قرآن کی عالمگیریت (دینِ مسیح کی درست تعلیمات قرآن کی روشنی میں)
Quran Ki Alamgiryat
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری۔ لاہور
حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک جتنے بھی انبیاکرام دنیا میں تشریف لائے سب کا مقصد ’’دینِ حق ‘‘کی تبلیغ و اشاعت تھا۔ دینِ حق کی تبلیغ کے باوجود سابقہ اُمتوں کا یہ شیوہ رہا کہ وہ اپنے نبی کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کی تعلیمات کو بھلا دیتے اور جو الہامی کتب ان کی اصلا ح کے لیے نازل کی جاتی تھیں، ان میں ملاوٹ کا عنصر شامل کر دیتے یعنی تعلیمات میں ردّ و بدل کر دیتے ۔اس لیے سوائے قرآنِ مجید کے جتنی بھی الہامی کتب انبیا کرامؑ پر نازل کی گئیں وہ درست اور صحیح حالت میں موجود نہیں رہیں۔ قرآنِ کریم اس قسم کی تحریفات سے پاک ہے کیونکہ اس کی حفاظت کاذمہ اللہ پاک نے خود لیا ہے۔ سورۃ الحجر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (سورۃالحجر۔9)
ترجمہ: بے شک یہ ذکرِعظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
دیگر الہامی کتب کی تصدیق کے لیے اگر کوئی اٹل ثبوت کہیں سے ملتا ہے تو وہ صرف قرآنِ مجیدہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے(اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر)اتاری ہے (حالانکہ )یہ اس کی(اصلاً) تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو اور میری آیتوں کو(دنیا کی) تھوڑی سی قیمت پرفروخت نہ کرو اور مجھ سے ہی ڈرتے رہو۔ (سورۃالبقرہ۔41)
سورۃ النساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اے اہلِ کتاب! اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جو ہم نے (اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر) اتاری ہے جو اس کتاب کی(اصلاً) تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے ۔ (سورۃ النساء ۔47)
سورۃ فاطر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اور جو کتاب (قرآن) ہم نے آپ کی طرف وحی فرمائی ہے، وہی حق ہے اور اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، بے شک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے پوری طرح با خبرہے اور خوب دیکھنے والا ہے۔ (سورۃ فاطر ۔31)
دینِ مسیح قرآن کی روشنی میں
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا اور ان پر الہامی کتاب ’’انجیل‘‘ نازل فرمائی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا تعلیماتِ عیسیٰؑ کے متعلق جتنی بھی مستندتحقیق ہے وہ ہمیں قرآنِ کریم سے ملتی ہے ۔ عیسائی مذہب کی تصویر جو آج مقبول اور رائج ہے درحقیقت اس کاالہامی کتاب’’انجیل ‘‘سے کوئی واسطہ نہیں۔ دینِ مسیح میں غلط عقائد اور روایات کو شامل کر لیا گیا ہے جو کہ صریح گمراہی اور کفر کا باعث ہے ۔ موجودہ ’’عیسائی مذہب ‘‘ میں رائج چند غلط عقائد کو قارئین کے لیے پیش کیا جا رہاہے اور ساتھ ساتھ ان عقائد کے متعلق قرآنِ حکیم فرقانِ حمید کس طرح دلائل پیش کرتا ہے، اس کے متعلق بھی بیان کیا جا رہا ہے۔
موجودہ عیسائی مذہب کے بنیادی عقائد
۱۔ عقیدہ تثلیث
عیسائی مذہب میں خدا تین اقانیم (persons) سے مرکب ہے : باپ،بیٹا اور روح القدس۔
اِسی کو عقیدہ تثلیث (Trinitarian Doctrine) کہا جاتا ہے لیکن عیسائی علما میں اس قدر اختلاف پایا جاتاہے کہ علما اس امر کا تعین نہیں کر پائے کہ تین اقانیم سے مراد کون سی ہستیاں ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ باپ، بیٹے اور روح القدس کے مجموعے کا نام خدا ہے جبکہ بعض کے نزدیک خدا ’’باپ، بیٹے اور کنواری مریم‘‘ کے مجموعے کا نام ہے۔ تصنیف ’’یہودیت، عیسائیت اور اسلام‘‘ میں اس کے متعلق بیان ہواہے :
خدا کی ذات جسے باپ کہتے ہیں ۔ خدا کی صفتِ کلام جسے بیٹا کہا جاتاہے۔ خدا کی صفتِ حیات و محبت جسے روح القدس کہا جاتا ہے۔(یہودیت ، عیسائیت اور اسلام)
قرآنِ کریم نے اس نظریہ کی تردید کی ہے ۔ سورۃالنساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اے اہلِ کتاب !تم اپنے دین میں حد سے زائدنہ بڑھواور اللہ کی شان میں سچ کے سوا کچھ نہ کہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسیح عیسیٰ ابنِ مریم اللہ تعالیٰ کا رسول اور اس کا کلمہ ہے جسے اس نے مریم (علیہا السلام)کی طرف پہنچادیا اور اس (کی طرف )سے ایک روح ہے۔ پس تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور مت کہو کہ (معبود) تین ہیں، (اس عقیدہ سے) باز آ جاؤ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔بے شک اللہ ہی یکتا معبود ہے، وہ اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی اولاد ہو، (سب کچھ)اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ، اور اللہ کا کارساز ہونا کافی ہے۔ (سورۃ النساء ۔171)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ہمیشہ خود کو اللہ کا بندہ کہا۔اس حوالے سے عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث غلط اور باطل ثابت ہوتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
مسیح (علیہ السلام ) اس (بات) سے ہر گز عار نہیں رکھتا کہ وہ اللہ کا بندہ ہو اور نہ ہی مقرب فرشتوں کو (اس سے کوئی عار ہے )،اور جو کوئی اس کی بندگی سے عار محسوس کرے اور تکبر کرے تو وہ ایسے تمام لوگوں کو عنقریب اپنے پاس جمع فرمائے گا۔ (سورۃ النساء ۔172)
جتنے بھی پیغمبر گزرے ہیں سب نے توحید کا ہی پیغام دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی واحد اللہ کی عبادت کی تبلیغ کی اور لوگوں کو شرک کرنے سے منع فرمایا ۔’’تین خداؤں ‘‘ کا نظریہ لوگوں کا اپنا ایجاد کردہ ہے ۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
اور بے شک اللہ میرا(بھی)ربّ ہے اور تمہارا (بھی) ربّ ہے سو تم اسی کی عبادت کیاکرو ، یہی سیدھا راستہ ہے ۔ (سورۃ مریم ۔36)
میں نے انہیں سوائے اس (بات) کے کچھ نہیں کہاتھاجس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ تم (صرف) اللہ کی عبادت کیا کرو جو میرا (بھی) ربّ ہے اور تمہارا (بھی) ربّ ہے، اور میں ان (کے عقائد و اعمال) پر (اس وقت تک) خبردار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا ۔ پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو توُ ہی ان (کے حالات)پر نگہبان تھا ،اور تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔(سورۃ المائدہ۔117)
ایک اور جگہ قرآنِ کریم میں’’عقیدہ تثلیث ‘‘ کوواضح انداز میں ر دّ کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اور جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا’’ اے عیسیٰ ابنِ مریم!کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنا لو؟ ‘‘ وہ عرض کریں گے ’’تو پاک ہے، میرے لیے یہ (روا) نہیں کہ میں ایسی بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو یقینا تو اسے جانتا۔ تو ہر اس بات کو جانتاہے جو میرے دل میں ہے اور میں ان (باتوں)کو نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہیں۔ بیشک تو ہی غیب کی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (سورۃ النسائ۔116)
۲۔ عقیدہ صلیب :
عقیدہ تثلیث کی طرح عیسائیوں میں ایک اور غلط نظریہ پایا جاتاہے وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت صلیب پر واقع ہوئی تھی۔اور جب موت واقع ہوگئی تو ان کو دفن کیا گیا اور پھر تین دن کے بعد وہ زندہ ہو کر حواریوں کو نظر آئے، ان کو کچھ ہدایات دیں اور پھر دنیا سے چلے گئے ۔ (عیسائیت کے باطل عقیدے )
جبکہ اہلِ حق کے لیے قرآنِ کریم نے درست واقعہ یوں بیان فرمایا ہے ،قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اور ان کے اس کہنے (یعنی فخریہ دعویٰ) کی وجہ سے (بھی)کہ ہم نے اللہ کے رسول ، مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو قتل کر ڈالاہے، حالانکہ انہوں نے نہ ان کو قتل کیا اور نہ انہیں سولی چڑھایا بلکہ (ہوا یہ کہ) ان کے لیے (کسی کو عیسیٰ علیہ السلام کا) ہم شکل بنا دیا گیا، اور بے شک جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کررہے ہیں وہ یقینا اس (قتل کے حوالے) سے شک میں پڑے ہوئے ہیں، انہیں(حقیقتِ حال کا)کچھ بھی علم نہیں مگر یہ گمان کی پیروی (کر رہے ہیں)، اور انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام)کویقیناقتل نہیں کیا ۔ (سورۃ النساء ۔ 157)
بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف(آسمان پر) اُٹھا لیا اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ (سورۃ النساء ۔ 158)
سورۃآلِ عمران میں بیان ہوا ہے:
جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! بیشک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تم سب کو میری ہی طرف لوٹنا ہے، سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کردوں گا۔ (سورۃ آلِ عمران۔55)
قرآنِ کریم میں یہ واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا تھابلکہ احادیث مبارکہ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے ایک بار پھر دنیا میں تشریف لائیں گے ۔
حدیثِ مبارکہ ہے :
رسول اللہؐ نے فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا جب ابنِ مریم ( عیسی علیہ السلام ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔ (صحیح بخاری 2222)
حضرت عیسیٰؑ کا آسمانوں پر اٹھائے جانے کا ذکر
عیسائیوں میں چار انجیلیں مشہورہیں (متی، مرقس، لوقا، یوحنا)ا ور اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ کو دیکھا جائے تو کسی بھی ایک انجیل کا بیان دوسری انجیل سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عیسائی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انجیلیں اللہ تعالیٰ ہی کے الفاظ ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی کیے گئے تھے، اگر یہ صحیح ہے تو پھر ایک انجیل کے الفاظ دوسری انجیل سے کیوں مختلف ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے الفاظ میں تضاد ہو۔ حقیقت میں صلیب کا واقعہ ہی غلط ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو آسمانوں پر اٹھا کر صلیب سے بچا لیا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمانوں پر اٹھائے جانے کا واقعہ صرف ایک انجیل میں ملتا ہے اور وہ ’’انجیل برنباس ‘‘ہے جسے یہ عیسائی حضرات مانتے ہی نہیں۔(عیسائیت کیاہے، عیسائیت کے باطل عقائد کی حقیقت قرآن اور بائبل کی روشنی میں)
انجیل برنباس میں اس واقعہ کے متعلق لکھا ہے :
پس جبکہ اللہ نے اپنے بندہ کو خطرہ میں دیکھا اپنے سفیروں جبریل اور میخائیل اور رفائیل اور اوریل کو حکم دیا کہ یسوع کو دنیا سے لے لیویں۔ (انجیل برنباس ، صفحہ نمبر ۴۲۲)
اور اسی اثنا میں کہ وہ یہ بات کہہ رہا تھا سپاہی داخل ہوئے اور انہوں نے اپنے ہاتھ یہودا پر ڈال دئیے اس لیے کہ وہ ہر ایک وجہ سے یسوع کے مشابہ تھا۔ (انجیل بربناس ، صفحہ نمبر ۴۲۳)
۳۔ عقیدہ کفارہ :
عیسائی مذہب میں اس عقیدے کا مطلب ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا تو ان کو ہر طرح سے آزاد رکھا گیا اور کہا گیا تھا کہ جنت میں اپنی مرضی سے جو چاہے کھاؤ لیکن اس ایک خاص درخت کے نزدیک نہ جانا، نہ ہی اس کا پھل کھانا۔ اب آدم علیہ السلام کو شیطان نے بہکایا اور جس درخت کے نزدیک جانے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا اسی کا پھل کھا لیا اور ایک عظیم گناہ کے مرتکب ہوئے، اسی گناہ کو عیسائی ’’اصلی گناہ ‘‘ Original Sinکہتے ہیں۔ اس عظیم گناہ کے دو اثرات مرتب ہوئے: پہلا حضرت آدمؑ دائمی عذاب میں مبتلا ہوئے اور دوسرا جب حضرت آدمؑ نے اللہ پاک کی حکم عدولی کی تو ان کی قوتِ ارادی بھی ختم ہو گئی۔ لہٰذا وہ گنا ہ کرنے کے لیے تو آزاد ہیں مگر نیکی کے لیے آزاد نہیں ہیں۔ حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کے بعد جتنے بھی انسان پیدا ہوئے یا ہوں گے وہ سب چونکہ انہی کے صلب سے پیدا ہوئے تھے اس لیے یہ اصلی گناہ سب انسانوں میں منتقل ہو گیا۔ گو اب جو بھی انسان پیدا ہوتاہے وہ ماں کے پیٹ سے گناہ گار ہی پیدا ہوتا ہے ۔
یسوع مسیح کی قربانی :
عقیدہ کفارہ موجودہ عیسائیت کی عمارت کا بنیادی پتھرہے ۔ اس کے لفظی معنی ڈھانکنے اور چھپانے کے ہیں ۔ اصطلاح میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ یسوع مسیح نے صلیب پر جان دے کر تمام بنی آدم کے گناہوں کو چھپا لیا ہے اور ان کی نجات کا موجب بن گئے ہیں۔ یسوع مسیح نے صلیب پر جان دے کر انسانیت پر سے عظیم گناہ کا بوجھ اٹھا لیا ۔ (یہودیت ، عیسائیت اور اسلام )
اس عقیدے کی تشریح انسائیکلو پیڈیا برٹا نیکا میں ’’عقیدہ کفارہ ‘‘ کے ضمن میں یوں آئی ہے :
عیسائی عقائد میں کفارہ سے مراد یسوع کی وہ قربانی ہے جس کے ذریعہ سے ایک گنہگار انسان یک لخت خدا کی رحمت کے قریب ہو جاتاہے ۔اس عقیدے کی پشت پر دو مفروضے کار فرما ہیں’’ ایک تو یہ کہ آدم کے گناہ کی وجہ سے انسان خدا کی رحمت سے دور ہو گیا تھا۔ دوسرا یہ کہ انسان کی صفتِ کلام (بیٹا) اس لیے انسانی جسم میں آئی تھی کہ وہ انسان کو دوبارہ خدا کی رحمت سے قریب کر دے ۔‘‘
حضرت آدمؑ اور حواؑ کا درست واقعہ قرآن کی روشنی میں
یہ بات تو درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو جنت میں شجر ممنوعہ کا پھل کھانے سے منع فرمایالیکن انہوں نے شیطان کے بہکاوے میں آکر وہ پھل کھا لیا جس کے نتیجہ میں اللہ نے انہیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے اس عمل پر بہت پشیمانی ہوئی اور انہوں نے اللہ سے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا۔ قرآنِ کریم میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے :
اور ہم نے حکم دیا: اے آدم! تم اور تمہاری بیوی اس جنت میں رہائش رکھو، تم دونوں اس میں سے جو چاہوجہاں سے چاہوکھاؤ،مگر اس درخت کے قریب نہ جاناورنہ حد سے بڑھنے والوں میں (شامل) ہو جاؤ گے۔ پھر شیطان نے انہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اس (راحت کے) مقام سے جہاں وہ تھے الگ کر دیا اور (بالآخر) ہم نے حکم دیا کہ تم نیچے اُترجاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب تمہارے لیے زمین میں ہی معینہ مدت تک جائے قرار ہے اور نفع اٹھانا مقدر کر دیا گیاہے ۔ (سورۃ البقرہ۔35-36)
پھرآدم( علیہ السلام)نے اپنے ربّ سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لیے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی، بیشک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے ۔ (سورۃ البقرہ۔38)
قرآنِ کریم کی اس آیت سے واضح ہوتاہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ سے توبہ کی اور اللہ نے ان کی تو بہ قبول فر مائی اور انہیں معاف فرمایا۔ درحقیقت عقیدۂ کفارہ کا تمام واقعہ عیسائیوں کا خود ساختہ ہے۔ اللہ پاک کی ذات تو غفور الرّحیم ہے۔ سچے دل سے کی گئی توبہ اللہ پاک ضرور قبول فرماتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کے حضورجو دعاکی وہ یہ ہے :
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاپ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ( سورۃ الاعراف۔23)
ترجمہ: دونوں نے عرض کیا:اے ہمارے ربّ ! ہم نے اپنی جانوں پرزیادتی کی ہے ، اور اگر تو نے ہمیں بخش نہ دیااور ہم پر رحم( نہ) فرمایا توہم یقینانقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔
اب رہی بات یہ کہ انسان نیکی یا گناہ کرنے کے لیے آزاد ہے یا نہیں تو انسان کو اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ وہ جو مرضی راستہ اختیار کرے چاہے تو نیک اعمال کر کے جنت کو پا لے یا گناہ کا راستہ اپنا کر جہنم کی آگ اپنے حصہ میں لکھوا لے۔ اللہ پاک نے انسان کو فیصلہ کرنے کی آزادی دی ہے۔ سورۃالنجم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا ہے جس کی اس نے کوشش کی ہوگی (رہا فضل اس پر کسی کا کوئی حق نہیں وہ محض اللہ کی عطا ورضاہے جس پر جتنا چاہے کردے)۔اور یہ کہ بیشک اس کی ہر کوشش عنقریب دکھادی جائے گی۔ پھر اسے (اس کی ہر کوشش کا) پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ (سورۃ النجم۔39-41)
حضورؐ کی نبوت کی عالمگیریت
اگر عیسائی مذہب کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے اور قرآن اس کی تصدیق کرتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے صرف اور صرف بنی اسرائیل کے لیے نبی بنا کر بھیجا تھا۔ بلکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمیت جتنے بھی انبیا کرام گزرے ہیں سب نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آخری نبی کے طور پر دنیا میں تشریف لانے کی خوشخبریاں دی ہیں ۔
قارئین کے لیے یہاں چند حوالہ جات پیش کیے جا رہے ہیں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا جب تک میں اس دنیا سے نہیں جاؤں گا تسکین و سکون دینے والا نہیں آئے گا اور جب میں جاؤں گا تو اس کو بھیجوں گا اور جب وہ اس دنیا میں آئے گا گناہوں کے بارے میں تنبیہ کرے گا، سیدھے راستہ پر چلائے گا اور انصاف کرے گا۔ (یوحنا ۱۲:۷۔۸)
یہاں تسکین دینے والے سے مراد حضرت محمدؐ ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی تشریف لائے ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا’’میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کے لیے ایک تسکین دینے والا بھیجے جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے۔‘‘ (یوحنا۔ ۱۴۔ ۱۳)
یہ پیشن گوئی بھی صرف حضرت محمدؐ پر ہی صادق آتی ہے کیونکہ آپؐ ہی بطورنبی آخر الزماں عالمگیر پیغام کے ساتھ تشریف لائے ۔ آپؐ کی نبوت اور قرآن کا پیغام دائمی ہے ۔
انجیل برنباس میں بڑے واضح طور پر آپؐ کی تشریف آوری کے متعلق آگاہ کیا گیا ہے :
یسوع نے جواب دیا’ ’حق یہ ہے کہ اللہ نے ایسا ہی وعدہ کیا ہے مگر میں وہ نہیں ہوں۔ اس لیے کہ وہ مجھ سے پہلے پیدا کیا گیا اور میرے بعد آئے گا۔‘‘ ( انجیل برنباس ، صفحہ نمبر ۲۵۸)
وہ ہی کہ جنوب سے قوت کے ساتھ آئے گا اور بتوں اور بتوں کی پوجا کرنے والوں کو ہلاک کرے گا۔ (انجیل برنباس ، صفحہ نمبر ۲۵۹)
مگر میری تسلی اس رسول کے آنے میں ہے جو کہ میرے بارے میں ہر جھوٹے خیال کو محو کر دے گااور اس کا دین پھیلے گااور تمام دنیا میں عام ہو جائے گا کیونکہ اللہ نے ہمارے باپ ابراہیمؑ سے یوں ہی وعدہ کیا ہے ۔ (انجیل برنباس ، صفحہ نمبر ۲۵۹)
ان تمام پشین گوئیوں سے صاف ظاہر ہے کہ یہاں رسول سے مراد خاتم النبیین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جتنے بھی پیغمبر مبعوث فرمائے سب کسی نہ کسی اُمت کے لیے مخصوص تھے اور ان کی نبوت وقتی تھی جبکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت تمام بنی نوع انسانوں کے لیے اور دائمی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاتم الانبیا یعنی سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی ہیں۔ آپؐ کی نبوت اور آپ ؐ پر نازل کی گئی کتاب ’’قرآنِ مجید ‘‘ پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے دینِ اسلام ہی اصل دین اور ذریعۂ نجات ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اور (اے حبیبِ مکرم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوشخبری سنانے والے اور ڈرسنانے والے ہیں لیکن اکثرلوگ نہیں جانتے ۔ (سورۃ السبا۔28)
اسلام کا پیغام عالمگیر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تمام انسانیت کے لیے ہے ۔ آپ ؐ تمام شریعتوں کی تکمیل کے لیے آئے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یہ قرآن جملہ جہان والوں کے لیے نصیحت ہی توہے۔ (سورۃ یوسف۔104)
حدیثِ مبارکہ ہے :
ہر نبی اپنی خاص قوم کی طرف بھیجا گیا تھا مگر میں تمام سرخ اور سیاہ سب قوموں کی طرف بھیجاگیا ہوں ۔(مسلم1163)
حاصل تحریر
قرآن اپنے اندر اسرار و رموز کے بیش بہا موتی سمیٹے ہوئے ہے اور اہلِ حق کو ہدایت اور درست راہ دکھانے کا موجب ہے ۔ قرآن کے آفاقی پیغام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کسی ایسے رہنما کی صحبت اختیار کی جائے جو نہ صرف قرآن کے ظاہری بلکہ باطنی پہلو کو واضح کرے۔ دینِ اسلام کی حقیقت کوعالمگیر دین کے طور پر قلب پر روشن کرے اور اس دنیا میں آنے کے حقیقی مقصد سے واقف کرے۔ موجودہ دور میں ایسے کامل رہنما سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ ہر وہ طالب جو دینِ حق کی تلاش میں ہے وہ آپ مدظلہ الاقدس کے در سے وابستہ ہو کر اپنی مراد پا سکتا ہے۔
استفادہ کتب:
عیسائیت کے باطل عقائد وں کی حقیقت قرآن اور بائبل کی روشنی میں : محمد ایوب عباسی
عیسائیت کیا ہے ؟ : مولانا محمد تقی عثمانی
یہودیت ،عیسائیت اور اسلام : شیخ احمد دیداتؒ
انجیل برناباس ۔ترجمہ: مولانا محمد حلیم انصاری صاحبؒ
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (سورۃالحجر۔9)
ترجمہ: بے شک یہ ذکرِعظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔
Behtreen mazmoon
Very beautiful ❤️ and informative article
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یہ قرآن جملہ جہان والوں کے لیے نصیحت ہی توہے۔ (سورۃ یوسف۔104)
قرآن اپنے اندر اسرار و رموز کے بیش بہا موتی سمیٹے ہوئے ہے اور اہلِ حق کو ہدایت اور درست راہ دکھانے کا موجب ہے ۔
This is very informative article 👌
Very interesting article
بہت معلوماتی مضمون ہے
سورۃ النساء میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
اے اہلِ کتاب! اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جو ہم نے (اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر) اتاری ہے جو اس کتاب کی(اصلاً) تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے ۔ (سورۃ النسائ۔47)
اسلام کا پیغام عالمگیر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تمام انسانیت کے لیے ہے ۔
This is very informative article
اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (سورۃالحجر۔9)
ترجمہ: بے شک یہ ذکرِعظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناہم ہی اس کی حفاظت کریں گے
اسلام کا پیغام عالمگیر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت تمام انسانیت کے لیے ہے ۔ آپ ؐ تمام شریعتوں کی تکمیل کے لیے آئے ۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یہ قرآن جملہ جہان والوں کے لیے نصیحت ہی توہے۔ (سورۃ یوسف۔104)
بہترین آرٹیکل
Behtreen article