تجدیدِ عشق (Tajdeed E Ishq)
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور
تجدیدکے معنی ہیں احیا کرنا ، تازہ کرنا، تقویت دینا۔ راہِ عشقِ حقیقی میں ’ تجدیدِ عشق ‘‘سے مراد ہے اپنے عشق ،وفا،جذبۂ قربانی اور اخلاص کو ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ بڑھانا،نیا کرنا اور اپنے خونِ جگر سے تقویت دینا۔
راہِ عشق میں عاشق امتحانوں سے گزر کر مرتبۂ محبوبیت سے سرفراز ہوتا ہے لیکن مرتبۂ محبوبیت کا یہ سفر لامتناہی ہے کیونکہ راہِ عشقِ حقیقی میں وصالِ یارِ یگانہ یعنی ’’ وصالِ ذاتِ حق تعالیٰ‘‘ لامتناہی ہے۔ ایک آزمائش سے گزر کر عاشق صادق اپنے محبوبِ حقیقی کو پانے کی کوشش کرتا ہے، ابھی کامیابی کے ساتھ اپنی منزل پر قدم ہی جماتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ منزل ابھی آگے ہے،پھر کمر بستہ ہوتا ہے ،خامیوں اور کوتاہیوں سے اپنے دامن کو جھاڑتا ہے ،اپنے محبوب کے وصال کی خاطر اپنی نیت اورعمل کو صدق اور وفا سے حسین بناتا ہے ،عشق کی تجدید کرتاہے اور آزمائشوں اور مشکلات کے بھنور سے کامیابی کے ساتھ نکل کر بارگاہِ ایزدی میں پہنچتا ہے۔ کریم محبوب اپنے جانثار عاشق کو نعمتِ عظمیٰ اوروعدۂ الست کے فیضِ ازلی سے نوازتاہے۔
عشق ایک لازوال نعمت ہے اور اس لازوال نعمت کی سب سے بڑی خوبی ’’ھَلْ مِنْ مَّزِیْد‘‘ ہے۔ یعنی دیدارِ حق تعالیٰ اور وصالِ الٰہی کے خمار سے کبھی جی نہ بھرنا۔ عاشق ہوتا ہی وہ ہے جو دیدارِ الٰہی کا مشتاق رہتا ہے اور شب و روز اس پر تجلیات و انوارِالٰہی کا نزول رہتا ہے۔ مختلف احوال سے گزرتا ہے ۔ کبھی تجلیاتِ جمالِ الٰہی سے سکون، حالتِ بُسط اور جمعیت حاصل ہوتی ہے اور کبھی تجلیاتِ جلال سے درد، سوز، وحشت،خوف جیسی کیفیات سے گزرتاہے۔جب طالب کو مختلف احوال سے گزارا جاتاہے تبھی اس کے عشق کی تجدید ہوتی ہے اور اسی سے اس کے جذبۂ عشق میں مزید پختگی اور نکھار پیدا ہوتا ہے۔
تبدیلی کائنات کا اصول ہے اور جب طالب پر تجلیات انوارِ الٰہی کا نزول ہوتاہے تو اس کی ظاہری و باطنی حالت تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن طالب صادق پر یہ فرضِ عین ہے کہ جب وہ ان مقاماتِ تجلیات سے گزرے تو نہ ان پر ٹھہرا رہے اور نہ ہی ان پر غرور کرے ۔کیونکہ جو ایک ہی مقام پر رک جاتا ہے اس کے تجدیدِ عشق کے سفر پر بند قفل لگ جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :
السکون حرام علی قلوب الاولیا
ترجمہ: اولیا اللہ کے دلوں پرسکون حرام ہے ۔(عین الفقر)
یہاں سکون سے مراد ’’ایک مقام پر رک جانا ‘‘ہے۔
باطن میں تمام تجلیات میں سب سے زیادہ موثر تجلی ’’تجلیٔ عشقِ حقیقی‘‘ ہے۔ اس تجلی سے طالب کی ذات میں جو تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہ دیدنی ہیں۔اس عشق کی چمک اس کے ظاہر و باطن کو پر کشش اورحسین بنا دیتی ہے۔ ایک ایسا نایاب ہیرا جو نگاہِ عشق سے تراشا گیا ہوتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں :
خاص تجلی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کے درد سے پیدا ہو۔ (عین الفقر)
عشق کی اس راہ میں طالبِ مولیٰ کا رخ ہر لمحہ مرشد کے چہرۂ مبارک کی جانب ہونا چاہیے۔جیسا اندازوہ اپنائے اسی رنگ میں رنگ جائے۔ اس کے چہرۂ اقدس کی جانب رخ کرے تو عبادت کا نیا طرز اپنائے۔ اس کی آنکھ سے اُٹھنے والے ہر اشارے سے یوں آشنا ہو جیسے حقیقی محرم و آشنا ہوتاہے۔ اسی کے مطابق اپنے ہر قول و فعل کو ڈھال لے ۔ راہِ فقر میں ضدی اور اڑیل کا گزارا ممکن نہیں ، ہر لمحہ تغیر پذیرہونے کا نام عشق ہے۔ ہر تجلیٔ ربّ العزت پر نیا رنگ اوڑھ لینے کا نام عشق ہے ، اپنی عادات و خصائل اور فطرت کو تبدیل کرنے کا نام عشق ہے، اپنی انا پر یار کی مرضی کو ترجیح دینے کا نام عشق ہے، حضرتِ عشق سے عشق کرنا عشق ہے اور عشق کے لافانی سمندر میں غوطہ لگا کر خود کو فنا کرنا عشق ہے، وفا کا گھونٹ بھرنا ،فنا ہونا پھر بقا کی جانب پلٹنا ، فنا در فنا ،بقا در بقا یہی ہے ہر لمحہ اپنے عشق کی تجدید کرنا ۔
طالبِ مولیٰ کی اسی حالت کے متعلق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
طالبِ مولیٰ کی حالت ہر دم تغیر پذیر رہتی ہے کیونکہ وہ ہر آن اللہ کی تجلیات میں گھرا رہتا ہے اور اللہ کی جو تجلیّ ایک بار ہوتی ہے وہ کبھی دوبارہ نہیں ہوتی اس لیے طالبِ مولیٰ کبھی ایک حال میں نہیں ہوتا۔ (سلطان العاشقین)
طالبِ مولیٰ کو سورج مکھی کی طرح ہوناچاہیے۔ جس طرح سورج مکھی کا رخ ہمیشہ سورج کی طرف ہوتا ہے اسی طرح طالب کا رخ ہمیشہ اپنے مرشد کی طرف ہونا چاہیے۔ (سلطان العاشقین)
دینِ اسلام کو انسان کی فطرت کے مطابق ڈھالا گیا ہے اور انسان کو کائنات کی فطرت کے مطابق طرز دیا گیا ہے اور کائنات کی فطرت اور قوانین میں اللہ ربّ العزت کی جلوہ گری عیاں ہے۔ اللہ کی ہر لمحہ نئی شان ہے۔ اللہ کی اسی شان کا عکس ہمیں عالم صغیر اور عالمِ کبیر (انسان ) میں دکھائی دیتا ہے۔ عالمِ صغیر یا عالمِ کبیر دونوں تبدیلی اور تغیر پذیری کے ستون پر کھڑے ہیں ۔ شمس و قمر کو دیکھ لیا جائے تو بات عیاں ہو جاتی ہے کہ چاند کی ساخت ہر گزرتے دن کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے جیسے چودھویں کا چاند اپنے جوبن پر پہنچ کر پہلی رات کے چاند میں تبدیل ہو جاتاہے۔ سورج جب دن ڈھلنے کے قریب ہوتا ہے تو طلوع سے غروب کی آپ بیتی سناتا ہے۔ کائنات ایک ہی ہے لیکن دنیا کے ایک کونے پر دن ہے اور ایک کونے میں رات کا اندھیرا۔ صحرا میں کہیں دھوپ کی تپش سے زمین جلتی ہے تو کہیں برف ہر شے کو سفیدچادر اوڑھا دیتی ہے۔ دنیا میں نہ ایک طرح کا وقت پایا جاتاہے نہ موسم۔انسان ایک طرح کے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں، تمام درختوں کے پتے ایک جیسے ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ نہ ہی کہیں صرف بلندی ہے اور نہ ہی کہیں صرف پستی ،ہر زوال کے بعد عروج اور ہر عروج نے زوال کا مزہ چکھنا ہے۔ ہر آغاز نے انجام تک کا سفر طے کرنا ہے اور ہر انجام نے آغاز کو پہنچنا ہے۔ بہتا ہوا دریا بھی کتنا لطیف ہے، بہتارہے توپاک و صاف اور رک جائے تو بدبودار اور ناپاک ۔یہی ہے کائنات اور انسان میں حرکت پذیر ہونے کا لاجواب قانون !
انسانِ کامل اور تجدیدِ عشق
انسانِ کامل کی ذات ہی اصل میں تجدیدِ عشق کی کسوٹی ہے جس کے ذریعہ طالبِ حق کو پرکھا جا سکتا ہے۔ حقیقتِ محمدیہ کو موجودہ دور کے انسانِ کامل کی ذات میں پہچاننا ہی تجدیدِ عشق کہلاتا ہے۔وہ انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جانشین ، حاملِ امانتِ الٰہیہ اور اس کا ہر قدم قدمِ محمدیؐ پر ہوتا ہے۔
انسانِ کامل کی اِسی شان کے متعلق حضرت سیدّ عبد الکریم بن ابراہیم الجیلیؒ اپنی تصنیف’’ انسانِ کامل ‘‘میں فرماتے ہیں :
انسانِ کامل قطبِ عالم ہے جس کے گرد اوّل سے آخر تک وجود کے فلک گردش کرتے ہیں اور وہ جب وجود کی ابتدا ہوئی اس وقت سے لے کر ابد الآباد تک ایک ہی شے ہے۔ پھر اس کے لیے رنگا رنگ لباس ہیں اور باعتبار لباس اس کا ایک نام رکھا جاتاہے کہ دوسرے لباس کے اعتبار سے اس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اس کا اصلی نام محمدؐہے ۔ اس کی کنیت ابوالقاسم، اس کا وصف عبد اللہ اور اس کا لقب شمس الدین ہے۔ باعتبار دوسرے لباسوں کے اس کے نام ہیں۔ پھر ہر زمانہ میں اس کا ایک نام ہے جو اس زمانہ کے لائق ہوتا ہے۔ (انسانِ کامل)
حقیقتِ محمدیہ ہر زمانے میں اس زمانے کے اکمل کی صورت میں اس زمانے کی شان کے مطابق ظاہر ہوتی ہے ۔ یہ انسانِ کامل اپنے زمانے میں حضور اکرمؐ کا خلیفہ ہوتا ہے۔(انسانِ کامل)
اس بات کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ حقیقتِ محمدیہ پر ایمان لانا عشق ہے اور موجودہ دور میں آپؐ کے نائب کو تلاش کرنا اور وفا نبھانا ’’تجدیدِ عشق ‘‘ ہے ۔ عہدِ الست میں اللہ کی واحدانیت کا اقرار عشق ہے اور موجودہ دور میں حاملِ امانتِ الٰہیہ کی بیعت کرنا اس عشق کی تجدید ہے۔ آپؐ کو انسانِ کامل جاننا عشق ہے اور موجودہ دور میں مرشد کامل اکمل کا مرتبۂ انسانِ کامل سے سرفراز ہونا ’’تجدیدِ عشق‘‘ ہے۔ عشق کا بیج ہر انسان میں پوشیدہ ہے اس عشق کے بیج کا صورت ِاسمِ اللہ ذات روشن ہو جانا تجدیدِ دین و ایمان و عشق ہے۔ سلسلہ سروری قادری کے فقرائے کاملین کے دستِ اقدس پر بیعت کرنا اور نقشِ اسم اللہ ذات سے صاحبِ مسمیّٰ اسمِ اللہ ذات کو پانا بھی رمزِ عشق کی تجدید ہی ہے۔
فقر کے مختارِ کلُ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ ہر زمانہ میں ایک ایسا فقیرکامل یا انسانِ کامل ہوتا ہے جسے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بحکم و اجازت امانتِ فقر منتقل کی جاتی ہے۔یعنی منتقلی امانتِ الٰہیہ کا سلسلہ بھی تجدیدکے اصول کے ساتھ رواں ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ قائم و دائم رہے گا۔ موجودہ دورمیں حاملِ امانتِ الٰہیہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کو یہ امانت آپ کے مرشد پاک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ سے 21 مارچ 2001ء کومنتقل ہوئی۔ آپ مدظلہ الاقدس کے مریدین اور طالبان اس دن کو انتہائی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔
تجدید کا راستہ ہمیں ہمارا دین’’اسلام‘‘ سکھاتا ہے۔ تجدید کی سب سے عظیم مثال ’’اجتہاد‘‘ ہے ۔ علامہ اقبالؒ تصنیف ’’تجدیدِ فکریاتِ اسلام (The Reconstruction of Religious thought In Islam) میں اس کے متعلق فرماتے ہیں:
خدا سے وفاداری کا مطلب خود انسان کی مثالی فطرت سے وفاداری ہے۔ جیسا کہ اسلام نے سمجھایا ہے کہ زندگی کی مطلق روحانی اساس ازلی ہے اور تغیر اور تنوع میں اپنا اظہار کرتی ہے۔ ایک معاشرے کے اندر جو حقیقتِ مطلق کے اس تصور پر استوار ہوتا ہے سکون و ثبات کے دونوں عناصر میں باہم موافقت پائی جانی چاہیے۔ وہ لازمی طور پر کچھ ایسے ابدی اصول رکھتا ہے جن پر وہ اجتماعی زندگی کو استوار کرتا ہے کیونکہ مسلسل تغیر پذیر دنیا میں نہ بدلنے والے اصولوں کی وجہ سے ہمارے قدم جمے رہتے ہیں اور اکھڑنے نہیں پاتے ۔ لیکن ان ابدی اصولوں میں سے ہم تغیر کے سارے امکانات کو ختم کر دیں گے جو قرآن کے مطابق خدا کی عظیم ترین نشانیوں میں سے ہیں تو اس سے ایک فطرتاً متحرک شے کو غیر متحرک بنانے کا رویہ سامنے آئے گا۔ یورپ کی سیاست اور سماجی علوم میں ناکامی اس مقدم الذکر اصول کے سبب ہے۔ اور گذشتہ پانچ سو سالوں میں اسلام کی غیر حرکت پذیری موخر الذکر اصول کے سبب ہے۔ اسلام میں حرکت کا اصول کیا ہے؟ اس کو عرفِ عام میں ’’اجتہاد‘‘کہتے ہیں۔ اس کے لغوی معنی سعی و جہد کے ہیں۔ (تجدیدِ فکریاتِ اسلام )
تجدیدِ دین اور سلطان العاشقین
اللہ تعالیٰ نے دین کی تجدید کا فریضہ اپنے فقرائے کاملین کو عطا کیا ہے۔ موجودہ دور میں اس کے علمبردار سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں۔ دین کی تجدیدسے مراد ظاہری و باطنی ہر لحاظ سے دین سے ہر فتنے کو ختم کرنا اور اسے حیاتِ نو عطا کرنا ہے۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے مجددِ دین ہیں ۔ آپ مدظلہ الاقدس کو دینِ محمدی کو حیاتِ نو عطا کرنے اور فقر ِ حقیقی کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کاوشوں کے اعتراف کے طور پر شبیہِ غوث الاعظم کا لقب مجلسِ محمدیؐ سے عطا کیا گیا ہے۔ جس طرح سیدّناغوث الاعظمؓ نے اپنے دور میں دینِ اسلام کی حقیقی روح کو زندہ کیا عین اسی نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس تجدید ِدین کے لیے مصروفِ عمل ہیں تاکہ دینِ اسلام سے ظاہر پرستی، فرقہ پرستی کا خاتمہ ہو جائے اور فقرِ محمدیؐ کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچ جائے۔ اس کے لیے آپ مدظلہ الاقدس راہِ حق کے پیغام کو عام کرنے کے لیے ہر جدید ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم جیسا کہ فیس بک، ٹویٹر ، لنکڈاِن، ریڈاِٹ،یوٹیوب ، ٹک ٹاک اورسنیک ویڈیوز وغیرہ کا استعمال کیاہے۔ در حقیقت آپ مدظلہ الاقدس امام الوقت ہیں اور امام الوقت کہتے ہی اسے ہیں جو زمانے کے مطابق دین کو حیاتِ نو بخشتا ہے اور فیضِ فقر کو عام فرماتا ہے۔
تجدیدِ دین کے متعلق حدیثِ مبارکہ ہے:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کے شروع میں یا آخر میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرماتارہے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔ ‘‘ (سنن ابی داؤد 4291)
حاصلِ بحث:
زیرِنظر مضمون کا مقصد دین، انسان اورکائنات میں وقوع پذیر ہونے والے تغیر و تبدیلی کے اصول کو بیان کرنا ہے اور اسی تغیر پذیری کی فطرت سے یہ بات واضح کرنا ہے کہ عشق کی تجدیدبھی انتہائی نا گزیر ہے۔ عشق بھی ایک فطرت رکھتا ہے وہ یہ کہ طالبِ مولیٰ ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ مزید عشق کرتا چلاجائے اور اسکی وفاوجانثاری میں اضافہ ہوتاچلا جائے۔ اللہ کی معرفت اور پہچان کے لیے ہر دور میں کامل اور اکمل افراد کو تلاش کرے اوران سے رازِ حقیقت کو پانے کی کوشش کرتا رہے اور ادراکِ قلبی سے اپنے دور کے امام الوقت کی پہچان حاصل کرے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے اور تجدیدِ عشق کے حقیقی رنگ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا کرے۔
استفادہ کتب
عین الفقر: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
تجدید ِ فکریاتِ اسلام : ترجمہ ڈاکٹر وحید عشرت
نوٹ: اس مضمون کو آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube) چینل کو وزٹ فرمائیں۔
مضمون لنک : Mahnama Sultan-ul-Faqr Lahore | Tajdeed e Ishq | Islamic Topic In Urdu/ Hindi | Sultan-ul-Ashiqeen
طالبِ مولیٰ کو سورج مکھی کی طرح ہوناچاہیے۔ جس طرح سورج مکھی کا رخ ہمیشہ سورج کی طرف ہوتا ہے اسی طرح طالب کا رخ ہمیشہ اپنے مرشد کی طرف ہونا چاہیے۔ (سلطان العاشقین)
حقیقتِ محمدیہ پر ایمان لانا عشق ہے اور موجودہ دور میں آپؐ کے نائب کو تلاش کرنا اور وفا نبھانا ’’تجدیدِ عشق ‘‘ ہے ۔ عہدِ الست میں اللہ کی واحدانیت کا اقرار عشق ہے اور موجودہ دور میں حاملِ امانتِ الٰہیہ کی بیعت کرنا اس عشق کی تجدید ہے۔ آپؐ کو انسانِ کامل جاننا عشق ہے اور موجودہ دور میں مرشد کامل اکمل کا مرتبۂ انسانِ کامل سے سرفراز ہونا ’’تجدیدِ عشق‘‘ ہے۔
تجدیدکے معنی ہیں احیا کرنا ، تازہ کرنا، تقویت دینا۔ راہِ عشقِ حقیقی میں ’ تجدیدِ عشق ‘‘سے مراد ہے اپنے عشق ،وفا،جذبۂ قربانی اور اخلاص کو ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ بڑھانا،نیا کرنا اور اپنے خونِ جگر سے تقویت دینا۔
عشق حقیقی کی تعلیمات سے بھرپور ہے یہ مضمون 🌷
اللہ پاک ہمارے مرشد کریم کا سایہ ہم پر ہمیشہ سلامت رکھے آمین۔
حقیقتِ محمدیہ کو موجودہ دور کے انسانِ کامل کی ذات میں پہچاننا ہی تجدیدِ عشق کہلاتا ہے۔
تبدیلی کائنات کا اصول ہے اور جب طالب پر تجلیات انوارِ الٰہی کا نزول ہوتاہے تو اس کی ظاہری و باطنی حالت تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن طالب صادق پر یہ فرضِ عین ہے کہ جب وہ ان مقاماتِ تجلیات سے گزرے تو نہ ان پر ٹھہرا رہے اور نہ ہی ان پر غرور کرے ۔کیونکہ جو ایک ہی مقام پر رک جاتا ہے اس کے تجدیدِ عشق کے سفر پر بند قفل لگ جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :
السکون حرام علی قلوب الاولیا
ترجمہ: اولیا اللہ کے دلوں پرسکون حرام ہے ۔(عین الفقر)
حقیقتِ محمدیہ ہر زمانے میں اس زمانے کے اکمل کی صورت میں اس زمانے کی شان کے مطابق ظاہر ہوتی ہے ۔ یہ انسانِ کامل اپنے زمانے میں حضور اکرمؐ کا خلیفہ ہوتا ہے۔(انسانِ کامل)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے اور تجدیدِ عشق کے حقیقی رنگ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا کرے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حضور مرشد کریم کے زیرِ سایہ رکھے
اللہ کی معرفت اور پہچان کے لیے ہر دور میں کامل اور اکمل افراد کو تلاش کرے اوران سے رازِ حقیقت کو پانے کی کوشش کرتا رہے
تجدیدکے معنی ہیں احیا کرنا ، تازہ کرنا، تقویت دینا۔ راہِ عشقِ حقیقی میں ’ تجدیدِ عشق ‘‘سے مراد ہے اپنے عشق ،وفا،جذبۂ قربانی اور اخلاص کو ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ بڑھانا.
تجدید عشق کی حقیقت کو نہایت ہی احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے مجددِ دین ہیں ۔ آپ مدظلہ الاقدس کو دینِ محمدی کو حیاتِ نو عطا کرنے اور فقر ِ حقیقی کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کاوشوں کے اعتراف کے طور پر شبیہِ غوث الاعظم کا لقب مجلسِ محمدیؐ سے عطا کیا گیا ہے۔
MashaAllah Beshak tajdeed e Ishq bohot zaroori hai
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے اور تجدیدِ عشق کے حقیقی رنگ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
، اپنی انا پر یار کی مرضی کو ترجیح دینے کا نام عشق ہے
طالبِ مولیٰ کو سورج مکھی کی طرح ہوناچاہیے۔ جس طرح سورج مکھی کا رخ ہمیشہ سورج کی طرف ہوتا ہے اسی طرح طالب کا رخ ہمیشہ اپنے مرشد کی طرف ہونا چاہیے۔ (سلطان العاشقین)
راہِ عشق میں عاشق امتحانوں سے گزر کر مرتبۂ محبوبیت سے سرفراز ہوتا ہے
خاص تجلی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کے درد سے پیدا ہو۔ (عین الفقر)
عشق کی اس راہ میں طالبِ مولیٰ کا رخ ہر لمحہ مرشد کے چہرۂ مبارک کی جانب ہونا چاہیے
طالبِ مولیٰ کو سورج مکھی کی طرح ہوناچاہیے۔
Bohat behtreen mazmoon ha
بہترین معلوماتی مضمون ہے۔
حقیقتِ محمدیہ ہر زمانے میں اس زمانے کے اکمل کی صورت میں اس زمانے کی شان کے مطابق ظاہر ہوتی ہے ۔ یہ انسانِ کامل اپنے زمانے میں حضور اکرمؐ کا خلیفہ ہوتا ہے۔(انسانِ کامل)
طالبِ مولیٰ کی اسی حالت کے متعلق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
طالبِ مولیٰ کی حالت ہر دم تغیر پذیر رہتی ہے کیونکہ وہ ہر آن اللہ کی تجلیات میں گھرا رہتا ہے اور اللہ کی جو تجلیّ ایک بار ہوتی ہے وہ کبھی دوبارہ نہیں ہوتی اس لیے طالبِ مولیٰ کبھی ایک حال میں نہیں ہوتا۔ (سلطان العاشقین)
انسانِ کامل کی ذات ہی اصل میں تجدیدِ عشق کی کسوٹی ہے جس کے ذریعہ طالبِ حق کو پرکھا جا سکتا ہے۔ حقیقتِ محمدیہ کو موجودہ دور کے انسانِ کامل کی ذات میں پہچاننا ہی تجدیدِ عشق کہلاتا ہے۔وہ انسانِ کامل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جانشین ، حاملِ امانتِ الٰہیہ اور اس کا ہر قدم قدمِ محمدیؐ پر ہوتا ہے
HAQ
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے اور تجدیدِ عشق کے حقیقی رنگ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا کرے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے اور تجدیدِ عشق کے حقیقی رنگ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا کرے
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے اور تجدیدِ عشق کے حقیقی رنگ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا کرے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے اور تجدیدِ عشق کے حقیقی رنگ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا کرے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے. آمین
Great
Bhot behtreen article 👌👌💯
طالبِ مولیٰ کو سورج مکھی کی طرح ہوناچاہیے۔ جس طرح سورج مکھی کا رخ ہمیشہ سورج کی طرف ہوتا ہے اسی طرح طالب کا رخ ہمیشہ اپنے مرشد کی طرف ہونا چاہیے۔ (سلطان العاشقین)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے زیرِ سایہ ہر لمحہ عشقِ حقیقی کے سفر میں ترقی پذیر رہنے کی توفیق عطا کرے اور تجدیدِ عشق کے حقیقی رنگ کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق عطا کرے
فقر کے مختارِ کلُ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔