کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

5/5 - (4 votes)

کلید التوحید (کلاں)  ( Kaleed-ul-Tauheed Kalan )

قسط نمبر13
مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

جان لو کہ طالبِ مولیٰ پر پانچ حقوق ہیں؛ پہلا حق ماں باپ کا، دوسرا حق استاد کا، تیسرا حق پیر کا، چوتھا حق مرشد کا اور پنجم حق بیوی کا۔ اور مرشد کا حق ان تمام حقوق سے غالب اور فائق تر ہے کیونکہ مرشد سے معرفتِ الٰہی کے مراتب حاصل ہوتے ہیں اور طالب حق پر نظر برقرار رکھتا ہے ۔ جیسے ہی طالب قربِ حق کے اس مرتبے پر پہنچتا ہے اس کی نگاہ کو روشن ضمیری حاصل ہو جاتی ہے اور وہ ظاہری طور پر علمِ تفسیر کا باتاثیر عالم بن جاتا ہے اور دونوں جہان پر حکمران ہوتا ہے۔ طالب ہر ایک کے حق کو دولتِ دنیا سے ادا کر سکتا ہے اور ہر اہلِ حق اس کے لیے دعا کرتا اور اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ وہ مرشد نہیں جن کی نگاہ مال و دولت پر ہو وہ تو جانوروں سے بھی برُی خصلت کے مالک ہیں۔ جان لو کہ مرشد طالب سے یا پیر مرید سے پوچھے کیونکہ پیر و مرشد پر فرضِ عین ہے کہ طالب مرید سے پوچھے کہ تجھے کونسا مرتبہ پسند ہے کیونکہ طالبوں اور مریدوں کے تین مراتب ہیں۔ مرتبۂ دنیا، مرتبہ ٔ عقبیٰ اور مرتبۂ معرفتِ مولیٰ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات۔ طالب مرید اپنے احوال اور مطالب کے موافق پیر و مرشد کے سامنے جھوٹ نہیں بولتا اور جو کچھ اس کے دل میں ہو طلب کرتا ہے خواہ وہ گمراہ دنیا ہو، خواہ مرتبۂ عقبیٰ اور حور و قصور اور شان و شوکت ہو اور خواہ مرتبۂ قرب و معرفتِ الٰہی ہو خواہ سرورِ عالم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس ہو۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
طَالِبُ الدُّنْیَا مُخَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْمَوْلٰی مُذَکَّرٌ
ترجمہ: طالبِ دنیا مخنث ہوتا ہے، طالبِ دنیا مؤنث ہوتا ہے اور طالبِ مولیٰ مذکر ہوتا ہے۔

پس یہ تینوں مراتب پیر و مرشد کے تصرف میں ہوتے ہیں تب ہی وہ لائقِ ارشاد بنتا ہے۔ بے قوت اور بے تصرف پیر و مرشد خام اور نامکمل ہوتا ہے جو مال و دولت کے فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے اور طالب مرید کی عمر ضائع اور برباد کر دیتا ہے۔ مرنے کے وقت طالب کو افسوس ہوتا ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل گیا۔ کمان سے نکلا ہوا تیر واپس ہاتھ نہیں آتا۔ دنیا میں عامل عالم بہت سے ہیں اور زاہد عالم و متقی بھی بیشمار ہیں جو نام و ناموس سے دولت کماتے ہیں لیکن فقیر عارف باللہ فنا فی اللہ صاحبِ قربِ پرورودگار بہت کم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ:
اَلْوَقْتُ سَیْفٌ قَاطِعٌ  
ترجمہ: وقت (عمر) کاٹنے والی تلوار ہے۔

زوال پذیر مرشد طالب مرید کی گردن پر وبال ہے۔ دنیا، عقبیٰ اور معرفتِ مولیٰ و مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے تینوں مراتب مرشد کامل مرید طالب کو اسمِ اللہ ذات کے حاضرات، آیاتِ قرآن یا کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  سے تین دن رات میں عطا کر دیتا ہے۔ ابیات:

فقر دریائے است از توحید نور
کل و جز مخلوق شد از وے ظہور

ترجمہ: فقر نورِ توحید کا سمندر ہے اور کل و جز مخلوق کا ظہور اسی نور سے ہے۔

دل ز دریائے توحیدش یافتم
غرق توحیدش بخود را ساختم

ترجمہ: جب میں نے خود کو توحید کے سمندر میں غرق کر لیا تو میں نے یہ حقیقت جان لی کہ میرا وجود اسی توحید کے سمندر سے ہے۔ 

فقر خاص الخاص حق توحید ذات
ہر کہ آید در فقر گردد نجات

ترجمہ: فقر توحیدِ ذات کا خاص الخاص مرتبہ ہے جو فقر اختیار کر لیتا ہے وہ (ہر پریشانی سے) نجات پا لیتا ہے۔

فقر قدم دم بود بے غم بود
در جہانش فقر فی اللہ کم بود

ترجمہ: جو فقر کی راہ پر قدم رکھتا ہے وہ بے غم ہو جاتا ہے لیکن اس دنیا میں صاحبِ فقر فنا فی اللہ بہت کم ہیں۔

ایں نہ فقرش بر ہر در گردد خراب
بامحاسب نفس باشد اکتساب

ترجمہ: فقر یہ نہیں جو ہر در پر خوار کرے بلکہ فقر یہ ہے کہ نفس کا محاسبہ کیا جائے۔

فقر لایحتاج صاحبِ گنج زر
از گنج زر بہتر بود فقرش نظر

ترجمہ: فقیر صاحبِ مال و دولت سے بے نیاز ہوتا ہے۔ مال و دولت کے خزانوں سے فقیر کی نگاہ بہتر ہے۔

فقر را عاجز مبین عاجز مدان
بادشاہی فقر دارد جاودان

ترجمہ: فقر کو عاجز مت دیکھ اور نہ عاجز سمجھ کیونکہ فقر جاودانی بادشاہی کا حامل ہوتا ہے۔

باھوؒ بہر از خدا فقرش نما
فقر وحدت قربِ اللہ شد مصطفیؐ

ترجمہ: اے باھوؒ! خدا کی خاطر فقر عطا کر کیونکہ اسی فقر کی بدولت وحدت میں قربِ حق اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ 

اللہ کی رحمت اور اس کی بارگاہ میں منظوری اور فقیر بن کر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل کرنے کے یہ تمام مراتب تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کی تاثیر، اسمِ اعظم کی برکت و خاصیت، نص و حدیث اور آیاتِ قرآن کی تلاوت سے حاصل ہوتے ہیں۔ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کی کلید دل کے قفل کو کھول کر تمام مقاماتِ ذات و صفات طریقِ تحقیق سے دکھاتی ہے۔ جو اس میں شک کرتا ہے وہ منافق و زندیق ہے۔ یہ سروری قادری سلسلے کا طریق ہے۔  ابیات:

پیر باید ہم چو باشد پیر من
وقتِ مشکل حاضر است بانجمن

ترجمہ: پیر ایسا ہونا چاہیے جیسے میرے پیر سیدّنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؓہیں جو مشکل وقت میں فوراً اپنے مریدین کے پاس حاضر ہو جاتے ہیں۔

پیر باقوت مریدان بانظر
زود تر حاضر شود مثلِ خضرؑ

ترجمہ: پیر ایسا صاحبِ قوت ہونا چاہیے کہ مریدوں کو ہر وقت نظر میں رکھے اور خضر ؑ کی مثل جلدی سے حاضر ہو جائے۔

چوں نباشد پیر میراںؓ زندہ دین
آں وزیرے مصطفیؐ روح الامین

ترجمہ: پیر میراں شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کیوں نہ دین کو زندہ کرنے والے ہوں وہ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وزیر اور روح الامین ہیں۔

شاہ عبد القادرؓ است راہبر خدا
دم بدم آنجا بجانست مصطفیؐ

ترجمہ: شاہ عبدالقادر جیلانیؓ راہبرِ خدا ہیں اور وہ ہر لمحہ باطنی طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں ہوتے ہیں۔

باھوؒ از غلامان مریدش خاکِ پا
گوئی برد از غوث و قطب اولیا

ترجمہ: باھوؒ ان کے مریدوں کے غلاموں کی خاکِ پا ہے اس لیے دیگر غوث و قطب اولیا سے بلند مرتبہ ہے۔

مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو خلوت میں فقرا سے اللہ کی نعمت و برکت اور تعلیم و تلقین حاصل کرتے ہیں لیکن (ظاہر میں) فقر سے حیا کرتے ہیں اور اہلِ دنیا کی طرف متوجہ رہتے ہیں اور باطل کو روا سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ فقیر مرشد کو بدنام کرتے ہیں اور مخلوق میں مشہوری، نیک نامی اور عزت کی خاطر خود فروشی کرتے ہیں۔ اسمِ اللہ ذات کہ جس کی روشنی آفتاب سے بھی بہتر ہے‘ سے بے اعتقادی کے سبب وہ روشنی ان کی انا کے بادل میں چھپ جاتی ہے اور (بے اعتقادی) ان کے نفس کو زندہ اور قلب کو مردہ کر دیتی ہے۔ 

اے عزیز! دانا اور خبردار ہو جا کہ پیر دستگیر حضرت شاہ محی الدینؓ اور ان کے مرید و طالب نورِ وحدانیت، مشاہدۂ معرفت، قربِ الٰہی اور حضوری میں دائمی غرق رہنے والے صاحبِ وصال ہوتے ہیں۔ غوث و قطب اور ان کے طالب مرید بھی عاجز و مفلس اور سیدّنا غوث الاعظمؓ کی بارگاہ کے سوالی ہوتے ہیں۔ ان کے فضل کے گداؤں نے جو بھی مراتب پائے ان سے خیرات میں پائے اور جو اُن کا منکر ہوا وہ دونوں جہان میں مردود، رجعت خوردہ ہوا اور وہ احمق و پریشان ہے۔ حضرت پیر دستگیرؓ کے مراتب عمیق سمندر کی مثل ہیں۔ جس نے اس سمندر سے پانی کا قطرہ پیا وہ سیراب ہو گیا۔ جو حضرت پیر دستگیرؓ کے طالب و مرید کو جذب کرنا چاہتا ہے وہ خود سلب ہو جاتا ہے اور چند روز میں بیمار ہو کر مر جاتا ہے۔ حضرت پیر دستگیرؓ کا دشمن تین حکمتوں سے خالی نہیں ہوتا یا وہ لعنتی شیطان و ابلیس رافضی ہوتا ہے یا ملعون ناپاک و خبیث خارجی ہوتا ہے یا بدخصلت و منافق ہوتا ہے اور وہ فقر و معرفتِ الٰہی اور درویشی سے محروم ہوتا ہے۔ حضرت پیر دستگیرؓ کا دشمن اللہ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دشمن ہے اور ان کا دشمن چار یارِ کبار (خلفائے راشدین) رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دشمن ہوتا ہے۔ حضرت پیر دستگیرؓ چاروں اصحابِ کبارؓ کو محبوب رکھتے ہیں۔ آپؓ اہلِ سنت و الجماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نائب ہیں جو ظاہر و باطن میں ایک گھڑی کے لیے بھی اللہ کی طاعت و بندگی سے فارغ نہیں رہتے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔

جان لو کہ حضرت پیر دستگیرؓ کے ناقص اور کمترین مریدوں و طالبوں کا ادنیٰ مرتبہ بھی غوث و قطب کے مرتبہ سے بہتر ہے کیونکہ جو مرید و طالب حضرت پیر دستگیرؓ کی مریدی و طالبی میں اخلاص کے ساتھ رہتے ہیں تو آپؓ اپنی قوتِ ظاہری و باطنی، تصور، تصرف، اسمِ اللہ ذات کے حاضرات کے تصرفات، جذب یا ذکرِکلمہ طیب  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کی ضرب سے ان تمام طالبوں و مریدوں کو لازوال وحدانیت تک پہنچا دیتے ہیں اور انہیں اللہ کی بارگاہ کی منظوری دلا کر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں لے جاتے ہیں جہاں وہ طالب و مرید ہمیشہ حاضر رہتے ہیں۔ کامل، واصل، عارفین اور اولیا ان ولیوں کے متعلق جانتے ہیں لیکن بعض جو اہلِ باطن نہیں ہیں‘ وہ ان کے متعلق نہیں جانتے۔ لہٰذا موت کے وقت حضرت پیر دستگیرؓ اپنے طالبوں و مریدوں کو اپنی قوتِ حضوری سے مراتبِ حضوری عطا فرماتے ہیں یا کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  تلقین فرماتے ہیں یا پھر موت کے وقت ان کے وجود میں ذکرِ نام اللہ جاری و غالب ہو جاتا ہے یا یہ کہ قادری مریدوں کا وجود مکمل طور پر اللہ کی محبت میں غرق ہو جاتا ہے۔ بیت:

ای برادر گر ہمی خواہی بہ عقبیٰ سروری
باش در دنیا تو طالبِ آستانہ قادری

ترجمہ:اے بھائی! اگر تو آخرت میں سرداری چاہتا ہے تو اس دنیا میں قادری مرشد کے آستانہ کا طالب بن جا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ مَّاتَ فِیْ حُبِّ اللّٰہِ فَقَدْ مَاتَ شَہِیْدًا   
ترجمہ: جو اللہ کی محبت میں مرا پس تحقیق وہ شہادت کی موت مرا۔
جو شخص اس صفت کا حامل نہیں اسے قادری نہیں کہا جا سکتا۔ حضرت شاہ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کا قول ہے:
لَا یَمُوْتُ مُرِیْدِیْ اِلَّا عَلَی الْاِیْمَانِ 
ترجمہ: میرا مرید ایمان کے بغیر نہیں مرتا۔
بیت:

باھوؒا کسی گوید بہ نام شاہِ جیلانیؓ
چہ خوف از آتش دوزخ چہ باک از دیو شیطانی

ترجمہ: اے باھوؒ! جو شاہِ جیلانیؓ کا نام لینے والا ہو اسے آتشِ دوزخ کا کیا خوف اور شیطان و جن کا کیا ڈر۔

مطلب یہ کہ قادری طالبوں و مریدوں کا ابتدائی مرتبہ یہ ہے کہ انہیں نر شیر پر سواری کرنے والا سروری قادری کہتے ہیں۔ جان لو کہ طالب مرید میں سات چیزیں ہونی چاہئیں سب سے پہلے اعتقاد، پھر یقین، اخلاص، صدق، اعتبار، طلب اور محبت۔ ان سات چیزوں کا تعلق طالب و مرید کی کوشش سے نہیں بلکہ مرشد و پیر کی توجہ، جذب اور التفات سے ہے۔ مرشد کی عطا سے جب ان سات صفات کا مجموعہ طالب مرید کے وجود میں قرار پکڑتا ہے تو اس کے وجود میں یقین کی بدولت نوری صورت پیدا ہوتی ہے جو ہمیشہ مرشد کے سامنے حاضر ہو کر مرید کے احوال عرض کرتی ہے۔ پیر و مرید اور طالب و مرشد کے درمیان یقین ہی اس نوری صورت میں رابطہ برقرار رکھتا ہے۔ اگر طالب فنا فی الشیخ اور فنا فی پیر نہ ہو تو ظاہر و باطن میں کوئی بھی اپنے مطالب نہیں پا سکتا۔ وہ عجیب اور احمق ہیں جو خود کو طالب کہتے ہیں لیکن نفسِ امارہ کی قید میں ہیں۔ وہ اپنی خواہشوں کے مرید ہیں اور اپنے مرشد کے مرتبہ کی حقیقت نہیں جانتے اور نہ اس پر اعتقاد رکھتے ہیں۔ جو مرید روح سے بے خبر ہو وہ یزید کے مرتبہ پر ہے اور یزید نفس و شیطان کی قید میں ہے۔ وہ طالب و مرید صاحبِ قوت ہوتا ہے جو مال و جان مرشد پر فدا کر دے۔ ایسا طالب مرید ہی صاحبِ فراست اور روشن ضمیر ہوتا ہے۔ بیت:

باھوؒ اصل یقین است یقین خاص نور
برد یقین حاضر مجلس حضور

ترجمہ: باھوؒ اصل یقین ایک خاص نور ہے اور یہی یقین مجلسِ محمدیؐ کی حضوری میں لے جاتا ہے۔
اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔

شرح مرشد و طالب

جان لو کہ لفظ مرشد کے چار حروف ہیں م، ر، ش، د۔ حرف ’م‘ سے وہ مردہ دل کو زندہ کرتا ہے اور اس زندہ دل سے ایک ہی مراقبہ میں وحدانیتِ اِلَّا اللّٰہُ  کا مشاہدہ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچاتا ہے۔ حرف ’ر‘ سے طالب کو ریاضت سے رہائی دلاتا ہے اور راز عطا کرتا ہے۔ حرف ’ش‘ سے مرشد (طالب کو) نفس، شیطان اور مخلوق کے شر سے دور رکھتا ہے۔ دنیا اور دل کی سیاہی کے شر سے اور دیگر ہر شر سے طالب کے وجود کو بچاتا ہے اور طالب کے ساتوں اندام، ہڈیاں و مغز، گوشت و پوست، رگ اور ہر بال کی زبان اسمِ اللہ ذات کا ذکر کرتی ہے اور طالب کے قلب و قالب میں ذکرِ الٰہی دریا کی مثل جاری ہو جاتا ہے اور تمام اعضا اللہ اللہ پڑھتے ہیں اور طالب لب بستہ اللہ کے قرب میں غرق رہتا ہے۔ حرف ’د‘ سے مرشد کی نظر کی بدولت طالب کا دم اور دل اللہ کی ذات میں غرق ہو کر اس سے اثبات اور دنیا و آخرت میں ابدی زندگی حاصل کر لیتا ہے۔ جو مرشد ان صفات کا حامل ہو وہی جامع جمعیت بخشنے والا اور رحمن کی طرف راہبر ہوتا ہے۔ جو مرشد ان صفات کا حامل نہیں وہ خام و ناقص ہوتا ہے اور طالبوں کے لیے راہزن شیطان کی مثل ہے۔ مرشد مرد مذکر ہوتا ہے جو ظاہر و باطن میں صاحبِ توفیق اور طالبوں کا راہبر اور رفیق ہوتا ہے۔ اہلِ بدعت اور طالبِ دنیا زندیق مرشد نہیں ہوتے۔ لفظ طالب کے بھی چار حروف ہیں ط، ا، ل، ب۔ حرف ’ط‘ سے طالب خواہشاتِ نفس کو ایک بار میں ہی تین طلاق دے دیتا ہے اور ہوائے لذتِ نفس اور دنیا کو تین طلاق دے دیتا ہے جو کہ بوڑھی راہزن عورت کی مثل ہے اور معصیتِ شیطان کو تین طلاق دے دیتا ہے جو کہ دشمنِ انسان ہے۔ جب طالب ان تمام ناشائستہ صفات کو طلاق دے دیتا ہے تو تمام علائق اور مشکلات سے پاک ہو کر تائب ہو جاتا ہے۔ نیز حرف ’ط‘ سے طالب طلبِ مولیٰ رکھتا ہے جو اسے اس کے مطالب تک پہنچاتی ہے اور طالب معرفتِ الٰہی کے لائق بنتا ہے۔ حرف ’ا‘ سے طالب کا ارادہ صادق ہوتا ہے اور وہ صدیق باتصدیق طالبِ مولیٰ ہوتا ہے جو طریقِ تحقیق سے ظاہری و باطنی عبادت کرتا ہے اور سونے کے لیے زمین پر لیٹتا تک نہیں۔ اور توفیقِ الٰہی سے مراقبہ و استغراق میں محو ہمیشہ اللہ کی ذات میں مشغول رہتا ہے اور راہِ راستی سے اپنے قدم غلط راستے کی طرف نہیں لے جاتا اور اپنی جان راہِ حق میں قربان کر دیتا ہے۔ حرف ’ل‘ سے طالب حیا کے لائق ہوتا ہے جو نفس کو فنا کر کے تکبر اور خواہشاتِ نفسانی سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی روح بقا حاصل کر لیتی ہے۔ ایسے طالب کو اللہ کی طرف خوش آمدید۔ حرف ’ب‘ سے طالب حق کا بار اٹھانے والا اور باطل کو ترک کرنے والا باادب اور بزرگ ہوتا ہے جو مرشد کے سامنے بے اختیار اور اس کا حکم ماننے میں ہوشیار ہوتا ہے۔ اسی صفت کے حامل طالب کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْمُرِیْدُ لَا یُرِیْدُ 
ترجمہ: مرید لایرید ہوتا ہے۔
ابیات:

ہر کہ او کرد آن شود کردہ خدا
مرشدی باحق رساند حق نما

ترجمہ: مرشد حق کی طرف لے جانے والا اور حق دکھانے والا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے وہ خدا کا کیا ہوتا ہے۔

طالبی مشکل طلب مشکل طلب
طالب قلب ہرگز نشد اہل از کلب

ترجمہ: ایسے طالب مشکل سے ہی ملتے ہیں جو مشکلات کا سامنا کرنے والے ہوتے ہیں۔ قلب کا طالب کتوں میں سے نہیں ہو سکتا۔

طالبی جاسوس و دشمن صد ہزار
طالب حق یک دو کس طالب شمار

ترجمہ: جاسوس اور دشمن طالب تو ہزاروں ہوتے ہیں لیکن طالبِ حق ایک دو ہی ہوتے ہیں۔

باھوؒ طالبی کمیاب کے باشد طلب
مرشدی بسیار ببرند ز ربّ

ترجمہ: اے باھوؒ! اصل طالب بہت ہی نایاب ہیں جو حق کے طالب ہوں لیکن ایسے مرشد بے شمار ہیں جو حق سے دور لے جاتے ہیں۔

مرشد ناقص بسے طالب طلب
از حیا مردند طالب باادب

ترجمہ: ناقص مرشد کثیر طالبوں کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن باادب طالب حیا کے باعث ہی مر جاتے ہیں۔

درحقیقت طالبان مطلب طلب
طالبِ دنیا بسے کم بہر ربّ

ترجمہ: اصل میں طالب مطلب پرست ہیں۔ وہ دنیا کے طالب زیادہ اور اللہ کے طالب کم ہوتے ہیں۔

جان ز جانم می برآید غرق نور
آں بداند ہر کہ برسد شد حضور

ترجمہ: میری جان وجود سے نکل کر نور میں غرق ہو گئی ہے اس بات کو وہی جان سکتے ہیں جو حضوری میں پہنچ چکے ہوں۔ 

کے تواند بست مثل لازوال
عارفان شد غرق وحدت باوصال

ترجمہ: عارفین وحدت میں غرق ہو کر وصال پا لیتے ہیں اس حالت کی مثال نہیں دی جا سکتی کہ یہ لازوال ہے۔

اسم ذاتش ذات ببرد بے مثال
نیست ایں حرفی بود در قیل و قال

ترجمہ: اسمِ اللہ ذات اس بے مثال ذات کی طرف لے جاتا ہے یہ صرف حرف نہیں جسے محض گفتگو میں استعمال کیا جائے۔

حق درونِ من من درون حق دل پذیر
حق ز حق واضح شود روشن ضمیر

ترجمہ: میرے اندر حق ہے اور میں حق میں پوشیدہ ہوں حق حق سے ہی واضح ہوتا ہے جو روشن ضمیری عطا کرتا ہے۔

(جاری ہے)

 
 
 

 


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں