موت کے بعد زندگی (Life after Death). Moat Kay Bad Zindagi

Spread the love

Rate this post

موت کے بعد زندگی (Life After Death)
 Moat Kay Bad Zindagi

ترجمہ: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

ماہنامہ سلطان الفقر میں با رہا مضامین میں ’روح‘ کے وجود اور اس کی حقیقت پر بحث کی گئی ہے اور عوام الناس کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کا حقیقی وجودان کا جسم نہیں بلکہ روح ہے ۔ روح ہی اصل سننے، بولنے، محسوس کرنے والا وجود ہے نہ کہ جسم۔ جسم صرف اس روح کا لبا س ہے۔ موت اس لبا س سے روح کا آزاد ہونا ہے۔ موت کے بعد اس روح کو واپس اللہ کی طرف لوٹنا اور اپنے ہر عمل کا حساب دیناہے اس لیے انسان کی توجہ اپنے عارضی جسمانی وجود سے زیادہ اپنے مستقل اور اصل روحانی وجود کی طرف ہونی چاہیے۔ اس کی صحت، اس کی پاکیزگی، اس کی قوت،اس کی ضروریات کی تکمیل جسم کی ضروریات کی تکمیل سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔

ذیل میں ستمبر 2023کے ریڈرزڈائجسٹ میںچھپنے والے ایک مضمون “Life After Death”کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے جس میں کچھ ایسے لوگوں کے تجربات کی بنیاد پر ’’روح‘‘ کے وجود پر بحث کی گئی ہے جنہوں نے عارضی جسمانی طبعی موت کے دوران واضح طور پر اپنے روحانی وجود کو دیکھتے، سنتے ہوئے محسوس کیا، وقتی موت کے دوران اس روحانی وجود کو جسم سے آزاد اور زندہ دیکھا۔ زندگی کی طرف واپس آنے کے بعد انہیں اپنے بیشترروحانی تجربات یاد تھے اور ان میں سے زیادہ تر لوگوں کے تجربات ملتے جلتے تھے۔

Anita  Bartholomew  کے اس مضمون میں ان لوگوں کے تجربات ان الفاظ میں بیا ن کیے گئے ہیں :
1991ء کے موسم گرما میں پام رینلڈز(Pam Raynolds) کو معلوم ہواکہ اس کے دماغ کی ایک شریان میں ایک مہلک رسولی ہے۔نیورو سرجن رابرٹ سپیزلر (Robert F. Spetzler)، جوPhoenixکے بیرو نیورولوجیکل انسٹیٹیوٹ (Barrow Neurological Institute)کے ڈائریکٹر ہیں، نے تین بچوں کی ماں 35 سالہ پام کو بتایا کہ اس کے دما غ کا آپریشن کرنے کے لیے اُسے اس کا دل بند کرنا ہوگا۔ اس دوران اس کا دماغ بھی کام کرنا بند کردے گا۔ طبعی طور پر ایک گھنٹے کے لیے وہ مکمل طور پر ’موت‘ کی آغوش میں چلی جائے گی۔ چنانچہ آپریشن سے پہلے پام کو بے ہوش کرنے کے بعد اس کے کانوں کو ایک خاص مشین سے نکلنے والی تاروں کے ذریعے بند کردیا گیا تاکہ اس کے دماغ کی جڑ (نچلاحصہ) کو کام کرنے سے روکا جا سکے (دماغ کی جڑانسان کے سننے کی حس اور دیگر ازخودکام کرنے والے اعمال مثلا ًسانس لینا وغیرہ کو کنٹرول کرتی ہے)۔ بہت سی دیگر مشینیں پام کے دل کی دھڑکن، بلڈپریشر، سانس کی رفتار اور جسمانی درجہ حرارت وغیرہ کو ماپ رہی تھیں۔ اس کی ٹانگیں اور بازو باندھ دئیے گئے تھے اور اس کی آنکھیں خا ص سلوشن ڈالنے کے بعد ٹیپ لگا کر بند کردی گئی تھیں۔

جیسے ہی ڈاکٹر سپیز لر سرجری کرنے والی آری کے ذریعے پام کی کھوپڑی کو کاٹنے لگے تو ایک ایسی انہونی بات ہوئی جسے پام کو مانیٹر کر نے والی بہت سی حساس مشینوں میں سے کوئی مشین محسوس یا رجسٹر نہ کر سکی۔ پام نے اچانک خود کو اپنے جسم سے اچھل کر باہر نکلتے ہوئے محسوس کیا۔ اپنے ڈاکٹر سپیزلر کے کندھوں سے بھی اوپر ایک جگہ خود کو پایااور پھرخود اپنا آپریشن ہوتے دیکھا۔اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر سپیزلر کے ہا تھ میں ایک بر قی ٹوتھ برش جیسا آلہ ہے۔ ایک زنانہ آواز سنائی دی جو کہہ رہی تھی کہ مریضہ کی شریا نیں بہت تنگ ہیں ۔ پام کو لگا جیسے کہ ڈاکٹرزاس کے جسم کے نچلے حصے کا آپریشن کرنے لگے ہیں۔ اس نے ــ’’سوچا‘‘ کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے تو دما غ کا آپریشن ہونا تھا۔ پام (کی روح) نے پھر سوچا شاید ڈاکٹروں نے جو کچھ اس کی کھوپڑی اور دما غ کے ساتھ کیا ہے اس کے نتیجے میں اسے مختلف فریبِ خیا ل دکھا ئی دینے لگے ہیں ۔

لیکن باوجود اس کے کہ اس کی آنکھیں اور کان مکمل طور پر بند تھے۔ اس نے جو کچھ دیکھااور محسوس کیا وہ سچ مچ ہو رہا تھا ۔سرجر ی کرنے والی آری واقعی برقی ٹوتھ برش سے ملتی جلتی تھی ۔ سرجن واقعی اس کے جسم کے نچلے حصے (groin)پر کام کر رہے تھے جہاں سے نالیاں (Catheters)اس کے دل تک ڈالی جا رہی تھیں تاکہ دل اور پھیپھڑوں کو مشین کے ساتھ منسلک کیا جا سکے ۔

اس کے بعد ڈاکٹر سپیزلر نے نرسوں کو حکم دیا کہ پام کو سیدھا کھڑا کر دیا جا ئے جس کے بعد اس کے جسم سے سارا خون نچوڑ لیا گیا۔ ہر مشینی آلے کی ہرreading نشاندہی کر رہی تھی کہ پام کے جسم میں ’’زندگی‘‘ کی کوئی رمق موجود نہیں رہ گئی تھی۔ اس دوران پام خود کو ایک گہری سرنگ میں سے گزرتے ہوئے محسوس کررہی تھی جس کے آخری سرے پر اسے اپنی بہت عرصہ پہلے مرجانے والی دادی اور دیگر فوت شدہ رشتہ دار اور دوست نظر آرہے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ وقت رُک گیا ہے پھر اس کے ایک رشتہ دار نے اسے واپس جانے کے لیے کہا اور اسے اس کے جسم تک واپس پہنچادیا۔ اسے لگاجیسے وہ بر فیلے ٹھنڈے پانی میں اتر گئی ہے۔ 

جب پام کو آپریشن کے بعد ہوش آیا تو اس نے ڈاکٹر سپیز لر کو اپنے تجربے کے متعلق بتایا ۔ ڈاکٹر نے سب سن کر جواب دیا ’’یہ سب میرے علم اور میری مہارت سے ماوراہے۔‘‘

حقیقت یا فریب

آج میڈیکل سائنس کی ترقی نے ڈاکٹروں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ ایسے امراض کا شکار لوگوں کو نئی زندگی دے سکیں جن امراض سے آج سے کئی سال پہلے جا نبر ہونے کی کوئی صورت موجود نہ تھی ۔ حقیقتاً میڈیکل سائنس کی ایجا دات انسان کو موت کی حدوں سے دور لے آئی ہیں۔ پام رینلڈزجیسے جا نے کتنے مریض موت کی اس حد تک جا کر واپس آچکے ہیں جہاں ان کی روجوں نے جسموں سے نکل کر ایک گہری سرنگ میں سے گزرنے اور فرشتوں یا اپنے فوت شدہ رشتہ داروں سے ملاقات کرنے کا تجربہ کیا ہے۔

ڈاکٹروں نے اس غیر معمولی قدرتی امر کو Near Death Experience (NDE)(قربِ موت کا تجر بہ )کا نام دیا ہے۔
شروع شروع میں تمام ڈاکٹروں نے ایسے تمام واقعات کو ما ننے سے قطعی انکا ر کر دیا اور اسے موت کے وقت دما غ میں ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیداہونے والا فریبِ نظر قرار دیا لیکن ڈاکٹروں کی اس تھیوری کی مخالفت اس بات سے ہوتی تھی کہ دماغ میں پیدا ہونے والے فریبِ نظر کے لیے بھی ضروری ہے کہ دماغ کسی نہ کسی طور کا م کر رہا ہو جبکہ مشینوں کے مطا بق طبعی موت ثابت ہو جانے کے بعد دماغ کی حیثیت ایسے کمپیوٹر کی ہو جاتی ہے جس کی برقی رو معطل کردی جائے یعنی جسے کام کرنے کے لیے کوئی قوت مہیا نہ کی جا رہی ہو۔ اب یہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں یہاں تک کہ فریبِ نظر بھی پیدانہیں کر سکتا ۔

اس بعید العقل (عقل میں نہ سما نے والی) حقیقت کہ دماغ مکمل طور پر کام کرنا بند کرنے کے بعد بھی تصورات یا فریبِ نظر پیدا کر سکتا ہے، نے ڈاکٹروں، عام لوگوں اور اپنے خالق کے متعلق حقیقی علم کی طلب رکھنے والوں کو حقیقت کی کھوج لگانے پر اُکسایا۔ اگر موجودہ سائنس کی زندگی، موت اور شعور کے متعلق تمام تھیوریاں درست ہیں تو قربِ موت کے ایسے تجربات(near death experiences) کا واقع ہونا ناممکن ہے۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے یہ نکتہ پیش کیا کہ قربِ موت کے ایسے تجربات سائنسی علوم میں ’’روح‘‘ کے متعلق علم کے لیے گنجائش پیداکرتے ہیں ۔ جبکہ بہت سے لوگ اب بھی روح کے وجود کے متعلق شش وپنج میں مبتلاہیں ۔

میں نے ایک برٹش تحقیق دان سوزن بلیک مور (Ph.D)سے پوچھا کہ وہ پام کے قربِ موت کے اس تجربے کے متعلق کیا خیالات رکھتی ہے تو اس نے جواب دیا کہ ’’پام جو کچھ کہہ رہی ہے اگر سچ ہے تو تمام کی تمام سائنس کو ابتدا سے انتہا تک دوبارہ ترتیب دینا ہو گا۔‘‘البتہ سوزن بلیک مور کا خیال ہے کہ یہ تما م واقعہ حقیقتاً یوں پیش نہ آیا ہوگا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی اس نے ایسے واقعات پر تحقیق کی ہے لیکن اسے ان باتوں کا کوئی ٹھوس ثبوت نہ مل سکا یا اسے ان باتوں کی کوئی نہ کوئی دوسری ایسی وجہ مل گئی جس کا روح کے وجود سے کوئی تعلق نہ تھا ۔ 

قربِ موت کے ان تجربات کے متعلق اپنی کتاب’’Dying to Live‘‘ میں سوزن بلیک مور لکھتی ہے ’’قربِ موت کے ان تجربات میں جن میں سرنگ میں سے گزرنا،اپنے جسم سے باہر خود کو محسوس کرنا وغیرہ شامل ہے صرف نفسیاتی محسوسات قراردئیے جا سکتے ہیں ۔اکثر دماغ کی سرجری کے دوران لوکل اینستھیسیا (Local Anesthesia)کے زیرِاثر مریض ایسے احساسات کا اظہار کرتا ہے جس میں وہ خود کو اپنے جسم سے ہلکا اور باہر محسوس کرتا ہے۔بہت سے لوگ حشیش (cannabis)،چرس،LSDاورنیند آور دوائیوں کے زیرِاثر بھی ان تجربات سے گزرتے ہیں ۔‘‘سوزن بلیک مور کا کہناہے کہ دماغ اپنے اندر سے ہی خا رج ہونے والے ایک افیون آمیز نیند لانے والے مادے Endorphinکی تیز رو میں بہہ جاتا ہے جو ذہنی دباؤ(Tension)کی حالت میں زیادہ تعدادمیں خارج ہوتاہے۔وہ اپنی اس توجیہ پر مطمئن ہے کہ قربِ موت کے جتنے بھی تجربات ہیں جن میں انسانوں نے خود کو اپنے جسم سے با ہر محسوس کیا اور دیگر تجربات کیے وہ صرف ان کے مرتے ہوئے دماغ کے تخیلات ہی تھے خواہ وہ کتنے ہی سچے اور حقیقی کیوں نہ محسوس ہوتے ہوں ۔ 

قربِ موت کے ایسے تجربات پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر ِدل مائیکل سیبم نے سوزن بلیک مور کی باتوں کی تحقیق کرنے کے لیے پام کے آپریشن کے دوران ڈاکٹر سپیز لر کی تیا رکردہ تمام رپورٹوں اور پام کے بیان کیے گئے بعید العقل تجربات کا موازنہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ جس وقت پام نے خود کو سرنگ میں سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا اس وقت اس کے دماغ میں کسی بھی قسم کی کوئی حرکت یا کا رکردگی نہ تھی ۔جیسا کہ پہلے بھی ایسے دما غ کی مثال ایک برقی رو سے کٹے ہوئے کمپیوٹر سے دی گئی تھی،پام کا دماغ اس وقت ہر لحاظ سے مرچکا تھا اور ایک مراہوا دماغ نہ فریبِ نظر پیدا کر سکتا ہے،نہ ہی تخیلات و تصورات تخلیق کر سکتا ہے اور نہ ہی Anesthesiaیا کسی اور دوائی کا کوئی ردّعمل ظاہر کر سکتا ہے۔ڈاکٹر سیبم کا کہنا ہے کہ اپریشن کے دوران پام مکمل طور پر ہر لحاظ سے مر چکی تھی ۔ اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ نہ تھا، زندگی کے کوئی آثار مثلاً نبض یا سانس یا دل کی دھڑکن کا چلنا، موجود نہ تھے لیکن کیا ان سب کے نہ ہونے کو موت قرار دیا جا سکتا ہے؟ اور اگر یہ موت ہی تھی تو پھر وہ سب تجربات کیا تھے اور کس کے تھے جن سے پام اس دوران گزری تھی؟

باربرا رومر فلوریڈامیں قربِ موت کے تجربوں پر تحقیق کے دوران سب سے پہلے ایک ایسے مریض سے ملی جو 1970ء میں ایسے تجربے سے گزرچکا تھا۔ 1994ء تک باربرا 600 ایسے مریضوں سے ملاقات اور انٹرویو کر چکی تھی جو قربِ موت کے بعید العقل تجربوں سے گزر چکے تھے جن کا تذکرہ اس نے قربِ موت کے تجربات پر مبنی اپنی کتا ب میں کیا ہے۔ اگرچہ اس کے بعد سے ساتھیوں کے خیالات اس سے مطابقت نہیں رکھتے لیکن یہ تمام انٹرویو اسے اس بات پر یقین کرنے پر مجبور کر رہے تھے کہ کچھ یا کوئی تو ہے جو جسمانی موت کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ باربراکا کہنا ہے کہ جب وہ ان لوگوں سے انٹرویو کر رہی تھی تو ان لوگوں نے ان دوسرے لوگوں سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا جو ان تجربوں سے گزر چکے تھے چنانچہ باربرا نے ہر ماہ ایک میٹنگ کا بندوبست کیا جس میں لوگ ایک دوسرے سے ملتے اور اپنے تجربوں پر تبادلہ خیال کرتے۔ میں ان لوگوں کی کہانیاں سننا چاہتی تھی اس لیے میں ایک میٹنگ میں گئی۔ درجنوں عام سے درمیانہ عمر کے مرد اور عورتیں اپنے ان تجربات کو ایک دوسرے سے بیان کر رہے تھے جو ان میں سے زیادہ تر کے لیے زندگی بدل دینے والا روحانی تجربہ تھا۔

ان میں سے ایک شخص رابرٹ ملہیم کا کہناتھا کہ اسے دل کا دورہ پڑاتھا جس کے بعد اس کے دل کی حرکت بند ہو گئی تھی۔ ساری تکلیف ختم ہو چکی تھی اور میں نے دیکھا کہ میں اپنے جسم سے باہر ہوا میں معلق تھا۔ میرا جسم بستر پر پڑاتھا اور ڈاکٹر میرے جسم پر دباؤ ڈال کر مجھے دوبارہ زندگی کی طرف لانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘ اس کا کہنا ہے کہ خود غرضی کی زندگی گزارنے کے بعد موت سے ایک ہلکی سی ملاقات نے اسے ایک بہتر محبت کرنے والا انسان بنادیاہے۔

کین ایمک (Ken Amick) اپنے قربِ موت کے تجربے کو بیان کرتا ہے جو اس نے ایک الرجی ری ایکشن کے بعد محسوس کیا جب اس کا سانس مکمل طور پر بند ہو گیا اور جسم بالکل نیلا پڑگیا۔ وہ کہتا ہے ’’میں تمام چیزوں کو ان کے حقیقی رنگوں میں دیکھ سکتا تھا، میں سن سکتا تھا، میں خوف اور سکون جیسے تمام احساسات کو محسوس کر سکتا تھا ۔ وہ سکتے میں آگیا جیسا کہ وہ اس تجربے سے دوبارہ گزر رہا ہو لیکن پھر وہ نیلا جسم کون تھا جو بستر پر پڑا تھا؟ وہ جسم میرا تھا، میں جانتا تھا کہ وہ میرا جسم تھا۔اس کی طرف دیکھ کر مجھے خوف محسوس ہو رہا تھا لیکن وہ حقیقتاً ’’میں‘‘ نہیں تھا بلکہ صرف میرا جسم تھا ۔‘‘

ان تمام لوگوں کے پاس تحریری طور پر کوئی ثبوت موجود نہیں کہ وہ ایک وقت میں طبعی موت سے گزر چکے ہیں لیکن یہ اتنا ضروری نہیں۔ یہ ان کا موت کو حقیقی طور پر محسوس کرنے اور اس سے گزرنے کا تجربہ ہے جو ان کے لیے اہم ہے۔ ان تجربات پر تحقیق کرنے والی باربرا رومر کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے لیے یہ جاننا ہی کافی ہے کہ ان کا تجربہ ان کا پاگل پن نہیں اور ایسا تجربہ کرنے والے وہ اکیلے انسان نہیں۔ ان کا تجربہ اگرچہ حیران کن اور انوکھا ہے لیکن ناممکن یا صرف ان کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ ساری دنیا میں بہت سے لوگ اس قربِ موت کے تجربے سے گزر چکے ہیں اور ان کے تجربوں کی پوری دنیا میں باز گشت سنائی دیتی ہے۔

بیشتر طبی تحقیق کے ماہرین لفظ ’’روح‘‘ کے استعمال سے قطعی گریزاں ہیں۔ ان میں سے کچھ کا خیال ہے کہ قربِ موت کے یہ تجربات شاید مرتے ہوئے دماغ کے آخری ردّ عمل کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ انہیں شبہ ہے کہ قربِ موت کے تجربات موت کے بعد کی زندگی کا نہیں بلکہ کسی اور اتنی ہی بعید العقل حقیقت کا ثبوت ہو سکتے ہیں۔ شعور صرف دماغ میں ہی تو نہیں پایا جاتا۔

دسمبر 2001 ء میں برٹش میڈیکل جرنلThe Lancet   میں چھپنے والی ایک تحقیق میں ایک ڈچ ماہرِامراضِ دل پم وین لوملPim Van Lommel   ایک 44 سالہ شخص کے قربِ موت کے تجربے کو بیان کرتا ہے جو دل کے جان لیوا دورہ کے بعد طبی طور پر مر چکا تھا۔ اسے ایک ایمبولینس میں ہسپتال میں لایا گیا جہاں مشینوں کے ذریعے اس کے دل کو دوبارہ چلانے کی کوشش کی گئی۔ ایک نرس نے اس کے نقلی دانتوں کی بتسیی اس کے منہ سے نکالی تاکہ اس کے گلے سے سانس دینے والی نالی گزاری جا سکے۔ کچھ دیر بعد جب اس شخص کی حالت سنبھل گئی تو اسے انتہائی نگہداشت وارڈ ICU میں بھیج دیا گیا۔ایک ہفتہ بعد اس شخص نے اس نرس کو دیکھا جس نے اس کے نقلی دانت نکالے تھے اور اسے پہچان لیا حالانکہ جب اس نے پچھلی بار نرس کو دیکھا تھا تو اس کی حالت کومہ اور طبی موت کے بین بین تھی۔’’تم نے میری بتسیی نکالی تھی ‘‘اس نے نرس سے کہا اور پھر اس دوران ہونے والے تمام واقعات کوبعینہٖ بیان کر دیا جو اس کے مطابق اس کے بے جسم وجود نے خود دیکھے تھے۔

قربِ موت کے تجربات سے گزرنے والے لوگوں کی تعداد جاننے کی کوشش میں وین لومل اور اس کے ساتھی نے 343 ایسے لوگوں کا انٹرویو کیا جو دل کے جان لیوا دورے کے بعد دوبارہ زندگی کی طرف آئے تھے۔ وین لومر کا کہنا ہے ’’ان میں سے 18 فیصد لوگوں نے اس طبی موت کے دوران مکمل اور واضح شعور کی کہانی بیان کی‘‘ ان تمام لوگوں نے موت کے بعد کی زندگی سے ملاقات کے تجربہ کی ایک ہی جیسی مکمل تفصیل بیان کی۔

 Resuscationنامی جرنل میں چھپنے والی برٹش تحقیق دانوں کی سائوتھ امپٹن (Southampton)جنرل ہسپتال میں کی جانے والی تحقیق میں ثابت ہوا کہ موت کے قریب جانے والے 11 فیصدلوگوں کو بے ہوشی کے دوران اپنے ارد گرد ہونے والے تمام واقعات یادہیں اور ان میں سے 6 فیصد نے جو طبی موت کے بعد دوبارہ زندگی کی طرف آئے تھے،قربِ موت کے تقریباًایک جیسے تجربات بیان کیے۔وین لومل اور دیگر برٹش تحقیق دانوں کا خیال ہے کہ یہ تمام کھوج اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایک زندہ دماغ کی غیر موجودگی میں بھی شعور کہیں نہ کہیں زندہ رہتا ہے۔ وین لومل کا کہنا ہے ’’آپ اپنے دماغ کو ٹی وی سیٹ سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ ٹی وی پر نظر آنے والے پروگرام درحقیقت ٹی وی سیٹ کے اندر نہیں ہو رہے ہوتے بلکہ کہیں اور ہو رہے ہوتے ہیں۔ سوال پوچھا گیا کہ پھر ہمارا شعور حقیقتاً کہاں پایا جاتا ہے؟ کیا یہ ہمارے جسم کے ہر خلیے میں پایا جاتا ہے؟ وین لومل نے جواب دیا ’’میرا خیال ہے ہاں۔ ہمارے جسم کے تقریباً 5کروڑ خلیے روزانہ مر جاتے ہیں۔ اس قدر بڑی تعداد میں خلیوں کا تبدیل ہو جانا ظاہر کرتا ہے کہ ’مجھے‘ اور آپ کو بنانے والے تقریباًتمام خلیے روزانہ بدل جاتے ہیں لیکن پھر بھی ہم خود میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کرتے بلکہ خود کو ہمیشہ کل جیساہی پاتے ہیں۔‘‘ وین لومل کا خیال ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے تمام خلیوں کے درمیان ایک خاص قسم کا رابطہ پایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے جسم، کھال، ہڈیوں، خون، دماغ وغیرہ کے کھربوں خلیے ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں اور ہمارے شعور کو ہمارے تمام جسم میں اس طرح متوازی طور پر مسلسل جاری و ساری رکھتے ہیں کہ ہمیں کروڑوں خلیوں کے مرنے اور کروڑوں خلیوں کے پیدا ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اگر ایسا ہے تو ہو سکتا ہے دماغ کے خلیوں کی مکمل موت کے بعد بھی جسم کے دوسرے خلیوں میں پائے جانے والے شعور کی مدد سے کوئی انسان ایسے تصورات و تخیلات کو تخلیق کر سکتا ہو جن کی کوئی اور عقلی تو جیہہ پیش نہیں کی جا سکتی۔

یہ مفروضہ اگرچہ ہمیں لوگوں کے قربِ موت کے تجربات کے نتیجے میں موت کے بعد کی زندگی پر یقین کرنے سے روکتا ہے لیکن یہ خود ایک انتہائی دلچسپ اور گہری تحقیق کے دروازے اور بحث کا ایک نیا پنڈورا باکس کھولتا ہے۔ اس بات کا کیا مطلب ہے کہ دماغ کے مرجانے کے بعد بھی ذہن کام کرتا رہتا ہے ؟

قربِ موت کے تجربات ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم بہت سے ان سوالوں کے جواب دوبارہ ڈھونڈیں جن کا جواب ہم اپنے خیال میں دے چکے ہیں۔ مثلاً موت کیا ہے؟ شعور کہاں پایا جاتا؟ اور کیا سائنس روح کو تلاش کرسکتی ہے؟

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں