حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat


4.8/5 - (18 votes)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

قسط10                                                                                                                        تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

مطالبہ قصاص کی شرعی حیثیت

اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اقدامات کو شرعی اصولوں پر تولا جائے تو بالکل درست نظر آتے ہیں جیسا کہ علامہ ابوبکر ابن العربیؒ لکھتے ہیں:
علمائے امت کے درمیان اس امر میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام کے لئے قصاص کو مؤخر کرنا ایسی حالت میں جائزہے جبکہ اس سے فتنہ بھڑک اٹھنے اور تفرقہ برپا ہونے کا خطرہ ہو۔(احکام القرآن بحوالہ خلافت و ملوکیت، ص126)

شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
حضرت عائشہ و حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم خطا کھانے والے معذور تھے اس اصول پر کہ جس نے اجتہاد کیا اور خطا کھائی تو وہ ایک اجر کا مستحق ہے۔ (ازالتہ الخفا، جلد چہارم، ص 520)

مولانا مودودی حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کی غلطی کو اجتہادی قرار نہیں دیتے بلکہ صرف غلطی قرار دیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
جن حضرات نے بھی قاتلینِ عثمانؓ سے بدلہ لینے کے لیے خلیفۂ وقت کے خلاف تلوار اٹھائی ان کا یہ فعل شرعی حیثیت سے بھی درست نہ تھا اور تدبیر کے اعتبار سے بھی غلط تھا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں ذرّہ برابر تامل نہیں ہے کہ انہوں نے یہ غلطی نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہوئے کی تھی مگر میں اسے محض’’غلطی‘‘ سمجھتا ہوں۔ اس کو’’اجتہادی غلطی‘‘ ماننے میں مجھے سخت تامل ہے۔ 

’’اجتہاد‘‘ کی اصطلاح کا اطلاق میرے نزدیک صرف اس رائے پر ہو سکتا ہے جس کے لیے شریعت میں کوئی گنجائش پائی جاتی ہو اور ’’اجتہادی غلطی‘‘ ہم صرف اس رائے کو کہہ سکتے ہیں جس کے حق میں کوئی نہ کوئی شرعی استدلال تو ہو مگر وہ صحیح ہو یا بے حد کمزور ہو۔ اب کوئی صاحبِ علم براہِ کرم یہ بتا دیں کہ حضرت علیؓ کے خلاف تلوار اٹھانے کے لیے جواز کی کوئی کمزور سے کمزور گنجائش بھی شریعت میں اگر تھی تو وہ آخر کیا تھی؟ (خلافت و ملوکیت ص 343, 344) 

مولانا مودودی شرعی نقطہ نظر سے لکھتے ہیں:
خون کا مطالبہ لے کر اٹھنے کا حق مقتول کے وارثوں کو تھا جو زندہ تھے اور وہیں موجود بھی تھے۔ حکومت اگر مجرموں کو پکڑنے اور ان پر مقدمہ چلانے میں واقعی دانستہ تساہل کر رہی تھی تو بلاشبہ دوسرے لوگ اس سے انصاف کا مطالبہ کر سکتے تھے لیکن کسی حکومت سے انصاف کے مطالبے کا یہ کون سا طریقہ ہے اور شریعت میں کہاں اس کی نشاندہی کی جا سکتی ہے کہ آپ سرے سے اس حکومت کو جائز حکومت ہی اس وقت تک نہ مانیں جب تک وہ آپ کے اس مطالبے کے مطابق عملدرآمد نہ کر دے۔ (خلافت و ملوکیت، ص 124)

مطالبۂ قصاص کی آئینی و قانونی حیثیت

مولانا مودودی قصاص کا مطالبہ کرنے والوں کے متعلق لکھتے ہیں:
یہ جاہلیت کا قبائلی نظام تو نہ تھا کہ کسی مقتول کے خون کا مطالبہ لے کر جو چاہے اور جس طرح چاہے اُٹھ کھڑا ہو اور جو طریقہ چاہے اسے پورا کرنے کے لئے استعمال کرے۔ یہ ایک (یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت)باقاعدہ حکومت تھی جس میں ہر دعوے کے لیے ایک ضابطہ اور قانون موجود تھا۔۔۔ کیا حضرت علیؓ (معاذاللہ) کوئی قبائلی سردار تھے جو کسی قانونی اختیار کے بغیر جسے چاہیں پکڑیں اور سزا دے ڈالیں۔ (خلافت و ملوکیت، ص 124)

پیام شاہ جہانپوری حضرت امیر معاویہؓ کی روش کے متعلق لکھتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت معاویہؓ کو بارہا خط لکھے اور ان میں قسم کھا کر خونِ عثمانؓ سے اپنی بریت کا اعلان کیا، اپنی خلافت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالی کہ میری بیعت انہی لوگوں نے کی ہے جن لوگوں نے میرے پیشرو خلفا کی بیعت کی تھی۔ میدانِ جنگ میں عرصے تک حضرت علی کرم اللہ وجہہ کوشش کرتے رہے کہ حضرت معاویہؓ راہِ راست پر آ جائیں۔ انہوں نے حضرت معاویہؓ کے پاس متعدد وفود اور معزز لوگوں کو بھیجا کہ افہام و تفہیم کے ذریعے معاملات سلجھ جائیں مگر حضرت معاویہؓ نے ایک نہ سنی اور آخر تک حضرت علیؓ کے خلاف صف آرا رہے۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہو جاتا کہ حضرت معاویہؓ کے دل میں حضرت علیؓ کے متعلق کوئی غلط فہمی تھی تو وہ افہام و تفہیم کے بعد دور ہو جانی چاہیے تھی۔ اگر حضرت معاویہؓ نے حضرت علیؓ جیسی بزرگ شخصیت کی قسم پر بھی اعتبار نہ کیا،اگر ان کے اعلانات اور خطوط میں تحریر کردہ واقعات کو غلط بیانی پر محمول کیا اور آخر تک انہیں متہم کرتے رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ انہیں حضرت علیؓ کے متعلق کوئی غلط فہمی نہ تھی بلکہ حصولِ اقتدار کی وجہ سے وہ حضرت علیؓ کو ناکام بنانے کا ارادہ کر چکے تھے۔ (علیؓ اور ان کی خلافت۔صفحہ 137-138) 

مولانا مودودی حضرت امیر معاویہؓ کے طرزِ عمل کے بارے لکھتے ہیں:
 اس سے بدرجہا غیر آئینی طرزِ عمل دوسرے فریق یعنی حضرت معاویہؓ کا تھا جو معاویہؓ بن ابی سفیان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شام کے گورنر کی حیثیت سے خونِ عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لیے اٹھے، مرکزی حکومت کی اطاعت سے انکار کیا، گورنری کی طاقت اپنے مقصد کے لیے استعمال کی اور مطالبہ یہ بھی نہیں کیا کہ حضرت علیؓ قاتلینِ عثمانؓ پر مقدمہ چلا کر انہیں سزا دیں بلکہ یہ کہا کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ کو ان کے حوالے کر دیں تاکہ وہ خود انہیں قتل کریں۔ یہ سب کچھ دورِ اسلام کی نظامی حکومت کی بجائے زمانہ قبلِ اسلام کی قبائلی بدنظمی سے مشابہ ہے۔ خونِ عثمانؓ کے مطالبے کا حق اوّل تو حضرت معاویہؓ کی بجائے حضرت عثمانؓ کے شرعی وارثوں کو پہنچتا ہے۔ تاہم اگر رشتہ داری کی بنا پر حضرت معاویہؓ اس مطالبے کے مجاز ہو بھی سکتے تھے تو اپنی ذات میں نہ کہ شام کے گورنر کی حیثیت سے۔ حضرت عثمانؓ کا رشتہ جو کچھ بھی تھا معاویہؓ ابن ابی سفیان سے تھا شام کی گورنری ان کی رشتہ داری نہ تھی۔ اپنی ذاتی حیثیت میں خلیفہ کے پاس مستغیث بن کر جا سکتے تھے اور مجرمین کو گرفتار کرنے اور ان پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر سکتے تھے۔ گورنر کی حیثیت سے انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ جس خلیفہ کے ہاتھ پر باقاعدہ آئینی طریقے سے بیعت ہو چکی تھی، جس کی خلافت کو ان کے زیرِانتظام صوبے کے علاوہ باقی پوری مملکت تسلیم کر چکی تھی اسکی اطاعت سے انکار کر دیتے۔ اپنے زیرِانتظام  علاقہ کی فوجی طاقت کو مرکزی حکومت کے مقابلے میں استعمال کرتے اور ٹھیٹھ جاہلیت قدیمہ کے طریقہ پر یہ مطالبہ کرتے کہ قتل کے ملزموں کو عدالتی کاروائی کی بجائے مدعی قصاص کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ خود ان سے بدلہ لے لے۔(خلافت و ملوکیت، صفحہ 125۔126)

شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
حضرت معاویہؓ مجتہد مخطی اور معذور تھے۔ تو اس کی صورت یہ ہے کہ وہ شبہ کے ساتھ دلیل پکڑے ہوئے تھے۔ ہر چند کہ دوسری دلیل جو میزانِ شریعت میں اس سے زیادہ وزن دار تھی۔ (ازالتہ الخفا، جلد چہارم، ص 525)

یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ جنگِ صفین کے بعد تک پورا جزیرۃ العرب اور شام کے مشرق و مغرب میں دونوں طرف اسلامی سلطنت کا ہر صوبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی بیعت پر قائم تھا اور صرف شام حضرت معاویہؓ کے زیرِاثر ہونے کی بنا پر ان کی اطاعت سے منحرف تھا۔ اس لیے صحیح آئینی پوزیشن یہ نہ تھی کہ دنیائے اسلام میں کوئی طوائف الملوکی برپا تھی جس میں کوئی کسی کی اطاعت کا پابند نہ تھا، بلکہ یہ تھی کہ مملکت میں ایک جائز، قانونی، مرکزی حکومت موجود تھی جسکی اطاعت تمام دوسرے صوبے کر رہے تھے اور صرف ایک صوبہ باغی تھا۔ (خلافت و ملوکیت۔ ص 125 بحوالہ الطبری ج 3 ص 462-463، ابن الاثیر ج سوم ص 137-141، البدایہ والنہایہ ج 7 ص 229-231)

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد حضرت نعمان بن بشیرؓ ان کی خون سے بھری ہوئی قمیض اور ان کی اہلیہ محترمہ حضرت نائلہؓ کی کٹی ہوئی انگلیا ں حضرت معاویہؓ کے پاس دمشق لے گئے اور انہوں نے یہ چیزیں منظر عام پر لٹکا دیں تا کہ اہلِ شام کے جذبات بھڑک اٹھیں۔ یہ اس بات کی کھلی علامت تھی کہ حضرت معاویہؓ خونِ عثمانؓ کا بدلہ قانون کے راستے سے نہیں بلکہ غیرقانونی طریقہ سے لینا چاہتے تھے۔ (خلافت و ملوکیت ص 132)

قصاص کے لئے حضرت علیؓ کی کوششیں

طبریؒ لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ کی بیعت ہو جانے کے بعد حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ دیگر صحابہ کے ساتھ حضرت علیؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے:
’’اے علیؓ! ہم نے آپؓ کی بیعت کے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ آپؓ حدود اللہ قائم فرمائیں گے اور آپؓ کو یہ معلوم ہے کہ باغیوں کی یہ تمام جماعت قتلِ عثمانؓ میں شریک ہے اور اس طرح انہوں نے مسلمانوں کے خون کو حلال کیاہے اس لیے آپؓ پر ان سب لوگوں سے قصاص لینا فرض ہے۔‘‘

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
’’اے میرے بھائیو! میں تمہاری طرح ان امور سے ناواقف نہیں۔ لیکن ہم اس قوم کا کیا کر سکتے ہیں جو ہماری مالک بنی ہوئی ہے اور ہم ان کے مالک نہیں اور پھر اس قتل میں تم لوگوں کے غلام بھی شریک ہیں اور ان کے ساتھ کچھ دیہاتی بھی مل گئے ہیں اور وہ تمہارے دوست ہیں اور جس بات پر چاہتے ہیں تمہیں مجبور کر دیتے ہیں تو کیا ان حالات میں تم قصاص لینے پر کچھ قدرت رکھتے ہو؟‘‘
صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
’’خدا کی قسم! تم جو کچھ دیکھ رہے ہو میں بھی ان حالات کو دیکھ رہا ہوں اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حالات بعینہٖ زمانہ جاہلیت کے حالات ہیں اور اس قوم میں ابھی جاہلیت کا مادہ پایا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان کی کوئی ایک معینہ راہ اور طریقہ نہیں کہ جو اس طریقہ پر چل کر ہمیشہ خوش رہے۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 29, 30)

ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ ان خوارج و مفسدین(یعنی قاتلینِ عثمانؓ) کو ناپسند کرتے تھے لیکن حالات کی بہتری کے منتظر تھے ۔آپؓ چاہتے تھے کہ ان پر قابو پا لیا جائے تو ان سے اللہ کا حق وصول کریں۔ (تاریخ ابنِ کثیر حصہ ہفتم، ص 230)

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ تب حالات کیا تھے۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر طٰہٰ حسین لکھتے ہیں:
ان سب حالات کے باوجود حضرت علیؓ نے قتلِ عثمانؓ کی تحقیق کا آ غاز کیا۔ (حضرت سیدنا علی المرتضی، ص 147)
اس معاملے میں جن پر شک کیا جا رہا تھا ان میں حضرت محمد بن ابی بکر بھی تھے۔ حضرت علیؓ نے انکوائری کروائی جس میں یہ قاتل ثابت نہ ہو سکے۔ ڈاکٹر طٰہٰ حسین لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے بلا تاخیر محمد بن ابوبکرؓکو بلا کر پوچھا:
کیا یہ سچ ہے کہ آپ نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا ہے؟
انہوں نے تردید کرتے ہوئے اپنی لاتعلقی کا اعلان کیا۔ (سیدنا حضرت علی المرتضی، ص 147)
حضرت علیؓ نے جب دیکھا کہ باغیوں کی بہت بڑی تعداد اعرابیوں پر مشتمل ہے تو آپؓ نے یہی بہتر سمجھا کہ ان کو واپس بھیج کر ہی سازشیوں کو کمزور کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ واپس چلے جاتے ہیں توسازشی یا قاتلینِ حضرت عثمانؓ کم تعداد میں رہ جائیں گے۔ اس لئے حضرت علیؓ نے حکم فرمایا کہ اعرابی لوگ واپس اپنے مالکوں کے پاس چلے جائیں۔ طبریؒ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
حضرت علیؓ نے اعلان فرمایا’’جو غلام اپنے مالک کے پاس واپس نہ جائے گا ہم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘ یہ اعلان سبائیہ فرقہ اور اعرابیوں پر بہت گراں گزرا اور وہ آپس میں کہنے لگے کل کو ہمارے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش آئے گا اور پھر ہم احتجاج بھی نہ کر سکیں گے اسی لیے اس کا ابھی سے تدارک کر لینا چاہیے۔ اعرابیوں نے تو حضرت علیؓ کے اس حکم کی اطاعت کی لیکن سبائیہ فرقہ نے انکار کر دیا۔ اس حکم کے بعد حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بہت سے صحابہ کرامؓ حضرت علیؓ کے پاس آئے تو حضرت علیؓ نے ان سے فرمایا:
’’اب تم لوگ اپنے قاتل کو پکڑ کر قتل کر دو۔ ‘‘

صحابہؓ نے جواب دیا:
یہ قاتل تو اس سے بھی زیادہ چھائے ہوئے ہیں کہ اعرابیوں کے چلے جانے کے بعد بھی ان کی قوت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
حضرت علیؓ نے فرمایا:
’’خدا کی قسم! (اگر آپ یہ نہ کر سکے تو) آج کے بعد اس سے بھی زیادہ چھا جائیں گے۔‘‘
اس کے بعد حضرت علیؓ نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے:
اگر میری قوم کے سردار میری اطاعت کرتے تو میں انہیں ایسی بات کا حکم دیتا جس سے دشمن بھی دوست بن جاتے۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 30,31)

ان سب حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے انکوائری کی مکمل کوشش کی یہاں تک کہ ایسے حالات بھی پیدا کر دیے کہ قصاص لیا جا سکے لیکن اس وقت صحابہ کرامؓ کی رائے تھی کہ ابھی بھی حالات موزوں نہیں ہوئے۔ تاہم حضرت علیؓ پر یہ الزام لگانا کہ آپؓ نے انکوائری نہیں کرائی یہ سراسر گلہ گوئی اور الزام تراشی ہے اور الزام بھی حضرت علیؓ جیسی ہستی پر کہ جن کا شمار نہ صرف اہلِ بیتؓ  بلکہ خلفائے راشدین میں بھی ہوتا ہے۔

جب حضرت علیؓ کو خبر پہنچی کہ حضرت عائشہؓ، حضرت طلحہؓ و زبیرؓ ان کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر رہے ہیں تو حضرت علیؓ نے کمال صبر و تحمل اور امن پسندی کا مظاہرہ کیا اور خطبہ فرمایا:

خبردار! حضرت زبیرؓ وطلحہؓ اور اُمّ المومنینؓ میری امارت کی مخالفت پر آمادہ ہیں اور لوگوں کو اصلاح کی دعوت دے رہے ہیں۔ میں ان حالات پر صبر کروں گا کیونکہ مجھے تمہاری جماعت کی جانب سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اگر وہ جنگ سے گریز کریں گے تو میں بھی جنگ سے گریز کروں گا اور ان کی باتیں سن کر صبر کروں گا۔ (تاریخ طبری، جلد سوم، حصہ دوم، ص 42,33)

اس امر سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ کی خلافت کے آغاز سے یہ کوشش تھی کہ جنگ نہ ہو۔

(جاری ہے)

 
 
 

11 تبصرے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

  1. آسمانِ ولایت کا رہبر علیؓ❤️
    علم کا گھر علیؓ، علم کا در علیؓ❤️
    یا علیؓ، یا علیؓ، یا علیؓ❤️

اپنا تبصرہ بھیجیں