عیب جوئی کے نقصانات Aib Joi Kay Nuqsanat


4.5/5 - (24 votes)

عیب جوئی کے نقصانات( Aib Joi Kay Nuqsanat)

تحریر:مسز عنبرین مغیث سروری قادری

فقر صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہو کر ذاتِ الٰہی کا قرب حاصل کرنے کا سفر ہے۔ اللہ کی صفات سے متصف ہونے کا حکم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیثِ پاک میں فرمایا ہے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ  ترجمہ: ’’اللہ کے اخلاق سے متخلق ہو جاؤ۔‘‘ یہاں اخلاق سے مراد اللہ کی صفات ہیں جو اس کے اسماء سے ظاہر ہیں کہ وہ رحیم ہے، کریم ہے، رؤف ہے، غفار ہے۔ انہی صفات کو اپنانے سے بندہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے جیسا کہ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’حدیثِ مبارکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کو شمار کر لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا‘ یہاں شمار کرنے سے مراد انسان کا ان اسما اور صفات سے متصف ہونا اور ان اخلاق سے متخلق ہونا ہے۔‘‘ (سرّالاسرار)

قرآنِ کریم میں اللہ کے اخلاق کے لیے صِبْغَۃَ اللّٰہ  یعنی ’’اللہ کا رنگ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اور انہیں اپنانے کی ترغیب یوں دی گئی ہے صِبْغَۃَ اللّٰہِ ج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً (البقرہ۔138) ترجمہ:’ ’اللہ کا رنگ ہے بھلا اللہ کے رنگ سے کس کا رنگ بہتر ہو سکتاہے۔‘‘ پس جب بندہ اللہ کی تمام صفات کو اپنا لیتا ہے تو اللہ کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور اللہ کے قرب کے لائق بن جاتا ہے۔

اللہ کی صفات میں سے ایک اہم ترین اور بہت خاص صفت اس کی اپنے بندوں کے عیب ڈھانپنے کی صفت ہے جس کا اظہار اس کے اسم ’’ستار‘‘ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے انسان کو خیر اور شر کا مجموعہ اور خطا کا پتلا بنایا۔ بے عیب ذات صرف اللہ تعالیٰ یا اس کے معصوم انبیا کی ہے، ان کے علاوہ کوئی بھی بشر عیبوں اور خطاؤں سے پاک نہیں ہے۔

کسی انسان میں کوئی خامی ہے تو کسی انسان میں کوئی۔ اسی طرح اللہ پاک نے اپنے مختلف بندوں کو مختلف خوبیوں سے بھی نوازا ہے۔ یوں اللہ پاک نے ہر انسان میں خوبیوں اور خامیوں کے توازن کو تقریباً برابر رکھتے ہوئے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے البتہ ماحول اور تربیت کی وجہ سے کسی کی خوبیاں زیادہ نکھر کر سامنے آجاتی ہیں اور کسی کی خامیاں۔ لیکن انسان جسے اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ظالم، جاہل اور خودپسند قرار دیا ہے، اپنے آپ کو خوبیوں کا اور دوسروں کو خامیوں کا مرقع سمجھتا ہے۔ خود کو اچھائی کا معیار مان کر دوسروں کو اس کے مطابق پرکھتا ہے۔ اس کی نظر ہمیشہ اپنی خوبیوں اور دوسروں کی خامیوں پر ہوتی ہے۔ یوں وہ انسانوں میں اللہ کی سب سے ناپسندیدہ صفات تکبر اور خودپسندی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ دوسروں کے عیوب کو کرید کرید کر تلاش کرتا ہے اور لوگوں میں اس کی تشہیر کر کے صفتِ الٰہی ’ستار‘ کے الٹ عمل کرتا ہے۔ ہر وہ صفت جو اللہ کی صفت سے متضاد ہے وہ صفتِ شر اور صفتِ شیطان ہے، پس وہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ عموماً دوسروں کے عیبوں کو تلاش کرنے والا اور ان کی تشہیر کرنے والا یا تو تکبر کی بیماری کا شکار ہوتا ہے یا احساسِ کمتری کا۔ وہ اپنے عیبوں کو جانتاہے لیکن ان کو چھپانے اور خود کودوسروں سے بہتر ثابت کرنے کے لیے دوسروں کے عیبوں کو لوگوں میں بیان کرتا اور اپنے احساسِ کمتری کو تسکین پہنچاتا ہے۔ 

حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے ’’مومن مومن کا آئینہ ہے۔‘‘ اللہ نے انسان کا باطن شیشے کی مانند بنایا ہے۔ جس شخص کے باطن کا یہ شیشہ جتنا میلا ہوگا اسے دوسرے لوگوں کے باطن اس میں اتنے ہی ٹیڑھے اور گندے دکھائی دیں گے اور دوسروں کے صرف عیب ہی نظر آئیں گے اور اپنی خوبیاں۔ اس کے برعکس جس شخص کا باطن اُجلا ہوگا اسے دوسروں کی اچھائیاں اور خوبیاں دکھائی دیں گی اور اپنے عیب دکھائی دیں گے۔ یعنی دوسروں کے عیب دیکھنے والا اصل میں خود عیبوں سے بھرپور ہوتا ہے اور دوسروں کی اچھائیوں پر نظر رکھنے والے کا اپنا من اُجلا ہوتا ہے۔

عیب جوئی پر اللہ تعالیٰ کی وعید 

دوسروں کے عیبوں کو تلاش کر کے انہیں لوگوں میں بیان کرنے والوں اور خامیوں کی بنا پر دوسروں کا مذاق بنانے والوں کے متعلق اللہ پاک فرماتا ہے:
اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اُڑائے، ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا (مذاق اُڑائیں)، ممکن ہے وہی عورتیں ان (مذاق اُڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو۔ اور نہ ایک دوسرے کے برُے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان لانے کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برُا نام ہے اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی ظالم ہے۔ اے ایمان والو! زیادہ گمانوں سے بچا کرو بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں اور (کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برُائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے رہو اور (ان تمام معاملات میں) اللہ سے ڈرو۔ بے شک اللہ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا ہے اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔ (سورۃ الحجرات11-12)

عیب جوئی کے متعلق احادیثِ نبوی

حضرت امیر معاویہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اگر تم لوگوں کی عیب جوئی کرتے پھرو گے تو انہیں مزید بگاڑ دو گے۔‘‘ 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میرے نزدیک تم میں سب سے پسندیدہ لوگ وہ ہیں جو تم میں بہترین اخلاق والے، نرم دل، لوگوں سے محبت کرنے والے اور جن سے لوگ محبت کرتے ہوں گے اور تم میں میرے نزدیک سب سے ناپسندیدہ لوگ وہ چغل خور ہیں جو دوستوں کے درمیان تفرقہ ڈالتے اور پاک دامن لوگوں میں عیب ڈھونڈتے ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد12668)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے برُا کون ہے؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے کہا جی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’چغلی کرنے والا، احباب کے درمیان فساد پیدا کرنے والا، نیک لوگوں کی برائیاں تلاش کرنے والا۔‘‘ 

یعنی اگر ایک شخص کسی کے چھوٹے سے عیب کی لوگوں میں تشہیر کرے گا تو لوگوں کی نظر میں وہ اس سے بھی زیادہ عیب دار اور برُا بن جائے گا جتنا وہ حقیقتاً ہے۔ پھر ایک شخص کا یہ قبیح عمل دوسرے کم علم اور کم عقل لوگوں کو بھی اس لذیذ گناہ پر ابھارے گا اور وہ بھی اپنے عیب جوئی کے چسکے کی تسکین کے لیے لوگوں کے عیبوں کو تلاش کر کے ان کی تشہیر کریں گے یوں لوگوں کے آپس کے معاملات میں بگاڑ پیدا ہوگا، دلوں میں کدورتیں پیدا ہوں گی، لوگ اللہ سے دور اور شیطان کے قریب ہوں گے، معاشرہ سے سکون و اطمینان، اتحاد واتفاق رخصت ہو جائے گا۔ پس عیب جوئی تمام معاشرے کے بگاڑ کا باعث بن جائے گی، کوئی دل سے کسی کے ساتھ مخلص نہ ہو سکے گا۔

حجتہ الوداع کے خطبہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مسلمان کے مال کے ساتھ ساتھ اس کی عزت کو بھی دوسرے مسلمان پر حرام قرار دیا۔ جس طرح مال کی چوری اللہ کی نظر میں بدترین عمل ہے اسی طرح کسی کے عیب اور خامیاں بیان کر کے اس کی عزت لوگوں میں اچھالنا بھی اللہ کی نظر میں بدترین اعمال میں شمار ہوتا ہے۔ 

ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ نے کعبہ شریف کی طرف نظر کر کے فرمایا ’’تیری شان کتنی بلند ہے اور توُ کتنا محترم ہے لیکن اللہ کی نظر میں ایک بندۂ مومن تجھ سے بھی زیادہ محترم ہے۔‘‘ 

اور بندۂ مومن اللہ کی نظر میں اپنی بشری کمزوریوں اور خامیوں سمیت محترم ہے۔ جب اللہ پاک خود اس کے عیبوں کو ڈھانپ کر رکھتا ہے تو کسی کو کیسے اجازت دے سکتا ہے کہ وہ اس کے عیبوں کی تشہیر کرے۔ بے شک دوسروں کے عیبوں کو بیان کرنے والا خواہ کیسا ہی عبادت گزار، روزہ دار، حج و عمرہ کرنے والا کیوں نہ ہو، اُس عیبوں سے پرُ، عام سے نیک انسان سے بدتر ہے جو اپنے عیبوں کی بنا پر خود کو دوسروں سے کمتر سمجھتا ہے اور اس کے اپنے عیب اسے دوسروں کے عیب دیکھنے سے روکے رکھتے ہیں۔ یوں اس کے عیب ہی اس کے لیے فائدہ مند ہو گئے کہ ان کی بدولت وہ عیب جوئی، غیبت، بہتان اور دوسروں کی عزت اچھالنے جیسے قبیح عمل سے بچا رہا اور اللہ کی نظر میں اپنے عیبوں سمیت محترم ہو گیا۔ جبکہ ایک عبادت گزار اور بظاہر پرہیزگار شخص کی زہد و ریاضت ہی اس کے لیے نقصان دہ ہو گئی کیونکہ ان کی وجہ سے وہ تکبر و خودپسندی کا شکار ہو کر لوگوں کی خامیوں کو تلاش کرنے اور ان کی تشہیر کرنے پر مائل ہو گیا اور اللہ کی نظر میں اپنی تمام تر زہد و ریاضت کے باوجود رسوا ہو گیا۔ اللہ پاک واضح طور پر فرماتا ہےوَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ  ترجمہ:’’ہر عیب لگانے والے طعنہ زن کے لیے بربادی ہے‘‘ یعنی اللہ کی شدید ناراضگی اور عذاب ہے۔لمزہ سے مراد وہ شخص ہے جو غیر حاضری  میں عیب کھولے اور ھمزہ  وہ آدمی ہے جو منہ پر طعنے دے اور الزام لگائے۔ پس عیب گنوانا نہ غیر حاضری میں جائز ہے نہ سامنے۔

 حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اے وہ لوگو جو زبان سے ایمان لائے ہو مگر دل سے ایمان نہیں لائے، مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور نہ ہی ان کے عیبوں کے درپے ہوا کرو، بلاشبہ جو ان کے عیبوں کے درپے ہوگا اللہ تعالیٰ بھی اس کے عیبوں کے درپے ہوگا اور اللہ جس کے عیبوں کے درپے ہوگا تو اسے اس کے گھر کے اندر رسوا کر دے گا۔‘‘ (ابوداؤد 4880)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمان کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں۔‘‘ (مسلم162)
 یعنی نہ زیادہ عبادتیں کرنے والا، نہ صدقہ خیرات کرنے والا، بلکہ وہ جو دوسروں کو اپنے ہاتھ اور زبان کے شر سے محفوظ رکھتا ہے اور زبان کا سب سے بڑا شر عیب گوئی اور غیبت ہے۔ 

عیب جوئی کے متعلق اقوال

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عیب جوئی کے متعلق فرمایا:
بے شک لوگ عموماً عیب سے خالی نہیں، پس کسی کے پوشیدہ عیب ظاہر نہ کرو، ان کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے، وہ اگر چاہے گا تو معاف فرما دے گا اور جہاں تک تجھ سے ہو سکے لوگوں کے عیب چھپائے رکھ تاکہ اللہ تعالیٰ تیرے وہ عیب جن کو توُ چھپانا چاہتا ہے، پوشیدہ رکھے۔
جو لوگ خود عیب دار ہوتے ہیں وہ لوگوں کے عیب ظاہر کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ ان کے اپنے عیبوں کی نسبت عذر کرنے میں انہیں گنجائش مل جائے۔
سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ تم کسی پر وہ عیب لگاؤ جو خود تم میں موجود ہو۔ (نہج البلاغہ)

حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں:
اے ابنِ آدم! تم اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتے جب تک لوگوں کے عیوب تلاش کرنا ترک نہ کر دو۔ جو عیب تمہارے اندر ہیں تم ان کی اصلاح شروع کر دو اور انہیں اپنے سے دور کرنے کی کوشش کرو۔ یہ چیز تمہیں اللہ کے نزدیک پسندیدہ بنا دے گی۔

عیب جوُ شخص کی بدبختی یہ ہے کہ اسے عیب تلاش کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے حتیٰ کہ وہ لوگوں کے عیب تلاش کرتے کرتے اللہ کے فیصلوں اور احکام میں بھی عیب تلاش کرنے لگتا ہے اور یوں نہ صرف اللہ کی نظروں میں مزید ذلیل ہو جاتا ہے بلکہ ہر وقت اپنے حالات اور تقدیر پر حالتِ اعتراض و گلہ میں رہنے لگتا ہے۔

عیب جوئی غیبت اور بہتان کا باعث

دوسروں کے عیبوں کی ٹوہ میں رہنے والا شخص جب کسی کے عیب کو تلاش کرلے گا تو لامحالہ اسے دیگر لوگوں میں بیان کرنا چاہے گا اور یوں غیبت جیسے گناہِ کبیرہ میں ملوث ہو جائے گا بلکہ عموماً اس عیب کو کچھ بڑھا چڑھا کر ہی بیان کرے گا۔ یوں جو عیب اس مسلمان بھائی میں واقعی موجود ہے اس کا بیان تو غیبت شمار ہوگا اور جو اس میں موجود نہیں وہ بہتان کے زمرے میں آئے گا۔ پس عیب جوئی تکبر، خودپسندی، غیبت، بہتان اور الزام تراشی وغیرہ کی جڑ ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے عیبوں کی جستجو کرنے سے ہی منع فرما دیا ہے جو غیبت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فساد کی جڑ ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’غیبت سے بچ کر رہو اس لیے کہ یہ زنا سے بھی سخت ترین ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’غیبت کرنا کیسے زنا سے سخت تر ہے؟‘‘ فرمایا ’’ایک آدمی زنا کرتا ہے مگر پھر شرمندہ ہو کر توبہ کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والے کے لیے توبہ نہیں ہے جب تک کہ اس کو وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔‘‘ (بیہقی فی شعب الایمان)

حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی اسی رات کو مجھے ایسی اقوام کے پاس سے گزارا گیا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے ناخنوں کے ساتھ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیلؑ! یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا یہ وہ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے (ان کی غیبت کیا کرتے تھے) اور ان کی عزتوں کے درپے ہوتے تھے۔‘‘ (ابوداؤد 4878) 

حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ سے مروی ہے ’’جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عہد میں غیبت کی بدبو واضح طور پر معلوم ہو جاتی تھی اس لیے کہ یہ قلیل ترین تھی، مگر اس زمانے میں غیبت کی کثرت ہو گئی ہے اور ناک اس بدبو سے اَٹ گئے ہیں اس لیے اب اس کی بدبو محسوس نہیں کی جاتی۔ جیسا کہ ایک آدمی چمڑہ رنگنے والوں کے ہاں جائے تو وہاں پر بدبو کی شدت سے ٹھہر نہیں سکتا لیکن گھر والے وہیں بیٹھے کھاتے پیتے رہتے ہیں اور انہیں اس شدید بدبو کا احساس بھی نہیں ہوتا اس لیے کہ ان کے ناک بدبو سے اَٹ گئے ہیں۔ ہمارے دور میں بھی غیبت کا معاملہ ایسا ہی ہے۔‘‘ (مکاشفۃ القلوب)

حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں:
غیبت بندۂ مومن کے ایمان میں اس سے بھی زیادہ جلدی فساد پیدا کرتی ہے جتنی جلدی عاقلا کی بیماری (وہ بیماری جو تیزی سے گوشت اور کھال کو گلا کر رکھ دیتی ہے) جسم کو خراب کر دیتی ہے۔

عیب جوئی سے بچنے کا طریقہ

دوسروں کی عیب جوئی اور غیبت جیسے قبیح گناہ سے پرہیز کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بندے کو جب بھی دوسروں میں کوئی عیب نظر آئے تو فوراً وہ اپنے عیبوں کے متعلق سوچے کہ مجھ میں بھی تو فلاں فلاں خامیاں ہیں، نامعلوم اللہ کو میری خامیاں زیادہ ناپسند ہیں یا اس دوسرے انسان کی۔ دوسروں کے عیب تلاش کرنا اللہ کے ہاں ناپسندیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بالکل بے کار اور بے فائدہ عمل ہے کیونکہ آپ دوسروں کے عیب سدھارنے کی اہلیت تو رکھتے نہیں، ان کی عیب جوئی کرنے سے ان کے عیب تو ان سے دور نہ کر سکیں گے البتہ اپنے عیبوں پر نظر کرنا ضرور ایک فائدہ مند عمل ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ عمل آپ کو دوسروں کی عیب جوئی سے محفوظ رکھے گا اور دوسری طرف آپ کی توجہ اپنے عیبوں کو دور کرنے کی طرف مبذول کرا دے گا اور بلاشبہ جو شخص دوسروں کی بجائے اپنے عیبوں کو دور کرنے کی کوشش میں لگ جائے گا وہ خود کو ایک بہتر انسان بنا سکے گا نتیجتاً لوگوں کی نظر میں بھی عزت دار ہوگا اور اللہ کی نظر میں بھی محترم ہو گا جبکہ دوسروں کے عیب تلاش کرنے والا شخص خود کو کبھی نہ سدھار سکے گا۔ 

محاسبہ نفس کے متعلق فرامین

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’خوشخبری ہے اس کے لیے جس کی اپنے عیوب پر نظر نے اسے دوسروں کے عیبوں پر نظر کرنے سے پھیر دیا۔ ‘‘
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کا فرمان ہے ’’جب تو کسی کے عیب بیان کرنے کا ارادہ کرے تو اپنے عیوب پر نظر کر لیا کر۔‘‘
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
آدمی میں سب سے بڑے عیب کی بات یہ ہے کہ اس کو اپنے عیب نظر نہ آئیں۔
تعجب ہے اس شخص کی حالت پر جو لوگوں کے عیبوں کو برُا سمجھتا ہے اور خود اپنے عیوب پر نظر نہیں ڈالتا۔
سب سے برُا شخص وہ ہے جو لوگوں کے عیبوں کا متلاشی ہو اور اپنے عیبوں سے اندھا ہو۔
آدمی کا اپنے عیبوں کو معلوم کرنا بہت بڑا نافع علم ہے۔ (نہج البلاغہ)

بے شک اپنے عیبوں کا علم رکھنا بہت فائدہ مند علم ہے کیونکہ جسے یہ علم حاصل ہوگا وہی اپنے عیبوں کو دور کرنے کے لیے تگ و دو کرے گا اور بے شک یہ بہت ہمت اور حوصلے کی بات ہے۔ دوسروں کے عیبوں کے پردے میں اپنے عیبوں کو چھپانے والے کم ہمت اور بزدل لوگ ہوتے ہیں۔ 

میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

برُے بندے نوں لبھن ٹریا تے برُا نہ لبھا کوئی
جد میں اندر جھاتی پائی میں توں برُا نہ کوئی

حضرت زید رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’کیسا عجیب ہے وہ شخص جس کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھ میں فلاں عیب ہے پھر بھی اپنے آپ کو اچھا انسان سمجھتا ہے جبکہ اپنے کسی بھائی کو صرف سنی سنائی باتوں یا شک کی بنا پر برُا سمجھتا ہے۔ پس عقل کہاں ہے؟‘‘

حضرت رابعہ عدویہؒ فرماتی ہیں ’’جب بندہ اللہ کی محبت کا مزہ چکھ لیتا ہے تو اللہ اسے خود اس کے اپنے عیبوں پر مطلع فرما دیتا ہے پس اس وجہ سے وہ دوسروں کے عیبوں میں مشغول نہیں ہوتا۔‘‘ 

یعنی دوسروں کے عیبوں کو دیکھنے والے اللہ کی محبت اور نظرِکرم سے محروم ہیں، نہ اللہ انہیں ان کے عیبوں پر نظر ڈالنے کی توفیق دیتا ہے اور نہ وہ انہیں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دورِ حاضر میں عیب جوئی کے اثرات

آج کے دور میں ہر شخص کی نظر دوسروں کے عیبوں پر ہے۔ اگر ایک شخص دوسرے کے متعلق کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے تو بھی وہ اس کی اچھائیاں نہیں برائیاں ہی جاننا چاہتا ہے اور بتانے والے کی بھی کوشش یہی ہوتی ہے کہ پوچھنے والے کو اس شخص کے زیادہ سے زیادہ عیب بتا دئیے جائیں تاکہ وہ محتاط رہے۔ اپنے تئیں وہ پوچھنے والے کا بھلا کر رہا ہوتا ہے لیکن حقیقتاً اس کے ساتھ زیادتی کر رہا ہوتا ہے کہ ایک بھائی کے متعلق اس کے دل میں کدورت بھر رہا ہوتا ہے۔ عیب گوئی آج کل ہماری گفتگو میں اس قدر عام اور گھل مل گئی ہے کہ ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ عیب گوئی ہے۔ ہر وہ جملہ جو ہمارے کسی بھائی کی عزت اور قدر دوسروں کی  نظر میں کم کردے عیب گوئی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے حتیٰ کہ ایسے عام جملے ’’فلاں شخص کام وقت پر مکمل نہیں کرتا‘‘، ’’فلاں شخص بہت بولتا ہے‘‘ وغیرہ بھی عیب گوئی ہیں۔ اگرچہ یہ عیب اس شخص میں واقعتا موجود ہوں کیونکہ عیبوں کا بیان کرنا ہی تو عیب گوئی ہے۔

دوسروں کی اصلاح کا طریقہ

 عیبوں پر نظر کرنے کا حق صرف ان مخلص لوگوں کو ہے جو ان عیبوں کو دور کرنے کی قوت و اہلیت رکھتے ہیں مثلاً والدین کا اپنی اولاد کی تربیت کی خاطر یا استاد اور مرشد کا اپنے طالبوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ان کی کمیوں اور خامیوں کو دیکھنا یا کسی مخلص ساتھی اور دوست کا اپنے دوست کے عیب دور کرنے کی نیت سے اسے اس کے عیبوں پر مطلع کرنا یا پولیس وغیرہ کا مجرموں کی بیخ کنی کی خاطر ان کے جرم کی تفتیش کرنا وغیرہ۔ البتہ انہیں بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ محض تمسخر اڑانے یا اس شخص کو معاشرے میں برُا بنانے کی خاطر اس کے عیبوں کی تشہیر کریں۔ ممکن ہے کل کو وہ توبہ کر کے ایک نیک انسان بن جائے، اس وقت اللہ تو اسے قبول کر لے لیکن معاشرہ قبول نہ کرے اور لوگ اسے بے وجہ ردّ کر دیں اور وہ مایوس ہو کر دوبارہ گناہوں کی طرف لوٹ جائے۔ چونکہ عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے اس لیے لوگوں کو کسی مجرم کے شر سے بچانے کی نیت سے اس سے محتاط رہنے کا کہنایا گواہی دیتے وقت سچ بولنے کی نیت سے حق بات کو اتنا ہی بیان کرنا جتنا ضروری ہے، یا ایسے شرپسند عناصر جو اپنے مذموم اعمال سے ملک یا جماعت کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہوں، کو بے نقاب کرنا عیب گوئی کے زمرے میں نہیں آتا۔

اور اگر کوئی شخص بہت ہی برُا بہت ہی عیب دار ہے تو بھی ہمیں اس کے عیب لوگوں سے بیان کر کے اپنی زبان ناپاک کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپنے عمل سے خود ہی لوگوں کو اپنی اصل فطرت دکھا دے گا۔ ایسے میں کسی دوسرے کا اس کے عیبوں کو بیان کر کے خود اللہ کی نظر میں عیب دار بن جانا بہت بڑی بیوقوفی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو پیٹھ پیچھے برائی نہیں کرتے بلکہ جو کہنا ہوتا ہے منہ پر کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ منہ پر عیب گنوانا طعنہ زنی میں شمار ہوتا ہے۔ اگر ہماری نیت طعنہ دینے کی نہیں بلکہ عیب بتا کر اس کی اصلاح کرنے کی ہے تو صرف اپنے اس بھائی کو تنہائی میں اس کے عیبوں سے اس طرح نرمی اور محبت سے آگاہ کرنا چاہیے کہ اس کا دل بھی برُا نہ ہو اور وہ اس عیب کو دور کرنے پر مائل بھی ہو جائے اور اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو خاموش رہنا ہی ہمارے حق میں بہتر ہے۔ اپنے ترش رویے اور الفاظ سے یا سب کے سامنے اس کا عیب اسے بتا کر اسے شرمندہ و ذلیل کر کے ہم کبھی اس کا عیب دور نہ کر سکیں گے۔ صرف اصلاح کی نیت سے عیبوں سے آگاہ کرنا ایک مخلص عمل ہے۔ 

حضرت علیؓ کا قول ہے ’’تیرا بہترین دوست وہ ہے جو تجھے تیرے عیبوں سے آگاہ کرے اور مخلص ترین وہ ہے جو ان عیبوں کو دوسروں سے چھپائے۔ ‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جو بندہ کسی کی عیب پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔‘‘ (ابنِ ماجہ2544)

حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جو شخص کسی کا کوئی عیب دیکھے اور اسے چھپا لے تو وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے زندہ درگور کو زندہ کیا۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح 4984)

سیدّنا ابودردائؓ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’جس شخص نے اپنے بھائی کی عزت کا دفاع کیا تو اللہ تعالیٰ پر حق ہوگا کہ وہ روزِ قیامت آگ کو اس کے چہرے سے ہٹا دے۔‘‘ (مسند احمد 28086)

راہِ فقر پر چلنے والے سالکوں کے لیے ہدایات

راہِ فقر کے سالکوں کے لیے عیب جوئی سے ہر ممکن پرہیز اور عیب پوشی کی ہر ممکن کوشش لازمی ہے کیونکہ دیدار و وصالِ الٰہی کے لیے لازمی ہے کہ طالب کی نظر صرف اللہ پر ہو یا اپنے عیبوں کی اصلاح پر۔ دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ طالب کی نظر اللہ پاک سے بھی ہٹ چکی ہے اور اپنی روحانی پاکیزگی اور تزکیہ نفس سے بھی۔ اس نے اپنے نفس کو کھلی چھوٹ دے دی ہے کہ وہ اللہ کے ناپسندیدہ اعمال میں ملوث ہو جائے۔ اللہ کے دیدار و وِصال کے لیے لازمی ہے کہ طالب اللہ کی تمام صفات سے کسی حد تک متصف ہو لیکن دوسروں کی عیب جوئی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی صفتِ ستار سے محروم رہ جائے گا نیز اس کا دل بھی اتنا شفاف نہ رہے گا جتنا دیدار و قربِ الٰہی کے لیے لازمی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عیب جو اور غیبت کرنے والا انسان اللہ کے ناپسندیدہ لوگوں میں شامل ہے لہٰذا ایسے شخص کا راہِ فقر پر سفر تقریباً ناممکن ہے۔ راہِ فقر تو ہے ہی دوسروں کی عیب پوشی اور اپنے عیبوں کی اصلاح۔ 

میاں محمد بخشؒ فرماتے ہیں:

پردہ پوشی کم فقر دا میں طالب فقراواں
عیب کسے دے پھول نہ سکاں ہر ہک تھیں شرماواں

سیر الاقطاب، شریف التواریخ اور آئینہ تواریخ تصوف میں منقول ہے کہ ایک روز حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محفلِ اقدس میں چاروں اصحابِ کبار رضی اللہ عنہم بیٹھے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے فرمایا کہ ہم کو شبِ معراج میں جو خرقۂ فقر جنابِ ربانی سے عطا ہوا تھا وہ اگر تم کو پہنایا جائے تو اس کا حق کس طرح ادا کرو گے؟ انہوں نے عرض کیا ’’یاحضرت! میں صدق اختیار کروں گا‘‘ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ سے بھی یہی پوچھا انہوں نے عرض کیا ’’میں عدل اختیار کروں گا۔‘‘ پھر یہی سوال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ سے پوچھا تو انہوں نے کہا ’’میں حیا اور تحمل اختیار کروں گا۔‘‘ پھر جناب علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے یہی سوال پوچھا تو آپ نے عرض کیا ’’اگر خرقہ فقر مجھے عطا ہو تو میں اس کے شکریہ میں پردہ پوشی اختیار کروں گا، لوگوں کے عیب ڈھانپوں گا اور ان کی تقاصیر سے درگزر کروں گا۔‘‘ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہایت خوش ہو کر فرمایا ’’اے علیؓ! جس طرح رضائے مولا اور رضائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تھی اسی طرح آپ نے جواب دیا ہے پس یہ خرقہ آپ کا ہی حق ہے۔‘‘ اسی وقت آپؓ کو خرقہ فقر پہنایا اور بشارت دی ’’آپؓ شہنشاہِ ولایت ہیں اور میری تمام اُمت کے پیشوا ہیں۔‘‘

جس طالبِ مولیٰ کی طلب اللہ کی ذات کا قرب و دیدار، رضائے الٰہی اور رضائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حصول ہے اس پر لازم ہے کہ وہ عیب پوشی اور دوسروں کی تقاصیر کو درگزر کرنے کی عادت کو اپنائے۔

استفادہ کتب:
۱۔مکاشفۃ القلوب
۲۔نہج البلاغہ
۳۔سیر الاقطاب
۴۔شریف التواریخ

 

17 تبصرے “عیب جوئی کے نقصانات Aib Joi Kay Nuqsanat

  1. سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ تم کسی پر وہ عیب لگاؤ جو خود تم میں موجود ہو۔ (نہج البلاغہ)

  2. جس طالبِ مولیٰ کی طلب اللہ کی ذات کا قرب و دیدار، رضائے الٰہی اور رضائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حصول ہے اس پر لازم ہے کہ وہ عیب پوشی اور دوسروں کی تقاصیر کو درگزر کرنے کی عادت کو اپنائے۔

  3. حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا:
    آدمی میں سب سے بڑے عیب کی بات یہ ہے کہ اس کو اپنے عیب نظر نہ آئیں۔

  4. حضرت رابعہ عدویہؒ فرماتی ہیں ’’جب بندہ اللہ کی محبت کا مزہ چکھ لیتا ہے تو اللہ اسے خود اس کے اپنے عیبوں پر مطلع فرما دیتا ہے پس اس وجہ سے وہ دوسروں کے عیبوں میں مشغول نہیں ہوتا۔‘‘

  5. Very beautiful ❤️ and informative article,May Allah Almighty protect .us from all sins, Ameen

  6. سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ تم کسی پر وہ عیب لگاؤ جو خود تم میں موجود ہو۔ (نہج البلاغہ)

  7. جو لوگ خود عیب دار ہوتے ہیں وہ لوگوں کے عیب ظاہر کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ ان کے اپنے عیبوں کی نسبت عذر کرنے میں انہیں گنجائش مل جائے۔

  8. جو لوگ خود عیب دار ہوتے ہیں وہ لوگوں کے عیب ظاہر کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ ان کے اپنے عیبوں کی نسبت عذر کرنے میں انہیں گنجائش مل جائے۔

  9. حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں:
    غیبت بندۂ مومن کے ایمان میں اس سے بھی زیادہ جلدی فساد پیدا کرتی ہے جتنی جلدی عاقلا کی بیماری (وہ بیماری جو تیزی سے گوشت اور کھال کو گلا کر رکھ دیتی ہے) جسم کو خراب کر دیتی ہے۔

  10. برُے بندے نوں لبھن ٹریا تے برُا نہ لبھا کوئی
    جد میں اندر جھاتی پائی میں توں برُا نہ کوئی

  11. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ’’کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ تم میں سب سے برُا کون ہے؟‘‘ صحابہ کرامؓ نے کہا جی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’چغلی کرنے والا، احباب کے درمیان فساد پیدا کرنے والا، نیک لوگوں کی برائیاں تلاش کرنے والا

  12. میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

    برُے بندے نوں لبھن ٹریا تے برُا نہ لبھا کوئی
    جد میں اندر جھاتی پائی میں توں برُا نہ کوئی

  13. Allah pak humen sirf apne ayeb dekh kar un ki islah karne ki tofiq de or dusro ki parda poshi krne ki tofiq de

  14. فقر صفاتِ الٰہیہ سے متصف ہو کر ذاتِ الٰہی کا قرب حاصل کرنے کا سفر ہے۔ اللہ کی صفات سے متصف ہونے کا حکم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس حدیثِ پاک میں فرمایا ہے کہ تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ترجمہ: ’’اللہ کے اخلاق سے متخلق ہو جاؤ۔‘‘ یہاں اخلاق سے مراد اللہ کی صفات ہیں جو اس کے اسماء سے ظاہر ہیں کہ وہ رحیم ہے، کریم ہے، رؤف ہے، غفار ہے۔ انہی صفات کو اپنانے سے بندہ اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے جیسا کہ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’حدیثِ مبارکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کو شمار کر لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا‘ یہاں شمار کرنے سے مراد انسان کا ان اسما اور صفات سے متصف ہونا اور ان اخلاق سے متخلق ہونا ہے۔‘‘ (سرّالاسرار)

اپنا تبصرہ بھیجیں