شان سلطان العاشقین Shan Sultan-ul-Ashiqeen


4.9/5 - (502 votes)

شان سلطان العاشقین (Shan Sultan-ul-Ashiqeen)

آخری قسط                                 تحریر: سلطان محمد عبد اللہ اقبال سروری قادری

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مقام فقرہے جبکہ گہنا شریعت ہے۔ اُٹھنا بیٹھنا، چلنا، لباس، کھانا پینا، گفتگو نیز ہر شے شریعت کی غمازی کرتی ہے۔ شریعت کو جتنا زیادہ جاننا ہو اتناہی آپ مدظلہ الاقدس کو قریب سے دیکھنا ضروری ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیمات فقر ہیں جو شریعت کی عین ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ظاہر شریعت اور باطن معرفت ہے۔ 

آپ مدظلہ الاقدس اپنے مرید کی تربیت کی ابتدا ہی شریعت سے فرماتے ہیں یہاں تک کہ انتہاپر پہنچا کر اس کو معرفت کا پیکر بنا دیتے ہیں کہ وہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھتا اور شریعت کالبادہ پہن کر دائمی طور پر محفوظ ہو جاتاہے۔ 

جب آپ مدظلہ الاقدس طالبِ مولیٰ کے باطن پر نگاہ ڈالتے ہیں تو قلوب پر نور مانندِدریا بہنے لگتا ہے جیسے بارش کا پانی وادی میں سے ہر نجاست کو بہا لے جاتا ہے اُسی طرح آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ سے قلوب میں نور کے فوارے پھوٹتے ہیں جو اہلِ یقین کے لیے باعث فرحت اور اسرار کا مرجع ہیں جس کے باعث طالب دنیا کی طرف توجہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے طالب کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے اور وہ ہدایت کیساتھ زندہ ہو جاتاہے۔ دنیا پر توجہ کرنا دل کی تنگی کا باعث ہے اور دنیا سے بے توجہی کشادگیٔ قلب کا ذریعہ ہے۔ وہی نور جو دل میں پھوٹتا ہے ،نفس کو پاکیزگی کی منازل طے کراتا ہوا مقصود تک لے جاتا ہے۔ یوں نفس کی صفات، اخلاق اورا حوال بدل جاتے ہیں۔ اسی نور سے باطنی آنکھ کھلتی ہے جو نورِ یقین کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی جو کہ سراسر دیدارِ حق ہے۔ ہر لمحہ اللہ نئے اسرار عیاں کرتا ہے کہ انسان پکار اٹھتا ہے: عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ (سورۃ العلق۔5)  ’’انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔‘‘

اگر کوئی صدقِ دل سے دنیاسے توجہ ہٹا کر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں جائے تو بقدر استطاعت مقربین کے احوال سے مزین ہو جاتا ہے۔ دنیا سے توجہ ہٹاناآسان نہیں کیونکہ توجہ ہٹانا اللہ کی راہ میں قربانی کے معنی میں ہے۔ جو طالب ایسی قربانی دے وہ آپ مدظلہ الاقدس کی ایک نگاہ سے ایسے مقام پر فائز ہوتا ہے کہ اس کے علوم اس کے احوال بن جاتے ہیں جو دل میں ہجرِ معشوق کا سوزو گداز اُجاگر کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ سب اس کو حاصل ہے جس کو کامل ادب حاصل ہے۔ ابتدا بھی ادب سے ہے اور انتہا تک رسائی بھی ادب سے ہے۔ جو ادب سے حاصل ہو وہی اصل ہے اور اسی میں مشغولیت باعثِ کامرانی ہے۔ جو ذکر اللہ میں مشغول نہیں ہوتا وہ شیطان میں مشغول ہو جاتاہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ یَّعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضُ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ (سورۃ الزخرف۔36)
ترجمہ :اور جو رحمن کے ذکر سے منہ پھیرے توہم اس پر ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں تو وہ اس کا ساتھی رہتاہے۔

اولیائے کاملین کے پاس آنے سے پہلے،قلب کی زمین بنجر یا پتھر کی سی ہوتی ہے۔ اولیااپنی نظر کیمیا سے اسے آباد کرتے ہیں تو وہ بیج بونے کے قابل ہو جاتی ہے۔پھر اس پر بیج لگاتے ہیں۔ یہی نظر کیمیا میرے مرشد کی ہے اور وہ اسمِ اللہ ذات کا بیج لگاتے ہیں۔ اس سے ایک ایسا پودا ظاہر ہوتا ہے جس کے لیے پانی تلاوتِ قرآن اور حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہوتی ہے۔ پھر وہ درخت بن کر سراپا چشم اور ہمہ تن ذاکر بن جاتا ہے۔ اس کا لوُں لوُں ذکر اللہ میں غرق ہو جاتا ہے اور وہ مومنین کی عقل و ادب سے بہرہ ور ہوتاہے۔ یہی اصل زندگی ہے اوراس سے دوری موت ہے۔ 

سروری قادری مشائخ چونکہ قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوتے ہیں اس لیے یہ آیت ان کے حال کے مترادف ہے:
یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ  اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ (سورۃ انفال۔24)
ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔ 

اصل زندگی وحدت ہے کیونکہ بقا صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو ہے باقی ہر شے فنا کے دہانے پر ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس جب وحدت کی تجلی سے طالبِ مولیٰ کا باطن معمور کرتے ہیں تووہ اللہ کے علاوہ ہر شے سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اللہ کل ہے ۔جب طالب ہر شے چھوڑ کر اللہ کی طرف لوٹتا ہے تو سب کچھ پا لیتا ہے۔ 

آپ مدظلہ الاقدس سراپا نور ہیں جو ظلمت کو مٹادیتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ قُلْ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا (سورۃ اسریٰ۔81)
ترجمہ: اور فرماؤ کہ حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ بیشک باطل کو مٹنا ہی تھا۔ 

آپ مدظلہ الاقدس جب کوئی حکم فرماتے ہیں تو اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہوتا ہے۔ باطن کی معرفت اس حکم کی پیروی کے بعد ہے۔ یہ معرفت انہی کا حصہ ہے جن کے باطن کا رزق نور ہے جس کا ذریعہ سراپا نور ہے جو کہ میرے مرشد ہیں۔ 

اللہ جب کسی شے میں متجلی ہوتا ہے تو وہ اللہ کی نشانی بن جاتی ہے۔ پھر ایک تجلی ٔذات ہے۔ اولیائے کاملین میں تجلیٔ ذات اتنی شدید ہے کہ یہ نشانی ذات کی طر ف لوٹ کر ذات میں گم ہو کر خود عین ذات ہو جاتی ہے۔ یہ شانِ سلطان العاشقین ہے۔ حضرت امام جعفر رضی اللہ عنہٗ ایک بار نماز میں غش کھا کر گر پڑے۔ جب آپؓ سے اس کے بارے میں پوچھا گیاتوآپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا:
’’میں تلاوت میں ایک آیت کو بار بار تلاوت کرتا رہا یہاں تک کہ پھر میں نے اس کو اس کے متکلم سے سنا۔‘‘ یہ حق ہے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت سے طالب اپنے آپ کو شجرِ موسیٰؑ کی طرح پاتا ہے۔ یوں آپ مدظلہ الاقدس طالبانِ حق کو حوادث سے ابتدا میں لے جاتے ہیں اور مبتدی کو منتہی بنا دیتے ہیں۔ کئی طالب ان تجلیات کو خود قبول نہیں کرتے کیونکہ ان کی توجہ ذات پر نہیں ہوتی۔ ان تجلیات کا متحمل وہی ہے جس کی کامل توجہ کا مرکز ذاتِ برحق ہے، جس کی پہچان مال و جان کی قربانی ہے جو کہ باعثِ تزکیۂ نفس ہے۔ اس طرح حجاب ہٹنے سے تجلیات باطن کو معمور کرنے لگتی ہیں۔ یہ مقامات انہی کو حاصل ہیں جو سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے چہرۂ مبارک پر نظر جما کر رکھتے ہیں اور پھر جو دل پر وارد ہوتا ہے اس کو سنتے اور سمجھتے ہیں اور وقت آنے پرعمل پیرا ہوتے ہیں۔ باطن کی تختی پر کچھ نہ کچھ وارد ہوتاہے۔ اب طالب پر ہے کہ وہ سنے اور دیکھے جو اللہ دکھائے یاپھر وہ جو شیطان دکھائے۔ انسان ان دو حال میں سے کسی ایک سے خالی نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآئُ    (سورۃ فاطر۔22)
ترجمہ: بیشک اللہ سنا تا ہے جسے چاہتا ہے۔
وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (سورۃ اعراف۔ 204)
ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔

ابتدائی طالب باطن پر وارد آثار و علوم کو سمجھ نہیں پاتا لیکن ان طالبوں میں سے جن کا سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ارادہ فرما لیں وہ ہمہ تن گوش ہو کر سننے اور سمجھنے لگتے ہیں۔ ابھی تک کوئی ایسا طالب نہیں کہ جس کو راہ ِفقر میں کوئی پریشانی لاحق ہو اور اس نے آپ مدظلہ الاقدس سے رجوع کیا اور آپ نے اس پریشانی و فتنہ سے اسے محفوظ نہ فرمایا ہو بلکہ اس سے بھی بلند مراتب عطا فرماتے ہیں جس سے وہ اصلی وطن کی طرف پلٹنے لگتا ہے۔ یہی حقیقی فضیلت ہے جس کا منبع آپ مدظلہ الاقدس ہیں۔ یہ وہ فضیلت ہے کہ جس کو حاصل کئے بغیر راہِ نجات ممکن نہیں ۔ یہ فضیلت انہیں حاصل ہے جنہیں اخلاص عطاکیا گیا ہے۔ اخلاص سے ہی رضائے الٰہی کا حصول ہے:
السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ  مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ (سورۃ توبہ۔100)
ترجمہ: اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے۔ 

اس طرح انسان اللہ کے اُس لشکر کا حصہ بن جاتاہے جن کانصیبہ فقرہے۔ اس لشکر کے امیر امام الوقت ہوتے ہیں جو کہ میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں۔ میرے مرشد کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مہربانی، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے توسط اور سیدّنا غوث پاک الاعظم رضی اللہ عنہٗ کی نظرِکرم سے وہ مقام حاصل ہوا کہ نہ آج سے پہلے کسی کو اس کی خبر تھی نہ آنے والوں کو اس کی خبر ہو گی۔ ہر آنے والا لمحہ آپ مدظلہ الاقدس کے لیے سرفرازی کا باعث ہے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کی دلیل ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کارُخ اللہ کی طرف ہے جس کا عالم یہ ہے کہ جو مرید آپ مدظلہ الاقدس کی طرف رُخ کرتا ہے اس کا رُخ بھی اللہ کی طرف ہو جاتاہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو بیعت کے پہلے روز بہت ہی نایاب خزانے سے نوازتے ہیں جو کہ کل خزانوں کی کنجی ہے۔ پھر ان میں کچھ ہیں جو استقامت کو چھوڑ کر کرامت کی طلب کرتے ہیں جسکی وجہ سے وہ کچھ حاصل نہیں کر پاتے کیونکہ کرامت کی طلب نفس سے ہے جبکہ کچھ استقامت پر قائم ہو جاتے ہیں کہ اللہ نے استقامت کا حکم فرمایا ہے۔

 حضرت ابوعلی جوزجانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
طالبِ استقامت بن، طالبِ کرامت نہ بن ہرچند کہ تیرا نفس کرامت کا خواہاں ہے لیکن تیرا ربّ تجھ سے استقامت چاہتا ہے۔
تاآنکہ نفس اس حالت کو مستقل اختیار کر لے:
یٰٓاَیَّتَھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ہ ارْجِعِیی اِلٰی  رَبِّکِ رَاضِیَۃً  مَّرْضِیَّۃً (سورۃ فجر۔27-28)
ترجمہ: اے نفسِ مطمئنہ !لوٹ اپنے ربّ کی طرف اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو وہ تجھ سے راضی ۔

اس حالت میں نفس بھی شاملِ حال ہو کر معاون و مددگار بن جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہٗ ایک طویل حدیث روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تیرے نفس کو تیری مدد کرنی چاہیے۔ (طبرانی 18777)

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا فرمان ہے:
زندہ مرشدکامل سے فیض حاصل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس میں نفس ہوتا ہے اور وہ اپنے نفس سے طالب کے نفس کی تربیت کرتا ہے۔

یہی آپ مدظلہ الاقدس کا طریقِ تربیت ہے جس سے نفس معاون بن جاتاہے اور استقامت کا حصول ممکن ہو جاتاہے جو کہ ہر فیض سے بہرہ ور ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔

 استقامت ہی کرامت میں بدل جاتی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی استقامت و کرامت کا حال یہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے ہر لمحہ اللہ کا کام کیا ہے اور اس استقامت سے کیا کہ وہ کرامت میں بدل گئی۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کی کرامت مشہور و معروف ہے کہ جو طالب جب بھی بیعت ہوا، اس طالب کا کہنا ہے اس روز سے میں نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو فراغت میں نہیں پایا۔ آپ ہر لمحہ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دنیا بھرمیں عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ 

دیدارِ الٰہی کا علم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حاصل ہوتا ہے جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود ان طالبانِ مولیٰ کو تفویض فرماتے ہیں۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک رسائی رضائے الٰہی سے ممکن ہے جبکہ رضا تک رسائی استقامت سے ممکن ہے اور استقامت کے لیے اولیائے کاملین کا فیض لازم ہے جیسا کہ میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس جو کہ پہلے روزہی طالبانِ حق کو استقامت کا تحفہ عطا فرماتے ہیں۔ لیکن ازلی اندھوں کو یہ فیض برداشت نہیں جیسے کسی مریض کا جسم اگر کوئی خوراک قبول نہ کرے تو قے کر دیتا ہے۔ جس طرح کسی شے کا ذائقہ تب تک معلوم نہیں کیا جا سکتا جب تک اس کو چکھا نہ جائے اُسی طرح اس فیضِ بیکراں سے بیگانگی رہے گی جب تک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت نہ ہواجائے۔آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے روز باطن کو استقامت سے فیضیاب کرتے ہیں جس سے طالب کو اپنی منزل نظر آ جاتی ہے۔ استقامت سے صحبت حاصل ہوتی ہے، صحبت سے محبت، محبت سے عشق اور عشق کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں معراج کی رات حضرت جبرائیل ؑنے آگے جانے سے بے بسی ظاہر کی کہ میرے پَر جل جائیں گے۔ استقامت کے متعلق ایک بار سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے فرمایا:
نور مکمل ہونے تک چلتے رہنا استقامت ہے۔

امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
استقامت دنیا میں ایسا مشکل امر ہے جیسے پل صراط پرسے گزرنا اور یہ دونوں بال سے بھی باریک اور تلوار سے بھی تیز ہیں تو جو بھی اس دنیا میں اس پر چلے گا بدرجۂ اُولیٰ وہ پل صراط پر چل سکے گا کیوں کہ مشق کرنے کے بعد کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

ایک ولیٔ وقت نے بہت اعلیٰ لباس پہنا ہوا تھا۔ ایک دنیا دار کی نظر پڑی تو اس نے دریافت کیا یا حضرت! اتنا اعلیٰ لباس؟ انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کپڑے کی اندر والی طرف لگایا تو کپڑا نہایت کھردرا تھا۔ پھر فرمایا’’باہر والا مخلوق کے لیے ہے اور اندر والا خالق کے لیے۔‘‘

اسی طرح دنیا دار کی نظر جب سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس پر پڑتی ہے تو اسے لباس، سواری، خدمتگار اور مکان نظر آتاہے، جبکہ خالق کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے ساری زندگی اپنے خالق کو راضی کرنے میں بسر کی،اپنی تمام تردولت اللہ کی راہ میں قربان کر دی اور اس آیت کی تفسیر بن گئے:
اَلَّذِیْنَ  یُنْفِقُوْنَ  فِی  السَّرَّآئِ  وَ  الضَّرَّآئِ (سورۃ آل عمران۔134)
ترجمہ: وہ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

یہاں تک کہ یہ مقام آن پہنچا:
رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ 
ترجمہ: اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بلند اور عظیم شان کو ادراکِ قلبی سے سمجھنے اور آپ مدظلہ الاقدس کے ساتھ استقامت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 
 

45 تبصرے “شان سلطان العاشقین Shan Sultan-ul-Ashiqeen

  1. امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
    استقامت دنیا میں ایسا مشکل امر ہے جیسے پل صراط پرسے گزرنا اور یہ دونوں بال سے بھی باریک اور تلوار سے بھی تیز ہیں تو جو بھی اس دنیا میں اس پر چلے گا بدرجۂ اُولیٰ وہ پل صراط پر چل سکے گا کیوں کہ مشق کرنے کے بعد کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

  2. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بلند اور عظیم شان کو ادراکِ قلبی سے سمجھنے اور آپ مدظلہ الاقدس کے ساتھ استقامت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  3. بے شک آپ مدظلہ الاقدس بیعت کے پہلے روز ہی اپنی نگاہ کیمیا سے طالب کا سینہ روش فرماتے ہیں۔

  4. آپ مدظلہ الاقدس طالبِ مولیٰ کے باطن پر نگاہ ڈالتے ہیں تو قلوب پر نور مانندِدریا بہنے لگتا ہے

  5. استقامت ہی کرامت میں بدل جاتی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی استقامت و کرامت کا حال یہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے ہر لمحہ اللہ کا کام کیا ہے اور اس استقامت سے کیا کہ وہ کرامت میں بدل گئی۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کی کرامت مشہور و معروف ہے کہ جو طالب جب بھی بیعت ہوا، اس طالب کا کہنا ہے اس روز سے میں نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو فراغت میں نہیں پایا۔ آپ ہر لمحہ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دنیا بھرمیں عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

  6. آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیمات فقر ہیں جو شریعت کی عین ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ظاہر شریعت اور باطن معرفت ہے۔

  7. سلطان العاشقین کے بلند مرتبہ اور عظیم شان کو بیان کرنے کے لیے الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں

  8. بے شک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس دور کے فقیرِ کامل ہیں اور اپنی نگاہِ کامل سے زنگ آلود قلب کو نورِ حق سے منور فرماتے ہیں۔

  9. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بلند اور عظیم شان کو ادراکِ قلبی سے سمجھنے اور آپ مدظلہ الاقدس کے ساتھ استقامت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  10. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بلند اور عظیم شان کو ادراکِ قلبی سے سمجھنے اور آپ مدظلہ الاقدس کے ساتھ استقامت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  11. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا فرمان ہے:
    زندہ مرشدکامل سے فیض حاصل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس میں نفس ہوتا ہے اور وہ اپنے نفس سے طالب کے نفس کی تربیت کرتا ہے۔

  12. حضرت ابوعلی جوزجانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
    طالبِ استقامت بن، طالبِ کرامت نہ بن ہرچند کہ تیرا نفس کرامت کا خواہاں ہے لیکن تیرا ربّ تجھ سے استقامت چاہتا ہے۔
    تاآنکہ نفس اس حالت کو مستقل اختیار کر لے:

  13. اصل زندگی وحدت ہے کیونکہ بقا صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو ہے باقی ہر شے فنا کے دہانے پر ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس جب وحدت کی تجلی سے طالبِ مولیٰ کا باطن معمور کرتے ہیں تووہ اللہ کے علاوہ ہر شے سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ اللہ کل ہے ۔جب طالب ہر شے چھوڑ کر اللہ کی طرف لوٹتا ہے تو سب کچھ پا لیتا ہے۔

  14. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی استقامت و کرامت کا حال یہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے ہر لمحہ اللہ کا کام کیا ہے اور اس استقامت سے کیا کہ وہ کرامت میں بدل گئی۔ یہ آپ مدظلہ الاقدس کی کرامت مشہور و معروف ہے کہ جو طالب جب بھی بیعت ہوا، اس طالب کا کہنا ہے اس روز سے میں نے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کو فراغت میں نہیں پایا۔ آپ ہر لمحہ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دنیا بھرمیں عام کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔

  15. آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    تیرے نفس کو تیری مدد کرنی چاہیے۔ (طبرانی 18777)

  16. آپ مدظلہ الاقدس اپنے مرید کی تربیت کی ابتدا ہی شریعت سے فرماتے ہیں یہاں تک کہ انتہاپر پہنچا کر اس کو معرفت کا پیکر بنا دیتے ہیں کہ وہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھتا اور شریعت کالبادہ پہن کر دائمی طور پر محفوظ ہو جاتاہے۔

  17. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی صحبت سے طالب اپنے آپ کو شجرِ موسیٰؑ کی طرح پاتا ہے۔ یوں آپ مدظلہ الاقدس طالبانِ حق کو حوادث سے ابتدا میں لے جاتے ہیں اور مبتدی کو منتہی بنا دیتے ہیں

  18. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا فرمان ہے:
    زندہ مرشدکامل سے فیض حاصل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس میں نفس ہوتا ہے اور وہ اپنے نفس سے طالب کے نفس کی تربیت کرتا ہے۔

  19. آپ مدظلہ الاقدس اپنے مرید کی تربیت کی ابتدا ہی شریعت سے فرماتے ہیں یہاں تک کہ انتہاپر پہنچا کر اس کو معرفت کا پیکر بنا دیتے ہیں کہ وہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھتا اور شریعت کالبادہ پہن کر دائمی طور پر محفوظ ہو جاتاہے۔

  20. آپ مدظلہ الاقدس سراپا نور ہیں جو ظلمت کو مٹادیتا ہے

  21. استقامت سے صحبت حاصل ہوتی ہے، صحبت سے محبت، محبت سے عشق اور عشق کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں معراج کی رات حضرت جبرائیل ؑنے آگے جانے سے بے بسی ظاہر کی کہ میرے پَر جل جائیں گے

  22. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بلند اور عظیم شان کو ادراکِ قلبی سے سمجھنے اور آپ مدظلہ الاقدس کے ساتھ استقامت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  23. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے ساری زندگی اپنے خالق کو راضی کرنے میں بسر کی،اپنی تمام تردولت اللہ کی راہ میں قربان کر دی اور اس آیت کی تفسیر بن گئے:
    ترجمہ: وہ جو خوشحالی اور تنگدستی میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔(سورۃ آل عمران۔134)

  24. بیشک ایسی شان ایک فقیر کامل کی ہی ہو سکتی ہے جو اپنی نگاہ کیمیا سے زنگ آلود دلوں قوت حیات بخش رہے ہیں ۔

  25. ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

  26. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس قدمِ محمدﷺ پر ہیں جو اپنی نگاہ کاملہ سے زنگ آلود قلوب کو نور الہٰی سے منور فرماتے ہیں ❤❤🌷

  27. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس قدمِ محمدﷺ پر ہیں جو اپنی نگاہ کاملہ سے زنگ آلود قلوب کو نور الہٰی سے منور فرماتے ہیں

  28. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بلند اور عظیم شان کو ادراکِ قلبی سے سمجھنے اور آپ مدظلہ الاقدس کے ساتھ استقامت سے چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  29. میرے مرشد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس جو کہ پہلے روزہی طالبانِ حق کو استقامت کا تحفہ عطا فرماتے ہیں۔ لیکن ازلی اندھوں کو یہ فیض برداشت نہیں جیسے کسی مریض کا جسم اگر کوئی خوراک قبول نہ کرے تو قے کر دیتا ہے

  30. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی استقامت و کرامت کا حال یہ ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے ہر لمحہ اللہ کا کام کیا ہے اور اس استقامت سے کیا کہ وہ کرامت میں بدل گئی۔

  31. آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ سے قلوب میں نور کے فوارے پھوٹتے ہیں جو اہلِ یقین کے لیے باعث فرحت اور اسرار کا مرجع ہیں جس کے باعث طالب دنیا کی طرف توجہ کرنا چھوڑ دیتا ہے

  32. میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تعلیمات فقر ہیں جو شریعت کی عین ہیں۔

  33. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا فرمان ہے:
    زندہ مرشدکامل سے فیض حاصل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس میں نفس ہوتا ہے اور وہ اپنے نفس سے طالب کے نفس کی تربیت کرتا ہے۔

  34. اگر کوئی صدقِ دل سے دنیاسے توجہ ہٹا کر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں جائے تو بقدر استطاعت مقربین کے احوال سے مزین ہو جاتا ہے

  35. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس پہلے روزہی طالبانِ حق کو استقامت کا تحفہ عطا فرماتے ہیں۔ آ پ مدظلہ الاقدس عظیم الشان مقام کے مالک ہیں 🌹

  36. میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مقام فقرہے جبکہ گہنا شریعت ہے۔ اُٹھنا بیٹھنا، چلنا، لباس، کھانا پینا، گفتگو نیز ہر شے شریعت کی غمازی کرتی ہے۔ شریعت کو جتنا زیادہ جاننا ہو اتناہی آپ مدظلہ الاقدس کو قریب سے دیکھنا ضروری ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیمات فقر ہیں جو شریعت کی عین ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ظاہر شریعت اور باطن معرفت ہے۔

    آپ مدظلہ الاقدس اپنے مرید کی تربیت کی ابتدا ہی شریعت سے فرماتے ہیں یہاں تک کہ انتہاپر پہنچا کر اس کو معرفت کا پیکر بنا دیتے ہیں کہ وہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باہر ایک قدم بھی نہیں رکھتا اور شریعت کالبادہ پہن کر دائمی طور پر محفوظ ہو جاتاہے۔

    جب آپ مدظلہ الاقدس طالبِ مولیٰ کے باطن پر نگاہ ڈالتے ہیں تو قلوب پر نور مانندِدریا بہنے لگتا ہے جیسے بارش کا پانی وادی میں سے ہر نجاست کو بہا لے جاتا ہے اُسی طرح آپ مدظلہ الاقدس کی نگاہ سے قلوب میں نور کے فوارے پھوٹتے ہیں جو اہلِ یقین کے لیے باعث فرحت اور اسرار کا مرجع ہیں جس کے باعث طالب دنیا کی طرف توجہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے طالب کا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے اور وہ ہدایت کیساتھ زندہ ہو جاتاہے۔ دنیا پر توجہ کرنا دل کی تنگی کا باعث ہے اور دنیا سے بے توجہی کشادگیٔ قلب کا ذریعہ ہے۔ وہی نور جو دل میں پھوٹتا ہے ،نفس کو پاکیزگی کی منازل طے کراتا ہوا مقصود تک لے جاتا ہے۔ یوں نفس کی صفات، اخلاق اورا حوال بدل جاتے ہیں۔ اسی نور سے باطنی آنکھ کھلتی ہے جو نورِ یقین کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتی جو کہ سراسر دیدارِ حق ہے۔ ہر لمحہ اللہ نئے اسرار عیاں کرتا ہے

  37. سروری قادری مشائخ چونکہ قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوتے ہیں اس لیے یہ آیت ان کے حال کے مترادف ہے:
    یٰٓاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ (سورۃ انفال۔24)
    ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

  38. میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مقام فقرہے جبکہ گہنا شریعت ہے۔ اُٹھنا بیٹھنا، چلنا، لباس، کھانا پینا، گفتگو نیز ہر شے شریعت کی غمازی کرتی ہے۔ شریعت کو جتنا زیادہ جاننا ہو اتناہی آپ مدظلہ الاقدس کو قریب سے دیکھنا ضروری ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی تعلیمات فقر ہیں جو شریعت کی عین ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کا ظاہر شریعت اور باطن معرفت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں