سیّدہ فاطمتہ الزہراؓ Syeda Fatima tu Zahra


4.6/5 - (302 votes)

سیدّہ فاطمتہ الزہراؓ  (Syeda Fatima tu Zahra)

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری ۔لاہور

’’سیدّہ فاطمتہ الزہراؓ  ‘‘    بلاگ آڈیو میں سسنے کے لیے  اس ⇐  لنک  ⇒   پر کلک کریں.

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام
سیدّہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
جانِ احمدؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام

 سیدّہ فاطمتہ الزہراؓ کائنات کی عظیم ترین ہستی،باعثِ فخرِ موجودات محبوبِ الٰہی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کی غمگسار عزیز از جان زوجہ محترمہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سن 5 قبل از بعثت اس وقت پیدا ہوئیں جب آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام غارِ حرا کی تنہائیوں میں غور و تفکر میں مصروف رہتے تھے۔ ان دنوں قریشِ مکہ کعبہ کی از سر نو تعمیر میں مصروف تھے۔ آپؓ کا اسمِ گرامی فاطمہ اور مشہور کنیت ’’اُمّ الائمہ، اُمّ الحسنین اور اُمّ السبطین‘‘ ہے۔

فاطمہ کا معنی:

حضور اقدس نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی صاحبزادی کا نام ’’فاطمہ‘‘ (اس بنا پر) رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے محبین کو آتشِ دوزخ سے محفوظ رکھا ہے۔
’’الصواعق المحرقہ‘‘ میں حضرت انسؓ سے روایت کی گئی ہے کہ  حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تحقیق میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کے محبین کو دوزخ سے علیحدہ کر دیا ہے۔
فاطمہ فطم سے ہے جس کے معنی روکنے اور چھڑانے کے ہیں۔ گویا فاطمہ کا مطلب ہے ’’چھڑانے والی‘‘، ’’آتشِ جہنم سے نجات دینے والی۔‘‘ (خصائص اہلِ بیت)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ بیشک میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ( رضی اللہ عنہا) رکھا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو آگ سے نجات دے دی ہے۔‘‘ (امام دیلمی) (مناقب سیدۃ کائنات)

سیدّۃ النسا العالمین ،جگر گوشۂ رسولؐ، حضرت فاطمتہ الزہراؓ کے بے شمار القابات ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

 زہرا:

زہرا کے معنی ہیں کلی یعنی نہایت خوبصورت۔سیدّہ فاطمہؓ سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت و صورت اور حسن و جمال سے مشابہ تھیں۔آپؓ کا حسن و جمال ایسا خوبصورت تھا جیسے چودھویں رات کا چاند چمکتا ہے۔

 بتول:

سیدّہ فاطمہؓ کا ایک لقب بتول ہے۔بتول کا معنی ہے ’’ جدا کرنا‘‘۔ آپؓ فضیلت اور طہارت و نسب کے اعتبار سے دنیا کی تمام عورتوں سے جدا ہیں۔

 راضیہ:

آپؓ کے اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ آپؓ اللہ اور اس کے رسول کی رضا پر راضی رہنے والی تھیں۔

 سیدّۃ النسا اہلِ الجنتہ:

جنت کی عورتوں کی سردار ہونے کی وجہ سے آپؓ کو اس لقب سے نوازا گیا۔

 زاکیہ:

یہ لقب آپؓ کو نہایت اعلیٰ اخلاق و عادات کی مالکہ ہونے کی وجہ سے ملا۔

 طاہرہ: 

طاہرہ کا لقب آپؓ کو پاکباز ہونے کی وجہ سے ملا ہے۔

 مطہرہ:

یہ لقب پاک صاف خاتون اور دوسری خواتین کے دل پاک کرنے کی بنا پرکہا گیا ہے۔

 سیدّۃ النسا العالمین:

 سارے جہانوں کی عورتوں کی سردار ہونے پر آپؓ کو یہ لقب ملا۔(سیرت سیدۃ النسا سیدہ فاطمتہ الزہراؓ)

فضائلِ خاتونِ جنت سیدّہ کائناتؓ

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ اے فاطمہؓ !کیا تم نہیں چاہتیں کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں، میری اس اْمت کی تمام عورتوں اور مومنین کی تمام عورتوں کی سردار ہو!‘‘ (نسائی۔ حاکم)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
آسمان کے ایک فرشتے نے میری زیارت نہیں کی تھی، پس اُس نے اللہ تعالیٰ سے میری زیارت کی اجازت لی اور اْس نے مجھے خوشخبری سنائی کہ فاطمہؓ میری اُمت کی تمام عورتوں کی سردار ہے۔ (بخاری۔ طبرانی)

اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں:
میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صاحبزادی سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو عادات و اطوار،سیرت و کردار اور نشست و برخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا۔ (امام ترمذی۔ ابوداؤد)

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی ایک اور روایت درج ہے ۔ آپؓ فرماتی ہیں:
میں نے سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے افضل اُن کے بابا جان یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ کسی شخص کو نہیں پایا۔ (امام طبرانی)

حضرت مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
 فاطمہؓ میری جان کا حصہ ہے ،پس جس نے اْسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(ترمذی)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے زمین پر چار لکیریں کھینچیں اور فرمایا ’’تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا’’ اللہ تعالیٰ اور اْس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بہتر جانتے ہیں۔‘‘ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’اہلِ جنت کی عورتوں میں سے افضل ترین ہیں: خدیجہؓ بنتِ خویلد، فاطمہؓ بنتِ محمد، فرعون کی بیوی آسیہ بنتِ مزاحم اور مریم بنتِ عمران۔‘‘( احمد۔ نسائی)
اس بارے میں شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ لکھتے ہیں :

مریمؓ از یک نسبت عیسیٰؑ عزیز
از سہ نسبت حضرت زہراؓ عزیز

ترجمہ : یعنی مریمؑ عیسیٰؑ کے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے اس قدر پیار اور محبت تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سفر پر تشریف لے جاتے سب سے آخر پر آپؓ سے ملاقات فرماتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے آپؓ سے ملاقات فرماتے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلام حضرت ثوبانؓ نے فرمایا: 
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب سے آخر میں جس شخصیت سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس ہستی کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہوتیں۔( ابو داؤد۔مسند احمد)

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کھڑے ہو کر ان کا استقبال فرماتے،انہیں بوسہ دیتے، خوش آمدید کہتے اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنی نشست پر بٹھا لیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رونق افروز ہوتے توسیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے استقبال کے لیے کھڑی ہو جاتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ اقدس کو بوسہ دیتیں۔‘‘(امام حاکم)

سیدّہ فاطمتہ الزہراؓ اور فقر

آپ رضی اللہ عنہا فقر کی پہلی سلطان ہیں۔ دیدارِ حق تعالیٰ اور وصالِ الٰہی آپؓ کے وسیلہ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔عشقِ حقیقی میں آپؓ فقر کے اس مقام پر پہنچیں کہ آپؓ کو امانتِ فقر کے لیے چن لیا گیا۔

تواریخ آئینہ تصوف فصل ہفتم میں رقم ہے:
جناب سیدّہ پاکؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیا میں قیامت کو تنہا اٹھوں گی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’سیدّہ تم سے عورتوں کی تعلیمِ طریقت جاری ہوگی اور جس قدر عورتیں امتِ محمدیہ کی تمہارے سلسلہ میں داخل ہوں گی وہ روزِ حشر تمہارے گروہ میں اٹھائی جائیں گی۔یہ مرتبہ ازل سے اللہ تعالیٰ نے خاص تمہارے لیے مخصوص فرمایا ہے اور عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ تم کو بحکمِ الٰہی امانتِ فقر عطا کی جائے گی۔ حصولِ اجازت کے بعد تم (امام) حسنؓ کو امانت و خلافت عطا کر دینا۔ ‘‘

اس ارشادِ فیض کے ایک ماہ بعد حضرت سیدّ ِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صفر 11 ہجری کو با امرِ الٰہی جناب سیدّہ پاک کو امانتِ فقر منتقل فرمائی اور ارشاد فرمایا’’یا سیدّہ جو تمہارے سلسلہ میں تمہاری اجازت سے درودِ احمدیؐ تلاوت کرے گا اس کو ہماری روئیت ہوا کرے گی۔‘‘ پھر سبز رنگ کی اونی ردائے مبارک، جو شاہِ یمن نے تحفتاً بھیجی تھی، کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مس فرما کر حضرت سیدّہ پاکؓ کے سر پر ڈال دیا اور فرمایا ’’سیدّہ مبارک ہو آج اللہ تعالیٰ نے تم کو فقر عطا فرمایا ۔‘‘

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے مرتبۂ فقر کے متعلق فرماتے ہیں:
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا۔ جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔  (جامع الاسرار)

اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ (فقر میرا فخر ہے) میں کمال امامین پاک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو نصیب ہوا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔(محک الفقر کلاں)

جس ہستی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نورِ وحدت میں غرق ہو کر آپ ؐکی ذات کا عین ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ یکتا و یک وجود ہو گیا۔ جب حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا’’فاطمہ (رضی اللہ عنہا) مجھ سے ہے۔‘‘

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ظاہری زندگی کے ساتھ باطنی مقام بھی نہایت اعلیٰ اور ارفع ہے۔ آپؓ کا شمار اْن باعزت و باوقار ہستیوں میں ہوتا ہے جن کو ’’سلطان الفقر‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو تمام اولیا کرام میں سب سے ممتاز ہیں اور ان کا قدم تمام اولیا اللہ، غوث و قطب کے سر پر ہے۔ ان ہستیوں کی تعداد سات ہے، جب تک یہ ہستیاں دنیا میں تشریف نہیں لائیں گی قیامت برپا نہیں ہو گی۔ ان ہستیوں کے رازسے سب سے پہلے حضرت سخی سلطان باھوؒ نے پردہ اٹھایا۔ آپؒ اپنی تصنیف مبارکہ رسالہ روحی شریف میں ان ہستیوں کا ذکر فرماتے ہیں :
جان لے کہ جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلی کی گرم بازاری سے (تمام عالموں کو) رونق بخشی، اِس کے حسنِ بے مثال اور شمعِ جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اُٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی،پھر  جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا باصفا فنا فی اللہ، بقا باللہ تصورِ ذات میں محو، تمام مغزبے پوست حضرت آدمؑ کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے، اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمند ر میں غرق آئینۂ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں۔ انہوں نے ازل سے ابد تک ذاتِ حق کے سواکسی چیز کی طرف نہ دیکھا اور نہ غیر حق کو کبھی سنا۔وہ حریمِ کبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں۔ کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہہ میں کوشاں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں ،اور اِذَا تَمَّ الفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ کے فیض کی چادر ان پر ہے۔پس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہ   اَلفَقرْ لَا یْحتَاجْ اِلٰی رَبِّہ وَلَا اِلٰی غَیْرِہ  کی جاودانی عزت کے تاج سے معزز و مکرم ہیں۔ انہیں حضرت آدمؑ کی پیدائش اور قیامِ قیامت کی کچھ خبر نہیں۔ ان کا قدم تمام اولیا اللہ ،غوث و قطب کے سر پر ہے۔ اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے۔ اس راز کو جس نے جانا اس نے پہچانا، اُن کا مقام حریمِ ذاتِ کبریا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہ مانگا، حقیر دنیا اور آخرت کی نعمتوں، حور و قصور اور بہشت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور جس ایک تجلیّ سے حضرت موسیٰؑ سراسیمہ ہو گئے اور کوہِ طور پھٹ گیا تھا،ہر لمحہ، ہر پل جذباتِ انوارِ ذات کی ویسی تجلیات ستر ہزار بار ان پر وارد ہوتی ہیں لیکن وہ دم مارتے ہیں اور نہ آہیں بھرتے ہیں بلکہ مزید تجلیات کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ وہ سلطان الفقر (فقر کے بادشاہ) اور دونوں جہانوں کے سردار ہیں۔ ان میں ایک خاتونِ قیامت (فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا)کی روح مبارک ہے۔ ایک حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ کی روح مبارک ہے۔ ایک ہمارے شیخ، حقیقتِ حق، نورِ مطلق، مشہود علی الحق حضرت سیدّ محی الدین عبدالقادر جیلانی محبوبِ سبحانی قدس سرہُ العزیز کی روح مبارک ہے۔اور ایک سلطانِ انوار سِرّالسرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزند حضرت پیر دستگیر (قدس سرہُ العزیز) کی روح مبارک ہے، ایک ھاھویت کی آنکھوں کا سرچشمہ سرِّاسرارِ ذاتِ یاھوُ فنا فی ھوُ فقیر باھوؒ(قدس سرہٗ العزیز)کی روح مبارک ہے۔ اور دو ارواح دیگر اولیا کی ہیں۔(رسالہ روحی شریف)

سیدّہ فاطمہؓ نے جس طرح اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا اسی طرح اپنی باطنی حیاتِ مبارکہ میں بھی آپؓ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتیں اورجو کوئی آپؓ سے فقرکا سوال کرتاہے وہ کبھی مایوس نہیں لوٹتا۔ موجودہ دورمیں خواتین طالبانِ مولیٰ کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی ذات مبارکہ وسیلہ ہے سیدّہ فاطمہؓ کی بارگاہ عالی میں پہنچنے کا۔

حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر و غنا کے ساتھ ساتھ کمال درجہ کی عابدہ تھیں۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے :
میں نے اپنی والدہ کو شام سے صبح تک عبادت کرتے اور خدا کے حضور گریہ زاری کرتے دیکھا لیکن انہوں نے کبھی اپنی دعاؤں میں اپنے لیے کوئی درخواست نہ کی۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بیان ہے:
میں فاطمہؓ کو دیکھتا تھا کہ کھانا بھی پکا رہی ہیں اور خدا کا ذکر بھی ساتھ ساتھ کرتی جا رہی ہیں ،چکی بھی پیس رہی ہیں اور لبوں پر آیاتِ قرآنی کا ورد بھی جاری ہے۔

شمع منیر قصر طہارت ہے فاطمہؓ
سرمایہ فروغ امامت ہے فاطمہؓ
ختم رسلؐ کا اجر رسالت ہے فاطمہؓ
قرآن ہے رسولؐ تو آیت ہے فاطمہؓ

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے حد محبت فرماتی تھیں۔ آپؓ کو حضور علیہ الصلوٰۃو السلام کی جدائی کا بہت صدمہ ہوا۔ تمام کتبِ سیرتِ متفق ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد کسی نے سیدّہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحلت کے بعد آپؓ کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپؓ بھی زیادہ عرصہ حیات نہ رہ سکیں اور 3رمضان المبارک 11ہجری کو 29سال کی عمر میں ظاہری دنیا سے پردہ فرما گئیں۔

استفادہ کتب:
رسالہ روحی شریف:  تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
محک الفقر کلاں:  تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
خصائص اہل بیتؓ:   تصنیف علامہ صاحبزادہ عرفان الٰہی قادری
مناقب سیدۃ کائنات:  تصنیف ڈاکٹرطاہر القادری
فضائل صحابہؓ و اہلِ بیتؓ:  تصنیف علامہ سیّد شاہ تراب الحق قادری
سیرت سیدّۃ النسا سیدّہ فاطمتہ الزہراؓ:  تصنیف ذوالقرنین عطاری

اس مضمون کو انگلش میں پڑھنے کے لیے اس لنک (Link) پر کلک کریں

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :   Mahnama Sultan-ul-Faqr Lahore | Syeda Fatima Tu Zahra | Islamic Article in Urdu | Hindi

 

43 تبصرے “سیّدہ فاطمتہ الزہراؓ Syeda Fatima tu Zahra

  1. نہایت عمدہ۔ اس سے پہلے کبھی اتنا معلوماتی اور خوبصورت کالم نہیں پڑھا۔

  2. سیدّہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
    جانِ احمدؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام

  3. حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر و غنا کے ساتھ ساتھ کمال درجہ کی عابدہ تھیں.

    1. شمع منیر قصر طہارت ہے فاطمہؓ
      سرمایہ فروغ امامت ہے فاطمہؓ
      ختم رسلؐ کا اجر رسالت ہے فاطمہؓ
      قرآن ہے رسولؐ تو آیت ہے فاطمہؓ

  4. حضرت مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    فاطمہؓ میری جان کا حصہ ہے ،پس جس نے اْسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(ترمذی)

    1. حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر و غنا کے ساتھ ساتھ کمال درجہ کی عابدہ تھیں۔
      بہت عمدہ تحریر ہے

  5. جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
    اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام 💖💖💖

    1. آپ رضی اللہ عنہا فقر کی پہلی سلطان ہیں۔ دیدارِ حق تعالیٰ اور وصالِ الٰہی آپؓ کے وسیلہ سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

    1. مریمؓ از یک نسبت عیسیٰؑ عزیز
      از سہ نسبت حضرت زہراؓ عزیز
      ترجمہ : یعنی مریمؑ عیسیٰؑ کے حوالے سے ایک ہی نسبت سے بزرگ و عزیز ہیں جبکہ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا تین نسبتوں سے بزرگ و عزیز ہیں۔

  6. فاطمہ فطم سے ہے جس کے معنی روکنے اور چھڑانے کے ہیں۔ گویا فاطمہ کا مطلب ہے ’’چھڑانے والی‘‘، ’’آتشِ جہنم سے نجات دینے والی۔‘‘ (خصائص اہلِ بیت)

  7. جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
    اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

    1. سیدّہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
      جانِ احمدؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام

  8. حضرت مسور بن مخرمہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    فاطمہؓ میری جان کا حصہ ہے ،پس جس نے اْسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔(ترمذی)

    1. شمع منیر قصر طہارت ہے فاطمہؓ
      سرمایہ فروغ امامت ہے فاطمہؓ
      ختم رسلؐ کا اجر رسالت ہے فاطمہؓ
      قرآن ہے رسولؐ تو آیت ہے فاطمہؓ

  9. بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین

  10. سیدّہ فاطمہؓ کا ایک لقب بتول ہے۔بتول کا معنی ہے ’’ جدا کرنا‘‘۔ آپؓ فضیلت اور طہارت و نسب کے اعتبار سے دنیا کی تمام عورتوں سے جدا ہیں۔

  11. سیدّہ فاطمتہ الزہراؓ کائنات کی عظیم ترین ہستی

  12. حضور اقدس نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی صاحبزادی کا نام ’’فاطمہ‘‘ (اس بنا پر) رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کے محبین کو آتشِ دوزخ سے محفوظ رکھا ہے۔

  13. جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
    اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام
    سیدّہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
    جانِ احمدؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام

    1. شمع منیر قصر طہارت ہے فاطمہؓ
      سرمایہ فروغ امامت ہے فاطمہؓ
      ختم رسلؐ کا اجر رسالت ہے فاطمہؓ
      قرآن ہے رسولؐ تو آیت ہے فاطمہؓ

  14. فاطمہ فطم سے ہے جس کے معنی روکنے اور چھڑانے کے ہیں۔ گویا فاطمہ کا مطلب ہے ’’چھڑانے والی‘‘، ’’آتشِ جہنم سے نجات دینے والی۔‘‘ (خصائص اہلِ بیت)

  15. جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
    اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

  16. عشقِ حقیقی میں آپؓ فقر کے اس مقام پر پہنچیں کہ آپؓ کو امانتِ فقر کے لیے چن لیا گیا۔

  17. جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
    اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام
    سیدّہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
    جانِ احمدؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام

  18. جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
    اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام
    سیدّہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
    جانِ احمدؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام

  19. شمع منیر قصر طہارت ہے فاطمہؓ
    سرمایہ فروغ امامت ہے فاطمہؓ
    ختم رسلؐ کا اجر رسالت ہے فاطمہؓ
    قرآن ہے رسولؐ تو آیت ہے فاطمہؓ

  20. جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے
    اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام
    سیدّہ زاہرہ طیبہ طاہرہ
    جانِ احمدؐ کی راحت پہ لاکھوں سلام

  21. حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا۔ جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔ (جامع الاسرار)

  22. سیدّہ فاطمہؓ نے جس طرح اپنی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا اسی طرح اپنی باطنی حیاتِ مبارکہ میں بھی آپؓ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتیں اورجو کوئی آپؓ سے فقرکا سوال کرتاہے وہ کبھی مایوس نہیں لوٹتا

  23. سیدّہ فاطمتہ الزہراؓ کائنات کی عظیم ترین ہستی،باعثِ فخرِ موجودات محبوبِ الٰہی خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کی غمگسار عزیز از جان زوجہ محترمہ حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی شہزادی ہیں۔

  24. شمع منیر قصر طہارت ہے فاطمہؓ
    سرمایہ فروغ امامت ہے فاطمہؓ
    ختم رسلؐ کا اجر رسالت ہے فاطمہؓ
    قرآن ہے رسولؐ تو آیت ہے فاطمہؓ

  25. آپ رضی اللہ عنہا فقر کی پہلی سلطان ہیں۔

  26. نہایت عمدہ۔ اس سے پہلے کبھی اتنا معلوماتی اور خوبصورت کالم نہیں پڑھا۔

  27. بے شک فقر آپ رضہ اللہ تعالی عنہا کا تاج ہے

  28. اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
    حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’ اے فاطمہؓ !کیا تم نہیں چاہتیں کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں، میری اس اْمت کی تمام عورتوں اور مومنین کی تمام عورتوں کی سردار ہو!‘‘ (نسائی۔ حاکم)

  29. حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    آسمان کے ایک فرشتے نے میری زیارت نہیں کی تھی، پس اُس نے اللہ تعالیٰ سے میری زیارت کی اجازت لی اور اْس نے مجھے خوشخبری سنائی کہ فاطمہؓ میری اُمت کی تمام عورتوں کی سردار ہے۔ (بخاری۔ طبرانی)

اپنا تبصرہ بھیجیں