پر چلنے سے منع کیا تھا کیونکہ بیشتر خواتین اپنی زندگی کے بہت سے کام والد اور شوہر کی اجازت کے بغیر کرتی رہتی ہیں لیکن صرف کامل مرشد سے بیعت کے وقت کہتی ہیں کہ ہمیں والد یا شوہر کی طرف سے اجازت نہیں۔

حدیثِ مبارکہ ’’علم حاصل کرنا مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے‘‘ میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عورت اور مرد کا علیحدہ علیحدہ ذکر اس لیے کیا کہ عورت اپنا فرض خود ادا کرے۔اس کے لیے اسے مرد کی اجازت کی ضروت نہیں، نہ مرد اسے روک سکتا ہے۔ اور اس علم میں معرفتِ الٰہی بھی شامل ہے۔ جس طرح والد یا شوہر عورت کو نماز، روزے جیسے فرائض سے روکنے کا حق نہیں رکھتے اسی طرح وہ اسے قرآن و سنت سے ثابت ایک پاکیزہ عمل’’بیعت‘‘ سے بھی نہیں روک سکتے بشرطیکہ بیعت مرشد کامل اکمل سے کی جارہی ہو نہ کہ ناقص مرشد یا جعلی پیر سے۔

 مرد و عورت دونوں برابر ہیں اس بات کی وضاحت ان آیات سے ہوتی ہے:
فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَا اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثَی بَعْضُکُم مِّنْم بَعْضٍ (سورۃآل عمران۔195)
ترجمہ: ان کے ربّ نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کرنے والا ہوں۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو ۔

ایک اور آیت میں فرمایا گیا:
لِّلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاء نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْن  (سورۃالنسا۔32)
ترجمہ: مردوں کے لیے ان کی اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کے لیے ان کی اپنی کمائی کا حصہ ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِّن ذَکَرٍ أَوْ أُنثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاۃً طَیِّبَۃً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ أَجْرَہُم بِأَحْسَنِ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ۔ (سورۃ النحل۔ ۷۹)
ترجمہ: جس نے نیک عمل کیاچاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس حال میں کہ وہ مومن ہو، تو ہم اسے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے  اور ہم انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔
 قرآن و سنت کی تعلیمات میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ مرد اور عورت اللہ تعالیٰ کی نظرمیں تقویٰ کے لحاظ سے برابر ہیں۔

 عورت اور مرد میں جسمانی ساخت اور فطری کاموں کے لحاظ سے یقینا فرق ہے مگر دینی فرائض کی ادائیگی اور اخلاقی پابندیوں کے لحاظ سے عورت اور مرد میں کوئی فرق نہیں۔ بچوں کو جنم دینا، انہیں دودھ پلانا، ان کی پرورش کرنا، یہ عورتوں کی جسمانی ساخت اور ان کی فطرت کا تقاضا ہے مگر ایمان لانا، عقائد کو درست رکھنا، عبادات ،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دینا، دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کرنا، اسلامی نظام کے قیام و استحکام کی جدوجہد کرنا ان تمام امور میں عورتیں مردوں کے ساتھ شامل ہیں۔ قرآن کریم نے جہاں اولو العزم انبیا و رسل اور اہلِ ایمان کا تذکرہ کیا ہے وہیں پر ایمان و کردار کے لحاظ سے پاک دامن خواتین کی توصیف بھی کی ہے۔ فرعون کی بیوی اور سیدّہ مریم بنتِ عمران کو قرآن نے جہاں سراہا ہے، وہیں ایمان و عمل سے محروم عورتوں، حضرت نوحؑ کی بیوی، حضرت لوطؑ کی بیوی اور ابولہب کی بیوی کی مذمت بھی کی ہے۔ 

 اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو برابر بنایا اور ان سے اپنا رشتہ بھی ایک ہی بنیاد پر استوار کیا۔ دنیا میں یہ ارواح عورت اور مرد کے لباسوں کی صورت میں ظاہر ہوئیں کیونکہ انہوں نے دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے اپنے اپنے مختلف کردار ادا کرنے تھے، ورنہ اصل میں روح نہ مرد ہے نہ عورت اور اللہ سے روح کا رشتہ عشق کا ہے خواہ وہ مرد کے وجود میں ہو یا عورت کے وجودمیں۔ اسی لحاظ سے روحانی ترقی کرنے اور انسانیت کی معراج پر پہنچ کر اللہ کا دیدار کرنے کا حق مرد و عورت دونوں کو برابر حاصل ہے۔ لہٰذا عورتوں کو کسی مرشد کامل سے فیض حاصل کرنے سے روکنا سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔ 

 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عہد مبارک میں جہاں صحابہ کرام ؓکی دین کے لیے مشقتوں اور قربانیوں کا ذکر ملتا ہے وہیں بہت سی نامور صحابیات کا تذکرہ بھی ملتا ہے جنہوں نے دین کی ترویج و اشاعت اور اصلاحِ معاشرہ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔جہاں علمِ تصوف میں بلند پایہ مرد صوفیاکرام کا ذکر ملتا ہے وہیں باطن صفا خواتین صوفیا کا ذکر بھی کتب تصوف میں موجود ہے جنہوں نے فقر جیسی عظیم دولت کو اللہ کے فضل سے پایا۔

سلطان الفقر اوّل سیدّہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا

عالمِ ھاھویت میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تخلیق کے بعد جو سب سے پہلا نور تخلیق ہوا وہ سیدّہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا ہے۔یوں آپ رضی اللہ عنہا فقر کی پہلی سلطان ہیں اور فقر یعنی دیدار و وصالِ حق تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہا کے وسیلہ سے عطا ہوتا ہے کیونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مقاماتِ فقر و عشقِ حقیقی اس اعلیٰ ہمت و کمال کے ساتھ طے کیے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امت میں سب سے پہلے آپ رضی اللہ عنہا کو امانتِ فقر منتقل کرنے کے لیے چن لیا۔ تواریخ آئینہ تصوف، فصل ہفتم میں رقم ہے:

جناب سیدّہ پاکؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیا میں قیامت کو تنہا اٹھوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’سیدّہ تم سے عورتوں کی تعلیم طریقت جاری ہوگی اور جس قدر عورتیں امتِ محمدیہ کی تمہارے سلسلہ میں داخل ہوں گی وہ روزِ حشر تمہارے گروہ میں اٹھائی جائیں گی اور یہ مرتبہ ازل سے اللہ تعالیٰ نے خاص تمہارے لیے مخصوص فرمایا ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒنے فخر رسل تاجدار انبیا حضور نبی کریمؐ کی نور نظر، حضرت خدیجہ الکبریٰ کی لخت جگر سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ عنہا) کاذکر پاک بہت محبت و عقیدت سے اپنی تصانیف میں فرمایا ہے ۔ جس دلکش پیرائے میں آپؒ نے سیدّۃ النساء (رضی اللہ عنہا) کی عظمت و رفعت کو بیان فرمایا ہے یہ امر آپؒ کی اہلِ بیتؓ سے والہانہ محبت کا عکاس ہے ۔حضرت سلطان باھوؒنے اپنی تصنیف لطیف ’’رسالہ روحی شریف‘‘ میں ارواحِ سلطان الفقرا کا تعارف کروایا ہے ۔ اُن میں آپؒ نے سیدّۂ کائنات (رضی اللہ عنہا) کو پہلی سلطان الفقر ہستی بیان کیا ہے۔ آپؒ لکھتے ہیں:
ایشان سلطان الفقر و سیدّالکونین اند۔ یکے روح خاتون قیامت (رضی اللہ عنہا)۔ (رسالہ روحی شریف)
ترجمہ:یہ سلطان الفقر اور دونوں جہانوں کے سردار ہیں ان میں سے ایک خاتون قیامت حضرت فاطمۃ الزہرہ (رضی اللہ عنہا) کی روح مبارک ہے۔

سیدّہ کائنات سے اپنی روحانی نسبت کا اظہار کرتے ہوئے سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں  اپنی کتاب ’’عقلِ بیدار‘‘ میں ایک مقام پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دستِ بیعت ہونے کے واقعہ کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور یہ بھی بتایا کہ مجھے جگر گوشۂ رسول، حضرت فاطمۃ الزہرا بتول (رضی اللہ عنہا) نے بھی اپنا نوری حضوری فرزند قرار دیا ۔جیسا کہ آپؒ لکھتے ہیں:

خواندہ فرزند من زاں فاطمہ
معرفتِ فقر است بر من خاتمہ

ترجمہ: حضرت فاطمۃ الزہرا (رضی اللہ عنہا) نے مجھے اپنا فرزند فرمایا اور میں معرفتِ فقر کے مرتبۂ کمال پر جا پہنچا۔

آپؒ حضرت فاطمہؓ کی شان میں مزید فرماتے ہیں:
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا۔ جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔ (جامع الاسرار)  

حضرت رابعہ بصریؒ

خواتین اولیا میں حضرت رابعہ بصریؒ کا ذکر نمایاں ہے- آپؒ بہت اعلیٰ پائے کی عابدہ، زاہدہ، صابرہ، شاکرہ اور صاحبِ فقر ہستی تھیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒنے اپنی تصانیف میں بیشتر مقامات پر آپؒ کے واقعات اور اقوال کو نقل فرمایا ہے ۔

جہاں بہت سے صوفیا سلوک کی راہ میں قربِ الٰہی کی بہت سی منازل تو طے کر پائے لیکن مراتب فقر کو حاصل نہ کر سکے وہیں حضرت رابعہؒ کو کس طرح فقر نصیب ہوا اس بات کو بیان کرتے ہوئے حضرت سلطان باھوؒ لکھتے ہیں:
حضرت رابعہ بصریؒ نیند کی حالت میں ہی بغیر کسی واسطہ کے فقر کے مراتب تک جاپہنچیں۔(عین الفقر)
حضرت رابعہ بصریؒ کا اللہ سے تعلق کو بیان کرتے ہوئے آپؒ فرماتے ہیں:
رابعہ بصریؒ سے پوچھا گیا نفس و شیطان و دنیا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپؒ نے جواب دیا میں محبوب کے قرب اور توحید فنا فی اللہ میں اس قدر غرق ہوں کہ نہ مجھے اپنی خبر ہے، اور نہ ہی نفس، شیطان اور دنیا کی کچھ خبر ہے۔(عین الفقر)
ایک اور مقام پر آپؒ لکھتے ہیں:
نقل ہے کہ ایک روز حضرت رابعہ بصریؒ نے حضرت محمدؐکو خواب میں دیکھا،حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا’’اے رابعہ کیا تو مجھ سے دوستی رکھتی ہے؟‘‘ حضرت رابعہ بصریؒ نے عرض کی ’’یارسولؐ اللہ! کیا یہ ممکن ہے کہ میں آپ سے دوستی نہ رکھوں؟ لیکن حق تعالیٰ کی محبت میں میرا دل اس طرح محو ہے اور میں توحید فنافی اللہ میں اس قدر غرق ہوچکی ہوں کہ میرے دل کو دوستی اور دشمنی کی کوئی خبر نہیں۔‘‘(عین الفقر)

حضرت رابعہ بصریؒ سے پوچھا گیاکہ آپ اللہ کی عبادت کس غرض سے کرتی ہیں؟ دوزخ کے خوف سے یا جنت کی امید میں؟ حضرت رابعہ بصریؒ نے عرض کی ’’اے اللہ !اگر میں دوزخ کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں جلا دے اور اگر میں جنت کی خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے جنت نصیب نہ کرنا اور اگر میں تیری عبادت صرف تیرے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے دیدار اور جمال سے محروم نہ رکھنا۔‘‘(عین الفقر)

آپؒ کے ہم عصر اکابر صوفیاکرام آپ رحمتہ اللہ علیہا کی مجلس میں حاضر ہوتے اور آپؒ کے علم و فقر کے فیض سے مستفید ہوتے۔

حضرت بی بی راستیؒ

حضرت سلطان باھوؒ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی رحمتہ اللہ علیہا کا شمار اپنے دور کی نہایت ہی عابدہ، شب بیدار اور اولیا اللہ خواتین میں ہوتا ہے۔ آپؒ بے حد پاکباز، عفت مآب، صالحہ، عبادت گزار اور کثیر العلوم خاتون تھیں۔آپؒ ایک صاحبِ کشف خاتون تھیں۔ آپؒ کا زیادہ تر وقت عبادت و ریاضت میں بسر ہوتا۔ گھر کے کام کاج سے فارغ ہوتے ہی مصروفِ عبادت ہوجاتیں۔حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی کتب میں اپنی والدہ ماجدہ کو بہت خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

نام باھو مادر باھوؒ نہاد
زانکہ باھوؒ دائمی با ھو نہاد

ترجمہ: باھوؒ کی ماں نے نام باھوؒ رکھاکیونکہ باھوؒ ہمیشہ ھوُکے ساتھ رہنے والا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒاپنی والدہ محترمہ سے عقیدت و محبت کا بار ہا اظہار فرماتے ہیں:
مائی راستی صاحبہؒ کی روح پر اللہ تعالیٰ کی صد بار رحمت ہو کہ انہوں نے میرا نام باھوؒ رکھا۔
 آپؒ عین الفقر میں فرماتے ہیں:

راستی از راستی آراستی
رحمت و غفران بود بر راستیؒ

ترجمہ: حضرت بی بی راستیؒ سچائی سے آراستہ ہیں۔ یا اللہ تو بی بی راستیؒ پر رحمت نازل فرما اور ان کی مغفرت فرما۔
آپؒ کی والدہ کا پایہ فقر میں بہت بلند تھا اور وہ فنافی ھوُ کے مرتبہ پر تھیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی ابتدائی تربیت بی بی راستیؒ نے کی اور آپؒ نے اپنی والدہ سے ہی ابتدائی باطنی تربیت حاصل کی۔ آپؒ اپنی والدہ محترمہ کے عبادت گزار، زہد و ریاضت میں مگن اور ذاکرہ ہونے کے بارے میں محک الفقرکلاں میں فرماتے ہیں: 
میری والدہ کو ایسا ذکر حاصل تھا کہ آنکھوں سے خون نکلتا تھا۔ یہ حال مجھ پر بھی وارد ہوا۔ اس کو حضورِ حق کہتے ہیں۔
اسی طرح حضور سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کی والدہ حضرت فاطمہ امِ الخیرؒ بھی ولیٔ کاملہ تھیں اور اعلیٰ ترین روحانی مراتب کی حامل تھیں۔
ابو عبد الرحمن سلمی نے ’’ذکر النسوۃ الصوفیات المتعبدات‘‘ میں کئی نامور صوفی خواتین کا تذکرہ فرمایا ہے۔ان کتب میں جن مشہور صوفی خواتین کا ذکر ملتا ہے ان میں سے چند اہم نام مندرجہ ذیل ہیں:

فاطمہ نیشاپوریؒ

فاطمہ نیشاپوریؒ بھی اپنے عہد کی عظیم صوفی خواتین میں سے تھیں۔ بایزید بسطامیؒ جیسے عظیم صوفی فاطمہؒ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے تھے ’’میں نے اپنی زندگی میں بس ایک مرد کو دیکھا اور ایک عورت کو، اس پائے کا کسی اور کو نہیں دیکھا۔‘‘ وہ عورت فاطمہ نیشاپوریؒ تھیں۔ ذوالنون مصریؒ فرماتے تھے کہ فاطمہؒ اللہ کے ولیوں میں سے ایک ولیہ ہیں۔ ابو عبدالرحمن سلمی نے لکھا ہے کہ اپنے عہد میں فاطمہؒ سے زیادہ معزز اور بزرگ کوئی خاتون نہیں تھی۔ابن الجوزی نے بھی اپنی کتب میں ان کا تذکرہ کیا ہے۔ 

بصرہ کی ایک عارفہ بحریہ

بصرہ کی ایک عارفہ بحریہ ؒبھی تصوف میں اعلیٰ مقام کی حامل تھیں۔ انہوں نے شقیق بلخیؒ کی خدمت میں رہ کر تربیت حاصل کی۔ حضرت شقیق بلخیؒ بھی ان کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ابوعبدالرحمن سلمیؒ نے لکھا ہے کہ بحریہ فرماتی تھیں ’’جب دل شہوات کو چھوڑ دیتا ہے تو پھر اس کو علم سے انسیت ہو جاتی ہے، وہ اس کا اتباع کرتا ہے اور جو علم اسے حاصل ہوتا ہے اس کو برداشت کرنے کی اس کے اندر صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

ابو عثمان الحیریؒ النیشاپوری کی بیٹی عائشہؒ

مشہور صوفی ابو عثمان الحیریؒ النیشاپوری کی بیٹی عائشہؒ بھی عابدہ و زاہدہ خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ابوعبدالرحمن سلمیٰؒ نے لکھا ہے کہ وہ ابوعثمانؒ کی اولادوں میں سب سے زیادہ عابد ہ و زاہدہ تھیں۔ا لسلمیؒ نے ان کی صاحبزادی ام احمد سے ملاقات کی اور ان کے بارے میں پوچھا، انہوں نے اپنی والدہ کے متعدد اقوال سنائے، ان میں سے ایک یہ ہے ’’بیٹی جو فنا ہونے والا ہے اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں اور جو چیز جانے والی ہے اس پر غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ خوش رہنے کے لیے اللہ کافی ہے اور اصل غم کی بات یہ ہے کہ تم اللہ کی معافی کے فیضان سے محروم ہو جاؤ۔‘‘

 سعیدہ بنت زیدؒ

بصرہ میں حدیث کے مشہور امام حماد بن زیدؒ کی بہن سعیدہ بنت زیدؒ بھی عظیم صوفی خواتین میں سے تھیں۔ ابو عبدالرحمن سلمی نے ان کو حضرت رابعہ بصریؒ کے مثل لکھا ہے۔ 

اُمِ ہارون الدمشقیہؒ

شام میں ایک عظیم صوفی خاتون اُم ہارون الدمشقیہؒ بھی تھیں۔ ابوسلیمان دارانیؒ ان کے بارے میں کہتے تھے کہ میں نے شام میں اُم ہارونؒ سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا۔ احمد بن الحواریؒ ان سے وعظ و نصیحت سنتے تھے۔
صوفیا خواتین کا کردار کیا تھا؟ ان کی اللہ سے محبت کس درجے کی تھی؟  ان خواتین نے زندگی کے ظاہری معاملات (شادی، بچے، گھربار) کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے ساتھ ساتھ باطنی علم اور اللہ کی معرفت حاصل کی۔
لیکن قرونِ وسطیٰ سے صدیوں کے فاصلے نے ایک بار پھر انسانوں کو انسانوں کی غلامی میں دھکیل دیا ہے۔ معاشرے میں بڑھتی لاعلمی اور  غلط رسم و رواج کی وجہ سے عورتوں کو دین کی حقیقت سے دور کر دیا گیا ہے۔ آج کی لبرل خواتین جہاں آزاد اور خودمختار طریقے سے جینا چاہتی ہیں وہاں انہیں ان پاکیزہ ہستیوں کی سیرت کو بھی اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہیے تاکہ آزادی کے نام پر گمراہی کی طرف نہ دھکیلی جائیں۔ صرف اسی طرح وہ دنیا میں بھی اپنی حدود میں رہ کر ترقی کر سکیں گی اور آخرت میں اللہ کے سامنے سرخرو ہوسکیں گی۔ ان ہستیوں کی زندگی پر عمل کرنے کے لیے ایسے ہی کامل ہستی کی رہنمائی کی ضرورت ہے جو معرفت کی راہ جانتا ہو۔ 

موجودہ دور کے مجددِ دین، امام الوقت اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس خواتین کے حقوق کو اُسی طرح اہمیت دیتے ہیں جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عورت کو تعظیم و مرتبہ دینے کا حکم فرمایا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے خواتین کے لیے بھی راہِ معرفت کو اتنا ہی عام فرما دیا ہے جتنا کہ مردوں کے لیے۔ آپ مدظلہ الاقدس کا فرمان مبارک ہے:
’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل سے جانیں بلکہ ’’مرد‘‘ ایک شان اور اعلیٰ صفت ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے کیونکہ طلبِ حق کا راستہ مرد ہی اختیار کرتے ہیں۔ اسی بنا پربہت سی عورتیں مرد ہیں اور بہت سے مرد عورتیں ہیں۔ (سلطان العاشقین)

آپ مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ اور نورانی صحبت کی تاثیر سے ہزاروں خواتین نے اپنے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کروایا اور انہیں معرفتِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری حاصل ہوئی۔ ہر ہفتے منعقد ہونے والی ’’بزمِ سلطان العاشقین‘‘ اور دیگر سالانہ اجتماعات پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ہدایات کے مطابق خواتین کے لیے خصوصی طور پر اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ خواتین بھی باپردہ طریقے سے ہفتہ وار اور سالانہ محافل میں بھرپور شرکت کرسکیں۔ 

اس کے علاوہ آپ مدظلہ الاقدس کی زیر سرپرستی تحریک دعوتِ فقر کے ہر شعبہ میں خواتین کو نمائندگی کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی روحانی و باطنی تربیت کی بدولت آج خواتین کی کثیر تعداد تحریک دعوتِ فقرکے شعبہ سوشل میڈیا، شعبہ پبلیکیشنز، شارٹ ویڈیوونگ اورشعبہ ویب سائٹس سمیت دیگر شعبہ جات میں اپنی قابلیت کا لوہا منوارہی ہیں اوران ذرائع کے توسط سے گھر بیٹھے فقرکے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلا رہی ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :    Khawateen & Rah e Marfat | خواتین اورراہِ معرفت| Path of Sufism Female Mystics | Urdu/Hindi Podcast

 
 
 

28 تبصرے “خواتین اور راہِ معرفت Khawateen aur Rah-e-Marfat

  1. موجودہ دور کے مجددِ دین، امام الوقت اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس خواتین کے حقوق کو اُسی طرح اہمیت دیتے ہیں جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عورت کو تعظیم و مرتبہ دینے کا حکم فرمایا.

    1. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  2. اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو برابر بنایا اور ان سے اپنا رشتہ بھی ایک ہی بنیاد پر استوار کیا۔ دنیا میں یہ ارواح عورت اور مرد کے لباسوں کی صورت میں ظاہر ہوئیں کیونکہ انہوں نے دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے اپنے اپنے مختلف کردار ادا کرنے تھے، ورنہ اصل میں روح نہ مرد ہے نہ عورت اور اللہ سے روح کا رشتہ عشق کا ہے خواہ وہ مرد کے وجود میں ہو یا عورت کے وجودمیں۔ اسی لحاظ سے روحانی ترقی کرنے اور انسانیت کی معراج پر پہنچ کر اللہ کا دیدار کرنے کا حق مرد و عورت دونوں کو برابر حاصل ہے۔ لہٰذا عورتوں کو کسی مرشد کامل سے فیض حاصل کرنے سے روکنا سراسر ناانصافی اور ظلم ہے۔

    1. عالمِ ھاھویت میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تخلیق کے بعد جو سب سے پہلا نور تخلیق ہوا وہ سیدّہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا ہے۔

  3. علمِ معرفت، دینِ اسلام کی بنیاد اور ہر عبادت کی روح ہے۔

    1. ۔..ا لسلمیؒ نے ان کی صاحبزادی ام احمد سے ملاقات کی اور ان کے بارے میں پوچھا، انہوں نے اپنی والدہ کے متعدد اقوال سنائے، ان میں سے ایک یہ ہے ’’بیٹی جو فنا ہونے والا ہے اس پر خوش ہونے کی ضرورت نہیں اور جو چیز جانے والی ہے اس پر غم کرنے کی ضرورت نہیں۔ خوش رہنے کے لیے اللہ کافی ہے اور اصل غم کی بات یہ ہے کہ تم اللہ کی معافی کے فیضان سے محروم ہو جاؤ۔‘‘

  4. معرفت سے مراد جاننا، پہچاننا اور کسی شے یا ہستی کے متعلق علم حاصل کرنا ہے

  5. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

    1. علمِ معرفت، دینِ اسلام کی بنیاد اور ہر عبادت کی روح ہے

  6. علمِ معرفت، دینِ اسلام کی بنیاد اور ہر عبادت کی روح ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو پہچانا نہ جائے اس کی کامل عبادت ممکن نہیں۔

    1. مرد و عورت دونوں برابر ہیں اس بات کی وضاحت ان آیات سے ہوتی ہے:
      فَاسْتَجَابَ لَہُمْ رَبُّہُمْ اَنِّیْ لَا اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثَی بَعْضُکُم مِّنْم بَعْضٍ (سورۃآل عمران۔195)
      ترجمہ: ان کے ربّ نے ان کی دعا قبول فرمائی کہ میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع نہیں کرنے والا ہوں۔ خواہ وہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے سے ہو ۔

  7. اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی ایسی ہستی کو وسیلہ بنایا جائے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہ

  8. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے۔

  9. قرآن و سنت کی تعلیمات میں یہ امر بالکل واضح ہے کہ مرد اور عورت اللہ تعالیٰ کی نظرمیں تقویٰ کے لحاظ سے برابر ہیں۔

  10. سبحان اللہ ماشاءاللہ بہت ہی بہترین مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔

  11. تجھی کو جو یاں جلوہ نما نہ دیکھا
    برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

  12. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  13. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  14. تجھی کو جو یاں جلوہ نما نہ دیکھا
    برابر ہے دنیا کو دیکھا نہ دیکھا

  15. موجودہ دور کے مجددِ دین، امام الوقت اور سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس خواتین کے حقوق کو اُسی طرح اہمیت دیتے ہیں جس طرح اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عورت کو تعظیم و مرتبہ دینے کا حکم فرمای

  16. عالمِ ھاھویت میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تخلیق کے بعد جو سب سے پہلا نور تخلیق ہوا وہ سیدّہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کا ہے۔

  17. اس دنیا کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔معرفت سے مراد جاننا، پہچاننا اور کسی شے یا ہستی کے متعلق علم حاصل کرنا ہے۔ جس طرح دنیاوی علم کا حصول دنیا میں ترقی کرنے کے لیے لازم ہے اسی طرح معرفتِ الٰہی کا حصول قربِ حق تعالیٰ میں ترقی کے لیے لازم ہے۔

    علمِ معرفت، دینِ اسلام کی بنیاد اور ہر عبادت کی روح ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو پہچانا نہ جائے اس کی کامل عبادت ممکن نہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ سرّالاسرار میں فرماتے ہیں:
    مَنْ لَمْ یَعْرِفُہٗ کَیْفَ یَعْبُدُہٗ
    ترجمہ: جو اللہ کو پہچانتا ہی نہیں وہ اس کی عبادت کیسے کر سکتا ہے۔

  18. حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    جب تک تجھے معرفتِ حق حاصل نہیں تو کسی راہبر مرشد کو تلاش کر تاکہ تو اللہ تعالیٰ کا دوست بن سکے ۔(امیر الکونین)

اپنا تبصرہ بھیجیں