کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


Rate this post

کلید التوحید (کلاں)  Kaleed ul Tauheed Kalan  

قسط نمبر21                                                               مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

ابیات:

بخلوت دل گزیں دل زندہ جانی
جسم اینجا است جان در لامکانی

ترجمہ: جب دل (غیر اللہ سے منہ موڑ کر) خلوت گزین ہوتا ہے تو یہ زندہ ہو جاتا ہے تب طالب کا جسم اس دنیا میں اور روح لامکان میں ہوتی ہے۔

چرا دفتر سیاہی خویش کردی
ز بد گفتن چرا تو کفر ورزی

ترجمہ: تو فضول گوئی اور کفر کے باعث اپنے نامہ اعمال کو خود ہی سیاہ کیوں کرتا ہے؟

خموشی بذکر خوش حق پسندی
چرا در دنیا دون تو دل ببندی

ترجمہ: تیرا خاموشی میں ذکرِ اللہ میں مشغول رہنا حق تعالیٰ کو پسند ہے تو کمینی دنیا میں کیوں دل لگاتا ہے؟

بہر سخنی بگو باذکر پاکی
بسوزند حاسداں ذاکر چہ باکی

ترجمہ: تو اپنے ہر کلام کو ذکرِ اللہ سے معمور رکھ۔ حاسدوں کے جلنے سے ذاکر کو کیا ڈر۔

اگر توُ ترتیب سے کلمہ طیبلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھے تو جس وقت تو پتھر یا مٹی یا دیوار پر نظر کرے گا تو اس نظر کی برکت سے وہ سونا و چاندی میں بدل جائیں گے۔ 

بیت:

سیمابش چہ حاجت نظر زر کند
ز اطلس و حریر مرا بہ نمد

ترجمہ: جب نظر سے سونا بنایا جا سکتا ہو تو پارہ مارنے کی کیا ضرورت؟ میرا معمولی لباس سونے اور ریشم کے لباس سے بہتر ہے۔  

کیونکہ وہ ظاہر باطن میں فقر کے سلک سلوک کو جاننے اور پہچاننے میں مدد کرتا ہے۔ یہ کتاب مبتدی اور منتہی دونوں کے لیے کامل ہے۔ اگر عالم فاضل صاحبِ تفسیر اس کتاب کو پڑھے گا تو اسے اس کتاب سے چار علوم حاصل ہوں گے علمِ کیمیا اکسیر، علمِ دعوت تکثیر، ذکرِ اللہ سے روشن ضمیری کا علم اور علمِ استغراق جو اپنی تاثیر سے صاحبِ دیدار اور نفس پر حکمران بنا دیتا ہے۔ یہ کتاب صدیق مریدین، صاحبِ تصدیق طالبان، صاحبِ تحقیق عارفین، حق کے رفیق واصلین، باتوفیق علما اور فنا فی اللہ فقرا جو وحدانیت کے عمیق سمندر میں مستغرق ہوں‘ سب کے لیے ایک کسوٹی ہے۔ اس کتاب سے اگر کوئی اسمِ اعظم اور بغیر کسی تکلیف کے گنج نہیں حاصل کر پاتا تو اس کا وبال اس کی اپنی گردن پر ہو گا۔ تصرفِ دینی و دنیوی یا ایسا کوئی عظیم و کامل تصرف کسی نے بھی کسی دوسری جگہ سے نہیں پایا کیونکہ اس کی خاطر لوگ جان بلب ہو کر مردہ ہو گئے لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ یہ عوام کا تصرف ہے۔ جسے عقل و شعور اور دانشمندی حاصل ہو وہ اس کتاب سے ان تصرفات کو پا سکتا ہے کیونکہ یہ کتاب اللہ کے حکم و منظوری، اس کی نظرِ رحمت اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اجازت سے حضوری میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کا ہر حرف حضوری اور مشاہدۂ حق عطا کرتا ہے اور اس کتاب کی ہر سطر اسمِ اللہ ذات، آیاتِ قرآن و حدیث، تفسیر اور شریعتِ محمدی کی برکت سے اسرار اور نورِ ذاتِ حق کی تجلیات کا مشاہدہ کھولتی ہے اور اس کتاب کو پڑھنے والا باطل سے دور ہو جاتا ہے اور عین بعین ذات کو پا لیتا ہے اور پھر غرق فنا فی اللہ ہو کر حق سے واصل ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ ناقص مرشد ظاہری اعمال، ریاضت، اطاعت اور نوافل میں مشغول رکھتا ہے جبکہ ظاہری عبادات و ریاضت کا مقصد رات دن اللہ تعالیٰ کے باطنی دشمنوں، کافروں یعنی نفس و شیطان سے جنگ کرنا ہے۔ جب آدمی ظاہری عبادت و ریاضت میں مشغول ہوتا ہے تو نفس و شیطان دونوں اس پر ہنستے ہیں کہ ہم تو اسے وسوسہ و خطرات، حبِ دنیا، طمع و حرص، حسد و نفاق اور تکبر و خواہشاتِ نفس کے ذریعے خراب کر دیں گے۔ 

ابیات:

دزدِ ایمان نفس اندر جان تو
دشمنِ غالب چہ علاج است او

ترجمہ: تیرے ایمان کا چور نفس تیرے اندر ہی موجود ہے تو تیرے اس غالب دشمن کا علاج کیا ہے؟

با تیغِ ذکر و تیرِ فکر و کار زار
نفس کافر قتل کن با ذوالفقار

ترجمہ: ذکر کی تلوار اور فکر کے تیر سے اس کے ساتھ جنگ کر اور ذوالفقار سے کافر نفس کو قتل کر دے۔

شیطان ہم غائب بگردی راہزن
از دشمنی او کس نیاید در امن

ترجمہ: شیطان بھی ایک پوشیدہ راہزن ہے اور اس کی دشمنی سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔

ہر یکی دشمن بود علاج این
غرق شو فی اللہ فنا حق الیقین

ترجمہ: ہر دشمن (یعنی نفس و شیطان) کا علاج یہی ہے کہ حق الیقین سے فنا فی اللہ ہو جاؤ۔

ایں ہمہ یاری بود از کردگار
ایں مراتب عارفان است شہسوار

ترجمہ: یہ (نفس و شیطان کے خلاف جنگ) محض اللہ کی مدد سے ممکن ہے۔ یہ عارفین کے مراتب ہیں جو شاہسوار ہیں (یعنی نفس و شیطان کو قابو میں رکھتے ہیں)۔ 

مصنف قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ میں غلط نہیں کہتا کہ ایسی جنگ ہیجڑوں اور نامردوں کا کام ہے اور نہایت آسان ہے۔ مردانِ خدا اور مردِ غازی نفس و شیطان کے خلاف ایسی جنگ لڑتے ہیں جو کہ نہایت مشکل، سخت اور دشوار کام ہے اور وہ تصور اسمِ اللہ ذات کی تلوار سے ایک ہی بار میں نفس کو قتل کر دیتے ہیں اور روح کو غرق فنا فی اللہ کے مرتبہ سے نواز دیتے ہیں اور شیطان کو خود سے دور بھگا دیتے ہیں اور لامکان میں پہنچ کر توحید میں غرق ہو جاتے ہیں اور مراتبِ بقا باللہ حاصل کر لیتے ہیں۔ تب نفس نور بن جاتا ہے اور شیطان کے لیے ممکن نہیں کہ توحید میں غرق ہو کر لامکان میں پہنچے۔ جو تصور اسمِ اللہ ذات کی تلوار سے اغیار کا سر اڑا کر ابتدا میں ہی ان مراتب تک پہنچ جائے وہ اس جنگ سے امن پا لیتا ہے۔ یعنی استقامت بہتر ہے کرامت اور مقامت سے۔ تصور اسمِ اللہ ذات لازوال ہے جو صاحبِ غرق کو ایسا نوازتا ہے کہ اس کا وجود اِس جہان میں ہوتا ہے اور وہ عوام سے ہم کلام ہوتا ہے لیکن باطن میں وہ اُس جہان میں ہوتا ہے اور نورِ معرفت میں مکمل غرق رہتا ہے۔ یہ مرشد کامل صاحبِ توفیق کی عطا اور اللہ کا فیض و فضل ہے۔ اللہ ہر کسی کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللّٰہِ  (سورۃ ھود۔88)
ترجمہ: اور میری توفیق اللہ ہی (کی مدد) سے ہے۔ 

ایسے عارف فقیر کو معرفتِ الٰہی کا عالم فاضل اور فیض بخش کہتے ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (سورۃ الحجرات۔13)
ترجمہ: بے شک اللہ کے نزدیک عزت والا وہی ہے جو تم میں زیادہ متقی ہے۔

اس کی توفیق بھی اللہ کے فیض و فضل کی عطا ہے۔ ان تمام مراتب کو مجموعۃ الحسنات بھی کہتے ہیں۔ تمام صاحبِ ابرار کے مراتب مل کر بھی مقربِ حق اور فنا فی اللہ فقیر کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
حَسَنٰتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ 
ترجمہ: نیکوکاروں کی نیکیاں مقربین کے نزدیک گناہ ہیں۔

جان لو کہ عالم فاضل صاحبِ فقہ و نص و حدیث اور تفسیر کے مراتب‘ صاحبِ ورد و وظائف اور صاحبِ ذکر، فکر اور تاثیر کے مراتب سے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں کیے جانے والے فکر کی بدولت دل میں محبتِ الٰہی بڑھتی ہے اور حق تعالیٰ کے احسانات میں تفکر کرنے سے دل میں حیا بڑھتی ہے۔ اللہ کے وعدوں اور وعید میں تفکر کرنے سے دل میں خوفِ الٰہی بڑھتا ہے۔ حق تعالیٰ کی معرفت میں تفکر کرنے سے دل میں نورِ توحیدِ الٰہی بڑھتا ہے۔ علم اور تلاوتِ قرآنِ مجید میں تفکر کرنے سے دل میں اعمالِ صالحہ کا شوق بڑھتا ہے۔ دنیا میں تفکر کرنے سے دل میں سیاہی جمع ہو جاتی ہے اور شیطانی منصوبہ بندی بڑھتی ہے۔ اس جہان میں دنیا اور اہلِ دنیا سے بدتر کوئی نہیں۔ وہ سب عجیب اور احمق ہیں جو اس بدتر دنیا کو اللہ کے نام، دینِ محمدی اور فقرِ محمدی سے بہتر سمجھتے ہیں۔ وہی شخص مومن و مسلمان ہے جو حق تعالیٰ کو اس کی قدرت کی بدولت غالب اور حاضر جاننے کا دائمی فرضِ عظیم ادا کرتا ہے۔ اور یہ فرض تمام فرائض سے عظیم تر ہے۔ اور تمام سنتوں سے عظیم تر سنتِ محمدیؐ یہ ہے کہ گھر بار اللہ کی راہ میں صرَف کر دیا جائے تاکہ یہ عظیم و بزرگ سنت ادا ہو جائے۔ اس فرض و سنت کو اہلِ اللہ ہی ادا کرتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ تَسْبِیْحِ الْمُقَرَّبِیْنَ 
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کو گناہ گاروں کی آہ و زاری مقربین کی تسبیح سے زیادہ محبوب ہے۔

جو مردہ دل رکھنے والے دنیا داروں سے جدائی اختیار کرتا ہے اس کا دل پاکیزہ ہو جاتا ہے اور نفس مکمل طور پر مر جاتا ہے۔ یہ نفس کا مرنا اور قتل ہونا یوں قرار پاتا ہے کہ وہ شرک، کفر، تکبر، خواہشاتِ نفس اور بدخصلتوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ نفس کی موت سے مراد یہ ہے کہ نیک اعمال کی بدولت نفس کا تزکیہ ہو گیا اور وہ لذاتِ دنیا اور مجلسِ اہلِ دنیا سے تائب ہو گیا۔ اور پھر باصفا قلوب اور مقدس ارواح سے اُنس رکھا اور اللہ کی عبادت یعنی معرفتِ الٰہی میں مشغول رہا اور آخر نفسِ مطمئنہ کا مرتبہ پا لیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا قَوْسٌ وَ حَوَادِثُھَا سِہَامٌ فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ حَتّٰی نَجَاتُ النَّاسِ 
ترجمہ: دنیا ایک کمان (کی مثل) ہے اور اس کے حادثات تیر (کی مثل) ہیں۔ پس اللہ کی طرف دوڑو کہ اسی میں لوگوں کی نجات ہے۔
اَلدُّنْیَا حَوْضٌ وَ الْاِنْسَانُ فِیْہِ حُوْتٌ وَ الْمَرْضِ شَکْبَۃٌ وَ الْاَجَلِ صَیَّادٌ 
ترجمہ: دنیا ایک حوض (کی مثل) ہے اور انسان اس میں مچھلی (کی مثل) ہے۔ بیماری جال (کی مثل) ہے اور موت شکاری (کی مثل)۔

اے عزیز! غفلت کی روئی کانوں سے نکال دو اور اس فرمان کو نظر میں رکھو:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ  (سورۃ آلِ عمران185)
ترجمہ: ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔

آخرکار تیرے اعمال ہی تیرے کام آئیں گے کیونکہ نیک اعمال ہی رفیق اور مددگار ہوتے ہیں۔ یہی توفیق حق تعالیٰ کی بارگاہ میں تیری رفیق ہوگی۔ تجھے دنیا سے جو چیز بھی لذیذ و شریں محسوس ہوتی ہے وہ جان کنی کے وقت تلخ محسوس ہوگی سوائے اللہ کے نام یَا اَللّٰہُ  اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے۔ حدیثِ قدسی ہے:
کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ کَعَابِرِ سَبِیْلٍ وَ عِدْ نَفْسَکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ 
ترجمہ: دنیا میں اس طرح رہو جیسے ایک غریب یا مسافر اور خود کو اہلِ قبور میں سے سمجھو۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
جُمُوْدُ الْعَیْنِ مِنْ قَسْوَۃِ الْقَلْبِ وَ قَسْوَۃِ الْقَلْبِ مِنْ اَکْلِ الْحَرَامِ وَ اَکْلِ الْحَرَامِ مِنْ کَثْرَۃِ الذُّنُوْبِ وَ کَثْرَۃِ الذُّنُوْبِ مِنْ طُوْلِ الْاَمَلِ وَ طُوْلِ الْاَمَلِ مِنْ نِّسْیَانِ الْمَوْتِ وَ نِسْیَانِ الْمَوْتِ مِنْ حُبِّ الدُّنْیَا وَ حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ وَ تَرْکُ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ عِبَادَۃٍ   
ترجمہ: آنکھوں کا نہ رونا دل کی سختی کی وجہ سے ہے اور دل کی سختی حرام رزق کی وجہ سے ہے اور حرام رزق گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہے اور گناہوں کی کثرت طویل امیدوں کی وجہ سے ہے اور طویل امیدیں موت کو بھول جانے کی وجہ سے ہیں اور موت کو بھول جانا حبِ دنیا کی وجہ سے ہے اور حبِ دنیا ہر برائی کی بنیاد ہے اور ترکِ دنیا ہر عبادت کی بنیاد ہے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْمَوْتُ وَ الْفِرَاقُ قَرِیْبٌ وَ لَیْسَ مُلَاقَاۃِ اِلَّا نَصِیْبٌ 
ترجمہ: موت اور جدائی قریب ہیں لیکن (اللہ سے) ملاقات نصیب کے بغیر ہرگز ممکن ہے۔

جان لو کہ جس شخص کی زبان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلام بیان کرنے سے مردہ ہو جائے اور اس کا دل حبِ دنیا اور نفاق کے باعث مر جائے اور اس کی روح غلباتِ نفس کے باعث مر جائے اور اس کا سرّ وسوسۂ خناس اور خرطوم کے موٹے پردہ کے باعث مر جائے وہ چاہے ظاہری طور پر زندہ ہو چونکہ مردار کی طلب میں ہے اس لیے کتے کے درجات کا حامل ہے۔ وہ شخص جس کی زبان نص و حدیث اور تفسیر کے علم کی بدولت زندہ ہو جائے اور اس کا قلب ذکرِ اللہ کی بدولت زندہ اور روشن ضمیر ہو اور اس کی روح زندہ اور نفس پر غالب ہو اور اس کا سرّ مشاہدئہ پروردگار کے استغراق کی بدولت زندہ ہو وہی اصل میں زندہ ہے اس کو مرنے سے کیا سروکار! ابیات:

آنروز یاد کن کہ شود جان ز تن جدا
فریاد ہیچ کس نرسد جز خدا خدا

ترجمہ: وہ دن یاد کرو جب جان جسم سے جدا ہو جائے گی اور تیری فریاد خدا کے سوا کسی تک نہ پہنچ پائے گی۔

زندہ دل ہرگز نہ میرد باھوؒ
مرگ راہبر شد مرا وصلِ خدا

ترجمہ: اے باھوؒ! زندہ دل ہرگز نہیں مرتے۔ میرے لیے موت اللہ کے وصال کی طرف راہبر ہے۔

بس خطا داریم عشرت بیشمار
کز برائی وصل طلبیدہ است یار

ترجمہ: میں بہت خطاکار تھا لیکن اب خوش ہوں کہ یار نے اپنے وصال کے لیے مجھے طلب کیا۔

جوابِ مصنف:

از مرگ من پیشتر حق یافتم
شوق حق باخود رفیقی ساختم

ترجمہ: میں نے موت سے پہلے ہی حق کو پا لیا اور اس کے لیے حق تعالیٰ کی ذات کے لیے شوق کو اپنا رفیق بنایا۔

ہر کہ از حق زندہ شد عارف خدا
مردہ و مردود نفس و سر ہوا

ترجمہ: جو حق سے وصال پا کر زندہ ہو گیا وہ عارفِ حق بن گیا اور جو نفس اور خواہشات کا طلبگار ہوا وہ مردہ اور مردود ہو گیا۔

نور نبویؐ می برد بانورِ ذات
ذات با ذاتش رسد دائم حیات

ترجمہ: حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نور مجھے ذاتِ حق تعالیٰ کے نور تک لے گیا اور میری ذات اس کی ذات میں مل گئی جس سے مجھے دائمی حیات حاصل ہو گئی۔

خلوت خانہ مرا نامش قبر
غرق در توحید نورش سربسر

ترجمہ: قبر میرے لیے خلوت خانہ کا نام ہے جس میں میں مکمل طور پر نورِ توحید میں غرق رہتا ہوں۔

کے بہ بیند سرِّ اللہ کور بین
گر دیدہ داری خوش بیا اہل از یقین

ترجمہ: آنکھوں کے اندھے اسرارِ الٰہی کو کیسے دیکھ سکتے ہیں اگر تیرے پاس دیکھنے والی آنکھ ہے تو بخوشی آ اور اہلِ یقین میں سے ہو جا۔

دنیا یک دم بود یک ساعتش
آں دمی بہتر کہ باحق طاعتش

ترجمہ: دنیا ایک گھڑی بلکہ ایک لمحے کی ہے اور وہ لمحہ بہتر ہے جو حق کی طاعت میں گزرے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا سَاعَۃٌ فَجَعَلَ فِیْہَا طَاعَۃٌ 
ترجمہ: دنیا ایک گھڑی کی ہے اور ہمیں اس میں طاعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔

بیت:

آنچہ از حق باز دارد دنیا زشت
آنچہ باحق میبرد مزرعہ بہشت

ترجمہ: جو حق کی طرف جانے سے روکے وہ مکروہ دنیا ہے اور جو حق کی طرف لے جائے وہ جنت کی کھیتی ہے۔

(جاری ہے)

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں