مجاہدہ اور مشاہدہ روحانی ترقی کے دو ستون Mujahida Aur Mushahida Ruhani Taraqi Kay Do Satoon

Spread the love

Rate this post

مجاہدہ اور مشاہدہ روحانی ترقی کے دو ستون
  Mujahida Aur Mushahida Ruhani Taraqi Kay Do Satoon 

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

مجاہدہ کا لفظ جدوجہد سے تعبیر ہے۔ انسان مادی جسم میں رہتے ہوئے جو جدوجہد اور کوشش اپنے مقصد یعنی قرب و وصالِ الٰہی کی خاطر کرتا ہے وہ مجاہدہ کہلاتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُ وْ  فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (سورۃ العنکبوت۔69)
ترجمہ: جو لوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد (مجاہدہ) کرتے ہیں ہم اُنہیں راستہ دکھا دیتے ہیں۔

اِس آیتِ مبارکہ میں مجاہدہ یعنی کوشش کا لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات کے قرب کے لیے استعمال ہوا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کی یا اُس کا قرب و وِصال پانے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ راستہ دکھا دیتا ہے یعنی اپنا قرب عطا کر دیتا ہے۔ 

بعض لوگ مجاہدہ سے مراد جہاد لیتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں دشمنانِ اسلام سے جہاد کا حکم دیا ہے جبکہ صوفیا کے نزدیک اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب و وِصال کی طرف آنے کا اشارہ کیا ہے اور اُس کے لیے جدوجہد کی ترغیب دلائی ہے۔جیسا کہ ایک مرتبہ جب آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’اب ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں‘‘۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ جہادِ اکبر کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’نفس کے خلاف جہاد‘‘۔  

پس مجاہدہ سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنے کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ اس جدوجہد میں سب سے پہلے اپنے نفس کی شہوات کو شکست دینی ہے پھر قلب کا تصفیہ کر کے اسے خطرات سے پاک کرنا ہے اور غیر ماسویٰ اللہ ہر شے سے نجات دلانی ہے۔ پھر مجاہدہ کو جاری رکھتے ہوئے روح کی بالیدگی اور ترقی کے لیے اسے قوت فراہم کرنی ہے تاکہ یہ اس قدر طاقت حاصل کر سکے کہ روحانی سیر کرتے ہوئے زمان و مکان کی حدود و قیود سے آزاد ہو کر اللہ کے قرب میں پہنچ جائے۔پس ایک طالبِ مولیٰ کا ہر لمحہ مجاہدہ میں گزرتا ہے اور اس جہد ِمسلسل کے بعد جا کر وہ اللہ کے قرب کا حقدار بنتا ہے۔

مشاہدہ سے مراد ہے کسی شے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لینا یا کسی دوسری حس کے ذریعے اس کا اِدراک کر لینا۔ ایمان کا تعلق یقین اور اعتقاد سے ہے بلکہ دنیا کے ہر مذہب کی بنیاد اعتقاد اوریقین پر ہے۔ جس مذہب کی جانب انسان کا اعتقاد و یقین مائل ہو وہ اسے ہی اپنا لیتا ہے۔ دینِ اسلام کی ابتدا غیب پر ایمان سے ہے۔ مسلمان ہونے کی شرط یہ ہے کہ اللہ پر، اُس کے فرشتوں، اُس کے تمام رسولوں، اچھی یا برُی تقدیر، روزِقیامت اور مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے پر یقین رکھا جائے۔ ان تمام امور پر ایمان اصل میں غیب پر ایمان ہے کیونکہ ایک مسلمان اپنے عقیدے کے ابتدائی مراحل میں ان میں سے کسی کو بھی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔ یا پھر ایک بچے کو شعور کی سیڑھی چڑھنے کے بعد سے ہی ان چیزوں کے متعلق بتایا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں پر اس کا یقین اور اعتقاد محض سننے کی حد تک ہوتاہے یعنی جس قدر اسے اپنے بڑوں کی بات پر یقین ہوتا ہے اسی قدر اسے ان کی اللہ اور دین کے متعلق بتائی ہوئی باتوں پر یقین ہوتا ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ اس کے تجربات اس کے ایمان کو مضبوط یا کمزور کرتے جاتے ہیں۔ اس کے تجربات سے اسے مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔ وہ مشاہدہ کرتا ہے کہ واقعی کوئی دعاؤں کو سننے والا، رزق پہنچانے والا، دل کو سکون عطا کرنے والا، عزت و ذلت دینے والا، بلند و پست کرنے والا موجودہے تو اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگر شیطانی وساوس اسے اس مشاہدے سے روکے رکھیں تو اس کا ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ایمان میں ترقی کی بنیاد اگر یقین میں ترقی پرہے تو یقین کا بلا واسطہ تعلق ’’مشاہدہ‘‘ سے ہے۔ انسان کی عمومی زندگی میں بھی وہ انہی باتوں پر یقین کے انتہائی درجے تک پہنچ سکتا ہے جن کے متعلق اس کا مشاہدہ پختہ ہو یہاں تک کہ مستند سے مستند سائنسی تحقیق کو بھی قبولیتِ عام حاصل نہیں ہوتی جب تک تجربے اور مشاہدے کے ذریعے لوگ اسے پرکھ نہ لیں۔ جب تک مشاہدہ کمزور رہے اس وقت تک یقین بھی کمزور رہتا ہے اور ایمان بھی۔ 

مشاہدے کی خواہش انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ بچپن میں جب ایک بچے کوزبان سے کسی بھی شے کے متعلق سمجھایا جاتا ہے وہ تب تک اسے نہیں مانتا جب تک خود تجربہ اور مشاہدہ نہ کرلے۔ ایک بچے کولاکھ سمجھایا جائے کہ یہ آگ ہے، اس کے قریب مت جاؤ ورنہ جل جاؤ گے لیکن جب تک وہ خود تجربہ نہ کر لے، دو تین بار واقعتاآگ اسے کسی حد تک نقصان نہ پہنچا دے وہ اس بات پر یقین نہیں کرتا۔ اسی طرح زندگی کے ہر معاملے کے لیے ہے کہ جس قدر انسان اپنے تجربے اور مشاہدے سے سیکھتا ہے اس قدر زبانی گفتگو سے نہیں سیکھ سکتا۔ دین کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے جب ایک بچے کو اللہ کے متعلق بتایا جاتا ہے تو وہ اللہ کے وجود کے متعلق ہزار سوال کرتا ہے اور ضرور بالضرور جاننا چاہتا ہے کہ اللہ کیسا ہے؟ پس اللہ کی ذات کا مشاہدہ ایک انتہائی فطری خواہش ہے جو بالکل معصوم دلوں میں پیدا ہوتی ہے البتہ بڑوں کی طرف سے اسے یہ کہہ کر سختی سے دبا دیا جاتا ہے ’’اللہ کے متعلق ایسے خیالات گناہ ہیں ۔وہ غیب ہے ، اسے دیکھا نہیں جا سکتا۔‘‘ اور اس طرح انسان کی اللہ کی ذات کے مشاہدے کی فطری خواہش کو بچپن میں ہی کچل دیاجاتاہے۔ پھر وہ کبھی اپنے مشاہدے میں، یقین میں اورایمان میں ترقی کانہیں سوچتا اور غیب پر ایمان تک ہی محدود رہتا ہے۔ حالانکہ اگر اسے ترغیب دی جاتی کہ اللہ موجود ہے، وہ ایک ذات ہے جس کا وجود ہر جگہ موجود ہے، اگر ایمان میں ترقی کرو گے تو ا ن شاء اللہ ایک روز اس کا دیدار و مشاہدہ بھی کر پاؤ گے، پھر خود دیکھ لینا کہ وہ کیسا ہے۔ اس طرح اللہ کی ذات کے دیدار و مشاہدے کی خواہش و جستجو جس قدر اس کے دل میں بڑھتی اتنا ہی وہ ایمان کی طرف مائل رہتا اور دین میں ترقی کی کوشش کرتا حتیٰ کہ ذاتِ حق تعالیٰ کا قرب و دیدار و مشاہدہ حاصل کر لیتا لیکن بچپن میں ہی انسان کی اللہ کے دیدار و مشاہدے کی خواہش کو کچل دینا اس کی دینی ترقی کی تمام راہیں مسدود کر دیتا ہے اور وہ اللہ کو صرف غیب جان کر اس سے دور ہو جاتا ہے۔

قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ کے ذریعے اپنے بندوں کو مشاہدہ کی ترغیب دیتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا:رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی  ترجمہ: ’’اے ربّ! مجھے دکھا کہ تو مردے کس طرح زندہ کرے گا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اَوَلَمْ تُؤْمِنْ  ترجمہ:’ ’کیا تجھے یقین نہیں؟‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ  ترجمہ:’’کہا یقین تو ہے مگر چاہتا ہوں کہ میرے دل کو اطمینان آ جائے۔‘‘ یعنی ایمان تو ہے لیکن صرف علم الیقین کی حد تک اور حضرت ابراہیم علیہ السلام مشاہدہ کے ذریعے اپنے ایمان کو تقویت دے کر عین الیقین کے مرتبے تک پہنچانا چاہتے تھے۔ جانتے ہیں کہ اللہ ہرشے پر قادر ہے اور یقینا مرُدوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی قدرت رکھتا ہے لیکن ان کا یہ جاننا صرف ’’علم‘‘ ہے۔ اس علم میں مشاہدے کو شامل کر کے اپنے قلبی یقین کو اطمینان کی حد تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اللہ بھی ان کی اس طلب کو جانتا ہے اس لیے ان کے سوال پر ناراض نہیں ہوتا بلکہ انہیں قلبی اطمینان عطا کرنے کے لیے خود مشاہدے سے نوازتا ہے اور فرماتا ہے ’’اچھا تو چار پرندے لے کر اپنے ساتھ مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے پھر انہیں بلا۔ وہ تیرے پاس چلے آئیں گے پاؤں سے دوڑتے اور جان لو اللہ غالب حکمت والا ہے‘‘۔ (سورۃ البقرہ۔ 260) مفسرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چار پرندے لیے مرغ، مور، کبوتر اور کوا۔ انہیں بحکمِ الٰہی ذبح کیا، ان کے پر اُکھاڑے اور قیمہ کر کے ان کے اجزا باہم ملا دئیے اور اس مجموعہ کے کئی حصے کیے۔ ایک ایک حصہ الگ الگ پہاڑ پر رکھ دیا اور سب پرندوں کے سر اپنے پاس رکھ لیے۔ پھر فرمایا ’’چلے آؤ‘‘ یہ فرماتے ہی بحکمِ الٰہی وہ اجزا اُڑے اور ہر جانور کے اجزا علیحدہ علیحدہ ہو کر ترتیب سے جمع ہوئے اور پرندوں کی شکلیں بنا کر اپنے پاؤں سے دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے اور اپنے اپنے سروں سے مل کر بعینہٖ پہلے کی طرح مکمل ہو کر اُڑ گئے۔ یوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان اور یقین اس مشاہدے کی بدولت کامل ترین ہو گیاکیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اللہ مرُدوں کو کیسے زندہ کرے گا۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ حضرت عزیر علیہ السلام کی مثال کے ذریعے بھی مشاہدے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ ’’اس (حضرت عزیرؑ) کی طرح جو گزرا ایک بستی پر جو اوندھی پڑی تھی اپنی چھتوں پر، بولا کیونکر اللہ اس کی موت کے بعد اسے زندہ کرے گا۔ تو اللہ نے اسے (حضرت عزیر ؑکو) سو برس مردہ رکھا اور پھر زندہ کر دیا۔ فرمایا ’’تو یہاں کتنا ٹھہرا؟‘‘ عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا اس سے کچھ کم۔ فرمایا ’’نہیں تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بوُ نہ لایا اور اپنے گدھے کو د یکھ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں اور یہ اس لیے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی بنائیں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کہ کیسے ہم انہیں اُٹھان دیتے ہیں پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں۔ جب یہ معاملہ اس (حضرت عزیرؑ) پر ظاہر ہو گیا تو بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ (سورۃ البقرہ۔ 259)

حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے مقرب نبیوں میں سے تھے۔ ان کے ایمان میں کسی قسم کی کمی یا کجی نہ تھی پھر بھی انہوں نے انسان کی فطری طبیعت کے مطابق مشاہدے کی خواہش کی تاکہ ان کا ایمان کامل ترین درجے کو پہنچ جائے حتیٰ کہ ان کے دل میں اللہ کی قدرت کے متعلق کوئی سوال باقی نہ رہے اور قلب مطمئن ہو جائے۔ اللہ نے بھی ان کی اس فطری خواہش کی تکمیل کی۔ ’’مشاہدہ‘‘ ایمان کا وارث بنا یعنی ان کے ایمان کو آگے بڑھانے والا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے ’’اسی طرح ہم ابراہیم ؑکو آسمانوں اور زمین کی سیر کراتے تھے تاکہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہو جائیں‘‘۔ ( سورۃ الانعام۔75)

چنانچہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خود حصولِ یقین اور اطمینانِ قلب حاصل کر کے ایمان کو کامل بنانے کا طریقہ یہ بتایا کہ ایمانی حقائق کو مشاہدے کے ذریعے پختہ کر لیا جائے۔ ایمان کی تکمیل اسی میں ہے کہ اسے مشاہدہ اور مجاہدہ سے تصدیق حاصل ہو جائے۔ یعنی پرکھنا شرط ہے۔ اسی پرکھنے اور تجربہ کرنے اور حق الیقین کے ساتھ اس چیز سے متعلق آگاہی حاصل کرنے کا نام جدوجہد یا مجاہدہ ہے۔ پس مجاہدہ مشاہدہ کا سبب بنتا ہے اور یہی ایمان کی مضبوطی اور یقین کی کاملیت اور پختگی کی بنیاد ہے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ سے ارشاد فرمایا:
یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ اَلْمُجَاھَدَۃُ بَحْرٌ مِنْ بَحَارِ الْمُشَاھَدَۃِ وَ حِیْتَانُہُ الْوَاقِفُوْنَ (الرسالۃ الغوثیہ)
ترجمہ: اے غوث الاعظمؓ! مجاہدہ مشاہدہ کے سمندروں میں سے ایک سمندر ہے جس میں واقف زندگی بسر کرتے ہیں۔ 

اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے طالب جب معرفت و قربِ حق کے لیے اپنے روحانی و باطنی سفر کا آغاز کرتے ہیں تو ان کے لیے اوّلین کام مرشد کامل اکمل کا دست مبارک تھامنا ہے اور دوسرا کام مجاہدہ کی راہ اختیار کرنا ہے۔ ایک صادق طالبِ مولیٰ جہدِ مسلسل اور مجاہدہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے اورہمہ وقت اللہ کا قرب پانے کے لیے کوشش میں مصروف رہتا ہے۔ اس راہ میں وہ اپنی خواہشات اور آرزو کی نفی کرتا ہے، اپنے جسم کو اس کی لذات سے محروم رکھتا ہے، نفس کی شہوات کے غلبہ کو مجاہدہ کے ذریعے اعتدال پر لاتاہے، قلب کے تصفیہ کے لیے مصروفِ عمل رہتا ہے پس جہدِ مسلسل اس کی زندگی کا معمول بن جاتا ہے کیونکہ ان کا مطلوب اللہ کی ذات ہے۔ 

حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بہت سے مشائخ مجاہدہ کے حق میں ہونے کے باوجود یہ فرماتے ہیں کہ وصالِ حق کے لیے کوئی علت و سبب (یعنی مجاہدہ) نہیں ہے جو بھی واصل ہوتا ہے وہ فضلِ الٰہی سے ہوتا ہے۔ فضل کے مقابلے میں بندے کے افعال (مجاہدہ) کی کیا حقیقت۔۔۔ مجاہدہ تو تزکیۂ نفس کے لیے ہوتا ہے نہ کہ قربِ حق کے لیے۔ اور مجاہدہ کی طرف رجوع ہونا بندے کی طرف سے اور مشاہدہ کے احوال اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں۔ اس لیے مجاہدہ مشاہدے کا سبب نہیں ہے۔ اِس کا جواب قرآنِ پاک کی یہ آیت مبارکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو لوگ ہماری طرف آنے کی کوشش کرتے ہیں ہم اُنہیں اپنی طرف آنے کا راستہ دکھا دیتے ہیں‘‘ (العنکبوت۔69)۔

 اللہ تعالیٰ کی راہ میں کوشش مجاہدہ ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنی طرف آنے کا راستہ دکھانا مشاہدہ ہے اور مشاہدہ حق الیقین پر پہنچنے کے لیے لازم ہے۔ یعنی مشاہدہ کے لیے کوئی نہ کوئی سبب ہونا ضروری ہے جیسے دنیوی یا اخروی ہر حکم یا کام کے پیچھے کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے تو اگر سبب (علت) کو ہی ختم کر دیا جائے تو قرآن و سنت کے تمام احکامات باطل قرار پاتے ہیں (کیونکہ وہ بغیر کسی سبب کے نہیں) لہٰذا یہ ماننا کہ مجاہدہ راہِ حق میں ضروری نہیں، غلط ہے۔ (کشف المحجوب)

جب طالب کثرت سے نفس کے خلاف چلتا ہے تو اُس کے نفس کی سرکشی ختم ہوتی چلی جاتی ہے اور آئینۂ دل(باطن) صاف اور پاکیزہ ہوتا جاتا ہے جس کے سبب اُس کے لیے مشاہدہ کا دروازہ کھلتا ہے جس میں وہ انوارو تجلیاتِ حق تعالیٰ سے لطف اندوز ہو کر مشاہدۂ حق تعالیٰ میں غرق رہتا ہے۔ حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
 یہ تعبیر دو طرح بر خلافِ عمل ہے کیونکہ ایک قول ہے ’’جس نے چاہا (یعنی طلب کی) پا لیا‘‘ اور دوسرا قول ہے ’’جس نے پایا وہ طالب ہوا‘‘ یعنی ایک مجاہدہ کرتا ہے تاکہ مشاہدہ کرے اور ایک مشاہدہ کرتا ہے تاکہ مجاہدہ کرے‘‘۔اور آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’قربِ الٰہی اور مشاہدۂ حق کے لیے ضروری ہے کہ دل دنیا کی محبت سے پاک صاف ہو (جو کہ مجاہدہ سے ہی ممکن ہے)‘‘۔ (کشف المحجوب)

آپ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگ پہلے مجاہدہ کرتے ہیں پھر وہ اس قابل ہوتے ہیں کہ انہیں مشاہدہ ہو اور کچھ لوگ پہلے فضل اور عنایتِ الٰہی سے مشاہدہ کرتے ہیں جو کہ ان کے اندر مجاہدہ کی طلب کو پیدا کرتاہے۔دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کے قرب کے لیے مجاہدہ ضروری ہے اب چاہے انسان اللہ کے فضل سے اس کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے قرب میں ترقی کے لیے مجاہدہ کرے یا اس کے دیدار و قرب کے متعلق جان کر اسے حاصل کرنے کے لیے مجاہدہ کرے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ مَنِ اخْتَارَ لِیَ الْمُجَاھَدَۃَ فَلَہُ مُشَاھَدَتِیْ اِنْ شَائَ اَوْ اَبِیْ  
ترجمہ: اے غوث الاعظمؓ! جس نے میرے لیے مجاہدہ اختیار کیا پس اس کے لیے میرا مشاہدہ ہے خواہ وہ اسے چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو۔ 

لہٰذا جو شخص بھی اللہ کے قرب کے لیے مجاہدہ کرتا ہے اسے ضرور اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ نصیب ہو جاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ مشاہدہ کے متعلق فرماتے ہیں:
نگاہِ فقیر سے آدمی روشن ضمیر ہو کر دونوں جہاں کا حاکم و امیر بنتا ہے اور معرفتِ الٰہی سے مشرف ہو کر تجلیاتِ نورِ ذات کے مشاہدہ میں اس شان سے غرق ہوتاہے کہ اگر اُسے ملکِ سلیمانؑ کی بادشاہی بھی پیش کی جائے تو اسے ہرگز قبول نہ کرے کہ وہ باطن کا مرد ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

طلبِ مولیٰ رکھنے والا طالبِ علم راہِ معرفت میں اس وقت تک صاحبِ تحقیق طالبِ مولیٰ نہیں ہو سکتا جب تک حقیقت و اسرارِ الٰہی کے مشاہدے کا امتحان پاس نہیں کر لیتا اور جب وہ ایسا کر لیتا ہے اور راہِ باطن کو صاف طور پر دیکھ لیتا ہے تو سب سے اعلیٰ و اولیٰ بن جاتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
مرشد کامل کی خوراک مجاہدہ اور نیند مشاہدہ ہوتی ہے۔ وہ ایک ہی دم میں ہزاروں ہزار مقامات و تجلیاتِ ذات کا علیحدہ علیحدہ مشاہدہ کرتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
فقیرِ کامل اسے کہتے ہیں جو معرفت میں مقامِ فنا فی اللہ پر فائز ہو اور عارف بقا باللہ اسے کہتے ہیں جو نورِ ربوبیت کے مشاہدے میں غرق ہو۔ (کلید التوحید کلاں)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور نہ ہی اس کے قرب کی طلب رکھتے ہوئے مجاہدہ کی راہ اختیار کرتے ہیں تو ان لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے دیدار و مشاہدہ کی راہ نہیں کھلتی بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے بیشمار حجابات میں ہوتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجاہدہ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
لَا بُدَّ لِلطَّالِبِیْنَ مِنَ الْمُجَاھَدَتِیْ کَمَا لَا بُدَّ لَھُمْ مِنِّیْ (الرسالۃ الغوثیہ)
ترجمہ: طالبوں کے لیے مجاہدہ ایسے ضروری ہے جیسے ان کے لیے میں۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات تو وہ ہے جو ازل سے بھی پہلے موجود تھی اور ابد کے بعد بھی موجود رہے گی۔ اللہ تعالیٰ کا نور تو ہر شے میں موجود ہے اور ہر مخلوق کی حیات و بقا کی ضمانت بھی۔ اگر وہ نور اس میں نہ ہو تو اس شے کا وجود بھی نہ ہو۔ لہٰذا جس طرح اللہ تعالیٰ کے نور اور اس کی ذات نے اس کائنات کو قائم و برقرار رکھا ہوا ہے اسی طرح قربِ حق کی طرف سفر کرنے والوں اور اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ و دیدار کرنے والوں کے لیے مجاہدہ اسی قدر ضروری ہے بلکہ بے حد اہمیت کا حامل ہے۔

طالبانِ مولیٰ اور متلاشیانِ حق کے لیے مجاہدہ کے ذریعے مشاہدۂ حق تعالیٰ تک پہنچنے کی راہ ہر دور میں موجود ہوتی ہے ۔ اب یہ طالبانِ مولیٰ پر منحصر ہے کہ وہ خود کو اُس مردِ مومن کی بارگاہ تک پہنچائیں اور اس کی پہچان حاصل کریں جو انہیں نفس ، دنیا اور شیطان کے وساوس اور چالوں سے بچا کر مجاہدہ میں استقامت عطا فرمائے۔ بلاشبہ دورِ حاضر میں وہ ہستی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی ذات ہے جوفرمانِ حق تعالیٰ کے عین مطابق مخلوقِ خدا کو خدا تک جانے والے راستے دکھا رہے ہیں اور معرفتِ حق کی دولت سے مالا مال فرمارہے ہیں۔ 

استفادہ کتب:
۱۔الرسالۃ الغوثیہ؛ تصنیف لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
۲۔کلید التوحید کلاں؛ تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ
۳۔محک الفقر کلاں؛ ایضاً
۴۔کشف المحجوب؛ تصنیف حضرت داتا گنج بخشؒ 

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں