محبت ِ مرشد کیوں ضروری ہے؟ | mohabbat-e-Murshid kiun Zarori hai?


4.5/5 - (165 votes)

محبت ِ مرشد کیوں ضروری ہے؟ (Mohabbat-e-Murshid kiun Zarori hai)

تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری ۔لاہور

محبت عربی زبان کا لفظ ہے اور اظہارِ چاہت کے لیے استعمال ہونے والے الفاظ میں سب سے اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ محبت کا ماخذ ’’حبّ‘‘ ہے جس کے معنی سفیدی، بلندہونا،نمودار ہونا، استقلال، ڈٹے رہنا اور جمے رہنا کے ہیں۔یعنی جس رشتہ یا تعلق سے محبت،چاہ یا اُنس دل میں پختہ ہو جائے اس کے معاملے میں مصائب کے پہاڑ بھی ٹوٹ پڑیں تو پائے استقلال میں لغزش نہ آئے ۔ علاوہ ازیں حبّ کی جمع ’’حباب‘‘ کے معانی بڑا گھڑا یا پانی سے لبالب مٹکا ہے۔ یعنی جس طرح لبالب بھرے ہوئے گھڑے میں مزید پانی نہیں ڈالا جاسکتا اور اگر ڈالنے کی کوشش بھی کی جائے تو نقصان ہوگا اسی طرح جب دل میں محبوب کی محبت بھر جائے تو کسی دوسرے کی یاد داخل نہیں ہو سکتی۔ حضرت شیخ شبلیؒ فرماتے ہیں:
محبت کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ دل میں محبوب کے علاوہ ہر چیز کو مٹا دیتی ہے۔ (کشف المحجوب)
شیخ ابو القاسم قشیریؒ فرماتے ہیں :
محبت یہ ہے کہ محب اپنی صفات سمیت فنا ہوجائے اور محبوب کی ذات باقی رہ جائے۔ (کشف المحجوب)
حضرت ابراہیم خواصؒ سے سوال کیا گیا کہ محبت کیا چیز ہے؟ فرمایا ’’اپنی تمام خواہشات اور ارادوں کو مٹادینا،تمام حاجات و صفات کو جلا دینا اور اپنے آپ کو احکامِ الٰہی کی اطاعت کے سمندر میں ڈبو دینا۔‘‘ (مکاشفتہ القلوب)

محبت کی تعریف و معانی جاننے کے بعد یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ محبت کا اصل حقدار کون ہے؟ خالص محبت کس کے لیے ہونی چاہیے؟ کیا انسان کے لیے مال و دولت اورزندگی کی آسائشیں اصل محبت کی حقدارہیں؟ 

یاد رکھیں! انسان کی محبت کی اصل حقدار صرف اللہ پاک کی ذات ہے جوصاحبِ عزت و عظمت، جلال و شانِ کبریاہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر کی محبت کا دم بھرے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان اللہ کی پہچان کے معاملے میں جہالت میں ڈوبا ہوا ہے۔امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
مومنوں کی اللہ تعالیٰ سے محبت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں۔(مکاشفتہ القلوب)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت شدید ہے۔ (سورۃ البقرہ۔ 165)
شدید محبت کا مطلب ہی یہی ہے کہ اللہ پاک سے محبت کے معاملے میں انسان اپنے نفس،روح اور مال و دولت کی محبتوں کو مکمل طور پر قربان کر دے۔ جب خود کو قربان کرے گا تو ہی رازِ معرفت پائے گا۔  میرے ہادی،شانِ فقر، امام الوقت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
میں کو مٹا کر مَن نظر آتا ہے، منَ کو جھکا کر ربّ نظر آتا ہے۔ (سلطان العاشقین) 

 محبتِ الٰہی کا حصول کیسے ممکن ہے؟

دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے بعد ہر ایک پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت فرض ہے اور یہی محبت، محبتِ الٰہی کا ذریعہ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اے حبیب ؐ!) آپ فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، تب اللہ تمہیں اپنا محبوب بنا لے گا۔ (سورۃ آلِ عمران۔ 31 )
جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا۔ (سورۃ النساء ۔80)
 یہ نبیؐ مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔ (سورۃ الاحزاب۔6 )
حدیثِ نبویؐ ہے:
تم میں سے کوئی شخص (اُس وقت تک ) مومن نہیں ہو سکتا جب تک مَیں اس کے لیے اس کی اولاد،اس کے والدین اور تمام انسانوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔ (صحیح مسلم۔44)
حفیظ جالندھری اس بارے میں لکھتے ہیں:

محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ فرماتے ہیں:
سچے عاشق کا دل اللہ تعالیٰ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی محبت سے سرشار ہوتا ہے۔ (تصوف اور قرآن) 

بعد از تبع تابعین محبت و اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم میں فقرا کاملین(مرشدانِ کاملین)ہی وہ واحد جماعت ہے جو کامیاب ہوئی۔ حدیثِ نبویؐ ہے:
اس اُمت کے سب سے بہترین لوگ فقرا کاملین ہیں۔ (مکاشفتہ القلوب)

حضرت شہاب الدین ابو حفصؒ فرماتے ہیں:
فقرا کاملین نے کثرتِ عبادت، تہجد و دیگر نوافل، نماز، روزہ میں آپؐ کی کامل اتباع کی،آپؐ کے اقوال و افعال میں اتباع کی اوربرکت میں آپؐ کے اخلاق سے بھی بہرہ ور ہوگئے۔ ان میں حیا، حلم، عفوو درگزر، شفقت و محبت ، نرمی و خیر خواہی اور تواضع جیسے خصائل پیدا ہوئے نیزآپؐ کے احوال و کیفیات کا کثیر حصہ فقرا کاملین کو عطا ہوا۔ ان میں خوفِ الٰہی، سکینہ(سکونِ کلی) ،تعظیم و تسلیم و رضا،صبر و زہد و توکل جیسے انعام شامل ہیں۔ اس طرح سے انہوں نے اتباعِ رسولؐ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیااور آپؐ کی سنتّ کو زندہ کرکے اسے درجۂ کمال تک پہنچا دیا۔ (عوارف المعارف)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 اے ایمان والو! پیروی کرو اللہ کی اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اور اس کی جو تم میں اولی الامر ہو۔ (سورۃ النساء ۔ 59 )

میرے مہربان مرشد کامل اکمل آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
’’اولی الامر‘‘ سے مرادبعض لوگ دنیاوی حکمران لیتے ہیں لیکن اولیا کاملین کے نزدیک اس سے مراد وہ صدیق بندہ ہے جو نائبِ رسولؐ کے مرتبہ پر فائز ہو کیونکہ صرف اسی کی پیروی حقیقتاًاللہ اور رسول ؐ کی پیروی ہوگی نہ کہ دنیاوی حکمرانوں کی۔ یعنی اس مرشد کامل اکمل کی اتباع اور پیروی کی طرف بار بار توجہ دلائی گئی ہے جو قدمِ محمدؐ پر ہو۔ (شمس الفقرا)

حدیث نبویؐ ہے:
جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس کی گردن میں امامِ وقت (مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ) کی بیعت نہیں وہ جہالت کی موت مرا۔ (مسلم۔4793)

امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
جو نبی کریمؐ سے محبت کا دعویٰ کرے مگر فقرا(مرشد کامل اکمل) سے محبت نہ رکھے وہ کذاب ہے۔ (مکاشفۃ القلوب)

مرشد کامل اکمل کا وجودقلبی حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے۔ جس مردہ قلب پر ان کی نگاہِ فیض پڑ جاتی ہے وہ زندہ ہو جاتا ہے۔وہ مردہ دل جو صحبتِ اولیا سے فیض یاب ہو کر زندہ جاتے ہیں ان کے قلوب اور ارواح حیاتِ نو سے مستفید ہو جاتی ہیں۔ اس کی تصدیق قرآنِ مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت خضرؑ کی ملاقات کے حوالے سے ہوتی ہے۔جب ایک مقام ’’مجمع البحرین‘‘ پر جو حضرت خضر ؑ کی قیام گاہ تھی،حضرت موسیٰؑ کے ناشتہ دان میں سے مچھلی زندہ ہوکر پانی میں کود جاتی ہے۔ یہ واقعہ اس امر کا مظہر ہے کہ وہ مقام جو حضرت خضرؑکا مسکن تھا، اُس کی آب و ہوا میں یہ تاثیر تھی کہ مرُدہ اجسام کو اس سے حیاتِ نو ملتی تھی۔ (شانِ اولیا)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنی تصنیفِ مبارکہ’ ’کلید التوحیدکلاں‘‘ میں فرماتے ہیں : 

ہر کرا مرشد نہ با خود نما
مرد مرشد میبرد وحدت خدا

ترجمہ:جس کا مرشد نہیں وہ خود نمائی میں مبتلا ہو جاتاہے جبکہ مرد مرشدوحدتِ حق تک لے جاتا ہے۔

 مرشد کامل اکمل سے محبت کیونکر ضروری ہے؟

جس طرح اتباعِ اللہ اور اتباعِ رسول کریمؐ کے حصول کے لیے امام الوقت مرشد کامل اکمل کی صحبت و اتباع لازم ہے اسی طرح اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کا ذریعہ صرف اور صرف مرشد کامل اکمل کی اطاعت و محبت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کی صحبت میں جمائے رکھیں جو صبح و شام اپنے محبوبِ حقیقی یعنی اپنے ربّ کو پکارتے ہیں اور اُس کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی(محبت و توجہ)کی نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔(سورۃ الکہف۔28)

نبی پاکؐ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ کے فرمان یٰٓاَیُّھَاالّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ (اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو) کی تفسیر میں فرمایاکہ اللہ کے قرب کے لیے وسیلہ فقرا کی محبت ہے۔ (محکم الفقرا)

حدیثِ قدسی ہے :
مومن کا قلب اللہ تعالیٰ کا عرش ہے۔
مرشد کا دل اللہ کی محبت سے سرشار فیضِ الٰہی کی تجلیات کا منبع ہوتا ہے جس سے صرف اہلِ محبت ہی سیراب ہوتے ہیں۔ اس لیے محبتِ مرشد کے بغیر دیگر عبادات تو دور کی بات ذکرِ الٰہی اور ذکر ِ قرآن کا بھی قلب پر اثر نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ کثرت سے تلاوتِ قرآن،نماز،روزہ،وردوظائف اور دیگرعبادات کے باوجود معرفتِ الٰہی سے محروم رہتے ہیں۔ اس لیے معرفتِ حق تعالیٰ کے لیے مرشدکامل اکمل کی اطاعت وخدمت کرنا بارگاہِ الٰہی میں پسندیدہ عمل ہے۔ 

مرید کا مرشد سے شدید محبت کرنا سنتِ صدیق اکبرؓ ہے۔ حضورکریمؐ نے فرمایا’’ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہٗ) کی فضیلت نماز، تلاوت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دل میں قرار پانے والی ایک اعلیٰ چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔‘‘

حضور نبی کریمؐ کا فرمانِ مبارک ہے:
 ہر شے کی ایک چابی ہے اور جنت کی چابی فقرا اور مساکین کی محبت ہے۔ (محکم الفقرا)

حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:
پیرِ کامل کا دل اللہ کی محبت سے سرشار ہوتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے فیض حاصل کرتا ہے اور مخلوقِ خدااس سے فیض حاصل کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُس کو اپنی دوستی اوردوسروں کو فیض پہنچانے کے لیے مخصوص کرلیتا ہے۔  

بقول حضرت مولانا رومؒ:

پیرِ کامل صورتِ ظل الٰہ
یعنی دیدِ پیر دیدِ کبریا

صادق طالبِ مولیٰ کی پہچان بھی یہی ہے کہ وہ اپنے مرشد کے ہر حکم پر رضائے مرشد کے لیے نہایت خلوص و محبت سے عمل کرے کیونکہ مرشد کامل اکمل کی محبت نہ صرف باعثِ برکت اور وسیلۂ قربِ الٰہی ہے بلکہ یہ نفس، شیطان اور دنیا کی دسترس سے بھی محفوظ رکھ کر قلبی و روحانی سکون عطا کرتی ہے۔

 حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ فرماتے ہیں:
مرید کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور رسولِ کریمؐ کی رسالت پر اُس کا ایمان صحیح ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیر سے محبت رکھے تاکہ پیر کی اچھی اچھی اور ایمان افروز باتوں کا اُس کے دل پر اثر ہو۔ (تصوف اور قرآن)

مرشد کامل اکمل کی محبت مرید صادق کے دل میں اللہ اور رسول کریمؐ کی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ مولانا رومؒ اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم تھے لیکن اللہ اور اس کے رسولؐ سے عشق و محبت جیسی نعمت سے ناآشنا تھے۔جب اُن کی ملاقات حضرت شاہ شمس تبریزؒ سے ہوئی تو انہیں یہ عظیم نعمت حاصل ہوئی اور پھر انہوں نے کہا: 

بشکلِ شیخِ دیدم مصطفیؐ را
ندیدم مصطفیؐ را بل خدا را

مفہوم: میں نے اپنے شیخ کی شکل میں مصطفیؐ کا دیدار کیا۔ نہ صرف مصطفیؐ کا دیدار کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا بھی دیدار کیا۔ 

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول کریم ؐسے دریافت کیا گیا’’ ایک شخص کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے (جو نیک ہیں) لیکن اعمال میں اُن کی برابری نہیں کرتا۔‘‘تو آپؐ نے فرمایا ’’قیامت کے دن انسان انہی کے ساتھ ہوگا جن سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

طالبِ صادق کی محبتِ مرشد یہ ہے کہ وہ اپنے تمام تراحوال و معاملات میں خود کو مکمل طور پر اپنے مرشدکے حوالے کردے اوراس کے پاس اپنا کوئی اختیار نہ رہے۔ محبتِ مرشد کے متعلق حضرت بایزیدؒ فرماتے ہیں:
 محبت (مرشد) یہ ہے کہ اپنی ذات کے زیادہ کو تم تھوڑا سمجھو اور محبوب کے تھوڑے کو تم زیادہ سمجھو۔ (کشف المحجوب)

امام غزالیؒ ایک صادق مرید کا محبتِ مرشد کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں: ایک صادق مرید اپنے مرشد کی زیارت کے لیے جا رہا تھا۔بحکمِ  الٰہی اس کا سامنا ایک فرشتے سے ہوا۔فرشتے نے مرید سے پوچھا کہ وہ کہاں جارہا ہے؟مرید بولا’ ’اپنے مرشد کی زیارت کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ فرشتہ بولا ’’تم کس مقصد کے لیے جا رہے ہو؟‘‘ اس پر مریدِ صادق نے جواب دیا’ ’مرشد کے علاوہ میری کوئی غرض نہیں۔‘‘ پھر فرشتہ بولا ’’کیا وہ تمہارا رشتہ دار ہے؟‘‘ جواب دیا’ ’میرا ان سے کوئی خونی رشتہ تو نہیں صرف اللہ تعالیٰ کی معرفت و خوشنودی کے لیے محبت و الفت ہے۔‘‘ اس پر فرشتہ نے کہا’’ سنیٔے! اللہ تعالیٰ نے مجھے تیری طرف صرف اس لیے بھیجا ہے کہ مَیں تجھے خوشخبری سنا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے جب سے تو نے میرے دوست سے دوستی کی ہے(یعنی اللہ کے ولی مرشد کامل اکمل سے معرفتِ الٰہی کے لیے محبت و الفت کا رشتہ قائم کیا ہے)میں نے بھی تجھے اپنا دوست بنا لیا ہے اور ہم نے اپنے آپ پر واجب کر لیا ہے کہ تجھے جنت میں بھیج دیا جائے۔‘‘ (کیمیاے سعادت)

یاد رکھیں! طالبانِ مولیٰ کی جنت قرب و دیدارِ الٰہی ہی ہے جو کہ محض محبتِ مرشد کے حصول سے ممکن ہے۔ محبتِ مرشد میں اتباعِ مرشد ہی اصل بندگی ہے اور ایمان کی حفاظت و تکمیل کا باعث ہے۔ مرید اُس وقت تک کمالِ بندگی کو نہیں پہنچ سکتاجب تک وہ اپنے ظاہروباطن کومحبتِ مرشد سے سنوار نہ لے کیونکہ محبتِ مرشد ہی مرید کو محبتِ رسولؐ سے نوازتی ہے اور محبتِ رسولؐ محبتِ الٰہی عطا کرتی ہے۔مرشد کامل اکمل اخلاقِ الٰہیہ سے متصف ہوتا ہے۔مولانا رومؒ فرماتے ہیں: 

گفتۂ اُو گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

یعنی اُس (مرشد کامل اکمل ) کا کہنا ایسے ہی ہے جیسے اللہ کا کہنااگرچہ الفاظ اللہ کے بندے کی زبان سے ادا ہوئے ہیں۔ ( قرآن اورتصوف )

 محبتِ مرشد کا حصول کیسے ممکن ہے؟

طالبِ مولیٰ کو یہ جاننا ضروری ہے محبتِ مرشد کے حصول کا پہلا اصول ادبِ مرشد ہے۔مقولہ مشہور ہے’’باادب بانصیب،بے ادب بے نصیب۔‘‘ مرید کے دل میں مرشد اور مرشد کے اہلِ خانہ کا جتنا ادب ہو گا اتنا ہی محبتِ مرشد سے نوازا جائے گا۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں : 

تسبی پھری تے دِل نہ پھریا، کی لیناں تسبی پھڑ کے ھوُ
علم پڑھیاتے ادب نہ سکھیا، کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھوُ

یاد رکھیں! جہاں محبت ہو گی وہاں ادب ضرور ہوگا۔ حقیقی ادب یہ ہے کہ محبوب کی بارگاہ میں اپنی ذات تک کی نفی کر دی جائے یعنی محبوب کے سوا دِل میں کوئی دوسرا نہ ہو۔ محبوب کی رائے کا احترام کیا جائے ، اپنا آرام و آسائش محبوب کے آرام و آسائش کے لیے قربان کر دیا جائے اور ان سب کے بعد بھی نظر صرف محبت پر ہی رہے۔صحابہ کرامؓ کی پاکیزہ زندگیاں ادبِ مرشد سے بھرپور تھیں جوکہ طالبانِ مولیٰ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اس لیے طالبِ مولیٰ کو بھی صحابہ کرامؓ کی پیروی کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نائب مرشد کامل اکمل کی محبت میں ادب کا کوئی پہلو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
جب تک مرید کے دل میں مرشد کی تعظیم کا غلبہ نہ ہو اُس وقت تک محبتِ الٰہیہ بھی قلب میں جگہ نہیں پکڑتی ۔ جبکہ کمالِ محبت ہی کمالِ سعادت کا وسیلہ ہے۔ (کیمیائے سعادت)

پس ادبِ مرشد کے بغیرمریدنہ تو صحبت و مجلسِ مرشد سے مستفید ہو سکتا ہے اور نہ ہی قربِ الٰہی کا گوہرِ مقصود حاصل کر سکتا ہے۔ خلوصِ نیت سے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے ساتھ ساتھ ادبِ مرشد کو قائم رکھنا بھی محبتِ مرشد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ علاوہ ازیں محبتِ مرشد کے حصول کے لیے جانی و مالی مجاہدات کرنا بھی طالبِ صادق کے لیے بے حدضروری ہے کیونکہ مجاہدہ ہی مشاہدے کا راستہ کھولتا ہے۔ مرید جس قدر خلوصِ نیت ، یقینِ کامل اور وفاداری کا معاملہ مرشد کے عطا کردہ کاموں میں دکھائے گا اتنا ہی محبت و قربِ الٰہی میں ترقی کرتا جائے گا۔ احادیثِ نبویؐ ہیں :
فقرا کی خدمت کیا کرو بے شک ان کے پاس اللہ پاک کے خزانے ہیں۔
(اپنے مال و دولت سے) فقرا کی خدمت کیا کرواس سے پہلے کہ تمہاری دولت فنا ہو جائے۔ 

’’الرسالۃ الغوثیہ ‘‘میں اللہ تعالیٰ سیدّنا غوث الاعظمؓ سے الہامی گفتگو میں فرماتا ہے :
اے غوث الاعظمؓ! مجاہدہ مشاہدہ کے سمندروں میں سے ایک سمندر ہے جس میں واقف زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو کوئی مشاہدہ کے سمندر میں داخل ہونے کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیے کہ مجاہدہ اختیار کرے کیونکہ مجاہدہ مشاہدہ کا مغز ہے۔ اے غوث الاعظمؓ! جس نے میرے لیے مجاہدہ اختیار کیا پس اس کے لیے میرا مشاہدہ ہے خواہ وہ اسے چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو۔ اے غوث الاعظمؓ!جو میرے مجاہدہ سے محروم ہے اس کے لیے میرے مشاہدہ کی طرف کوئی راہ نہیں۔ اے غوث الاعظم! طالبوں کے لیے مجاہدہ ایسے ضروری ہے جیسے اُن کے لیے میں۔ (الرسالۃ الغوثیہ)

حضرت فرید الدین گنج شکرؒ فرماتے ہیں :
جو مریدسات روز تک محبت و خلوصِ نیت سے مرشد کامل اکمل کی خدمت کرتا ہے حق سبحانہٗ تعالیٰ سات سو برس کی عبادت کا ثواب اُس کے نامۂ اعمال میں لکھتے ہیں اور اس راہ میں وہ جو قدم بھی اُٹھاتا ہے اسے حج اور عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ (مرشد کامل کی ضرورت کیوں؟)

امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
مرشد کامل اکمل کی خدمت کرنا نفلی عبادت سے فضیلت میں بڑھ کر ہے کیونکہ یہ خدمت کی خدمت اور عبادت کی عبادت ہے۔ (کیمیائے سعادت)

محبت کا بلند ترین درجہ و مقام عشق ہے۔ جب صادق مرید کے قلب میں محبتِ مرشد اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو محبت کی یہ شدت عشق کا شعلہ بھڑکا دیتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
عشق ایک ایسا لطیفہ ہے جو غیب سے دل میں پیدا ہوتا ہے اور معشوق کے (دیدار) کے سوا کسی چیز سے قرار نہیں پکڑتا۔  

 ’’الرسالۃ الغوثیہ ‘‘میں سیدّنا غوث الاعظمؓ فرماتے ہیں:
میں نے اپنے ربّ کو دیکھا پس میں نے سوال کیا’’اے ربّ عشق کے کیا معنی ہیں؟‘‘ فرمایا’’ اے غوث الاعظمؓ! عشق میرے لیے کر، عشق مجھ سے کر اور میں خود عشق ہوں۔ اور اپنے قلب اور اپنی حرکات کو میرے غیر سے فارغ کر دے۔ ‘‘ (الرسالۃ الغوثیہ)

میرے ہادی شانِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا فرمانِ عالی شان ہے:
کائنات کی ابتدا عشق ہے اور انسان کی تخلیق عشق کے لیے ہے۔ حضور اکرمؐ کے نورِ مبارک سے جب ارواح کو پیدا کیا گیا تو عشقِ الٰہی کا جوہرِ خاص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے ارواحِ انسانی کے حصہ میں آیا۔ لقائے حق تعالیٰ کے لیے طالب کے دِل میں جذبۂ عشق پیدا ہونا لازم ہے۔ دراصل روح اور اللہ کا رشتہ ہی عشق کا ہے ۔ بغیر عشق نہ تو روح بیدار ہوتی ہے اور نہ ہی لقائے الٰہی پا سکتی ہے۔ عشق ایک بیج کی صورت انسان کے اندر موجود ہے مگر سویا ہوا ہے۔ جیسے جیسے ذکر و تصور اسم اللہ ذات ، مشق مرقومِ وجودیہ اور مرشد کی توجہ سے یہ روح کے اندر بیدار ہونا شروع ہوتا ہے ویسے ویسے روح کی اللہ کے لیے تڑپ اور کشش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں: 

جنہاں عشق خرید نہ کیتا عیویں آبھگتے
عشقے باجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتے

مفہوم: جنہوں نے اس دنیا میں عشق کا سودا نہ کیا اُن کی زندگی فضول اور بے کار گزری اور عشق کے بغیر آدم اور کتے میں کوئی فرق نہیں ہے۔  

عشقِ حقیقی عشقِ مجازی سے ہی ممکن ہے کیونکہ عشقِ مجازی ہی عشقِ حقیقی کا آغاز ہے ۔ فقر وتصوف میں عشقِ مجازی سے مرادعشقِ مرشد ہے۔ کیونکہ مرشد کامل اکمل ہی وہ ہستی ہے جووجود کی زمین کو خواہشاتِ دنیا و نفس کی آلائشوں سے پاک و صاف کر کے محبتِ الٰہی کے بیج کو پروان چڑھاتی ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:

الف اللہ چنبے دی بوٹی ، میرے من وچ مرشد لائی ھوُ

فقر و تصوف میں عشقِ مرشد (عشقِ مجازی) کی انتہا سے ہی عشقِ حقیقی ملتا ہے کیونکہ عشقِ مجازی ہی فنا فی الرسولؐ اور فنا فی اللہ کی منازل طے کرواتا ہے۔

 ایک مرتبہ سیدّنا ابوبکر صدیقؓ سے پوچھا گیاآپؓ کو دنیا میں کیا پسند ہے؟ تو آپؓ نے بے ساختہ فرمایا’ ’بس حضورؐ کے چہرہ مبارک کو دیکھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘

مکتبِ عشق سے واصف نے یہ پائی تعلیم
عین ایمان ہے رُخِ یار پہ قربان ہونا

حاصلِ کلام یہ کہ تزکیۂ نفس ، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح کے لیے محبتِ مرشد بالکل اسی طرح ضروری ہے جیسے انسان کو زندہ رہنے کے لیے مادی اشیاء کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ محبتِ مرشد ہی قلب میں پوشیدہ تمام خس و خاشاک کو جڑ سے اُکھاڑ دیتی ہے اور طالب کے دل کو محبتِ الٰہی ، دیدارِالٰہی اور معرفتِ الٰہی کے لیے پاک صاف کر دیتی ہے۔ یہ بات ضرور یاد رکھیں! چاہے کوئی ساری عمر عبادت میں گزار دے، ہزارہاکتب کا مطالعہ کرلے ،قرآن و فقہ کے مسائل سیکھ لے پھر بھی وہ صحبت و محبتِ مرشد کے بغیر ہرگز معرفتِ الٰہی کی خوشبو تک نہیں پاسکتا۔ 

اللہ پاک کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے محبوبین کے وسیلہ سے امام الوقت مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ شانِ ھوُ، نورِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ اقدس کی شدید محبت سے بہرہ ور فرما کر اپنا قرب و دیدار عطا فرمائے ۔ آمین

  استفادہ کتب:
الرسالۃ الغوثیہ:  تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظمؓ
کیمیاے سعادت: تصنیف امام غزالیؒ
کشف المحجوب:  تصنیف حضرت داتا علی ہجویریؒ
ابیاتِ باھوؒ کامل:  تحقیق،ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
 قرآن اور تصوف:  تصنیف ڈاکٹر میر ولی الدین

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :    Mahnama Sultan-ul-Faqr Lahore | Murshid Ki Mohabbat | Topic In Urdu/Hindi | Sultan-ul-Ashiqeen

 

42 تبصرے “محبت ِ مرشد کیوں ضروری ہے؟ | mohabbat-e-Murshid kiun Zarori hai?

  1. مکتبِ عشق سے واصف نے یہ پائی تعلیم
    عین ایمان ہے رُخِ یار پہ قربان ہونا

  2. اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کا ذریعہ صرف اور صرف مرشد کامل اکمل کی اطاعت و محبت ہے۔

  3. مکتبِ عشق سے واصف نے یہ پائی تعلیم
    عین ایمان ہے رُخِ یار پہ قربان ہونا

  4. صحابہ کرامؓ کی پاکیزہ زندگیاں ادبِ مرشد سے بھرپور تھیں جوکہ طالبانِ مولیٰ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اس لیے طالبِ مولیٰ کو بھی صحابہ کرامؓ کی پیروی کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولؐ کے نائب مرشد کامل اکمل کی محبت میں ادب کا کوئی پہلو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
    جب تک مرید کے دل میں مرشد کی تعظیم کا غلبہ نہ ہو اُس وقت تک محبتِ الٰہیہ بھی قلب میں جگہ نہیں پکڑتی ۔ جبکہ کمالِ محبت ہی کمالِ سعادت کا وسیلہ ہے۔ (کیمیائے سعادت)

  5. حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ فرماتے ہیں:
    سچے عاشق کا دل اللہ تعالیٰ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی محبت سے سرشار ہوتا ہے۔ (تصوف اور قرآن)

  6. مرید کا مرشد سے شدید محبت کرنا سنتِ صدیق اکبرؓ ہے۔ حضورکریمؐ نے فرمایا’’ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہٗ) کی فضیلت نماز، تلاوت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دل میں قرار پانے والی ایک اعلیٰ چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔‘‘

  7. میں کو مٹا کر مَن نظر آتا ہے، منَ کو جھکا کر ربّ نظر آتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

  8. بے شک مرشد کامل اکمل کی محبت ہی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے

  9. ایک مرتبہ سیدّنا ابوبکر صدیقؓ سے پوچھا گیاآپؓ کو دنیا میں کیا پسند ہے؟ تو آپؓ نے بے ساختہ فرمایا’ ’بس حضورؐ کے چہرہ مبارک کو دیکھنا مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔‘‘

  10. شیخ ابو القاسم قشیریؒ فرماتے ہیں :
    محبت یہ ہے کہ محب اپنی صفات سمیت فنا ہوجائے اور محبوب کی ذات باقی رہ جائے۔ (کشف المحجوب)

  11. صادق طالبِ مولیٰ کی پہچان بھی یہی ہے کہ وہ اپنے مرشد کے ہر حکم پر رضائے مرشد کے لیے نہایت خلوص و محبت سے عمل کرے

  12. مرشد کامل اکمل کا وجودقلبی حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے۔

  13. امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
    جو نبی کریمؐ سے محبت کا دعویٰ کرے مگر فقرا(مرشد کامل اکمل) سے محبت نہ رکھے وہ کذاب ہے۔ (مکاشفۃ القلوب)

  14. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے مرشد پاک سے سچی محبت کی توفیق عطا فرمائے

  15. محبت یہ ہے کہ محب اپنی صفات سمیت فنا ہوجائے اور محبوب کی ذات باقی رہ جائے۔

  16. طالبِ صادق کی محبتِ مرشد یہ ہے کہ وہ اپنے تمام تراحوال و معاملات میں خود کو مکمل طور پر اپنے مرشدکے حوالے کردے اوراس کے پاس اپنا کوئی اختیار نہ رہے۔

  17. امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
    مرشد کامل اکمل کی خدمت کرنا نفلی عبادت سے فضیلت میں بڑھ کر ہے کیونکہ یہ خدمت کی خدمت اور عبادت کی عبادت ہے۔ (کیمیائے سعادت)

  18. اللہ پاک کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے محبوبین کے وسیلہ سے امام الوقت مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ شانِ ھوُ، نورِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ اقدس کی شدید محبت سے بہرہ ور فرما کر اپنا قرب و دیدار عطا فرمائے ۔ آمین

  19. محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے
    اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

  20. اللہ پاک کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے محبوبین کے وسیلہ سے امام الوقت مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ شانِ ھوُ، نورِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ اقدس کی شدید محبت سے بہرہ ور فرما کر اپنا قرب و دیدار عطا فرمائے ۔ آمین

  21. یاد رکھیں! انسان کی محبت کی اصل حقدار صرف اللہ پاک کی ذات ہے

  22. پس ادبِ مرشد کے بغیرمریدنہ تو صحبت و مجلسِ مرشد سے مستفید ہو سکتا ہے اور نہ ہی قربِ الٰہی کا گوہرِ مقصود حاصل کر سکتا ہے۔

  23. محبتِ مرشد ہی قلب میں پوشیدہ تمام خس و خاشاک کو جڑ سے اُکھاڑ دیتی ہے اور طالب کے دل کو محبتِ الٰہی ، دیدارِالٰہی اور معرفتِ الٰہی کے لیے پاک صاف کر دیتی ہے

  24. عشق مرشد کی حقیقت کو نہایت احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے

  25. اللہ پاک کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے محبوبین کے وسیلہ سے امام الوقت مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ شانِ ھوُ، نورِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ اقدس کی شدید محبت سے بہرہ ور فرما کر اپنا قرب و دیدار عطا فرمائے ۔ آمین

  26. محبت کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ دل میں محبوب کے علاوہ ہر چیز کو مٹا دیتی ہے۔ (کشف المحجوب)

  27. محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے
    اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

  28. حضور نبی کریمؐ کا فرمانِ مبارک ہے:
    ہر شے کی ایک چابی ہے اور جنت کی چابی فقرا اور مساکین کی محبت ہے۔ (محکم الفقرا)

  29. اللہ پاک کی بارگاہ میں التجا ہے کہ وہ ہمیں اپنے پیارے محبوبین کے وسیلہ سے امام الوقت مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ شانِ ھوُ، نورِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذاتِ اقدس کی شدید محبت سے بہرہ ور فرما کر اپنا قرب و دیدار عطا فرمائے ۔ آمین

  30. مرشد کامل اکمل کا وجودقلبی حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے۔ جس مردہ قلب پر ان کی نگاہِ فیض پڑ جاتی ہے وہ زندہ ہو جاتا ہے۔

  31. حضرت شیخ شبلیؒ فرماتے ہیں:
    محبت کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ دل میں محبوب کے علاوہ ہر چیز کو مٹا دیتی ہے۔ (کشف المحجوب)

  32. مرید کا مرشد سے شدید محبت کرنا سنتِ صدیق اکبرؓ ہے۔ حضورکریمؐ نے فرمایا’’ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہٗ) کی فضیلت نماز، تلاوت اور روزوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے دل میں قرار پانے والی ایک اعلیٰ چیز کی وجہ سے ہے جو کہ میری محبت ہے۔‘‘

  33. میرے ہادی شانِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا فرمانِ عالی شان ہے:
    کائنات کی ابتدا عشق ہے اور انسان کی تخلیق عشق کے لیے ہے۔ حضور اکرمؐ کے نورِ مبارک سے جب ارواح کو پیدا کیا گیا تو عشقِ الٰہی کا جوہرِ خاص حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت سے ارواحِ انسانی کے حصہ میں آیا۔ لقائے حق تعالیٰ کے لیے طالب کے دِل میں جذبۂ عشق پیدا ہونا لازم ہے۔ دراصل روح اور اللہ کا رشتہ ہی عشق کا ہے ۔ بغیر عشق نہ تو روح بیدار ہوتی ہے اور نہ ہی لقائے الٰہی پا سکتی ہے۔ عشق ایک بیج کی صورت انسان کے اندر موجود ہے مگر سویا ہوا ہے۔ جیسے جیسے ذکر و تصور اسم اللہ ذات ، مشق مرقومِ وجودیہ اور مرشد کی توجہ سے یہ روح کے اندر بیدار ہونا شروع ہوتا ہے ویسے ویسے روح کی اللہ کے لیے تڑپ اور کشش میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

  34. محبت کو یہ نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ وہ دل میں محبوب کے علاوہ ہر چیز کو مٹا دیتی ہے۔ (کشف المحجوب)

  35. اللہ پاک سے دعا ہے کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا مبارک سایہ ہمیشہ ہم پر سلامت رکھے، ہمیں اپنے مرشد پاک کی بے لوث خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو استقامت کے ساتھ راہِ فقر پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

  36. یاد رکھیں! انسان کی محبت کی اصل حقدار صرف اللہ پاک کی ذات ہے جوصاحبِ عزت و عظمت، جلال و شانِ کبریاہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر کی محبت کا دم بھرے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان اللہ کی پہچان کے معاملے میں جہالت میں ڈوبا ہوا ہے۔امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
    مومنوں کی اللہ تعالیٰ سے محبت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں۔(مکاشفتہ القلوب)

  37. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    اے ایمان والو! پیروی کرو اللہ کی اور اللہ کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اور اس کی جو تم میں اولی الامر ہو۔ (سورۃ النساء ۔ 59 )

  38. محبت یہ ہے کہ محب اپنی صفات سمیت فنا ہوجائے اور محبوب کی ذات باقی رہ جائے۔ (کشف المحجوب)

اپنا تبصرہ بھیجیں