Alif-mahnama-sultanulfaqr-magazine

alif | الف


5/5 - (3 votes)

alif |  الف

انفاق فی سبیل اللہ 

’’انفاق‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’خرچ کرنا‘‘۔ عام طور پر خرچ کرنے کو صرف مال خرچ کرنے کے مفہوم میں ہی لیا جاتا ہے جبکہ کسی کام میں اپنی صلاحیتیں، مال، جان، وقت وغیرہ صرف کرنا بھی انفاق کے مفہوم میں آتا ہے۔ انفاق ایک ایسی صفت ہے جس کو اپنانے سے بندے میں ایثار، قربانی اور استغنا کی کیفیات بھی پیدا ہوتی ہیں جو بندے کو اللہ ربّ العزت کے مزید قریب کر دیتی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے میں جب انفاق فی سبیل اللہ کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً لوگ یہ مراد لیتے ہیں کہ یہ مالداروں کے لیے ضروری ہے، غریب افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ حالانکہ اس لفظ میں غریب و امیر سب شامل ہیں اور یہ سوچ غلط ہے کہ ہم مال نہیں رکھتے تو انفاق کیسے کریں۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کا عشق ہی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے ہوتے ہوئے بھی کس طرح اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدار کو نہیں بلکہ اخلاص کو معیار بنایا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:
 جہنم کی آگ سے بچو خواہ ایک کھجور کے آدھے حصے کے ذریعے کیوں نہ ہو۔
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
روزانہ صبح کے وقت دو فرشتے اترتے ہیں، ایک دعا کرتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والوں کو بدل عطا فرما۔ دوسرا دعا کرتا ہے اے اللہ! روک کے رکھنے والوں کا مال برباد کر۔(متفق علیہ)

حضرت اسماء بنتِ ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ (خوب) خرچ کیا کر (اللہ کی راہ میں) اور شمار نہ کر یعنی گنتی نہ کیا کر (اگر ایسا کرے گی) تو اللہ تعالیٰ تجھ پر بھی محفوظ کر کے رکھے گا(یعنی کم عطا کرے گا) خرچ کر جتنا بھی تجھ سے ہوسکے۔ (کنزالعمال)

ایک اورروایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کون ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پیارا ہو؟ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جسے اپنا مال زیادہ پیارا نہ ہو‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’پھر اس کا مال وہ ہے جو اس نے (موت سے) پہلے (اللہ کے راستے میں) خرچ کیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو وہ چھوڑ کر مرا۔‘‘ (صحیح بخاری)

انسان کو اپنی آنے والی نسل کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ان کے لیے جو کچھ ہو سکے کر لے جبکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان کے مطابق انسان کو فائدہ صرف اسی مال سے پہنچتا ہے جو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا اور قرب پانے کے لیے خرچ کرتا ہے۔ جو مال وہ اولاد یا رشتہ داروں کے لیے چھوڑ جاتا ہے اس سے صرف اسی صورت میں فائدہ پہنچے گا اگر اس کے ورثا اسے نیکی اور بھلائی میں خرچ کریں گے اور اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہوئی تو اس کا مال اس کے لیے وبال بن جائے گا۔

 

اپنا تبصرہ بھیجیں