امانت ِ الٰہیہ کا حامل Amanat e ilahiya ka Hamil


4.5/5 - (200 votes)

امانت ِ الٰہیہ کا حامل (Amanat-e-ilahiya ka Hamil)

تحریر:  محترمہ مقدس یونس سروری قادری۔ رائیونڈ

اس کائنات میں موجود ہر شے خواہ جاندار ہو یا بے جان ،ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس کائنات میں موجود زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، سیارے،حیوان الغرض ہر ایک چیز اپنے فرائض سر انجام دے رہی ہے۔ اسی طرح انسان کو فقر کی امانت اور اللہ کی نیابت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّاعَرَضْنَا الْاََمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَاوَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَاالْاِنسَانُ ط  اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَہُوْلاً (سورۃ احزاب۔72)
ترجمہ: ہم نے بارِ امانت کو آسمانوں،زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا۔ سب نے اس کے اٹھانے سے عاجزی ظاہر کی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ (اپنے نفس کے لیے) ظالم اور (اپنی قدروشان سے) نادان ہے۔

فقرا کاملین کے نزدیک اس امانت سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حقیقی وراثت اسمِ اللہ ذات یعنی امانتِ فقر(امانت الٰہیہ) ہے۔
جس کے متعلق نبی اکرم ؐنے فرمایا: 
اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ
 ترجمہ: جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہی اللہ ہے۔

 فقر آپؐ کا فخر اور ورثہ ہے جیسا کہ آپؐ نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَافْتَخِرُّ عَلٰی سَآئِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ 
 ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔

 سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
 فقر عین ذات ہے۔(عین الفقر)
یعنی فقر ہی ذات و صفاتِ الٰہیہ کا اظہار ہے لہٰذا امانتِ الٰہیہ در حقیقت امانتِ فقر ہی ہے۔

امانتِ الٰہیہ کا حامل

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اس امانت(امانتِ الٰہیہ) کے مختار ِکل  ہیں اور اس کو اپنے حقیقی و روحانی ورثامیں منتقل کرنے والے بھی ہیں۔یہ ممکن نہیں کہ آپؐ کی بشری حیات کے بعد اس دنیا میں ایسی کوئی ہستی ہی موجود نہ رہے جو امانتِ الٰہیہ کو سنبھالنے والی اور اللہ پاک کی ذات و صفات کے اظہار کا ذریعہ بنے کیونکہ اس کائنات کا مقصدہی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا اظہارہے( اس کے کامل محبوبین کے ذریعے)۔ اس امانت کے وارث وہ فقرا کاملین ہیں جو آپؐ کی باطنی راہ’فقر‘کی منازل طے کرتے ہوئے اس کے آخری مقام فنافی اللہ بقاباللہ(فنافی ھوُ) پر پہنچتے ہیں۔

جب طالب یا سالک فقر کی انتہا بقاباللہ(فنافی ھوُ) پر پہنچ جاتاہے تو جملہ صفاتِ الٰہی سے متصف ہو کر ’’انسانِ کامل‘‘ کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے اور وہی امانتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے۔ اس کائنات کے کامل ترین انسان حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور آپؐ اللہ تعالیٰ کے مظہرِ اُتم ہیں۔

 حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
انسانِ کامل حضرت محمدؐہیں اوردیگرتمام(فقراکاملین) آپؐ کے وسیلے سے مراتب بمراتب(وصالِ الٰہی اور کاملیت کے) اس مقام پر پہنچے۔(عین الفقر)

انسانِ کامل ہی امانتِ الٰہیہ کا حامل اور اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتاہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کا فرمان ہے:
جمعیت جو کہ لطفِ رحمن ہے انسانِ کامل کو نصیب ہوتی ہے۔کامل انسان صرف انبیا اور فقرا ہیں۔(فضل اللقا)

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
الرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا (سورۃفرقان-59)
 ترجمہ: وہ رحمن ہے سو پوچھ اس کے بارے میں اس سے جو اس کی خبر رکھتا ہے۔

ہر دور میں ایک ایسا انسان موجود ہوتاہے جو امانتِ الٰہیہ کاحامل یا امانتِ فقر کا وارث ہوتا ہے۔نبی اکرمؐ خزانہ فقر کے مالک اور مختارِ کل ہیں اس لیے اُنہی سے یہ امانت اور خزانہ فقر منتقل ہوتارہتا ہے۔ آپؐ کے اِذن کے بغیر کسی انسان کو امانتِ الٰہیہ منتقل نہیں ہوسکتی۔ حضور اکرمؐ سے خزانہ فقرخاتونِ جنت حضرت فاطمۃالزہراؓ کو منتقل ہوا اور آپؓ امتِ محمدیہ میں فقر کی پہلی سلطان(سلطان الفقر اوّل) ہیں۔ یہی خزانہ فقر بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کو منتقل ہوا جن سے سلسلہ ولایت کا آغاز ہوا اور فقر امتِ محمدی کو منتقل ہوا اور اہلِ بیتؓ میں خزانہ فقر حسنین کریمینؓ کو منتقل ہوا۔پھر یہ منتقل در منتقل ہوتا ہوا شہسوارِ فقرسیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ تک پہنچا۔پھریہ خزانہ فقرسلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ تک پہنچا۔ اب جب بھی امانتِ الٰہیہ منتقل ہوتی ہے توآقا پاکؐ اس منتخب انسان کو تربیت کے لیے سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے حوالہ کرتے ہیں اور پھر وہاں اسے امانتِ الٰہیہ یا خزانہ فقر کے لیے حضرت سخی سلطان باھوؒ کی بارگاہ میں حاضر ہونا پڑتاہے۔قیامت تک یہ خزانہ،خزانہ فقر کے مختارِ کل صاحبِ لولاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت اور مہر سے اسی در سے منتقل ہوگا۔

 امانتِ الٰہیہ کا حامل جسے صاحبِ مسمیّٰ مرشد کہا جاتاہے،اگر طالب کو ایسا مرشد مل جائے تو فقر کی انتہا پر پہنچنا کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے۔ اس کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ پہلے ہی دِن طالب کو سلطان الاذکار اسمِ اعظم’’ھوُ‘‘عطا کر دیتا ہے اور اسمِ اللہ ذات تصور کے لیے عطا فرماتاہے۔ اگر ایسا مرشد مل جائے تو فوراً دامن پکڑلینا چاہیے لیکن اس کو تلاش کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ غیرمعروف ہوتا ہے۔ سینہ بہ سینہ امانتِ الٰہیہ کی منتقلی کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا لیکن اس مرشد تک صرف وہی طالب پہنچتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پہچان، دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کی طلب لے کر گھر سے نکلتے ہیں۔

یہی انسانِ کامل صاحبِ مسمیّٰ مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ، حاملِ امانتِ الٰہیہ، خزانہ فقر کا مالک اور نائبِ رسولؐ ہوتا ہے۔ اس کی تلاش اور غلامی فقرا نے فرض قراردی ہے اس لیے طالبِ مولیٰ پر اس کی تلاش فرض ہے۔

موجودہ دور میں امانتِ الٰہیہ کا حامل

امانت جس طالب کے سپرد کی جاتی ہے وہ ازل سے منتخب ہوتا ہے۔ اس کا باطن آئینہ کی طرح پاکیزہ اور صاف ہوتا ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُسے باطن میں بیعت فرما کر سیدّناغوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے سپرد فرماتے ہیں جو اس کی باطنی تربیت کے بعد مرشد کے سپرد فرماتے ہیں۔ مرشد اسے مختلف ظاہری و باطنی آزمائشوں اور امتحانات سے گزارتا ہے۔جس طرح سونا بھٹی میں تپ کر کندن بن جاتا ہے اسی طرح یہ طالبِ مولیٰ اپنے بے مثل صدق، اخلاصِ نیت،شدتِ عشق،وفا و قربانی اور فضلِ الٰہی کی بدولت آزمائشوں اور امتحانات سے گزرنے کے بعد اس لائق ہوجاتا ہے کہ امانت اس کے سپرد کی جاسکے۔وہ مرشد سے بے انتہا عشق اور مرشد کی بے لوث خدمت کی وجہ سے عاشق سے معشوق اور محب سے محبوب بن جاتا ہے۔ وہی مرشد کے دل کا محرم، راز دار اور رازِ  پنہاں سے باخبر ہوتا ہے۔امانت کی منتقلی بھی اِن عاشق اور معشوق، محرم اور محرمِ راز کے درمیان ایک راز ہوتی ہے جو خاموشی اور راز داری سے عمل میں لائی جاتی ہے۔

اس دور کے طالبانِ مولیٰ نے اس زمانہ کے انسانِ کامل اور امام الوقت کو جس بابرکت ہستی کی صورت میں پہچانا وہ عظیم ذات سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ہے جو سیدّنا غوث الاعظمؓ کے سلسلہ قادری( جسے حضرت سخی سلطان باھوؒ نے سلسلہ سروری قادری کے نام سے عروج عطا فرمایا) کے موجودہ شیخِ کامل ہیں اور سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے بعد امانتِ الٰہیہ کے حامل مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام و سربراہ ہیں۔

 سلطان العاشقین بحیثیت طالبِ مولیٰ

 

عشقِ مرشد اور خدمتِ مرشد

 فقر میں کمال عشق سے حاصل ہوتاہے۔ فقر دراصل ہے ہی عشق۔ جن لوگوں کواللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے عشق کے لیے پیدا کیا ہے انہیں عشق کے سوا کسی شے میں سکون حاصل نہیں ہوتا۔

 سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس عشقِ حقیقی کی زندہ اور اعلیٰ ترین مثال ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے عشق کے میدان میں جست لگائی اور اپنی ہمت و فضلِ الٰہی سے اس میدان کی ہر بازی جیت لی اور ظاہرو باطن کی ہر آزمائش پر اپنی قوتِ عشق سے پورا اترے۔دراصل عشق کی قوت ہی راہِ فقر میں آنے والی تمام آزمائشوں سے گزرنے کے لیے صبر،ہمت اور استقامت کی طاقت فراہم کرتی ہے۔ اسی عشق کی وجہ سے محب اپنے محبوب کی ہر خواہش اور خوشی کو اپنی ذات کے آرام و سکون سے بڑھ کر جانتا ہے اور پھر اس کی خوشی کی خاطر اپنا تمام چین و سکون،مال و اسباب، ہر خوشی،ہر خواہش اس کے قدموں میں ڈھیر کر دیتا ہے۔

آپ مدظلہ الاقدس عشقِ مرشد میں اس طرح گم ہوئے کہ اپنی ذات کا کوئی ہوش ہی نہ رہا۔دوستوں کی دوستی، امرا کی محفلیں، رشتے داریاں سب کچھ چھوٹ گیا حتیٰ کہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کی بھی فکر نہ رہی۔بس ہر دم مرشد کی خوشی اور فکر رہنے لگی۔مرشد کے دیدار کی تمنا کے سوا ہر تمنامٹ گئی۔ ایک ہی فکر کہ کس طرح مرشد کو راضی کیا جائے۔ان کی ایک مسکراہٹ اور محبت بھری نگاہ کی خاطر جان تک لٹانے کو تیار رہتے۔ مرشد پاک بھی آپ کے عشق سے بخوبی واقف تھے۔

آپ مدظلہ الااقدس کے مرشد پاک نے آپ کو کئی بار آزمایا۔باطنی آزمائشوں کے بارے میں تو اللہ پاک اور اس کا طالب ہی بہتر جانتے ہیں لیکن ظاہری طور پر بھی آپ ہی مرشد کی نگاہ کا مرکز بن گئے۔مرشد نے جو ڈیوٹی اور ذمہ داری آپ مدظلہ الاقدس کے ذمہ لگائی آپ مدظلہ الاقدس نے سرِتسلیم خم کر دیا۔آپ مدظلہ الاقدس کے بارے میں آپ کے مرشد سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے فرمایا تھا’’نجیب بھائی کا تو یہ حال ہے کہ سرِتسلیم خم ہے جو مزاجِ یارمیں آئے۔‘‘ آپ مدظلہ الاقدس نے کبھی کسی مالی اور بدنی قربانی سے دریغ نہ کیا۔زندگی بھر کی جمع پونجی مرشد کے قدموں پر نچھاور کردی۔ رات رات بھر بیدار رہ کر مرشد کی خدمت کی اور ان کی دی گئی ڈیوٹیوں اور فرائض کو نبھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔آپ مدظلہ الاقدس نے عشقِ مرشد میں اَن گنت ذمہ داریاں ادا کیں۔ 

راہِ فقر میں ظاہری آزمائشوں اور امتحانات سے ہزار گنا زیادہ کڑے باطنی امتحانات اورآزمائشیں ہوتی ہیں جو احاطۂ تحریرمیں نہیں آ سکتیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ان باطنی آزمائشوں اور امتحانات کے متعلق اکثر فرماتے ہیں’’جو باطنی آزمائشیں ہم پر گزریں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔‘‘

آپ مدظلہ الاقدس کے عشق کی سچائی نے آپ کو ہر آزمائش اور ہر امتحان میں سرخروئی عطا کی۔ مرشد کا کرم اور اللہ کا فضل بھی طالب کے عشق اور صدق کے مطابق ہی اُس کے شاملِ حال ہوتاہے اور آپ مدظلہ الاقدس کے بے پایاں عشق و صدق کی بدولت اللہ کا فضل اور مرشد کا کرم بھی آپ مدظلہ الاقدس پربے حساب تھا۔ پس آپ ہر آزمائش میں کامیاب ہوتے گئے اور محبوبیت کی منازل طے کرتے ہوئے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوگئے۔ 

 منتقلی امانتِ الٰہیہ

سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی اپنے مرشدسے بے لوث محبت اور خدمت کی بنا پر سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمداصغر علیؒ نے آپ کو اپنے روحانی وارث کے طور پر چن لیا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ  اِلَیْہِ مَنْ  یَّشَآئُ وَ یَہْدِیْ اِلَیہِ مَنْ یُّنِیْبُ (سورۃ الشوریٰ-13)
ترجمہ:وہ جسے چاہتا ہے اپنے(خاص قرب کے) لیے چن لیتا ہے اور اپنی طرف (آنے کی)راہ دکھا دیتا ہے۔ 

 12اپریل 1998ء کو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمداصغر علیؒ  کی غلامی میں پہنچے اور اپنے مرشد پاک کی ذات میں یوں فنا ہو ئے کہ اپنے مرشد پاک کی زندگی کا ہی ایک عکس بن کر رہ گئے اور ہر لمحۂ زندگی کو آپؒ کی ڈیوٹی اور غلامی کے لیے وقف کر دیا۔1998ء سے 2001ء تک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو ظاہری اور باطنی طور پر بہت سی آزمائشوں سے گزارا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق کی بدولت آپ مدظلہ الاقدس ہر آزمائش اور امتحان میں پورا اُترے۔ جب مرشد پاک نے امانت کے وارث کو اچھی طرح پرکھ لیا توحج کا قصد فرمایا۔ 28 فروری 2001ء بروز بدھ آپؒ نو(9)منتخب طالبانِ مولیٰ اور تین خواتین کے ہمراہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ 9مارچ2001ء کو حج سے فراغت پا لی اور آپؒ 17مارچ بعد نمازِ عشاء مکہ مکرمہ سے مدینہ شریف کی طرف روانہ ہو ئے۔ آخر کار 21 مارچ2001ء کا وہ دن آگیا جس کا آپ مدظلہ الاقدس کے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ بیس سال سے انتظارفرما رہے تھے۔ ’’امانت‘‘ کی منتقلی کے لیے جس طالب کومنتخب کرکے آپؒ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں تشریف لائے تھے وہ مقبول اور منظور ہو گیا۔ اس یادگار لمحہ کو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس یوں بیان فرماتے ہیں:
’’مرشد کریم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے ہمراہ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حاضری سب سے بڑی سعادت اور خوش نصیبی تھی۔ مجھے تو21مارچ 2001ء کا دِن نہیں بھولتا جب نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد تمام ساتھی مختلف کاموں کے سلسلے میں اِدھر اُدھر چلے گئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ صرف میں رہ گیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے حکم فرمایا چلیں آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضری دے آئیں۔ اس وقت باب السلام کے پاس رش اتنا زیادہ تھا کہ داخلہ مشکل ہو رہا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو رش اور ہجوم سے بچانے کے لیے میں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے راستہ بناتا گیا۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اس دِن کی حاضری میری زندگی کا سب سے اہم واقعہ تھا۔ یوں محسوس ہورہا تھا کہ مجھ پر انوار و تجلیات کی بارش ہورہی ہے، میری آنکھوں سے آنسوجاری تھے۔ جیسے ہی مرشد کریم روضۂ رسو لؐ کی جالی کے سامنے پہنچے تو اچانک آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے والے آدمی،جو کہ ویل چیئر پر سوار تھا، کی ویل چیئر کا پہیہ قالین میں پھنس گیا اور لائن رک گئی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے چہرۂ مبارک روضۂ رسولؐ کی طرف کیا۔ اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کا چہرۂ مبارک چاندسے زیادہ روشن نظر آرہا تھا۔ میری ایک نظر روضۂ رسولؐ کودیکھتی اور پھر پلٹ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے چہرۂ مبارک پر پڑتی۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا حسین منظر کبھی نہیں دیکھا۔ عجیب محویت کا عالم تھا۔ اتنے میں روضۂ رسولؐ کے پاس کھڑے شرطے (سپاہی)نے مرشد کریم کی طرف اشارہ کرکے قطاروں کے دوسری طرف کھڑے شرطوں کو آوازدی یَاشیخ (یعنی لائن اِس شیخ کی وجہ سے رکی ہے)۔ سبحان اللہ! اُن کے منہ سے بھی یا شیخ نکل گیا۔ شرطے لپک کر مرشد کریم کی طرف بڑھے تو اس وقت وہاں کھڑے ہزاروں لوگوں کی نگاہیں میرے مرشد کریم کی طرف اُٹھ گئیں۔ ہر آدمی محویت سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف دیکھ رہاتھا یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ شرطے نے بڑھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کا بازو پکڑنا چاہا تو میں نے جلدی سے شرطے کا ہاتھ پکڑ کر اس کو آگے ویل چیئر والے کی طرف متوجہ کیا اور کہا کہ لائن اس کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ شرطوں نے جلدی سے ویل چیئر کا پہیہ سیدھا کیا اور یوں لائن دوبارہ حرکت میں آئی۔روضۂ رسولؐ پر حاضری کے بعد ہم بابِ جبرائیل کے قریب کچھ دیر رکے تو میں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں عرض کی:

’’حضور عالمِ اسلام مختلف فرقوں میں بٹ چکا ہے، تمام لوگوں اور خاص کر ماڈرن تعلیم یافتہ لوگوں کی نظر حق کی طرف نہیں ہے، عالم اسلام کو عالمِ کفر نے متحد ہوکر گھیر رکھا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ مہربانی فرمائیں کہ اسلام کا بول بالا ہو اور شیطانی گروہ مغلوب ہو۔‘‘

مرشد پاک نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور فرمایا:
’’ہمیں تو دِل کا محرم مل گیا ہے۔‘‘
یعنی ہمارا معاملہ تو حل ہو گیا اور کام بھی ختم ہو گیا۔

وہیں پر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مجھ پر کرم اور مہربانی فرما دی اور باطنی طور پر سیراب کردیااور ساتھ ہی باطنی طور پر اس راز کو راز رکھنے کے لیے طاقت بھی عطا فرما دی۔ اس دن کے بعد سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا چہرۂ مبارک خوشی سے دمک اٹھا اور طبیعت ہشاش بشاش ہوگئی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تمام بیماریاں اور پریشانیاں ختم ہو گئی ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا’’ہم جس مقصد کے لیے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں آئے تھے وہ پورا ہو گیا اور اس عظیم مقصد کے طفیل ہر ساتھی جوبھی مراد لے کر آیا تھا خواہ وہ دنیا کی ہو یاآخرت کی، اسکی وہ مراد بھی پوری ہوگئی۔‘‘ اور یہ اس فقیر نے ہوتا بھی دیکھا کہ جو کاروبار کی ترقی کے لیے ساتھ گیاتھا اس کا کاروبار چمک اٹھا اور جو بھی جس مقصد کے لیے گیا حج کے بعد اس کا مقصد پورا ہو گیا۔ ظاہری طور پرایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سر سے بہت بڑی ذمہ داری اور کوئی بھاری بوجھ اُتر گیا ہو۔‘‘ (مجتبیٰ آخر زمانی)

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے ایک بار سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سے فرمایا تھا:
’’ہم فقر کا عنوان ہیں اور آپ اس کی تفصیل ہوں گے۔‘‘
 یہ بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔

سلطان الفقر ششمؒ نے اس مادہ پرست دور میں فقرکے بند دروازے کو عوام الناس پر کھولا اورسلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اسے دنیا بھر میں عام فرما رہے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں طالبوں اور مریدوں کو اسم ِاللہ ذات چار منازل میں ترتیب وار عطا کیا جاتا تھا یعنی اللّٰہ، لِلّٰہ، لَہٗ اور  ھُو۔ طالب درجہ بدرجہ ان منازل سے گزرتا اور ساتھ ساتھ قربِ الٰہی میں بھی ترقی کرتا۔ اس عمل میں کافی عرصہ بھی لگ جاتا تھا اور جو طالب پہلی منزل پار نہ کر پاتا وہ اگلی منزل پر بھی پہنچ نہ پاتا تھا۔ اس طرح بہت سے طالب اپنی طلب میں ناقص ہونے کی وجہ سے ابتدائی منازل پارنہ کر سکتے اور ’ھوُ‘تک کبھی پہنچ ہی نہ پاتے تھے۔ آپ مدظلہ الاقدس وہ واحد ہستی ہیں جو اپنے طالبوں کو بیعت کے پہلے روز ہی اسمِ اعظم اور سلطان الاذکار’ھوُ‘ عطا فرما تے ہیں اور انہیں اپنی نگاہِ کامل سے اس روحانی بلندی پر پہنچا دیتے ہیں کہ وہ اس افضل ذکر کی تجلیات کو بآسانی برداشت کر لیتے ہیں۔

سلطان العاشقین کا طریقہ تربیت

حدیث مبارکہ ہے:
اَلشَّیْخُ فِیْ قَوْمِہٖ کَنَبِیٍّ فِیْ اُمَّتِہٖ 
ترجمہ: شیخ (مرشدِ کامل) اپنی قوم (مریدوں) میں ایسے ہوتا ہے جیسا کہ ایک نبی اپنی امت میں۔
مرشدکامل اکمل اپنے مریدین کی تربیت بالکل اسی طرح کرتا ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فرمائی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد مبارک ہے:
 میری امت کے آخری دور میں ہدایت اسی طرح پہنچے گی جیسے میں تمہارے درمیان پہنچا رہا ہوں۔ (مسلم)

حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کا طریقۂ تربیت کیا تھا؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو طویل ورد اور وظائف میں مشغول فرمایا تھا؟ اس کا جواب ہمیں قرآنِ مجید کی اس آیت مبارکہ سے ملتا ہے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ (سورۃجمعہ۔2)
ترجمہ: وہی اللہ ہے جس نے مبعوث فرمایااُمیوں میں سے ایک رسول(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)جو پڑھ کر سناتا ہے ان کو اس کی آیات اور (اپنی نگاہِ کامل سے) ان کا تزکیۂ نفس(نفسوں کو پاک) کرتاہے اور انہیں کتاب کا علم (علمِ لدنیّ) اور حکمت سکھاتا ہے۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآنِ پاک کی تعلیم دیتے اور پھر نگاہِ کامل سے ان کا تزکیہ فرماتے تاکہ ان کے قلوب پاک ہو کر قرآن کے نور کو جذب کرنے کے اہل ہو سکیں۔ جب نفس کا تزکیہ ہوجاتا تو تصفیۂ قلب خودبخود ہو جاتا اور جلوۂ حق آئینۂ دل میں صاف نظر آنے لگتا اور دل جلوۂ حق کے لیے بے قرار رہنے لگتا۔

 یہ بیقراری دراصل عشقِ الٰہی کا آغاز ہے اور عشقِ حقیقی کا یہ شعلہ محبوبینِ الٰہی کی نورانی صحبت کے بغیر نہیں بھڑکتا۔سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
تمہارے درمیان صورتاً کوئی نبی موجود نہیں ہے کہ تم اس کی اتباع کرو۔ پس جب تم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متبعین (مرشدِ کامل) کی اتباع کرو گے جو کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حقیقی اتباع کرنے والے اور اتباع میں ثابت قدم ہیں تو گویا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کی۔ جب تم ان کی زیارت کرو گے تو گویا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت کی۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 14)

ولیٔ کامل (مرشد کامل اکمل) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس ولایت کا حامل ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوتِ باطن کا جزوہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے اُس(ولیٔ کامل) کے پاس امانت ہوتی ہے۔(سر الاسرار۔ فصل نمبر5)

جو شخص بھی خلوصِ دل اور صدقِ نیت سے ان اولیا کرام کی صحبت میں بیٹھتا ہے، اس کے دل میں بھی وہ نور سرایت کر جاتا ہے جو انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃو السلام سے حاصل کیا تھا اور اس کا ظاہر و باطن سنور جاتاہے۔ اس کی زندہ مثالیں ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی نگاہِ کامل پڑتے ہی قزاقوں کا پورا گروہ تائب ہو کر ولایت کے اعلیٰ درجات پر فائز ہو گیا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پہنچے تو حقیقت تک رسائی پا گئے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ حضرت بہلول دانا رحمتہ اللہ علیہ کی صحبت میں رہے تو امام سے بلند ہو کر ولایتِ کاملہ کے درجہ پر فائز ہو گئے۔قصہ مختصر یہ کہ اولیا کرام کی صحبت میں بیٹھنے والا کبھی خالی ہاتھ اور بے مراد نہیں رہتا۔ حدیث مبارکہ ہے:
 یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ (صحیح مسلم)

آج کل کے مادہ پرست دور میں لوگوں کے پاس اتنا وقت اور ہمت نہیں رہی کہ وہ نفسانی بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے محنت، ریاضت اور سخت مجاہدات کریں اور طرح طرح کے ورد وظائف میں مصروف رہیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ زیادہ وردو وظائف سے نفس پاک ہونے کی بجائے عبادات کے غرور میں مبتلا ہو کر مزید میلا اور موٹا ہو جاتاہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کے مطابق اس کے لیے بہترین اورآسان ترین طریقہ ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس روئے زمین پر اور مشائخ سروری قادری میں وہ واحد ہستی ہیں جو اپنے ہر طالب کو بیعت کے پہلے روز ہی سلطان الاذکار’’ھوُ‘‘ عطا فرماتے ہیں اور اسمِ اللہ ذات کا سنہری نقش تصور اور مشقِ مرقومِ وجودیہ کے لیے عطا فرما کر فقر کی انتہا پر پہنچنا آسان کر دیتے ہیں۔

ذکر تصور اسم اللہ دا، سلطان العاشقین کولوں جیہڑا پائے
ھوُ دے تصور وچ رہے ہمیشہ، ذاتی اسم او کمائے
مشقِ مرقوم وجودیہ دے نال‘  اپنے تن نوں او پاک کرائے
سلطان نجیب صادقاں عاشقاں نوں، اللہ دے نال ملائے

آپ مدظلہ الاقدس آفتاب کی طرح اپنا نورانی فیض ہر طالب پر یکساں نچھاور فرماتے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہر دل کی زمین اپنی خاصیت کے مطابق سیراب ہوتی اور فیض پاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ مدظلہ الاقدس کو اس قدر بلند روحانی مراتب عطا فرمائے ہیں کہ ان کا اندازہ لگانا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں لیکن آپ مدظلہ الاقدس ان سب کے باوجود خود کو ایک عام انسان ظاہر کرتے ہیں اور اپنے طالبوں کی بھی اس طرح تربیت فرماتے ہیں کہ ان میں عجزوانکسارنمایاں وصف بن کراُبھرتاہے۔سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
عاجزی شیطان کے خلاف سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ (سلطان العاشقین)

جو کوئی بھی خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے فقر کاطالب ہو تو اس بات سے قطع نظر کہ وہ معاشرے کے کس طبقے اور مذہب کے کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے، آپ مدظلہ الاقدس اسے کسی مشقت میں ڈالے بغیر خزانۂ فقر عطا فرما دیتے ہیں البتہ اس کے لیے بیعت ہونا ضروری ہے۔

عنایت تو دیکھو میرے کامل مرشد کی یارو
کہ جس نے مجھے پل بھر میں لاھوتی بنا دیا

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے میدانِ عشق میں ثابت قدم رکھے اور ہم اپنے مرشد کی رضا کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔ (آمین)

استفادہ کتب:
عین الفقر:  تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
شمس الفقرا:  تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
مجتبیٰ آخر زمانی:  ایضاً
ابیاتِ باھوُ کامل:  ایضاً
سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :    Mahnama Sultan-ul-Faqr | Amanat-e-ilahiya ka Hamil | Urdu/Hindi | امانتِ الٰہیہ کا حامل  Sultan-ul-Ashiqeen

 

42 تبصرے “امانت ِ الٰہیہ کا حامل Amanat e ilahiya ka Hamil

  1. سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ نے ایک بار سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سے فرمایا تھا:
    ’’ہم فقر کا عنوان ہیں اور آپ اس کی تفصیل ہوں گے۔‘‘
    یہ بات حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔

    1. فقرا کاملین کے نزدیک اس امانت سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حقیقی وراثت اسمِ اللہ ذات یعنی امانتِ فقر(امانت الٰہیہ) ہے۔

  2. آپ مدظلہ الاقدس عشقِ مرشد میں اس طرح گم ہوئے کہ اپنی ذات کا کوئی ہوش ہی نہ رہا۔دوستوں کی دوستی، امرا کی محفلیں، رشتے داریاں سب کچھ چھوٹ گیا حتیٰ کہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کی بھی فکر نہ رہی۔بس ہر دم مرشد کی خوشی اور فکر رہنے لگی۔مرشد کے دیدار کی تمنا کے سوا ہر تمنامٹ گئی۔ ایک ہی فکر کہ کس طرح مرشد کو راضی کیا جائے۔ان کی ایک مسکراہٹ اور محبت بھری نگاہ کی خاطر جان تک لٹانے کو تیار رہتے۔ مرشد پاک بھی آپ کے عشق سے بخوبی واقف تھے۔

  3. 21مارچ 2001ء وہ بابرکت اور مبارک دن تھا جب سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے حج کے موقع پر مسجدِ نبویؐ میں روضہ رسول کے سامنے آقائے نامدارخاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت سے اپنے مرید ِخاص سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو امانتِ فقر یعنی امانتِ الٰہیہ سونپ کر انہیں اپنے بعد سلسلہ سروری قادری کا امام مقرر فرمایا۔

  4. جن لوگوں کواللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے عشق کے لیے پیدا کیا ہے انہیں عشق کے سوا کسی شے میں سکون حاصل نہیں ہوتا۔

  5. ولیٔ کامل (مرشد کامل اکمل) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس ولایت کا حامل ہوتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوتِ باطن کا جزوہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے اُس(ولیٔ کامل) کے پاس امانت ہوتی ہے۔(سر الاسرار۔ فصل نمبر5)

  6. اولیا کرام کی صحبت میں بیٹھنے والا کبھی خالی ہاتھ اور بے مراد نہیں رہتا۔ حدیث مبارکہ ہے:
    یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ (صحیح مسلم)

  7. فقرا کاملین کے نزدیک اس امانت سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حقیقی وراثت اسمِ اللہ ذات یعنی امانتِ فقر(امانت الٰہیہ) ہے

  8. اس دور کے طالبانِ مولیٰ نے اس زمانہ کے انسانِ کامل اور امام الوقت کو جس بابرکت ہستی کی صورت میں پہچانا وہ عظیم ذات سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ہے جو سیدّنا غوث الاعظمؓ کے سلسلہ قادری( جسے حضرت سخی سلطان باھوؒ نے سلسلہ سروری قادری کے نام سے عروج عطا فرمایا) کے موجودہ شیخِ کامل ہیں اور سلطان الفقرششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ کے بعد امانتِ الٰہیہ کے حامل مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام و سربراہ ہیں۔

  9. ماشاءاللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

  10. فقرا کاملین کے نزدیک اس امانت سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کی حقیقی وراثت اسمِ اللہ ذات یعنی امانتِ فقر(امانت الٰہیہ) ہے۔

  11. بے شک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اس دور کے فقیرِ کامل ہیں۔

  12. انسانِ کامل صاحبِ مسمیّٰ مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ، حاملِ امانتِ الٰہیہ، خزانہ فقر کا مالک اور نائبِ رسولؐ ہوتا ہے۔ اس کی تلاش اور غلامی فقرا نے فرض قراردی ہے اس لیے طالبِ مولیٰ پر اس کی تلاش فرض ہے۔

  13. بےشک
    انسانِ کامل ہی امانتِ الٰہیہ کا حامل اور اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتاہے۔

  14. عنایت تو دیکھو میرے کامل مرشد کی یارو
    کہ جس نے مجھے پل بھر میں لاھوتی بنا دیا

  15. فقر ہی ذات و صفاتِ الٰہیہ کا اظہار ہے لہٰذا امانتِ الٰہیہ در حقیقت امانتِ فقر ہی ہے۔

  16. جو کوئی بھی خلوصِ نیت اور صدقِ دل سے فقر کاطالب ہو تو اس بات سے قطع نظر کہ وہ معاشرے کے کس طبقے اور مذہب کے کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے، سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اسے کسی مشقت میں ڈالے بغیر خزانۂ فقر عطا فرما دیتے ہیں البتہ اس کے لیے بیعت ہونا ضروری ہے۔

  17. ذکر تصور اسم اللہ دا، سلطان العاشقین کولوں جیہڑا پائے
    ھوُ دے تصور وچ رہے ہمیشہ، ذاتی اسم او کمائے

  18. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس عشقِ حقیقی کی زندہ اور اعلیٰ ترین مثال ہیں۔

  19. بے شک سلطان العاشقین انسان کامل جامع نورالہدی سروری قادری امام ہیں۔

    1. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
      الرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا (سورۃفرقان-59)
      ترجمہ: وہ رحمن ہے سو پوچھ اس کے بارے میں اس سے جو اس کی خبر رکھتا ہے

  20. انسانِ کامل ہی امانتِ الٰہیہ کا حامل اور اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتاہے۔

  21. اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے میدانِ عشق میں ثابت قدم رکھے اور ہم اپنے مرشد کی رضا کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔ (آمین)

  22. عنایت تو دیکھو میرے کامل مرشد کی یارو
    کہ جس نے مجھے پل بھر میں لاھوتی بنا دیا
    اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اپنے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی سنت پر عمل کرتے ہوئے میدانِ عشق میں ثابت قدم رکھے اور ہم اپنے مرشد کی رضا کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کریں۔ (آمین)

  23. سلطان العاشقین بحیثیت طالبِ مولیٰ
    عشقِ مرشد اور خدمتِ مرشد
    فقر میں کمال عشق سے حاصل ہوتاہے۔ فقر دراصل ہے ہی عشق۔ جن لوگوں کواللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے عشق کے لیے پیدا کیا ہے انہیں عشق کے سوا کسی شے میں سکون حاصل نہیں ہوتا۔

  24. راہِ فقر میں ظاہری آزمائشوں اور امتحانات سے ہزار گنا زیادہ کڑے باطنی امتحانات اورآزمائشیں ہوتی ہیں جو احاطۂ تحریرمیں نہیں آ سکتیں۔ آپ مدظلہ الاقدس ان باطنی آزمائشوں اور امتحانات کے متعلق اکثر فرماتے ہیں’’جو باطنی آزمائشیں ہم پر گزریں اگر وہ کسی پہاڑ پر گزرتیں تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا۔‘‘

  25. آپ مدظلہ الاقدس آفتاب کی طرح اپنا نورانی فیض ہر طالب پر یکساں نچھاور فرماتے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ ہر دل کی زمین اپنی خاصیت کے مطابق سیراب ہوتی اور فیض پاتی ہے۔

  26. سلطان العاشقین کی قربانیاں اور جدوجہد بے مثال ہے بیشک آپ ہی امانتِ الٰہیہ کے حامل مرشد کامل اکمل ہیں

  27. اس کائنات میں موجود ہر شے خواہ جاندار ہو یا بے جان ،ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کی گئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں