عرفانِ ذات (Irfan-e-Zaat)
تحریر: مسزعظمیٰ شکیل سروری قادری۔ اوکاڑہ
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
تلاش او کنی جز خود نہ بینی
تلاش خود کنی جز او نیابی
ترجمہ: اس کی تلاش کرو گے تو اپنے سوا کچھ نہیں دیکھو گے، اپنی تلاش کرو گے تو اس کے سوا کسی اور کو نہیں پاؤ گے۔
یہاں علامہ محمد اقبالؒ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر انسان اپنی پہچان حاصل کر لے تو بھی اور اگر اللہ کی پہچان حاصل کر لے تب بھی اسے دونوں حالتوں میں اللہ ہی کی پہچان نصیب ہوتی ہے۔عرفانِ ذات (خود شناسی) ایک ایسا انمول عمل ہے جس کا حاصل معرفتِ الٰہی ہے۔
حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
خود کو پہچاننے کے عمل کے لیے انسانی تخلیق کا معلوم ہونا انتہائی لازم ہے۔
انسان کی تخلیق کا پس منظر
اللہ عزّوجل قرآنِ مجید میں ارشادفرماتا ہے:
(وہ وقت یاد کیجیے) جب آپ کے ربّ نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں(گیلی)مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں۔ سو جب میں اس (کے ظاہر) کودرست(یعنی مٹی سے انسان کا پیکر بنا لوں اور اس کے اجزا درست کر لوں) اوراس(کے باطن) میں اپنی(نورانی) روح پھونک دوں تو تم اس(کی تعظیم کے لیے) سجدہ کرتے ہوئے گر پڑنا۔ (سورۃص 71-72)
اس آیتِ مبارکہ کے مطابق انسان کی تخلیق کے دو پہلو ہیں جو اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ انسانی تخلیق کے دو پہلو یہ ہیں:
i) وجود کا مٹی سے بننا
ii) وجود میں اللہ عزوجل کا اپنی روح مبارک پھونکنا
اللہ سبحانہ و تعالیٰ پاک ذات ہے اور اپنی کبریائی میں یکتا، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مٹی کے پتلے کو اتنی اہمیت کس وجہ سے حاصل ہوئی کہ اس میں اللہ اپنی روح پھونک دے؟ درحقیقت اللہ عزّوجل نے یہ کائنات اپنی پہچان اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اظہار کی خاطر تخلیق کی۔ اللہ تعالیٰ نے روح کو جسم کے اندر داخل فرما کر اپنے اور سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عشق کی داستان کو صورتِ اظہار اور تفصیل بخشی۔
حدیثِ قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَوْ لَا کَ لِمَا خَلَقْتُ الْاَ فْلَاکَ
اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر آپؐ نہ ہوتے تو میں زمین و آسمان کو پیدا نہ کرتا۔
اس فرمان کی وضاحت ایک شاعر کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
ارض و سما نہ ہوتا، نہ ہوتے ابوالبشر
کیا چیز عرش و کرسی خورشید و قمر
نامِ خدا نہ ہوتا زمانے میں سربسر
منظور حق کو ہوتی نہ تخلیق تیریؐ گر
مراد یہ کہ اللہ عزوجل نے تمام کائنات سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان بڑھانے اور ان کا مرتبہ بلند کرنے کے لیے تخلیق فرمائی جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہر انسان کا ظاہر اسمِ محمدؐ کی صورت میں تخلیق کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی جو کہ عین نورِ محمدیؐ ہے۔ عزیز قارئین! اب ہم انسان کے ظاہری وجود اور باطنی وجود کو علیحدہ علیحدہ سمجھنے اور اس کی پہچان حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کے ظاہری وجود کی حقیقت
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یقینا ہم نے انسان کو بہترین(اعتدال اور توازن والی) ساخت پر پیدا کیاہے۔(سورۃ التین۔4)
امام احمد بن محمد قسطلانیؒ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’مواہب الدنیہ‘‘ کی تلخیص میں امام یوسف النبہانیؒ فرماتے ہیں کہ ’’اس متبرک نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو چار حرفی ہے کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ کے نام کی طرح ہے اور آدمی کی شکل سے ملتا جلتا ہے۔ میم اول اس کا سر، ’’ح‘‘ اس کے دو بازوں ہیں، میم ثانی اس کی ناف ہے اور دال دونوں پاؤں ہیں۔ اس قدیم کوفی خط میں یہ شکل واضح ہے۔ (الانوار الحمدیہ من المواہب الدنیہ۔ 181)
مزید اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب جدّہ کے ایک ہسپتال میں کمپیوٹر کے ذریعے ایک شخص کے سینہ کا ایکسرے لیا گیا تو انسان کے سانس کی نالی اور داہنے پھپھڑے کی جو ساخت (Shape)
سامنے آئی اس میں کلمہ توحید اور خاتم الانبیا سیدّنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی واضح طور پر دیکھا گیا۔ یہ حق کی نشانی اور معجزہ ہے۔ بے شک اللہ پاک نے سچ فرمایا قرآنِ حکیم میں:
ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں اطرافِ عالم میں اور خود ان کی ذاتوں میں دِکھادیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے۔ ( سورۃ حم سجدہ ۔ 53)
اللہ عزّوجل نے اسمِ محمدؐ کی صورت پر انسانی جسم کی ساخت تخلیق کی اور اسی وجہ سے اپنی روح اس میں پھونکی۔ اس کے متعلق حضرت علامہ اقبالؒ اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں پیغام دیتے دکھائی دیتے ہیں:
اسرارِ ازل جوئی بر خود نظری وا کن
یکتائی و بسیاری، پنہائی و پیدائی
ترجمہ:تو ازل کے راز جاننا چاہتا ہے تو اپنے آپ پر آنکھیں کھول، ایک بھی تو ہے ہزار بھی تو ہے، چھپا ہوا بھی تو ہے ظاہر بھی تو ہے۔
خیال رہے کہ ظاہر کی پہچان کا تعلق یہیں تک ہے کہ انسان یہ سمجھ سکے کہ اس ظاہری وجود میں گوہر ِنایاب(نورِ محمد)پنہاں ہے۔ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں:
اپنی روح کی تلاش کرو، اپنے دل کو صرف ان ہڈیوں (ظاہری وجود) میں نہ رکھو۔
آپؒ مزیدفرماتے ہیں:
اول ہر آدمی خود صورت است
بعد ازاں جان کو جمال سیرت ست
یعنی انسان کی ابتدا خود (اللہ کی) صورت ہے اور اس کے بعد (روح) جان ہے جو باطن کا جمال ہے۔ (مثنوی مولانا روم دفتر سوم)
مولانا رومیؒ نے باطن کی توانائی اور وجود کی خوشبو کا احساس اس طرح دیا ہے، لکھتے ہیں ’’جس طرح ہرن کے بچے کو کچھ دیر ماں کے قدموں کی ضرورت ہے اس کے بعد خود اس کا نافہ اس کا رہنما بن جاتا ہے، اسی طرح انسان جب اپنے وجود کی خوشبو (یعنی نورِ محمدؐ) کو جان لیتا ہے اور یہ خوشبو اس کی رہنما بن جاتی ہے تو وہ روح کی منزلیں طے کرتا ہوا خود شناسی کے عمل سے گزر کر مالکِ حقیقی کو پالیتا ہے۔
انسانی باطن کی حقیقت
انسان کے باطن کے متعلق تحریر کرنے سے قبل قارئین کے گوش گزار کرنا مناسب رہے گا کہ باطن کی حقیقت جاننے کے پسِ پردہ یہ دلیل ہے کہ جو اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے وہ اپنے وصل کا زمانہ پھر سے تلاش کرتا ہے۔ انسانی باطن یا روح کی اصل شناخت یہ ہے کہ وہ اللہ کے نور سے ہے، بھلا اب کون احمق ہے جو اس نور تک دوبارہ پہنچنے کی جستجو نہ کرے؟ ایک دانا شخص تو نور کی پہچان حاصل کئے بغیر ایک لمحہ بھی چین سے نہ گزار پائے گا۔
حضرت داتا گنج بخش سیدّ علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:
اچھی طرح جان لے کہ ہستی ٔ روح (باطن) کا علم ضروری ہے اور اس کی کیفیت سے عقل عاجز ہے۔ عالموں اور حکیموں نے اگرچہ قیاس کے مطابق اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا ہے اور کافروں کے طبقات نے بھی اس میں کلام کیا ہے۔ جب یہودیوں کے تعلم سے کفار قریش نے نصر بن حارث کو حضورؐ کی خدمت میں بھیجا کہ وہ آپؐ سے روح کے متعلق سوال کرے تو اللہ تعالیٰ نے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر وحی نازل فرمادی ’’اور یہ(کفار) آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں ،فرما دیجیے: روح میرے ربّ کے امر سے ہے اور تمہیں بہت ہی تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔‘‘(سورۃ بنی اسرائیل۔ 85)
ربّ کے امر سے مراد ہے کہ اللہ کن کہے اور فیکون ہو جائے۔ اس بات کی وضاحت ہم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیفِ لطیف رسالہ روحی شریف سے نقل کرتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے جب ھاھویت (احدیت) سے نکل کر کثرت میں آنے کا ارادہ فرمایا تو مرتبہ دوم تعین اوّل یاھوت (وحدت) میں ظہور فرمایا اور ’’م‘‘ احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورت احمدی اختیار کی۔
اسی مرتبہ کے متعلق سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانیؓ فرماتے ہیں:
جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے روح محمدؐ کو اپنے نورِ جمال سے پیدا کیا جیسا کہ فرمان حق تعالیٰ ہے میں نے روح محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے چہرے کے نور سے پیدا فرمایا۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میری روح کو پیدا فرمایا۔ (سرالاسرار)
یہی وہ روح ہے جسے اللہ نے اپنی روح فرمایا اور آدم کے پتلے میں پھونکا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَنَا مِن نُّوْرِ اللّٰہ تعالٰی وَکُلُّ خَلَائِقِ مِن نُّوْر
ترجمہ:میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
یہاں آپ کے لیے اس بات کو سمجھنا مزید آسان ہو جائے گا کہ انسان کی ظاہری ساخت اسمِ محمدؐ پر کیوں بنائی گئی۔ درحقیقت یہ عشقِ مصطفیؐ کے اظہار کا منفرد طریقہ تھا کیونکہ عاشق کو ہر دم اپنے معشوق سے غرض ہوتی ہے۔ وہ ہر صورت میں اسی کی صورت دیکھتا ہے اور دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وہ نقطہ اور راز ہے جس کی جستجو ہمارے لیے ہماری منزلِ مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ علامہ ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں:
حضور سرورِ کونین نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جملہ موجودات میں سرایت اس طرح ہے جس طرح اشجار میں پانی کی سرایت ہے (یعنی آپؐ کا نور کائنات میں ہر شے کی بنیاد ہے) جس شجر کی جڑ سے پانی خشک ہو جاتا ہے، وہ خشک ہو جاتا ہے۔ (شمس الفقرا)
سوال یہ ہے کہ جب سب پاک و لطیف نورِ محمد کا اظہار ہے تو دنیا میں یہ مختلف رنگ اور اختلاف کس بنیاد پرہیں؟ اس کے متعلق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے ہجروفراق کی بھٹی میں ڈال کر انسان کے جذبۂ عشق کی صداقت کو پرکھنا چاہا اور انسان کو عنصری جسم دے کر اِس دنیا کے دارالامتحان میں لاکھڑا کیا۔ اسے اَحْسَنِ تَقْوِیْم سے اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ میں اُتارا اور اس کی فطرتِ نورانی میں نارِشیطانی، خواہشاتِ نفسانی اور کدورت و آلائشِ دنیا فانی ملادی۔ ارواح کی طاقتِ ایفا، اخلاصِ وعدۂ بَلٰی اور قوتِ اقرارِ عبودیت کی پوری پوری پرکھ اور آزمائش کرنے کے لیے ان ارواح کو بہشتِ قرب و وصال اور جنتِ حضور سے نکال کر نفس اور شیطان کے ہاتھوں میں اس کی ڈوریں دے دیں اور اسے دنیا کے کمرۂ امتحان میں لا کھڑا کیا۔ (شمس الفقرا)
اللہ عزّوجل نے اپنے بندوں کے لیے یہ دنیا امتحان گاہ بنائی۔ اب جو اس امتحان گاہ میں آکر شیطان اور نفس کی چالیں سمجھ کر خود میں پوشیدہ امانتِ نور کو اصلی حالت میں اللہ تک واپس لے جائے گا وہی کامیاب ہو گا۔ انسان کے لیے یہ کٹھن ترین مرحلہ ہے جس میں اسے اپنی روح کی پاکیزگی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے اصلی وطن لوٹ کر جانا ہے۔ روح کی پاکیزگی کے لیے عرفانِ ذات ناگریز ہے۔ جس نے اپنے باطن، اپنی روح کی حقیقت کو پہچانا ہی نہیں وہ اس کی پاکیزگی کا اہتمام کیسے کر سکتا ہے؟ اس کے متعلق امام غزالیؒ اس قدر خوبصورت انداز میں بیان فرماتے ہیں:
اے انسان! تجھ سے قریب ترین اگر کوئی چیز ہے تو تیری اپنی ہی ذات ہے اس لیے اگر تو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کو کیونکر پہچان سکے گا؟ فقط یہ جان لینا ’’یہ میرے ہاتھ ہیں، یہ میرے پاؤں ہیں، یہ میری ہڈیاں ہیں اور یہ میرا جسم ہے‘‘ اپنی ذات کی شناخت تو نہیں ہے۔ اتنی شناخت تو اپنے لیے دیگر جانور بھی رکھتے ہیں۔ یا فقط یہ جان لینا کہ بھوک لگے تو کچھ کھالینا چاہیے، غصہ آجائے تو جھگڑا کر لینا چاہیے، شہوت کا غلبہ ہوجائے تو جماع کر لینا چاہیے، یہ تمام باتیں تو جانوروں میں بھی تیرے برابر ہیں پھر تو ان سے اشرف و افضل کیونکر ہوا؟ تیری اپنی ذات کی معرفت و پہچان کا تقاضا یہ ہے کہ تو جانے کہ توخود کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اور جو تو آیا ہے تو کس کام کے لیے آیا ہے؟ تجھے پیدا کیا گیا ہے تو کس غرض کے لیے پیدا کیا گیا؟ تیری نیک بختی و سعادت کیا ہے؟ اور کس چیز میں ہے؟ تیری بدبختی وشقاوت کیا ہے اور کس چیز میں ہے؟ اور یہ صفات جو تیرے اندر جمع کر دی گئی ہیں جن میں سے بعض صفات حیوانی ہیں، بعض وحشی درندوں کی، بعض شیطانی، بعض جناتی اوربعض ملکوتی ہیں، تو ذرا غور تو کر کہ تو ان میں سے کون سی صفات کا حامل ہے؟ تو ان میں سے کون ہے؟ تیری حقیقت ان میں سے کس کے قریب تر ہے؟ اور وہ کون کون سی صفات ہیں جن کی حیثیت تیرے باطن میں غریب واجنبی اور عارضی ہے؟ جب تک تو ان حقائق کو نہیں پہچانے گا اپنی ذات کی شناخت سے محروم رہے گااور اپنی نیک بختی وسعادت کا طلب گار نہیں بنے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی غذا علیحدہ علیحدہ ہے اورسعادت بھی الگ الگ ہے۔
چوپایوں کی غذا اور سعادت یہ ہے کہ کھائیں، پئیں، سوئیں اور مجامعت میں مشغول رہیں۔ اگرتو بھی یہی کچھ ہے تودن رات اسی کوشش میں لگارہ کہ تیرا پیٹ بھرتا رہے اور تیری شہوت کی تسکین ہوتی رہے۔ درندوں کی غذا اور سعادت لڑنے بھڑنے، مرنے مارنے اور غیظ وغضب میں ہے، شیطانوں کی غذا اور سعادت شر انگیزی اور مکروحیلہ سازی میں ہے۔ اگر توُ ان میں سے ہے تو ان ہی جیسے مشاغل اختیار کرلے تاکہ توُ اپنی مطلوبہ راحت ونیک بختی حاصل کر لے۔ فرشتوں کی غذا اور سعادت ذکر وتسبیح اورطواف میں ہے جب کہ انسان کی غذا اور سعادت قربِ الٰہی میں ﷲ تعالیٰ کے انوارِو جمال کا مشاہدہ ہے۔ اگر تو انسان ہے تو کوشش کر کہ تو ذاتِ باری تعالیٰ کو پہچان سکے، اس کے انوار و جمال کا مشاہدہ کر سکے اور اپنے آپ کو غصہ او ر شہوت سے رہائی دلاسکے اور تو طلب کرے تو اس ذاتِ یکتا کو کرے تاکہ تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے اندر ان حیوانی و بہیمی صفات کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اور تجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوجائے کہ پیدا کرنے والے نے ان صفات کو تیرے اندر جو پیدا کیا ہے تو کیا اس لیے کہ وہ تجھے اپنا اسیر بنالیں اور تجھ پر غلبہ حاصل کرکے خود فاتح بن جائیں؟ یا اس لیے کہ تو ان کو اپنا اسیرو مسخر بنالے اور خود ان پر غالب آجائے او راپنے ان اسیروں اور مفتوحین میں سے کسی کو اپنے سفر کا گھوڑا بنالے اور کسی کو اپنا اسلحہ بنالے تاکہ یہ چند دن جو تجھے اس منزل گاہِ فانی میں گزارنا ہیں، ان میں اپنے ان غلاموں سے کام لے کر اپنی سعادت کا بیج حاصل کرسکے اور جب سعادت کا بیج تیرے ہاتھ آجائے تو توُ ان کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوا اپنی اس قرار گاہِ سعادت میں داخل ہوسکے جسے خواص کی زبان میں ’’حضورِ حق ٗ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں تیرے جاننے کی ہیں۔ جس نے ان کو نہ جانا وہ راہ ِدین سے دور رہا اور لامحالہ دین کی حقیقت سے حجاب میں رہا۔ (کیمیائے سعادت)
اس عبارت میں امام غزالیؒ صاف صاف اس بات سے آگاہی دے رہے ہیں کہ جب انسان اللہ کی تلاش میں یا خود کو پہچاننے کے عمل میں سرگرداں ہوتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے نفس کی خواہشوں کو کچل کر اس کو اپنا غلام بنا لے اور پھر نفس کو پاک و صاف کر کے اس پر سفر کرتا ہوا ربّ تعالیٰ کے عالمِ قرب و وصال تک پہنچ جائے۔ یہی انسان کا وہ اصل وطن ہے جہاں سے وہ جدا ہوا اور جہاں وصلِ یار کی صورت میں قرار آئے گا۔
اس روحانی سفر کا رہنما وہ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہے جو خود تمام مراتب طے کر کے حریم قدس تک پہنچ چکا ہو اور اس سفر کے لیے زادِ راہ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔
آئیے! مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ صحبت اور رہنمائی میں عرفانِ ذات کے اس سفر کی ابتدا کریں جس کی منزل خود اللہ پاک کی ذات مبارکہ ہے۔
استفادہ کتب:
سرالاسرار: سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانیؓ
کیمیائے سعادت: امام غزالیؒ
مثنوی مولانا رومؒ: ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ
شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
معارف اسم محمدؐ
نوٹ: اس مضمون کو آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube) چینل کو وزٹ فرمائیں۔
مضمون لنک : Irfan e Zaat | عرفانِ ذات| The Journey Inward Exploring Self-Recognition | Urdu/Hindi Podcast
نوٹ: اس مضمون کو English میں پڑھنے کے لیے وزٹ فرمائیں۔
Link:Reality of Human
اچھی طرح جان لے کہ ہستی ٔ روح (باطن) کا علم ضروری ہے اور اس کی کیفیت سے عقل عاجز ہے۔ عالموں اور حکیموں نے اگرچہ قیاس کے مطابق اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا ہے
آئیے! مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ صحبت اور رہنمائی میں عرفانِ ذات کے اس سفر کی ابتدا کریں جس کی منزل خود اللہ پاک کی ذات مبارکہ ہے۔
عمدہ تحریر
Very nice
اس روحانی سفر کا رہنما وہ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہے جو خود تمام مراتب طے کر کے حریم قدس تک پہنچ چکا ہو اور اس سفر کے لیے زادِ راہ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔
اللہ عزوجل نے تمام کائنات سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان بڑھانے اور ان کا مرتبہ بلند کرنے کے لیے تخلیق فرمائی جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہر انسان کا ظاہر اسمِ محمدؐ کی صورت میں تخلیق کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی جو کہ عین نورِ محمدیؐ ہے۔
Irfan e Zaat sirf Iqbal ra ney sahi bayan kia hai
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَنَا مِن نُّوْرِ اللّٰہ تعالٰی وَکُلُّ خَلَائِقِ مِن نُّوْر
ترجمہ:میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔
حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
جس نے خود کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا
بہترین مضمون ہے
ماشااللہ
ماشاءاللہ بہت خوب صورت تحریر ہے
سیدّنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانیؓ فرماتے ہیں:
جان لے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے روح محمدؐ کو اپنے نورِ جمال سے پیدا کیا جیسا کہ فرمان حق تعالیٰ ہے میں نے روح محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے چہرے کے نور سے پیدا فرمایا۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میری روح کو پیدا فرمایا۔ (سرالاسرار)
اس روحانی سفر کا رہنما وہ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہے جو خود تمام مراتب طے کر کے حریم قدس تک پہنچ چکا ہو اور اس سفر کے لیے زادِ راہ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔
Sultan-ul-Ashiqeen madzillah ul Aqdus mojuda gumrahi ke dour mein umeed ki wahid Kiran hain
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
اے انسان! تجھ سے قریب ترین اگر کوئی چیز ہے تو تیری اپنی ہی ذات ہے اس لیے اگر تو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کو کیونکر پہچان سکے گا؟
حضور سرورِ کونین نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جملہ موجودات میں سرایت اس طرح ہے جس طرح اشجار میں پانی کی سرایت ہے (یعنی آپؐ کا نور کائنات میں ہر شے کی بنیاد ہے) جس شجر کی جڑ سے پانی خشک ہو جاتا ہے، وہ خشک ہو جاتا ہے۔ (شمس الفقرا)
حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
سبحان اللہ ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت اور معلوماتی مضمون ہے ❤️
اس کی تلاش کرو گے تو اپنے سوا کچھ نہیں دیکھو گے، اپنی تلاش کرو گے تو اس کے سوا کسی اور کو نہیں پاؤ گے۔
Behtreen article ha
اللہ عزوجل نے تمام کائنات سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شان بڑھانے اور ان کا مرتبہ بلند کرنے کے لیے تخلیق فرمائی جس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہر انسان کا ظاہر اسمِ محمدؐ کی صورت میں تخلیق کیا
آئیے! مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ صحبت اور رہنمائی میں عرفانِ ذات کے اس سفر کی ابتدا کریں جس کی منزل خود اللہ پاک کی ذات مبارکہ ہے۔
اس روحانی سفر کا رہنما وہ مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہے جو خود تمام مراتب طے کر کے حریم قدس تک پہنچ چکا ہو اور اس سفر کے لیے زادِ راہ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہے
بہترین
یعنی انسان کی ابتدا خود (اللہ کی) صورت ہے اور اس کے بعد (روح) جان ہے جو باطن کا جمال ہے۔ (مثنوی مولانا روم دفتر سوم)
ارض و سما نہ ہوتا، نہ ہوتے ابوالبشر
کیا چیز عرش و کرسی خورشید و قمر
نامِ خدا نہ ہوتا زمانے میں سربسر
منظور حق کو ہوتی نہ تخلیق تیریؐ گر
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
تلاش او کنی جز خود نہ بینی
تلاش خود کنی جز او نیابی
ترجمہ: اس کی تلاش کرو گے تو اپنے سوا کچھ نہیں دیکھو گے، اپنی تلاش کرو گے تو اس کے سوا کسی اور کو نہیں پاؤ گے۔
یہاں علامہ محمد اقبالؒ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر انسان اپنی پہچان حاصل کر لے تو بھی اور اگر اللہ کی پہچان حاصل کر لے تب بھی اسے دونوں حالتوں میں اللہ ہی کی پہچان نصیب ہوتی ہے۔عرفانِ ذات (خود شناسی) ایک ایسا انمول عمل ہے جس کا حاصل معرفتِ الٰہی ہے