مدینہ منورہ کے فضائل و مناقب Medina Munawwarah ke Fazail-o-Manaqib


4.4/5 - (93 votes)

 مدینہ منورہ کے فضائل و مناقب 
(Medina Munawwarah ke Fazail-o-Manaqib)

تحریر:  سلطان حافظ محمد ناصر مجید سروری قادری

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بے شمار جگہ پر فرمایا ہے کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے اللہ تعالی سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر21 میں فرماتا ہے :
اُنْظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ
ترجمہ: دیکھئے ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے۔

اللہ تعالی نے جس طرح دنوں میں سے جمعہ کو ،راتوں میں سے شب قدر کو، مہینوں میں رمضان المبارک کو افضل قرار دیا اسی طرح تمام انسانوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو افضل بنایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کو فضیلت و برکت والا بنا دیا جیسے آپؐ کا لباس مبارک، جو چیزیں کھانے میں آپؐ پسند فرماتے اور خاص طور پرکرۂ عرض کے اس حصہ کو اللہ تعالی نے فضیلت والا بنا دیا جہاں آپؐ نے اپنی جان اور اسلام کی حفاظت کی خاطر کفارمکہ کے ظلم وستم سے پریشان وتنگ آکر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ہجرت فرمائی۔جہاں آپؐ نے اسلام کی بنیاد رکھی اور اسلام کا پہلا دار الخلافہ بنایا اوراپنی زندگی کے آخری دس سال گزارے۔ مدینہ منورہ ہی وہ شہر ہے جہاں سے اسلام دنیا میں پھیلا اوراسلام کو قوت و شوکت حاصل ہوئی۔یہی وہ سر زمین ہے جہاں کے باشندوں نے قدم قدم پر اللہ کے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ساتھ دیا حتیٰ کہ اپنی جانوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔اسی بنا پر اہل ِ مدینہ کو اللہ کی طرف سے انصار کا لقب ملا اوراللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجا ان کی تعریف کی۔چنانچہ قرآن کریم میں ارشادہے:

وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا لدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ إِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ أُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی أَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(سورۃالحشر۔9)
ترجمہ: (اور یہ مال ان لوگوں کے لیے ہے) جنہوں نے ان (مہاجرین) سے پہلے (مدینہ کے)گھر وں میں ٹھکانہ بنایا اور ایمان لائے، وہ محبت کرتے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کی اور اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں پاتے ہیں، اس مال غنیمت سے جوان کو دیا جائے اور وہ(ان کو) خود پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان کو فاقہ کرنا پڑے اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔

یہاں ایک بات بہت غور طلب ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولادت مبارک سے پہلے تمام زمین ایک جیسی تھی اور عبادت کے لیے ایک خاص جگہ مختص ہوتی تھی لیکن اللہ تعالی نے فقط آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاطر تمام زمین کو پاک فرمادیاتاکہ محبوبِ ربّ العالمین اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت جب اور جس جگہ چاہیں عبادت کریں۔ زمین کا وہ حصہ جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ولادت ہوئی اور جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مستقل سکونت اختیار کی اس زمین کو اللہ تعالیٰ نے ساری زمین پر فضیلت اور بلند درجہ عطا فرمادیا۔ مدینۃ الرسول کی حرمت و فضیلت کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بے شمار احادیث مبارکہ ہیں۔ 

مدینہ کے نام

طیبہ اور طابہ:

رسولِ اکرمؐ نے شہر مدینہ کو ’’طیبہ‘‘ اور ’’طابہ‘‘ جیسے ناموں سے نوازا ہے۔

دیگر نام:

تورات میں مدینہ کے لیے 10 نام ذکر کئے گئے ہیں:طیبہ،طابہ، مرحومہ،مسکینہ،عذرا،جابرہ،مجبورہ،قاصمہ اورمحبوبہ۔(صالحی دمشقی، محمد بن یوسف؛ سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العباد، ج3، ص295۔)(سمہودی، نورالدین، وفاء الوفائ، ج1، ص26)
جبکہ یاقوت حموی نے مدینہ کے 29 نام نقل کئے ہیں۔(حموی، معجم البلدان، ج5، ص83ُ)

مدینہ منورہ کے پھلوں اور باغات میں برکت کی دعا

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شہر امن مدینہ منورہ میں پیدا ہونے والی اجناس میں برکت اور حفاظت ِشہر کے لیے دعا فرمایا کرتے جو حدیث سے ثابت ہے۔
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ لوگ باغ کا سب سے پہلا پھل دیکھتے تو اس کو لے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کو ہاتھ میں لیتے اور یہ دعا فرماتے’’ اے اللہ! ہمارے پھل میں برکت عطا فرما، ہمارے شہر میں برکت فرما، ہمارے صاع میں برکت فرما اور ہمارے مد میں برکت فرما۔ اے اللہ! بیشک ابراہیمؑ تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بیشک انہوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا کی اور میں بھی مدینہ کے لیے اسی طرح کی دعا کرتا ہوں جیسا کہ ابراہیم ؑنے مکہ کے لیے دعا کی اور ایک گنا زیادہ وبائی امراض سے حفاظت۔‘‘

جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرامؓ ہجرت کے وقت مدینہ منورۃ تشریف لائے تو مدینہ میں قیام کے زمانہ میں حضرت ابو بکرصدیق اورحضرت بلال رضی اللہ عنہما آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ایسے بخار کے مرض میں مبتلا ہوگئے جو مدینہ کے لوگوں کوبہت کمزور کردیتا تھا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ کے لیے وباؤں سے حفاظت اور سلامتی والی آب و ہوا کی دعا فرمائی۔

 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہٗ اور بلال رضی اللہ عنہٗ بخارمیں مبتلا ہوگئے تومیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خبردی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ دعا فرمائی:
’’اے اللہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا فرما جیسا کہ ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت ہے یا اس سے بھی زیادہ، اس کی آب وہوا کو درست کردیجیے اور ہمارے لیے برکت پیدا فرما اس کے صاع میں اور اس کے مد میں اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کر دیجیے۔‘‘ (بخاری 1889 )

 حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے:
 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میں نے ایک کالی عورت کو خواب میں دیکھا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے جو مدینہ سے نکلی اور مہیعہ کی طرف چلی گئی۔میں نے اس کی تعبیر لی کہ مدینہ کی وبامہیعہ یعنی جحفہ کی طرف منتقل کردی گئی۔‘‘ (صحیح البخاری 7040)

شہر مدینہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مدینہ بہت عزیز اور محبوب تھا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی سفر سے واپس آتے اور مدینہ پاک کی در و د یوار پر نظر مبارک پڑتی تومدینہ کی محبت میں سواری کو تیز فرما دیتے ۔ نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مدینہ پاک سے محبت تھی بلکہ یہ شہر اور اس کے پہاڑ وغیرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شدید محبت رکھتے تھے جو حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت کردہ حدیث سے ثابت ہے :
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب کسی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے اور اگر دوسری سواری پرہوتے تو اس کو تیزکردیتے اور یہ سب مدینہ سے محبت کی وجہ سے تھا۔ (بخاری۔1802)

آپ رضی اللہ عنہٗ سے ایک اور حدیث مروی ہے: 
 حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جب اُحد پہاڑ دکھائی دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  فرماتے کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (بخاری 1481، ابنِ ماجا 3115)

 اس حدیث مبارکہ میں ’’ھذا جبل یحبنا ونحبہ‘‘ کی شرح میں محدثین کی دو رائے ہیں:
(۱)  یہ حدیث مجاز پر محمول ہے اورپہاڑ سے محبت کرنے کا مطلب ہے کہ اس پہاڑکے قریب رہنے والے لوگ یعنی اہل مدینہ جو صاحبِ ایمان و توحید ہیں، ہم سے محبت کرتے ہیں اور ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔
(۲)  یہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ جمادات میں بھی علم ودانائی، محبت وعداوت پیدا فرمادیتے ہیں۔ جیسا کہ وہ ستون جس پر ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خطبہ دیا کرتے تھے۔ جب منبر تیار ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم منبر پر خطبہ دینے لگے اور ستون پر ٹیک لگا کر خطبہ دینا ترک فرمادیا تو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جدائی کے غم میں رونے لگا۔

الغرض خواہ یہ حدیث ظاہر پر محمول ہو یا مجاز پر، دونوں صورتوں میں مدینہ کی حرمت وعظمت کا ثبوت ہے۔ اگر ظاہر پر محمول ہو تو اس لیے کہ اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مدینہ کے پہاڑ احد سے محبت کرنا اور پہاڑ کا آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت کرنا ثابت ہوتا ہے۔ اور اگر مجاز پر محمول ہو تو اس لیے کہ اس حدیث سے اہلِ مدینہ (انصار) کا آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرنا ثابت ہوتا ہے اور آپؐ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اہلِ مدینہ سے۔۔ گویا اہلِ مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک محبوب ہیں تواہلِ مدینہ (انصار) کی فضیلت ثابت ہوئی اور مکین کی فضیلت مکان کی فضیلت کو مستلزم ہوتی ہے، لہٰذا مدینہ کی فضیلت ثابت ہوئی۔

حرمتِ مدینہ

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ معظمہ کی طرح مدینہ پاک کوعظمت و احترام والا شہر قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حدودِ مدینہ میں شکار کرنے کی سخت ممانعت فرمائی اور یہاں تک فرمایا کہ جو حرمِ مدینہ میں شکار کرے اس کا سامان وغیرہ چھین لو۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھل دار درخت تو درکنار خار دار درختوں کو کاٹنے سے بھی منع فرمایا ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سختی سے عمل کیا۔ جو حرمتِ مدینہ کو توڑتا ہے اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔یعنی مدینہ منورہ کی فضیلت و حرمت اس حد تک بلند ہے جس کا انداز نہیں لگایا جاسکتا۔

ایک صحابی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہٗ نے ایک غلام کو حرمِ نبوی میں شکار کرتے ہوئے دیکھا تو اس کے کپڑے چھین لیے۔ اس غلام کے مالکان آئے اور کپڑے مانگے توسعد بن ابی وقاصؓ نے کپڑے نہیں دیے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ فرمان سنایا من أخذ أحدا یصید فیہ فلیسلبہ۔ متعلقہ احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
 حضرت سلیمان بن ابو عبد اللہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہٗ کو دیکھا کہ انہوں نے ایک آدمی کو پکڑا جو حرم مدینہ میں، جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا ہے، شکار کر رہا تھا تو انہوں نے اس کے کپڑے چھین لیے۔ اس کے مالکان آئے اور اس کو چھوڑنے کے بارے میں گفتگو کی تو سعد رضی اللہ عنہٗ نے جواب دیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حرمِ مدینہ کو محترم قرار دیا ہے اور فرمایا’’جو کسی کو حرمِ مدینہ میں شکار کرتا ہوا پکڑے تواسے چاہیے کہ وہ شکاری کاسامان چھین لے۔‘‘ لہٰذا میں تمہیں وہ رزق نہیں لوٹاؤں گا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے عنایت کیا ہے۔البتہ اگر تم چاہو تو میں اس کی قیمت لوٹا دوں۔ (ابوداؤد۔2037)

حضرت علی رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے، مدینہ محترم ومکرم ہے عیر سے ثور (مدینہ کی دو پہاڑیاں) تک۔ جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی کوئی فرض اور نفل نماز قبول نہیں ہو گی۔ (بخاری۔ 7300)

حضرت سعد رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: میں حرام قرار دیتا ہوں اس علاقے کو جو مدینہ کی دو سیاہ پتھریلی پہاڑیوں کے درمیان ہے، یعنی اس بات کو کہ اس کے خاردار درختوں کو کاٹاجائے یا اس کے شکار کو مارا جائے۔ (صحیح مسلم۔3318)

مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم

حضو ر علیہ الصلوٰۃ والسلام تسلیم و رضا کے جس مقام پر تھے اس مقام تک نہ کوئی پہنچ سکا ہے نہ پہنچ پائے گا۔ ایک بات واضح رہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کفار کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت نہیں فرمائی بلکہ حکمِ خداوندی کی بجاآوری میں فرمائی۔ اگر اللہ تعالی کا حکم نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کبھی ہجرت نہ فرماتے خواہ کفار آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر مظالم کی انتہا کر دیتے۔ ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت فرمانے کا حکم ہوا جو عرب کی دیگر بستیوں کی نسبتاً کمزور لوگوں کا مسکن تھا لیکن محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قدم مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مستقل قیام کی برکت سے وہ جگہ باقی تمام بستیوں پرغالب آگئی۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے ایسی بستی کی طرف (ہجرت کا) حکم دیا گیا جو دوسری بستیوں کو کھا جائے گی (یعنی سب پر غالب آ جائے گی۔) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں لیکن اس کا نام مدینہ ہے۔ (بخاری 1871۔ مسلم 3353)

حرمِ مدینہ اور مسجدنبوی میں ادائیگی نماز کا اجر و ثواب

مدینہ منورہ میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک حج اور عمرہ کے برابر ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث مبارکہ میں نقل ہے
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا اس وقت کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وادی عقیق میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ’’رات میرے پاس میرے ربّ کا ایک فرشتہ آیا اور اس نے کہا کہ اس مبارک وادی (مدینہ منورہ) میں نماز پڑھیے اور کہہ دیجئے کہ عمرہ حج میں شریک ہو گیا (یعنی اس میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک حج اور عمرہ کے برابر ہے)۔‘‘(بخاری۔ 2337)

مسجد نبوی جو مدینہ منورہ میں واقع ہے، میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے اور بعض روایات میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میری اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ جو اس کے علاوہ دوسری جگہوں میں پڑھی جائیں سوائے مسجد حرام کے‘‘۔(مسلم3374, 3375)

روضۂ مبارک کی زیارت کا ثواب

مدینہ منورہ ایک ایسا شہر جس کا فقط نام سننے سے ہی عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قلوب ٹھنڈے ہوجاتے ہیں اور شہر مدینہ کی زیارت کی تڑپ بڑھ جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شہر میں آقائے دوجہاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مستقل سکونت اختیار کی اور قلوب کو اطمینان بخشنے والی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت گاہ یعنی روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے جو پوری کائنات کے خیر و برکت کا منبع ہے، جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص نے میری زیارت کے لیے سفر کیا اور سفر سے اس کا مقصد میری زیارت ہی تھا تو وہ قیامت کے دن میرا پڑوسی ہوگا۔‘‘ایک دوسری حدیث میں ہے’’ جس شخص نے حج کیا اور میری قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہے جیسا کہ زندگی میں اس نے میری زیارت کی۔‘‘

 مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث ہے:
خطاب کی اولاد میں سے ایک شخص سے روایت ہے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص نے بقصد و ارادہ میری زیارت کی تو وہ قیامت کے دن میرا پڑوسی ہوگا‘‘۔ (مشکوۃ۔ 2755)

 حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہٗ سے مرفوعاً روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص نے حج کیا اور میرے مرنے کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہے جیسا کہ میری زندگی میں اس نے میری زیارت کی‘‘۔(مشکوٰۃ۔2756)

امام بیہقی نے یہ دونوں احادیث باب شعب الایمان میں روایت کی ہیں۔

مدینہ منورہ کے مصائب پر صبر کی تلقین اور فضائل

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی مدینہ پاک کی آزمائشوں، مشقتوں اور مصائب پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی سفارش کروں گا۔ حقیقتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مدینہ پاک سے اس قدر محبت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم چاہتے تھے کہ جو کوئی مدینہ میں ایک مرتبہ آگیا ہے وہ اس کی آزمائشوں کی وجہ سے اسے چھوڑ کرنہ جائے کیونکہ مدینہ پاک کی سکونت اس شخص کے لیے خیر ہی خیر ہے اور آخرت میں بھی انعام ہے۔

آل خطاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ جو شخص مدینہ میں رہائش اختیار کرے اور اس کی مشقتوں پر صبر کرے تو میں اس کے لیے گواہ ہوں گااور قیامت کے دن اس کا سفارشی ہوں گا۔‘‘ (مشکوٰۃ۔2755)

ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’(میری امت کا) کوئی فرد مدینہ کی سختی اور پریشانی پر صبر نہیں کرے گا مگر یہ کہ قیامت کے دن میں اس کے لیے سفارشی ہوں گا۔‘‘(مسلم شریف۔ 3347)

بد کرداروں سے مدینہ منورہ کا تحفظ

مدینہ کے فضائل ومناقب میں یہ بھی ایک قابل ذکر فضیلت ہے کہ مدینہ میں فاسق، فاجر اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ چنانچہ مدینہ منورہ وقتاً فوقتاً اس طرح کے لوگوں کو باہر پھینکتا رہتا ہے۔ اس طرح کا ایک واقعہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دور میں بھی رونما ہواجس کا خلاصہ یہ ہے:
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ ایک بدو نے مدینہ میں آکر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کی۔ اتفاق سے اس بدو کو بخار آگیا تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور کہا کہ اے محمدؐ! میری بیعت توڑدو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انکار کیا۔ پھر دوبارہ آیا اور کہا کہ اے محمدؐ! میری بیعت توڑ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انکار کیا۔ پھر سہ بارہ آیااور یہی جملہ دہرایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھر انکار کیا۔ اس کے بعد وہ بدو مدینہ سے چلا گیا تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مدینہ کی مثال بھٹی کی طرح ہے، وہ اپنے میل (بُرے لوگوں) کو باہر نکال دیتا ہے اور یہاں کا پاکیزہ (خالص ایمان والا) نکھر جاتا ہے۔‘‘ (مسلم 3355، ترمذی 3920) 

 اسی طرح مدینہ بھی بدکار، بد عقیدہ، فاسق، فاجر، کافر، منافق لوگوں کو وقتاً فوقتاً باہر پھینکتا رہتا ہے اور صالح، متقی، عابد، زاہد اور خدا سے لو لگانے والوں کو پناہ دیتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، یہاں تک کہ قرب قیامت میں مسیح دجال کا ظہور ہوگا جو دنیا کے چپے چپے کو چھان مارے گا، کوئی ایسی جگہ نہیں ہوگی جہاں اس کے منحوس اور ناپاک قدم نہ پہنچے ہوں گے لیکن یہ ملعون مدینہ کی سرزمین میں قدم نہیں رکھ سکے گاکیونکہ مدینہ کے ہر راستے پر اللہ کی طرف سے فرشتے مقرر ہوں گے جو حفاظت کے لیے صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ اس لیے وہ مدینہ کے قریب سنگلاخ زمین میں اترے گا۔ اس وقت مدینہ منورہ تین مرتبہ لرزے گا اور مدینہ میں جتنے کفار ومشرکین، فساق و فجار ہوں گے سب کو باہر پھینک دے گا جو سب دجال کے پاس آکر جمع ہوجائیں گے ۔اس کے بارے میں جو احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرمائیں ،ان میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایانبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’سنو! مدینہ ایک بھٹی کی مانند ہے جو ہر گندی چیز کو نکال باہر کرتا ہے۔ اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک مدینہ اپنے اندر سے بدکار لوگوں کو دور نہ کردے جس طرح بھٹی فولاد(لوہے) کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔‘‘ (مسلم 3352)

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے ہی روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس لیے طاعون اور دجال اس میں داخل نہیں ہو سکتے۔‘‘ (بخاری 1880، مسلم 3350)

 حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’کوئی شہر نہیں ہوگا جہاں دجال کے قدم نہ پہنچے ہوں گے سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ اس لیے کہ مدینہ کے ہر راستے پر فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے جو اس کی حفاظت کریں گے۔ (وہ مدینہ کے قریب سنگلاخ زمین میں اترے گا) اور پھر مدینہ کی زمین تین مرتبہ کانپے گی جس سے ایک ایک کافر اور منافق کو اللہ تعالیٰ اس میں سے باہر نکال دے گا۔‘‘ (بخاری 1881)

مدینہ میں اختتام زندگی کی فضیلت

 مدینہ منورہ میں انتقال کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بذات خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ میں انتقال کے مشتاق تھے اور ہر اس مومن کی سفارش کا وعدہ فرمایا جو مدینہ میں انتقال کرے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص کے بس میں ہو کہ وہ مدینہ میں انتقال کرے اس کو چاہیے کہ مدینہ ہی میں انتقال کرے اس لیے کہ جو شخص مدینہ میں انتقال کرے تو میں اس کے حق میں گواہی دوں گا۔‘‘ (ترمذی 3917، ابنِ ماجہ 3112)

یحییٰ بن سعید ؓ سے مروی حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک شخص کا انتقال ہوگیاتھا، اس کی قبر کھو دی جارہی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبر کے پاس تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک آدمی نے قبر میں جھانک کر دیکھا اور اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے’’مومن کی خوابگاہ کیا ہی بری ہے‘‘ تو آپ  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ’’تونے کیا ہی بری بات کہی‘‘۔ اس شخص نے کہا کہ میرا مقصد مدینہ کی برائی کرنا نہیں ہے بلکہ میرا مقصد ہے کہ اللہ کے راستے میں شہید ہونا اس سے بہتر ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ مدینہ میں انتقال کرجانا اس سے زیادہ بہتر ہے اور ارشاد فرمایا’’ روئے زمین پر کوئی مقام نہیں ہے جہاں پر مرنا مجھے مدینہ کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہو‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی ۔ (موطا امام مالک)

قیامِ قیامت اور مدینہ

اس مقدس سرزمین سے یہ بات بھی منسوب ہے کہ مدینہ پاک قیامت کے وقت سب سے آخر میں فنا ہونیوالی بستی ہوگی جو کہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے۔
 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ٗسے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے اسلام کی بستیوں میں سب سے آخر میں فنا ہونے والی بستی مدینہ ہے۔ (سنن ترمذی 3919)

قرب قیامت اور اہل ایمان کا مدینہ میں اجتماع

چونکہ مدینہ اہل اسلام و ایمان کا مرکز و محور ہے اور روئے زمین پر سب سے محفوظ و مامون جگہ ہے اس لیے تمام مومنین قرب قیامت کے وقت مدینہ منورہ کو اپنی جائے پناہ بنا لیں گے جیسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حدیث مبارکہ سے ظاہر ہے۔

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے: (قیامت کے قریب) ایمان (مومنین) سمٹ کر اس طرح مدینہ آجائیں گے جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔(بخاری1876)

محترم قارئین! مدینہ پاک کے اتنے فضائل و مناقب ہیں جن کو بیان نہیں کیا جاسکتا جو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ ہیں لیکن مدینہ پاک کی سب سے بڑی فضیلت وتکریم یہ ہے کہ وجۂ کائنات،رسول ارض وسما، محبوب ربّ العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارکہ نے یہاں ہجرت کی اور اسکے بعد مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کی یہاں تک کہ فتح مکہ کے بعد بھی آپؐ چاہتے تو مکہ پاک میں رہائش اختیار کرسکتے تھے لیکن آپؐ نے مدینہ میں نہ صرف رہنے کو پسند فرمایا بلکہ وصال مبارک کے لیے بھی مدینہ پاک کو محبوب رکھا اور آپؐ کے روضہ مبارک کی موجودگی سے مدینہ پاک کی فضیلت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی ہے۔

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :     Medina Munawwarah Ke Fazilat o Manaqib | مدینہ منورہ کے فضائل و مناقب | Urdu/Hindi Podcast

 
 
 

28 تبصرے “مدینہ منورہ کے فضائل و مناقب Medina Munawwarah ke Fazail-o-Manaqib

  1. آپؐ نے ارشاد فرمایا’’ روئے زمین پر کوئی مقام نہیں ہے جہاں پر مرنا مجھے مدینہ کے مقابلے میں زیادہ محبوب ہو‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی ۔

  2. مدینہ منورہ ایک ایسا شہر جس کا فقط نام سننے سے ہی عشاق رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قلوب ٹھنڈے ہوجاتے ہیں اور شہر مدینہ کی زیارت کی تڑپ بڑھ جاتی ہے۔❤

    1. اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بے شمار جگہ پر فرمایا ہے کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے

  3. محترم قارئین! مدینہ پاک کے اتنے فضائل و مناقب ہیں جن کو بیان نہیں کیا جاسکتا جو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ ہیں لیکن مدینہ پاک کی سب سے بڑی فضیلت وتکریم یہ ہے کہ وجۂ کائنات،رسول ارض وسما، محبوب ربّ العالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارکہ نے یہاں ہجرت کی اور اسکے بعد مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کی یہاں تک کہ فتح مکہ کے بعد بھی آپؐ چاہتے تو مکہ پاک میں رہائش اختیار کرسکتے تھے لیکن آپؐ نے مدینہ میں نہ صرف رہنے کو پسند فرمایا بلکہ وصال مبارک کے لیے بھی مدینہ پاک کو محبوب رکھا اور آپؐ کے روضہ مبارک کی موجودگی سے مدینہ پاک کی فضیلت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی ہے۔

    1. آل خطاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ جو شخص مدینہ میں رہائش اختیار کرے اور اس کی مشقتوں پر صبر کرے تو میں اس کے لیے گواہ ہوں گااور قیامت کے دن اس کا سفارشی ہوں گا۔‘‘ (مشکوٰۃ۔2755)

  4. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے: (قیامت کے قریب) ایمان (مومنین) سمٹ کر اس طرح مدینہ آجائیں گے جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔(بخاری1876)

  5. رسولِ اکرمؐ نے شہر مدینہ کو ’’طیبہ‘‘ اور ’’طابہ‘‘ جیسے ناموں سے نوازا ہے۔

  6. وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا لدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ إِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ أُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی أَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(سورۃالحشر۔9)
    ترجمہ: (اور یہ مال ان لوگوں کے لیے ہے) جنہوں نے ان (مہاجرین) سے پہلے (مدینہ کے)گھر وں میں ٹھکانہ بنایا اور ایمان لائے، وہ محبت کرتے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کی اور اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں پاتے ہیں، اس مال غنیمت سے جوان کو دیا جائے اور وہ(ان کو) خود پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان کو فاقہ کرنا پڑے اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔

  7. حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’کوئی شہر نہیں ہوگا جہاں دجال کے قدم نہ پہنچے ہوں گے سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ اس لیے کہ مدینہ کے ہر راستے پر فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے جو اس کی حفاظت کریں گے۔ (وہ مدینہ کے قریب سنگلاخ زمین میں اترے گا) اور پھر مدینہ کی زمین تین مرتبہ کانپے گی جس سے ایک ایک کافر اور منافق کو اللہ تعالیٰ اس میں سے باہر نکال دے گا۔‘‘ (بخاری 1881)

  8. اللہ تعالی نے جس طرح دنوں میں سے جمعہ کو ،راتوں میں سے شب قدر کو، مہینوں میں رمضان المبارک کو افضل قرار دیا اسی طرح تمام انسانوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو افضل بنایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کو فضیلت و برکت والا بنا دیا.

  9. ترجمہ: (اور یہ مال ان لوگوں کے لیے ہے) جنہوں نے ان (مہاجرین) سے پہلے (مدینہ کے)گھر وں میں ٹھکانہ بنایا اور ایمان لائے، وہ محبت کرتے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کی اور اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں پاتے ہیں، اس مال غنیمت سے جوان کو دیا جائے اور وہ(ان کو) خود پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان کو فاقہ کرنا پڑے اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔

  10. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ٗسے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے اسلام کی بستیوں میں سب سے آخر میں فنا ہونے والی بستی مدینہ ہے۔ (سنن ترمذی 3919)

  11. سبحان اللہ بے شک اللہ تعالی نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت سے مکہ کی زمین کو سب سے افضل قرار دیا ہے

  12. طیبہ اور طابہ:
    رسولِ اکرمؐ نے شہر مدینہ کو ’’طیبہ‘‘ اور ’’طابہ‘‘ جیسے ناموں سے نوازا ہے۔

  13. اہل ِ مدینہ کو اللہ کی طرف سے انصار کا لقب ملا اوراللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجا ان کی تعریف کی۔

  14. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے: (قیامت کے قریب) ایمان (مومنین) سمٹ کر اس طرح مدینہ آجائیں گے جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے

  15. اللہ تعالی نے جس طرح دنوں میں سے جمعہ کو ،راتوں میں سے شب قدر کو، مہینوں میں رمضان المبارک کو افضل قرار دیا اسی طرح تمام انسانوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو افضل بنایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کو فضیلت و برکت والا بنا دیا.

  16. حضرت سعد رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے: میں حرام قرار دیتا ہوں اس علاقے کو جو مدینہ کی دو سیاہ پتھریلی پہاڑیوں کے درمیان ہے، یعنی اس بات کو کہ اس کے خاردار درختوں کو کاٹاجائے یا اس کے شکار کو مارا جائے۔ (صحیح مسلم۔3318)

  17. اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بے شمار جگہ پر فرمایا ہے کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی ہے اللہ تعالی سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر21 میں فرماتا ہے :
    اُنْظُرْ کَیْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ
    ترجمہ: دیکھئے ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر کس طرح فضیلت دے رکھی ہے۔

    اللہ تعالی نے جس طرح دنوں میں سے جمعہ کو ،راتوں میں سے شب قدر کو، مہینوں میں رمضان المبارک کو افضل قرار دیا اسی طرح تمام انسانوں میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو افضل بنایا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کو فضیلت و برکت والا بنا دیا.

  18. بہت ہی بہترین مضمون ہے۔ مدینہ شریف کی ساری فضیلت اس میں بیان کی گی ہے۔ 👍

  19. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مکہ معظمہ کی طرح مدینہ پاک کوعظمت و احترام والا شہر قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حدودِ مدینہ میں شکار کرنے کی سخت ممانعت فرمائی اور یہاں تک فرمایا کہ جو حرمِ مدینہ میں شکار کرے اس کا سامان وغیرہ چھین لو۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پھل دار درخت تو درکنار خار دار درختوں کو کاٹنے سے بھی منع فرمایا ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سختی سے عمل کیا۔ جو حرمتِ مدینہ کو توڑتا ہے اس کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔یعنی مدینہ منورہ کی فضیلت و حرمت اس حد تک بلند ہے جس کا انداز نہیں لگایا جاسکتا۔

  20. سبحان اللہ ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت مضمون ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

  21. آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مدینہ کی مثال بھٹی کی طرح ہے، وہ اپنے میل (بُرے لوگوں) کو باہر نکال دیتا ہے اور یہاں کا پاکیزہ (خالص ایمان والا) نکھر جاتا ہے۔‘‘ (مسلم 3355، ترمذی 3920) 

اپنا تبصرہ بھیجیں