دورِ نبویؐ اور راہِ فقر
Daur-e-Nabvi (S.A.W.W) Aur Raah-e-Faqr
تحریر: فاطمہ برہان سروری قادری
بعثتِ نبویؐ سے قبل دنیا ظلم و جبر کی دردناک تصویر پیش کر رہی تھی۔ آقائے دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے غم و زیادتی کے بادل چھٹ گئے۔ ایسا دین منظرِعام پر آیا جہاں ہر ایک کو مساوی حقوق دئیے جانے لگے۔ عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان سب کو دینِ محمدیؐ پر عمل پیرا ہونے کے سنہری اصول سکھائے گئے۔ تاہم یہ دین ایک دَم عالمی طاقت بن کر سامنے نہیں آیا بلکہ حق و باطل کی جنگ ہوئی، حق باطل سے ٹکرایا، حق نے باطل قوتوں کو زیر کیا، قربانیاں دی گئیں، ملامت و طنز اور تشدد کے تیر چلائے گئے، وفا کا کڑا امتحان لیا گیا، عشق کی بھٹی میں جلایا گیا، ظاہری و باطنی امتحانات لے کر روحانی ترقی کی منازل طے کی گئیں۔ مسلمانوں کا چھوٹا گروہ جس کا ابتدا میں مذاق اڑایا گیا پھر مخالفتوں کے نشتر چلائے گئے لیکن مسلمان قوتِ ایمانی سے لبریز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قیادت میں قوی سے قوی تر ہوتے چلے گئے۔ بالآخر باطل زیر ہوا اور حق کو فتح نصیب ہوئی۔ مسلمانوں کا چھوٹا لشکر عظیم الشان لشکر میں تبدیل ہوا اور وہ سفر جس کی ابتدا مکہ میں مخالفتوں سے ہوئی اس کی انتہا فتح مکہ کی صورت میں نصیب ہوئی۔ یہ سفر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہنمائی میں صحابہ کرامؓ نے طے کیا اور ایسی روشن مثالیں قائم کیں جو رہتی دنیا تک راہِ فقر کے سالکوں کے لیے مشعلِ راہ رہیں گی۔ جس طرز پر صحابہ کرامؓ نے اپنے ہادی، اپنے مرشد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ وفاداری نبھا ئی، آج اگر سچا طالبِ مولیٰ اُنہی روشن اصولوں کو اپنائے اور موجودہ دور کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے دامن سے وابستہ ہو جائے اور ان کے زیرِنگرانی تزکیۂ نفس کے مراحل طے کرے تو اسی باطنی فیض کو حاصل کر سکتا ہے جو صحابہ کرامؓ کو نصیب ہوا۔ لیکن اس کے لیے شرط ’’عشق‘‘ ہے، اصول ’’وفا‘‘ ہے، ’’استقامت‘‘ ڈھال ہے، ’’توفیق‘‘ عطا ہے، مخالفتیں اور آزمائشیں زادِ راہ ہیں، دیدار و صحبتِ مرشد طاقت ہے، رضائے مرشد اصل کامیابی ہے۔ یہ وہ سنہری اصول ہیں جو طالبِ مولیٰ کو دورِ نبویؐ سے سیکھنے کو ملتے ہیں۔ اکثر لوگ اس گمان میں اپنی زندگی کی قیمتی سانسیں گنوا دیتے ہیں کہ راہِ عشقِ حقیقی میں مخالفتیں برداشت کرنے کا سلسلہ صحابہ کرامؓ تک محدود تھا۔ عزیزساتھیو! عشقِ حق تعالیٰ کا دستور ہر دور میں یکساں ہے۔ اللہ خود عشق ہے اور عہدِعشق نبھانے کے لیے ہر عاشق کو جان و مال کی بازی لگانی پڑتی ہے۔ ہر ایک نے اپنا امتحا ن خود دینا ہوتا ہے۔ مومن کے لیے اب جو اصل امتحان ہے وہ یہ کہ اپنے دور کے مرشد کامل اکمل کو تلاش کرے، وہ مرشد جس کا ہر قدم قدمِ محمدیؐ پر ہو اور وہ نائبِ رسولؐ اور حاملِ امانتِ فقر ہو، تزکیۂ نفس کرنے والا ہو۔ اگر تزکیۂ نفس کے اس سفر میں اسے ظاہری و باطنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو ان کو اس طرح برداشت کرے جس کا مشاہدہ دورِ نبویؐ میں کروایا گیا۔ اس مضمون میں طالبانِ مولیٰ کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور کے مختلف احوال و واقعات پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ جو طالبانِ مولیٰ راہِ فقر کی منازل طے کررہے ہیں انہیں اس سے رہنمائی حاصل ہو کیونکہ دورِ نبویؐ تمام مومنین کے لیے ’’guideline‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔
غارِ حرا میں خلوت نشینی
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں :
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر وحی کی ابتدا اچھے خوابوں سے ہوئی۔ آپؐ جو خواب دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح ظاہر ہو جاتا، پھر آپؐ خلوت نشین ہو گئے اور غارِ حرا میں جانا شروع کر دیا، وہاں کئی کئی راتیں ٹھہر کر عبادت کرتے۔
آپؐ کی سیرتِ طیبہ سے جو پہلا سبق سیکھنے کو ملتا ہے وہ یہ کہ معرفتِ الٰہی کے لیے تنہائی، خلوت اور غور و تفکر ضروری ہے۔ جو طالب غورو فکر کرتا ہے، اپنی ذات کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کرتا ہے، اللہ کا قرب حاصل کر نے کے لئے دل سے دنیا وی رشتوں کی محبت ختم کرنے کا جذبہ رکھتا ہے، اللہ کے روبرو عاجزی سے اس کا دیدار و قرب طلب کرتا ہے تو اللہ بھی اسے صراطِ مستقیم کا راستہ ضرور دکھاتا ہے اور اسے مرشد کامل اکمل کی بارگاہ تک پہنچا دیتا ہے ۔
تبلیغِ اسلام اور ابتدائی حکمت
عورتوں میں جو ہستی سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائیں وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں، مردوں میں جو سب سے پہلے ایمان لائے وہ حضرت ابوبکر صدیقؓ تھے اور بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت علیؓ تھے۔ آپ ؐ نے جب ابتدا میں تبلیغِ اسلام کے فرائض سر انجام دئیے تو مسلمانوں کی جماعت میں چند لوگ ہی شامل تھے۔ مسلمانوں کی جماعت قوتِ ایمانی سے تو بھرپور تھی لیکن تعداد میں کم ہونے کے اعتبار سے قوی نہیں تھی۔ جس کی وجہ سے آپؐ نے ابتدا میں صحابہ کرام ؓکو برملا تبلیغِ اسلام کی دعوت دینے سے منع فرمایا تھا۔ علامہ ابنِ کثیر رقمطراز ہیں :
جب مسلمان مردوں کی تعداد اڑتیس (38)ہوگئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بارگاہِ رسالت مآبؐ میں عرض کی یا رسول اللہ! اب ہمیں میدان میں نکل آنا چاہیے اور تبلیغِ اسلام کا فریضہ پوری قوت سے سر انجام دینا چاہیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’ابوبکرؓ!ابھی ہماری تعداد کم ہے ‘‘۔(ضیا النبیؐ)
آپؐ کے اس قدم سے راہِ فقر کے سالکوں کے لیے جوحکمت ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر راہِ فقر میں مرشد کامل کے دستِ اقدس پر بیعت کرنے سے طالب کے لیے ایسے حالات پیدا ہو جائیں جس سے سفر کو جاری رکھنا مشکل ہو جائے تو اپنی طاقت و قوت اور دیگر معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے طالب کو حکمت و تدبیر کو اپناناچاہیے اور رازداری بھی اسی حکمت کی علامت ہے بشرطیکہ اس میں صدق اور خلوص شامل ہو ۔
حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کا ایمان لانا
رازداری کے ساتھ دعوتِ حق کے فرائض سر انجام دینا تبلیغِ اسلام کا پہلا مرحلہ تھا۔ اسلام کا نورِتاباں آہستہ آہستہ مکہ کے بااثر شرفا کے قلوب کو منور کرتا جا رہا تھا۔ انہی افراد میں سب سے نمایاں نام حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے ہیں جن کے ایمان لانے سے مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہوا۔ علامہ ابنِ کثیرؒلکھتے ہیں :
حضرت حمزہ ؓ بعثت کے دوسرے سال ایمان لائے۔
حضرت حمزہؓ جیسے شیر دل اور بہادر سردار کے اسلام لانے سے مشرکینِ مکہ پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اس کے علاوہ حضرت عمرؓ کا ایمان لانا بھی تاریخ ساز واقعہ ہے ۔ حضرت ابنِ عباسؓ سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب میں مشرف بہ اسلام ہوا تو میں نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی :
’’اے اللہ کے پیارے رسولؐ!کیا ہم حق پر نہیں ہیں خواہ ہم مریں خواہ ہم زندہ رہیں۔ ‘‘
حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم حق پر ہو خواہ تم مرو یا زندہ رہو۔ پھر میں نے عرض کی :
’’اے اللہ کے رسول !پھر ہم کیوں چھپتے ہیں اور اپنے دین کو کیوں چھپاتے ہیں حالانکہ ہم حق پر ہیں اور وہ باطل پر ہیں ۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
’’اے عمرؓ!ہماری تعداد کم ہے اور تم دیکھتے ہو جو کفار ہمارے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں۔‘‘
حضرت عمرؓ نے عرض کی :
’’اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بناکر بھیجا، تمام وہ مجلسیں جن میں کفر کی حالت میں بیٹھتا تھا اب مسلمان ہونے کے بعد میں ان سب میں بیٹھوں گا۔‘‘
پھر ہم دارِ ارقم سے دو قطاریں بنا کر نکلے۔ ایک قطار کے آگے آگے میں تھا اور دوسری قطار کے آگے حضرت حمزہؓ تھے یہاں تک کہ ہم مسجدِحرام میں داخل ہوئے۔ جب قریش نے ہمیں اس حالت میں دیکھا تو ان پر کوہِ اَلم ٹوٹ پڑا۔ میں نے اپنے ایمان کی خبر مشتہر کرنے کے لیے جمیل بن مغمر کو اطلاع دی اور اس نے شور مچا دیا کہ خطاب کا بیٹا صابی ہو گیا یعنی مرتد ہو گیا۔ (ضیا النبیؐ)
حضرت ابنِ مسعودؓ نے حضرت عمرؓ کے اسلام لانے پر بڑا جامع تبصرہ فرمایا ہے :
’’حضرت عمرؓ کا اسلام مسلمانوں کے لیے باعثِ عزت، آپ کی ہجرت باعثِ نصرت اور آپ کی خلافت باعثِ رحمت تھی۔ بخدا! ہماری طاقت نہ تھی کہ ہم ظاہری طور پر کعبہ کے صحن میں نماز ادا کر سکیں یہاں تک کہ حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیا۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوتِ حق دینے کے لیے حکمِ الٰہی :
بعثت کے بعد تین سال کا عرصہ خاموشی سے تبلیغ میں گزرا ۔ اس عرصہ میں اسلام نے جن اولو العزم ہستیوں کو اپنے پرچم تلے جمع کر لیا ان عظیم لوگوں کا دین کو قبول کر لینا حضور پرنور ؐ کے پرُ امن جہاد کی شاندار اور بے مثال فتوحات تھیں۔ جب مسلمانوں کی جماعت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قیادت میں منظم اور قوی ہوئی تو جبرائیلِ امین خداوند کریم کی جانب سے یہ حکم لے کر تشریف لائے:
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ۔ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ( سورۃ الشعرا ۔ 214-215)
ترجمہ:اور (اے حبیبِ مکرم!)آ پ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے ) ڈرائیے۔ اور آپ اپنا بازوئے( رحمت و شفقت) ان مومنوں کے لیے بچھادیجیے جنہوں نے آپ کی پیروی اختیار کر لی ہے۔
اس حکمِ خداوندی کی تعمیل ضروری تھی لیکن یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ کفر و شرک کے خوگر معاشرہ میں ایسے لوگوں کوتوحید کی دعوت دینا جو صد ہا سال سے پتھر کے بنے ہوئے اندھے، بہرے، بے جان بتوں کی پوجا کے متوالے تھے، بڑا کٹھن کام تھا۔ آپؐ نے حکمِ خداندی کی تعمیل کی اور قریشِ مکہ اور رشتہ داروں کو دعوتِ حق دینے کا آغاز کیا ۔
دینِ اسلام ایک سچے طالبِ مولیٰ کو اپنے اندرسے غیر اللہ کا خوف و ڈر ختم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اصل توحید ہے بھی یہی کہ دل غیر اللہ کی محبت اور خوف سے پاک ہو جائے اور یہ تزکیۂ نفس سے ہی حاصل ہوتا ہے۔
جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قریشِ مکہ اور رشتہ داروں میں برملا دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا تو مخالفین نے آپؐ کے ساتھیوں کے لیے مکہ کی زمین کو تنگ کر دیا۔ اتنے ظلم و جبر کیے جس سے دل کانپ اٹھتا ہے۔ لیکن اب اپنے مرشد کریم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلا م کی قیادت میں میدانِ عشق میں بہادر مجاہد کی طرح لڑنے کا وقت تھا۔ اب وفا اور عشق کا امتحان تھا جس میں کامیابی کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کا تزکیۂ نفس فرمایا۔ عشق کے اسی نرالے دستور کے متعلق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
جب طالب راہِ حق یعنی فقر میں قدم رکھتا ہے تو سب اس کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ یہ اس راہ کا اصول ہے جو صحابہ کرام ؓ سے چلتا آرہا ہے۔ آسان زندگی یہ ہے کہ صبح کام پر جائیں، شام کو جو کما کر لائیں وہ سب کو کھلائیں اور اگر زیادہ دیندار بننا ہے تو پانچ وقت مسجد میں جا کر نماز پڑھ لیں جبکہ راہِ حق پر چلنے کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ سالک جب اس راہ پر چلتاہے تو اس کی عزت، شہرت، بزرگی سب بدنامیوں میں بدل جاتی ہے۔ ہر کوئی اس کی مخالفت کرتا ہے ۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین )
راہِ حق میں مشکلات اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے مثال استقامت
مخالفین نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو راہِ حق سے باز رکھنے اور دعوت و تبلیغ سے دست بردارہونے کے لیے مختلف حر بے استعمال کیے اور انہوں نے اس کے لیے آپؐ کے چچا حضرت ابو طالب کو مجبور کیا توآپؐ نے اپنے چچا سے فرمایا:
’’اے میرے چچا! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں رکھ دیں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ میں اور یہ توقع کریں کہ میں دعوتِ حق کو ترک کر دوں گا تو یہ ناممکن ہے۔ یا تو اللہ تعالیٰ اس دین کو غلبہ دے دے گا یا میں اس کے لیے جان دے دوں گا۔ اس وقت تک میں اس کام کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ‘‘
آپؐ کی استقامت کو دیکھتے ہوئے آپ ؐ کے چچا نے فرمایا :
’’اے میرے بھتیجے! آپؐ کا جو جی چاہے کہئے، میں آپ کو کسی قیمت پر کفار کے حوالے نہیں کروں گا۔‘‘ (ضیا النبیؐ)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ظلم و جبر کا پہاڑ توڑا گیا، آپؐ کی راہ میں کانٹے بچھائے گئے، مٹی کا ڈھیر اور غلاظت پھینکی جاتی، شعبِ ابی طالب میں تین سال آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں کو محصور کیاگیا، سوشل بائیکاٹ (معاشرتی مقاطعہ)کیا گیا، ہر قسم کے لین دین اور تجارت پرپابندی لگا دی گئی، گرمی اور بھوک و پیاس کی شدت سے بچے، بوڑھے، جوان سب بلبلا اٹھتے، دعوتِ حق کی خاطرطائف والوں کا ظالمانہ اور سنگدلانہ رویہ!! آخر کون سا ایسا حربہ تھا جو کفارِ مکہ نے آپ کو دکھ اور تکلیف پہنچانے کے لیے اختیار نہ کیا ہو۔
صحابہ کرامؓ کا حضورؐ سے عشق و محبت
دینِ حق کی دعوت و تبلیغ کے ابتدائی دور میں جو لوگ ایمان لائے ان میں اکثریت ان لوگوں کی تھی جو غلام تھے یا کمزور اور بے بس تھے اور پہلے ہی کفارِ مکہ کے ظلم و زیادتی کا شکار تھے۔ ایسے حالات میں جب انہوں نے دینِ حق کی دعوت قبول کی اور مکہ کے سرداروں اور ان کے بے شمار بتوں کے خلاف ایک خدا کی عبادت کا اقرار کیا تو سوچیے ان کو راہِ حق سے ہٹانے کے لیے کن مظالم سے گزارا گیاہو گا۔ ذیل میں عاشقِ رسول حضرت بلال حبشیؓ کا واقعہ پیش کیا جا رہا ہے :
حضرت بلال حبشیؓ امیہ بن خلف کے غلام تھے اور ان ازلی سعادت مندوں میں سے تھے جن کا شمار السابقون الاوّلون میں ہوتا ہے۔ امیہ کی اسلام دشمنی یہ کب برداشت کر سکتی تھی کہ اس کا زرخرید غلام اس کی مرضی کے بغیر دینِ حق قبول کرے اور ایک خداوندِحقیقی کی بندگی کا دم بھرنے لگے۔ وہ حضرت بلالؓ کو تکلیف پہنچاتا تاکہ دینِ اسلام کو چھوڑ دیں۔ آپؓ کو بھوکا پیاسا رکھتا۔ دوپہر کے وقت جب دھوپ خوب چمک رہی ہوتی اور ریتلی زمین تانبے کی طرح تپ رہی ہوتی تو وہ آپؓ کو اس پر لٹا دیتا پھر بھاری پتھر آپؓ کی چھاتی پر رکھ دیتا اور کہتا یا تو محمدؐ کا دین چھوڑ دو اور بتوں کی عبادت کرو اور یا تم اس طرح تڑپتے رہو گے یہاں تک کہ تمہارا دَم نکل جائے۔ آپؓ نیم بیہوشی کے عالم میں یہی جواب دیتے ’’وہ یکتا ہے، یکتاہے۔ میں اللہ کے سوا کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور بتوں کی عبادت سے انکار کرتا ہوں۔ ‘‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صبر و استقامت، صحابہ کرامؓ کے وفا و جانثاری کے جذبہ سے راہِ فقر کے سالکوں کو یہی سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ راہِ فقر راہِ عشق ہے ۔ عشق قربانی مانگتا ہے خواہ وہ جانی ہو، مالی ہو یا رشتہ داروں کی مخالفت ہو۔ اگر راہِ فقر میں کسی طالب نے مالی قربانی کا جذبہ سیکھنا ہو تو حضرت عثمان غنیؓ کو دیکھے جنہوں نے اپنا سارا مال راہِ حق میں لٹا دیا، یارِ غارحضرت ابوبکر صدیقؓ کو دیکھے جو کمزور غلاموں کو کفار کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے رضائے الٰہی کی خاطر آزاد کروا دیتے۔ اگر سیکھنا ہے کہ راہِ فقر میں گھربار کیسے لٹایا جاتا ہے تو ہجرتِ مدینہ اور ہجرتِ حبشہ والوں کی طرف دیکھیں ، عزیز رشتہ دار کیسے راہِ حق میں مخالفت کرتے ہیں تو اس کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت کو دیکھیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سب سے زیادہ مخالفت جنہوں نے کی وہ حضور کے اپنے سگے چچا ابولہب تھے۔ ابو لہب اور اس کی بیوی نے جو ظلم ڈھائے اس پر تو خود ربِ کریم نے سورۃ لہب نازل کی۔
راہِ فقر میں جب طالب مرشد کامل کی رہنمائی میں تزکیۂ نفس کے مراحل طے کرتاہے تو فقر کی خوشبو جسے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کستوری کی خوشبو سے تشبیہ دیتے ہیں، طالب کے رَگ و پے سے ظاہر ہونے لگتی ہے۔ جس طرح کستوری کی خوشبو چھپ نہیں سکتی اسی طرح طالب کا عشق چھپ نہیں سکتا، جلد یا بدیر رشتہ داروں اور دنیا داروں پر ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس وقت حق باطل سے ٹکراتا ہے، عشق قربانی مانگتا ہے، مرشد کے ساتھ وفا کا تقاضا کرتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ ایسے کامل عشق کے متعلق فرماتے ہیں :
تدوں فقیر شتابی بندا، جد جان عشق وچ ہارے ھوُ
عاشق شیشہ تے نفس مربی، جان جاناں توں وارے ھوُ
مفہوم: فقیر تب ہی کامل ہوتا ہے جب عشق میں اپنی جان قربان کر دیتا ہے اور ’لا‘ کی تلوار سے خواہشاتِ نفس کا خاتمہ کر دیتا ہے ، اپنا گھر بار ، مال و متاع اور اپنی ہستی تک نیلام کر دیتا ہے پھر اپنے آپ کو عشق کی آگ میں جلا کر فنا کر لیتا ہے ۔
ثابت عشق تنہاں نوں لدھا، جنہاں ترَٹی چوڑ چا کیتی ھوُ
مفہوم: عشقِ حق تعالیٰ تو وہ پاتے ہیں جو راہِ عشق میں اپنا گھر بار لٹا دیتے ہیں اور جن پر عشق کا رنگ چڑھ جائے تو اس کو کوئی اتار نہیں سکتا ۔
ہجرتِ مدینہ اور فتح مکہ
درد و غم اور رنج و اَلم کی تاریک رات اب سحر آشنا ہونے کو تھی۔ اسلام اور اس کے ماننے والوں کی بے کسی و بے بسی کی مدت اب اختتام پذیر ہوئی چاہتی تھی۔ وہ وقت اب قریب آگیا تھا کہ اللہ نے اپنے محبوب بندے اور جلیل القدر رسولؐ کے ساتھ فتح و نصرت کے جو وعدے کئے تھے، وہ پورے کیے جائیں۔ آپؐ تیرہ سال کاطویل عرصہ اہلِ مکہ کو دعوتِ حق دیتے رہے لیکن گنتی کے چند خوش نصیبوں کے علاوہ کسی کو توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ ہادی برحق کی پرُخلوص دعوت کو قبول کر لے۔ جب سالہا سال کی جاں گداز محنت کے باوجود مکہ اور اس کے گردو نواح میں آباد قبائل میں حق قبول کرنے کے آثار کہیں دکھائی نہیں دئیے تو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت نے دور افتادہ شہر کے قبیلوں کو اسلام کی طرف مائل کر دیا۔ انہوں نے آپ ؐ کی دعوتِ حق کو سنا، اس پر ایمان لائے، بیعت کی اور مشکل وقت میں مسلمانوں کی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ یہ قبیلے بنی اوس و بنی خزرج کے نام سے موسوم تھے جو آگے چل کر انصار اللہ و انصار رسول کے معزز لقب سے ملقب ہوئے۔ مکہ کے مسلمانوں نے جب بحکمِ الٰہی ہجرتِ مدینہ کی تو انہوں نے خلوص و محبت کے ساتھ مہاجرینِ مکہ کو قبول کیا اور پناہ دی ۔ اللہ تعالیٰ نے جا بجا قرآن کریم میں ان کا ذکر فرمایا ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط لَہُم مَّغْفِرَۃٌ وَّ رِزْقٌ کَرِیْمٌ (سورۃ الانفال ۔ 74)
ترجمہ:او رجو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے (راہِ خدا میں گھر بار اور وطن قربان کر دینے والوں کو) جگہ دی اور (ان کی ) مدد کی، وہی لوگ حقیقت میں سچے مسلمان ہیں، ان ہی کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
راہِ حق میں جب طالبِ مولیٰ مشکلات برداشت کرتے ہوئے استقامت اختیار کرتا ہے اور سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہے، مرشد کامل سے اس کی وفاداری ثابت ہو جاتی ہے تو اللہ کی طرف سے اس کے لیے مدد کے دروازے ضرور کھلتے ہیں۔ جس طرح مہاجرینِ مکہ کے لیے انصارِ مدینہ مدد کا سبب بنے اسی طرح راہِ فقر میں بھی طالبانِ مولیٰ کے لیے سبب بنتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح مہاجرین و انصار کو ایک مضبوط جماعت بنانے کے لیے رضائے الٰہی کی خاطر جو ڑا، اسی طرح مرشد کامل بھی اللہ والوں کی جماعت کا قائد ہوتا ہے اور دینِ حق کا پیغام عوام الناس تک پہنچانے کے لیے ایک تحریک کی بنیاد رکھتا ہے۔اس تحریک کا مقصد تزکیۂ نفس اور دیدارِ الٰہی سے قلب کو منور کرنا ہوتا ہے تاکہ طالب دین و دنیا میں کامیاب ہو سکے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قیادت میں مسلمانوں نے مدینہ کی جانب ہجرت کی، غزوات ہوئے، شہادتیں ہوئیں، حق باطل سے ٹکرایا، کفارِ مکہ پر مسلمانوں کی برتری ثابت ہوئی۔۔۔ بالآخر ایک چھوٹاساگروہ عظیم الشان طاقت بنا اور اللہ نے انہیں ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کی صورت میں شاندار کامیابی سے ہمکنار کیا۔
معزز قارئین کرام! راہِ فقر میں طالبِ مولیٰ کے لیے حق میں کامیاب ہو جانے اور باطل قوتوں کے زیر ہو جانے سے کیا مراد ہے؟ جس طرح پہلے بیان کیا گیا طالبِ مولیٰ کو بھی آزمایا جاتا ہے،یہ اس کی ظاہری آزمائش ہوتی ہے۔ لیکن اصل جنگ ’’باطن ‘‘ میں ہوتی ہے اور یہ جنگ ’’نفس‘‘ اور ’’ روح‘‘ کے درمیان ہوتی ہے ۔ اگر نفس قوی ہو تو روح یعنی روحانی طور پر اس کا تعلق اللہ سے کمزور ہو جاتا ہے اور اگر روح قوی ہو تو نفس امارہ سے لوامہ ، لوامہ سے ملہمہ اور پھر مطمئنہ ہو جاتا ہے ۔
طالبِ مولیٰ پر بھی باطن میں ایک ایسا مقام آتا ہے جہاں اسے ’’ہجرت‘‘ کرنا ہوتی ہے۔ یہ ہجرت باطنی ہوتی ہے جس طرح عہدِ نبویؐ میں ہجرت کرنے کے لیے مسلمانوں نے اپنے مال، اولاد، جائیداد سب کچھ چھوڑ دیا اوردل سے تمام خوف اور محبت کے بت توڑ دیئے بالکل اسی طرح طالبِ مولیٰ بھی باطن میں ہجرت کرتا ہے جس کے لیے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اپنے پنجابی کلام میں ’’ترٹی چوڑ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ راہِ فقر میں جب طالب باطنی ہجرت کرتا ہے یعنی غیر اللہ اور خوف و محبت کے بت دل سے مٹا دیتا ہے اور سوئے مدینہ یعنی مرشد کامل اکمل کی جانب صدق و اخلاص کے ساتھ قدم بڑھاتا ہے تو وہ بھی ظاہری و باطنی طور پر مضبوط ہوتا ہے جس طرح دورِ نبویؐ میں صحابہ کرامؓ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قیادت میں ہوئے اور انہیں فتح مکہ نصیب ہوئی۔ طالبِ مولیٰ کے لیے فتح مکہ سے مراد نفس کا مغلوب ہونا اور روح کا ترقی کرتے ہوئے اپنے اصلی باطنی مقام ’’عالمِ لاھوت‘‘ تک پہنچنا ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام پر ابو جہل کیوں ایمان نہیں لایا ؟
ایسے بہت سے کفارِ مکہ تھے جو یہ بات جانتے تھے کہ جو دین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لیکر آئے ہیں وہ سچا ہے اور آپؐ سچے نبی ہیں۔ وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے تھے کہ جو کتاب آپؐ پڑ ھ کر سناتے ہیں وہ الہامی ہے ۔ کسی انسان کی مجال نہیں کہ وہ اس قسم کا کلام پیش کر سکے ، وہ رات کی تاریکی میں چھپ چھپ کر قرآن سنتے تھے پھر ان کے ایمان نہ لانے کی کیا وجہ تھی؟ حضرت سخی سلطان باھوؒ اس کے متعلق اپنی تصنیف ’’عین الفقر ‘‘میں لکھتے ہیں :
جان لے ! یہ دنیا کا مال ہی تھا جس نے حضرت محمدؐ سے دشمنی اور جنگ کی تھی۔ اگر ابو جہل مفلس ہوتا تو حضرت محمدؐ کی اتباع کرتا۔ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کو دنیا نے ہی شہید کیا۔ اگر یزید مفلس ہوتا تو حضرت امامین پاکؓؓ کی اتباع کرتا۔ امامین پاک اُمّ المومنین حضرت بی بی فاطمۃ الزہراؓ اور حضرت محمدؐ کی آنکھوں کا نور ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہیں۔ پس اہلِ دنیا ابو جہل اور یزید ہیں نہ کہ رابعہ بصریؒ اور بایزید بسطامیؒ۔ (عین الفقر)
مال و دنیا کی محبت وہ فتنہ ہے جو بندے کو حق کی پہچان سے دور رکھتا ہے۔ اسی فتنہ کی وجہ سے ابوجہل حق کا انکار کرتا رہا۔ آج کے موجودہ دور میں بھی وہ طالبِ دنیا جن کے دل مال کی محبت اور ہوس کی وجہ سے پرُ ہیں، وہ مرشد کامل اکمل کو بطور نائبِ رسولؐ، حاملِ امانتِ فقر پہچان نہیں پاتے ۔ اگران پر راہِ فقر کی کرامات ظاہر ہو جائیں تب بھی مرشد سے بغض و حسد کی وجہ سے راہِ باطن کو اختیار نہیں کرتے۔ ہر دور میں طالبِ مولیٰ اور طالبِ دنیا دونوں موجود ہوتے ہیں۔ طالبِ مولیٰ سعادت مند ہوتے ہیں جوتزکیۂ نفس اور دیدارِ الٰہی کے حصول کے لیے مرشد کامل کی بیعت سے مشرف ہوتے ہیں اور راہِ فقر کو اختیار کرتے ہیں اور طالبِ دنیا درحقیقت طالبِ مال و زر ہوتے ہیں جو اپنی ضد اور اَنا کی وجہ سے راہِ فقر اختیار نہیں کرتے۔ اور اس راہ پر آ بھی جائیں تو اپنی ناقص طلب کی وجہ سے حق سے محروم رہتے ہیں۔
تمام طالبانِ مولیٰ کوبانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر اور امام سلسلہ سروری قادری سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں سیرتِ مصطفیؐ پر عمل کرتے ہوئے راہِ فقر میں کامیابی عطا کرے ۔ آمین
استفادہ کتب :
۱۔شمس الفقرا : تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ضیا النبیؐ جلد ۲: پیر محمد کرم شاہ الازہری
۳۔عین الفقر: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۴۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین : ترتیب و تدوین مسز عنبرین مغیث سروری قادری