بد گمانی کے مضمرات Bad Gumani Kay Muzmaraat

Spread the love

Rate this post

بد گمانی کے مضمرات Bad Gumani Kay Muzmaraat

تحریر:  مسزانیلا یٰسین سروری قادری

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ چ  اِنَّ  بَعْضَ الظَّنِّ  اِثْمٌ    (سورۃ الحجرات۔12)
ترجمہ:اے ایمان والو! گمان سے بہت زیادہ کام نہ لیا کرو یقینا بعض گمان گناہ ہیں۔

بدگمانی

’’بدگمانی‘‘ دو الفاظ کا مرکب ہے ’’بد‘‘ یعنی برُا اور ’’گمان‘‘ یعنی خیال، شک یا اندازہ۔ لہٰذا بدگمانی کا لفظی مطلب ہے کسی کے بارے میں برا یا منفی گمان رکھنا۔‘‘ اصطلاحی معنی میں بدگمانی سے مراد کسی شخص کے بارے میں بغیر کسی واضح دلیل یا ثبوت کے منفی رائے قائم کرنا یا اس کے اعمال کی برُی تاویل کرنا ہے۔ 

مجددِ دین سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی مایہ ناز تصنیف مبارکہ ’’شمس الفقرا‘‘ میں بدگمانی کی تعریف ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص بلاوجہ اپنے دل میں کسی دوسرے مسلمان بھائی کے بارے میں کسی ایسے گمان کو جگہ دے جو اس کی دیانت، شہرت، نیکی اور شرافت کے لیے سم ِقاتل ہو اور جس کی بنا پر وہ شخص معصوم سے مجرم، صالح سے طالح اور خوش بخت سے بدبخت بن جائے۔ بدگمانی کے اظہار سے اس شخص کے خلاف ایسا طوفانِ بدتمیزی جنم لے جس کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں اس کی پارسائی اور تقویٰ کی کوئی حیثیت نہ رہے۔

بدگمانی ایک ایسی روحانی و باطنی بیماری ہے جس کے بارے میں انسان کبھی سوچتا ہی نہیں اور یہ ناسور بن کر نہ صرف انسانی سوچ کو مفلوج کر دیتی ہے بلکہ انسان کی حالتِ ایمان کو بھی کمزور کر رہی ہے۔ نتیجتاً بدگمان شخص نفس اور شیطان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جاتا ہے۔

بدگمانی شیطان کا ایسا ہتھیار اور ناسور ہے جو قلب میں وسوسوں، ڈر اور خوف کی صورت میں حملہ کرتا ہے جس کے باعث منفی و باغیانہ خیالات جنم لیتے ہیں اور معاشرہ ظلم و ناانصافی کی روش اختیار کر لیتا ہے۔

میرے ہادی میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
سوئے ظن یعنی بدگمانی ’’خناس‘‘ کے وسوسہ سے پیدا ہونے والی ایسی بیماری ہے جس میں مبتلا شخص کا سکونِ قلب غارت ہو جاتا ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ ظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْئِ  صلے ج وَکُنْتُمْ قَوْمًام بُوْرًا    (سورۃ الفتح۔ 12)

ترجمہ: تم نے ایک دوسرے کے بارے میں برُا گمان رکھا اور تم برباد ہونے والی ہی قوم تھے۔

بدگمانی ایسا خطرناک ناسور ہے کہ یہ انسانوں کے درمیان تعلقات خراب کرنے اور معاشرے میں عدم اعتماد کی فضا کو فروغ دینے کا باعث بنتی ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں بھی بدگمانی کو ناپسندیدہ، قابل ِمذمت اور قبیح عمل قرار دیا گیاہے کیونکہ یہ دلوں میں نفرت، حسد، بغض و کینہ، خود پسندی، تکبر اور دیگر نفسانی بیماریوں کی بنیاد بنتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریمؐ نے فرمایا:
بدگمانی سے دور رہو کیونکہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے۔ (صحیح بخاری۔5143)
سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ’’بدگمانی ایمان کے منافی ہے۔‘‘  (نہج البلاغہ)

سیدّنا حضرت امام حسینؓ فرماتے ہیں’’بدگمانی سے بچو کیونکہ یہ اللہ کی نافرمانیوں میں سے ہے۔‘‘ 

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فتوح الغیب میں ارشاد فرماتے ہیں:
جب بندہ اپنے بھائی کے بارے میں برُا گمان رکھتا ہے، تو وہ درحقیقت اپنے ربّ کے ساتھ اپنے تعلق میں کمی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ محسن ہے اور وہ محسنین کو پسند کرتا ہے۔

بدگمانی کی وجوہات

بدگمانی کا ناسور انسان کو باطنی طور پر نہایت ہی خود غرض، اندھا اور متکبر بنا دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان بدگمانی کا شکار کس طرح ہوتا ہے؟

فخرِفقر، امامِ مبین سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس اسبابِ بدگمانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
۱۔ بدگمانی کی ایک وجہ جذباتیت یا شدید حساسیت ہے۔
۲۔ بعض اوقات انسان فطری طور پر بدگمانی کے مرض کا شکار ہوتا ہے اور جن لوگوں سے اسے بہت زیادہ محبت یا عداوت ہوتی ہے ان کی معمولی باتوں یا چھوٹے چھوٹے افعال پر شک کرنے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں متعلقہ فرد ایک طرح کا ذہنی مریض بن جاتا ہے۔
۳۔ اس کے علاوہ کم علمی، غلط فہمی، منفی خیالات، خود پسندی، غلط صحبت اور معاشرتی ماحول بھی بدگمانی کے اسباب و وجوہات بنتے ہیں۔

بدگمانی کی اقسام

بدگمانی کی درج ذیل اقسام ہیں:
۱۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں بدگمانی
۲۔ مرشد کامل اکمل کے بارے میں بدگمانی
۳۔ آپس میں مریدین کے بارے میں بدگمانی
۴۔ سوئے ظن بالنفس

اللہ پاک کے بارے میں بدگمانی

اللہ تعالیٰ جو کہ تمام تر حمد و ثنا کا مالک، اپنی ذات و صفات میں وحدہٗ لاشریک، خالقِ ارض و سما، بے حد مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔ اس پاک ذات کے متعلق بدگمانی رکھنا ایمان، عبادت،روحانی ترقی اور اطمینانِ قلب کے لیے زہرِقاتل ہے۔ یہ دل کی سیاہی،رحمت ِالٰہی سے دوری،دنیاوی اور ذہنی پریشانی و مسائل میں اضافے اور رغبتِ گناہ کی طرف مائل ہونے کا سبب بنتی ہے۔

حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے ہیں: جو شخص اللہ کے ساتھ بدگمان ہو وہ گویا اپنے دل میں کفر کی جڑ بوتا ہے۔ (رسائل ذوالنون مصری)

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَّ یُعَذِّبَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ الظَّآنِّیْنَ بِاللّٰہِ ظَنَّ السَّوْئِ (سورۃ الفتح۔6)
ترجمہ: اور (اس لئے بھی کہ ان) منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے جو اللہ کے ساتھ برُی بدگمانیاں رکھتے ہیں۔ 

بے شک انسان کا اللہ تعالیٰ کی قدرت، رحمت اور حکمت سے بدگمان ہونا اسے کفر کے قریب لے جاتا ہے۔ 

سیدّنا حضرت امام حسنؓ کا فرمان ہے: جو اللہ اور لوگوں کے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتا اس کا دل اندھا ہو جاتا ہے۔

مرشد کے بارے میں بدگمانی

مرشد کامل اکمل رہبر، رہنما، قرب و وصالِ الٰہی کی راہ کا نگہبان، فیضِ الٰہی کا وسیلہ، شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کا جامع منبع اور مخزن ہوتا ہے۔ مولانا رومؒ فرماتے ہیں’’مرشد کامل وہ آئینہ ہے جس میں اللہ کا نور نظر آتا ہے۔‘‘ ( مثنوی معنوی)

شیطان مریدِصادق کے دل میں سب سے زیادہ مرشد کے متعلق ہی بدگمانی اور وسوسے ڈالتا ہے۔ مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کافرمانِ مبارک ہے:
شیطان سب سے زیادہ بدگمانی مرشد کامل کے خلاف پیدا کرتا ہے۔ ( تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

پس مرشد کامل اکمل کی ذات و افعال کے بارے میں کسی قسم کی بدگمانی دل میں لانا قلبی و روحانی نقصان،گمراہی، رحمتِ الٰہی سے محرومی اور ایمان کے زائل ہونے کا باعث بنتا ہے۔سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں’’ جس نے اپنے رہنما (مرشد) پر شک کیا وہ گمراہ ہو گیا۔‘‘  (نہج البلاغہ)

حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
مرشد کے خلاف وسوسے شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں جو مرید کو اس کے راستے سے بھٹکانے کے لیے ہوتے ہیں۔ (احیا العلوم الدین)

عوارف المعارف میں درج ہے کہ
ایک مرید نے اپنے مرشد کو دیکھا کہ وہ ایک امیر شخص کے گھر کھانا تناول فرما رہے ہیں۔ مرید کے دل میں خیال آیا: ’’میرے شیخ تو زاہد و متقی ہیں پھر یہ دنیا داروں کے ہاں کیوں کھانا کھا رہے ہیں؟‘‘

یہ بدگمانی رکھتے ہوئے وہ مرید وہاں سے چلا گیا۔ اسی رات اس نے خواب میں دیکھا کہ ایک نورانی ہستی اس سے پوچھ رہی ہے: تم نے اپنے شیخ کے بارے میں بدگمانی کیوں کی؟ وہ اس امیر کے گھر اس لیے گئے تھے کہ اس کے گھر والوں کے دلوں میں اللہ کی محبت ڈال دیں۔ تم نے صرف ظاہر دیکھا، باطن نہیں سمجھا!‘‘

مرید بیدار ہوا تو سخت پشیمان ہوا اور فوراً شیخ کے پاس پہنچا اور معافی مانگی۔ شیخ نے فرمایا: 
’’بیٹا! مرشد پر شک کرنا گویا اللہ کے فیض کے دروازے خود بند کر لینا ہے۔‘‘

ساتھی مریدین کے بارے میں بدگمانی

مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
 اختلاف رحمت ہے اگر اس میں تعصب نہ ہو،اگر اس میں تعصب داخل ہو جائے تو یہ انتشار اور فساد بن جاتا ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

بعض اوقات حلقۂ مریدین میں کسی بات پر اختلاف بھی ہو جاتا ہے لیکن اس صورت میں بھی انہیں بدگمانی سے بچنا ہی چاہیے کیونکہ اس سے اخوت، محبت اور اتحاد کی بنیاد کمزور پڑ جاتی ہے اور نتیجتاً بدگمانی کا شکار مرید مرشد کی نگاہِ لطف و رحمت سے گر جاتا ہے۔

 سیدّنا غوث الاعظمؓ ’’فتوح الغیب‘‘ میں فرماتے ہیں’’جو اپنے ساتھی مرید کو برا سمجھے وہ درحقیقت اپنے مرشد کے فیض کو ٹھکرا دیتا ہے۔‘‘

حضرت بایزید بسطامیؒ فرماتے ہیں:
 شیطان سب سے پہلے مریدوں کے دلوں میں شک ڈالتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں۔
پس ساتھی مریدین سے بدگمانی رکھنا نہ صرف دل میں کینہ اور دیگر روحانی و نفسانی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتی ہے بلکہ ایسے مرید کو مرشد کی نگاہِ فیض سے گرا کر اس کا روحانی سفر ختم کر دیتی ہے۔

خود سے بدگمانی (سوئے ظن بالنفس)

خود سے بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی نیت، اعمال اور روحانی حالت کے بارے میں ہمیشہ منفی رویہ پر نظر رکھے یعنی ہر وقت یہ سوچتا رہے کہ میں کبھی اللہ پاک کا قرب و وصال نہیں پا سکتا، میں کبھی بھی تزکیۂ نفس کے مراحل طے نہیں کر سکتا، مجھ سے کبھی کوئی کام صحیح ہو ہی نہیں سکتا یا اپنے ہر عمل کے بارے میں مشکوک رہنا وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام منفی نظریات ناشکری اور ناامیدی کی طرف لے جاتے ہیں جو کہ ازخود ایک کفر ہے۔ میرے ہادی سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں: 

انسان اللہ کے ساتھ جیسا گمان رکھتا ہے اللہ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

حضرت امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
اپنے بارے میں بدگمانی رکھنا شیطان کا وار ہے جو بندے کو اللہ کی رحمت سے دور کرتا ہے۔(احیا العلوم الدین)

بلاشبہ عاجزی میں رہنے والا ہی قرب و معرفتِ حق تعالیٰ کی منازل جلد طے کرتا ہے لیکن یہ اس حد تک اختیار کی جائے کہ بدگمانی کا لبادہ نہ اوڑھ لے کیونکہ اسلام ہمیں متوازن خود احتسابی کی ترغیب دیتا ہے۔

پس جس طرح شفاف پانی کے تالاب کو ایک ناپاک بوند خراب کر دیتی ہے بالکل اسی طرح رائی کے دانہ کے برابر بدگمانی بھی راہ ِحق کے مسافر کے تمام تر اعمال کو غارت کر دیتی ہے۔

جہاں بدگمانی انسان کو دیگر روحانی بیماریوں مثلاً تجسس، کینہ، چغل خوری، غیبت، تکبر اور خود پسندی وغیرہ میں مبتلا کرتی ہیں وہیں اس کے انسانی جسم پر بھی نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو ہمیشہ بے یقینی، خوف اور بے چینی میں مبتلا رکھتی ہے اور یہ کیفیت ذہنی دباؤ اور ڈپریشن کا سبب بنتی ہے۔ اس کے علاوہ بدگمان شخص کبھی کسی پر اعتماد نہیں کرتا جس کی وجہ سے وہ تمام تر رشتے (روحانی ہوں یا معاشرتی) خراب کرلیتا ہے اور معاشرتی خرابی کا سبب بنتا ہے۔

یہ دنیا اصل میں ایک امتحان گاہ ہے اور اس امتحان گاہ میں کامیابی کے لیے ظاہر و باطن کو سنوارنا اور مقربِ الٰہی بنانا بہت ضروری ہے۔ دینِ اسلام میں ظاہر و باطن کو سنوارنے کے شریعتِ محمدیؐ کے قواعد و ضوابط پر اس طرح عمل کیا جائے کہ ظاہر کے ساتھ ساتھ باطن بھی نفسانی اور روحانی بیماریوں سے پاک ہوجائے ۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ انسان صرف شریعتِ مطہرہ کی کتابیں پڑھ کر کامل عمل کر سکتا ہے؟ اور خود کو نفسانی بیماریوں سے پاک کر سکتا ہے؟ اس جواب کے لیے یہ دلیل ہی کافی ہے کہ اگر ایسا ممکن ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ انبیا کرام کے بعد صحابہ کرامؓ، تابعین، تبع تابعین اور فقرا کاملین کا سلسلہ ہی شروع نہ فرماتا۔ کیونکہ از خود علمِ حقیقت تو پڑھا جا سکتا ہے مگر حالتِ حقیقت حاصل نہیں کی جاسکتی، اس لیے رہبر و رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔

 حدیثِ نبویؐ ہے:
پہلے رفیق (مرشد کامل) تلاش کرو پھر راستہ چلو۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مرشد کامل کے بغیر اگر کوئی ساری عمر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے پھر بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ بغیر پیر و مرشد کوئی اللہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ مرشد باطن کی راہ کے تمام مقامات و منازل سے آگاہ ہوتا ہے اور ہر مشکل کا مشکل کشا ہوتا ہے۔ مرشد کامل توفیقِ الٰہی کا دوسرا نام ہے۔ توفیقِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی کام سر انجام نہیں دیا جا سکتا۔ مرشد جہاز کے تجربہ کار اور باخبر جہاز ران کی مانند ہوتا ہے جسے راستے میں آنے والی تمام آفات اور مشکلات اور ان کے حل کا علم ہوتا ہے۔ اگر جہاز پر تجربہ کار جہاز ران نہ ہو تو جہاز ڈوب کر غرق ہو جاتا ہے۔ مرشد خود ہی جہاز ہے اور خود ہی جہاز ران ہے فَھِمَ مَنْ فَھِمَ    ترجمہ: جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا۔  ( عین الفقر)

بے شک ناخدا کے بغیر منزل تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ عصرِحاضر کے  مرشد کامل اکمل، مجددِدین میرے ہادی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ ہی وہ کامل اکمل مکمل ہستی ہیں جنہوں نے دینِ محمدیؐ کو حیاتِ نو بخشی۔ آپ کی ذاتِ اقدس اس پرُفتن دور میں امتِ مسلمہ کے لیے اُمیدکی کرن ہے۔ آپ کی نگاہِ کامل سے لاکھوں متلاشیانِ حق نفسانی و روحانی بیماریوں سے نجات پاکر معرفتِ حق سے اپنے قلوب کو منور کر رہے ہیں اور معراجِ انسانیت کی راہ پر گامزن ہو رہے ہیں کیونکہ یہی اصل کامیابی ہے۔

مرد ملے تے مرض گواوے، او کن دے گن کردا
کامل پیر محمد بخشا لال بناون پتھر دا

استفادہ کتب:
۱۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین:  ترتیب و تدوین مسز عنبرین مغیث سروری قادری
۲۔احیاء العلوم الدین:  امام ابوحامد محمد الغزالیؒ 

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں