کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation
قسط نمبر39 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
ایمان کا سرمایہ اور عزت و شرف نص و حدیث، مسائلِ فقہ اور تصوف کا علم ہے۔ فقہ قرآن ہے اور فقیری کی بنیاد علمِ فقہ ہے اور فقہ کی بنیاد توحید و معرفتِ الٰہی ہے اور تصوف و فقہ کی بنیاد ذکرِ اللہ اور اشتغالِ اللہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا یَشْغُلُھُمْ شَیْئٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ تَعَالٰی طُرْفَۃُ الْعَیْنِ
ترجمہ: اہلِ ذکر کو کوئی بھی شے پل بھر کے لیے بھی ذکر سے غافل نہیں کر سکتی۔
مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کا ہر عمل مخلوق کی خوشنودی، عز و جاہ اور روضہ و خانقاہ کی خاطر ہوتا ہے اور وہ اپنا رُخ غرقِ معرفت اور اللہ کی خوشنودی کی طرف بالکل نہیں کرتے۔ ہاں یہ یقین ہے کہ کامل و مکمل فقیر کے نزدیک طبقات کی طیر سیر، غوث و قطب کے مراتب، بالائے عرش ستر ہزار درجات اور مقامات کو اپنے قبضہ و تصرف میں لے آنا خام لوگوں کا کام ہے اور علمِ کیمیا کو شہرت اور نام و ناموس کی خاطر سیکھنا، جن و انس، جانوروں، پرندوں اور دیگر مخلوقات کا اس کی طرف رجوع کرنا اور کشف و کرامات دکھا کر دنیا میں ترقی و درجات حاصل کرنا نامکمل لوگوں کا کام ہے۔ علمِ کیمیا اکسیر، علمِ دعوتِ تکثیر، اسمِ بدوح کی مدد سے بیس دائرے پرُ کر کے نقش بنانے کا علم، دائرے اور نقش بنانے کا علمِ جفر، بادشاہ اور امرا کو اپنے سامنے حاضر کر کے مسخر و قید کرنا نادان لوگوں کا کام ہے۔ خودی کو فنا کرنا اور عین معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ تک پہنچنا اور مجلسِ محمدی میں دائمی حضوری کے مراتب حاصل کرنا مردوں کا کام ہے۔ بیت:
ہر کہ باشد پسند خالق پاک
ور نباشد پسند خلق چہ باک
ترجمہ: جو پاک پروردگار کو پسند آ جائے تو اگر وہ مخلوق کو نہ بھی پسند آئے تو کیا ڈر!
کیا تو جانتا ہے کہ کوئی بھی چیز مکھن سے نرم اور ملائم تر نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اس تک گرمی پہنچے تو وہ نرم ہو جاتا ہے اسی طرح درویشوں، فقیروں اور مومنوں کے دل جس گرمی سے تڑپ اُٹھتے ہیں وہ دوسرے مومن بھائی کی تکلیف اور درد ہے۔ بیت:
دل ہماں است کہ از تاب کسان آب شود
ورنہ دیگر دل ہمہ یک مضغہ از آب و گل است
ترجمہ: دل تو وہ ہے جو کسی کی تکلیف سے تڑپ اٹھے ورنہ وہ دل پانی و مٹی سے بنا محض ایک لوتھڑا ہے۔
جوابِ مصنف:
دل پرُدرد ز دردش می برآید
آزاری دل کہ اہل از دل نشاید
ترجمہ: اہلِ درد کے دل کسی کی تکلیف سے تڑپ اٹھتے ہیں کیونکہ وہ کسی کی تکلیف نہیں دیکھ سکتے۔
دل سنگین سیاہ و سر خجالت
برائی معرفت او کے وصالش
ترجمہ: سخت دل سیاہ اور شرمندہ ہوتا ہے اس لیے وہ اللہ کی معرفت اور وصال کے قابل کیسے ہو سکتا ہے؟
رباعی:
دل شکستہ مارا کسی درست کند
کہ دل شکستگی خویش نخست کند
ترجمہ: میرے شکستہ دل کو وہی درست کر سکتا ہے جس کا اپنا دل پہلے ہی شکستہ ہو۔
شکستگی بدرستی تواں درست نمود
شکستگی بہ شکستن کسی درست کند
ترجمہ: شکستگی درستی میں تب ہی بدل سکتی ہے کہ اگر کوئی اسے مزید شکستہ کر کے درست کرنا جانتا ہو۔
مردہ دل سے گریز کرو کیونکہ اللہ کے ساتھ مشغول ہونا ہی دل کی زندگی ہے۔ اور زندہ دل وہ ہے جو اسمِ اللہ ذات میں غرق ہو کر فنا فی اللہ ہو چکا ہو۔ ابیات:
گر روی بر عرش اکبر عرش نور
ایں مراتب ناقصان است بیحضور
ترجمہ: اگر تو نور کے عرشِ اکبر تک پہنچ جائے تو یہ بھی بے حضور اور ناقصوں کے مراتب ہیں۔
در مطالعہ لوح باشی روز و شب
ایں مراتب ناقصان است بے ادب
ترجمہ: اگر تو رات دن لوحِ محفوظ کے مطالعہ میں مصروف رہے تو یہ بھی بے ادب اور ناقصوں کے مراتب ہیں۔
عرش و کرسی لوح قلم و ہر مقام
ایں مراتب ناقصان است ناتمام
ترجمہ: عرش و کرسی، لوح و قلم اور دیگر تمام مقامات نامکمل اور ناقص لوگوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
نظر حق بر دل بود از دل بجو
ہر چہ باشد غیر حق از دل بشو
ترجمہ: حق کی نظر دل پر ہوتی ہے لہٰذا اسے دل میں تلاش کر اور حق کے علاوہ جو کچھ بھی تیرے دل میں ہے اسے دھو ڈال۔
دل نورِ الٰہی سے پرُ ہونا چاہیے۔ دل وہ نہیں جو مٹھی بھر مٹی سے بنا ہو اور خطرات سے پرُ رہتا ہو۔ جو دل مکمل طور پر جہالت میں ڈوبا ہو وہ مردہ اور افسردہ ہی رہتا ہے۔ ابیات:
چرا در زندگی اے دل نہ کوشی
چرا زیں شربت شریں ننوشی
ترجمہ: تو اس دل کو زندہ کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتا اور اس حیاتِ ابدی کا شریں شربت کیوں نہیں پیتا؟
دلی زندہ شود ہرگز نہ میرد
دلی بیدار شد خوابش نہ گیرد
ترجمہ: جو دل ایک بار زندہ ہو جائے وہ ہرگز نہیں مرتا اور بیدار دل کبھی نہیں سوتا۔
یہ اس آیت مبارکہ کے مطابق ہے جس میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ط قَالَ بَلٰی وَلٰکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ ط قَالَ فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًاط وَاعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (سورۃ البقرہ۔260)
ترجمہ: اور جب ابراہیم ؑ نے عرض کی اے ربّ! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا کیا تمہیں اس بات پر یقین نہیں؟ (ابراہیم ؑ نے) عرض کی کیوں نہیں لیکن میں بس اپنے اطمینانِ قلب کے لیے ایسا چاہتا ہوں۔ (اللہ نے) فرمایا چار پرندے لو اور انہیں خود سے مانوس کرو اور تب ان (کو ذبح کرو اور ان) کے ٹکڑوں کو پہاڑوں پر رکھ دو اور پھر انہیں بلائو پس پھر وہ دوڑتے ہوئے تمہارے پاس آئیں گے اور جان لو کہ بے شک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔
جان لو کہ عبودیت، ربوبیت، عبادات، معاملات، مجلسِ محمدیؐ کی حضوری، استغراقِ ذات، فنا فی اللہ بقا باللہ کی اساس ظاہری و باطنی علم ہے۔ جو علمِ الف سے عشق کرتا ہے اور علمِ الف کی کنہ کو پا لیتا ہے تو علمِ الف سے علمِ عشق کھلتا ہے کیونکہ علمِ الف سے کوئی بھی علم باہر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمِ الف کے تصور کی تاثیر سے یقینا دونوں جہان کا نظارہ ناخن کی پشت یا ہاتھ کی ہتھیلی پر اسپند کے دانے کی مقدار کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ جسے یہ مراتب حاصل ہوں کہ پشتِ ناخن پر یہ سب دیکھ سکتا ہو اسے پڑھنے، لکھنے اور انگلی میں قلم پکڑنے کی کیا ضرورت؟ بیت:
خیال خواندن چندیں کتب چراست ترا
الف بس است اگر فہم ایں اداست ترا
ترجمہ: تجھے اس قدر کتب پڑھنے کا خیال کیوں رہتا ہے؟ اگر تو سمجھے تو تیرے لیے محض علمِ الف کافی ہے۔
پس معلوم ہواکہ سلک سلوک دو قسم کے ہیں اوّل عرش سے لے کر تحت الثریٰ تک کے طبقات کی سیر اور یہ طبقات ابتدا سے انتہا تک خواہشاتِ نفس کی بنیاد پر قائم ہیں۔ خواہشاتِ نفس کے حامل لوگ سالہا سال ریاضت کرتے ہیں تب کہیں انتہا تک پہنچتے ہیں لیکن پھر بھی اللہ کے قرب سے بے خبر رہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر خواہشاتِ نفس پر قائم ان طبقات پر نہیں بلکہ باصفا دل پر ہے اور باصفا دل صاحبِ باصفا کا ہوتا ہے جو مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری میں رہتا ہے۔ یہ نورِ حضور لامکان میں ہے۔ جو ان مراتب تک پہنچ جائے وہ رحمن کے مطابق اور شیطان کے مخالف بن جاتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ مقامِ شریعت، مقامِ طریقت، مقامِ حقیقت اور مقامِ معرفت ناسوت، ملکوت، جبروت اور لاھوت سے متعلق ہیں اور یہ تمام مقامات خواہشاتِ نفس اور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اسی وجہ سے فقرِمحمدیؐ سے دور ہیں کیونکہ فقرِمحمدیؐ کا تعلق لامکان اور وحدانیتِ ذات سے ہے جہاں تک فنا فی اللہ ہو کر ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ پس صاحبِ خواہشاتِ طبقات اور صاحبِ غرق فنا فی اللہ ذات کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ اگرچہ فقیر جب باطن میں ان مراتب تک پہنچتا ہے تو وہ بال برابر بھی شریعت کے خلاف عمل نہیں کرتا اور اگر وہ شریعت کے خلاف کرے گا تو مقامِ حضوری سے گر جائے گا اور اس کی ہر بات جھوٹ اور کذب ہو گی۔ جو زندہ قلب فقیر ذکرِ اللہ اور معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ میں غرق ہو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس فقیر سے نظر نہیں ہٹاتے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خواہشاتِ نفس کے غلاموں اور اہلِ دنیا کی طرف ہرگز نظر نہیں کرتے وہ اس آیت مبارکہ کے مصداق ہوتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ھَوٰہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۔ (سورۃ الکہف۔28)
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) آپ ان لوگوں کی مجلس میں رہا کریں جو ہر وقت اپنے ربّ کے دیدار اور اس کی خوشنودی کی طلب میں اسے پکارتے ہیں۔ آپ کی نگاہیں ان سے نہ ہٹیں۔ کیا آپ دنیاوی زندگی کی آرائش چاہتے ہیں۔ اور آپ اس کی اتباع نہ کریں جس کے قلب کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے کیونکہ وہ خواہشاتِ نفس کی پیروی میں حد سے بڑھ چکا ہے۔
جان لو کہ اسمِ اللہ ذات کا تصور سات روز میں آدمی کے ساتوں اندام کو اس طرح پاک کر دیتا ہے جس طرح پانی ناپاک کپڑے کو پاک کرتا ہے۔ معرفت کی یہ باطنی راہ اہلِ علم کو ہی نصیب ہوتی ہے کیونکہ جاہل اس راہ پر نہیں چل سکتے۔ جاہل اگرچہ تمام عمر عبادت و ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے وہ ہرگز معرفتِ الٰہی تک نہیں پہنچ سکتا۔ ابیات:
علم را دانستم از تحقیق تر
علم بہتر معرفت فقر و فخر
ترجمہ: میں نے تحقیق سے یہ جانا کہ معرفت اور فقر کا علم ہر دوسرے علم سے بہتر اور ہر علم کا فخر ہے۔
باھوؒ عالمان را علم باشد پیشوا
از علم محرم میشوند عارف خدا
ترجمہ: باھوؒ عالموں کا رہبر علم ہی ہوتا ہے اور علم کی بدولت ہی عارف خدا سے محرم ہوتے ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ طالبِ علم آزمائش کے بغیر طالبِ مولیٰ نہیں بن سکتا اور اگر وہ آزمائش میں کامیاب ہو جائے تو وہ صاحبِ عیاں ہو جاتا ہے۔ جب طالبِ علم طالبِ مولیٰ بنتا ہے تو اس کے مراتب بلند ہو جاتے ہیں۔ طالبِ مولیٰ بننے کے لیے طالبِ علم کو علمِ فضیلت کا عالم فاضل ہونا چاہیے تاکہ وہ اس علم سے سلک سلوک کو معلوم کر لے اور باطن کی ہر خاص و عام چیز کو جان لے۔ اور وہ محققین کے ذریعے علم کی دشوار حقیقت اور دقیق نکات کو کھولنے والا ہو۔ ایسا فاضل طالب لائقِ ارشاد ہوتا ہے جو طلبِ مولیٰ رکھتا ہے اور ظاہر و باطن میں شریعت میں ہوشیار رہتا ہے ورنہ ہزاروں ہزار جاہلوں کو ایک دم میں دیوانہ بنانا کونسا مشکل کام ہے۔ جاہلوں کو عارفین اور اولیا کے ساتھ شمار نہیں کیا جا سکتا۔ جاہل گدھے کا بڑا بھائی ہوتا ہے اس لیے جاہلوں کی مجلس سے ہزار بار استغفار۔ نہ نہ میں غلط نہیں کہتا کہ گدھا بھی جاہلوں سے بہتر ہے جو بوجھ اٹھاتا ہے۔ لوگوں کو اذیت دینے والے جاہل سے بوجھ اٹھانے والا گدھا بہتر ہے۔ پس معلوم ہوا کہ علما عامل ہی فقیرِ کامل اور عارف باللہ بنتے ہیں۔ ابیات:
علم را آموز اول آخر اینجا بیا
جاہلانرا پیش حضرت حق تعالیٰ نیست جا
ترجمہ: پہلے علم حاصل کر پھر اس راہ پر چل کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جاہلوں کی کوئی گنجائش نہیں۔
علم حق نور معرفت از دل بجو
ہر چہ باشد غیر حق از دل بشو
ترجمہ: علمِ حق نورِ معرفت ہے اسے دل میں تلاش کر اور دل میں غیر حق جو کچھ بھی ہے اسے دھو ڈال۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْمُعَامَلَۃِ وَعِلْمُ الْمُکَاشِفَۃِ
ترجمہ: علم دو طرح کے ہیں علمِ معاملات اور علمِ مکاشفات۔
پس معلوم ہوا کہ دو قسم کے گروہ ہیں اوّل اہلِ جنت کا گروہ ہے جو اہلِ علم ہیں اور معرفت و دیدار کے طالب ہیں ان کے متعلق فرمایا گیا:
فَتَنْسَوْنَ النَّعِیْمَ اِذَا رَاٰیَھَا
ترجمہ: جب وہ (اللہ کا) دیدار کریں گے تو جنت کی نعمتوں کو بھول جائیں گے۔
دیدار کی نعمت سے مشرف ہونے کی لذتِ عظمیٰ اور سعادتِ کبریٰ مومن و مسلمان، انبیا و اولیا اللہ، اہلِ اسلام اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھنے والوں کا نصیب ہے۔ دوم گروہ کفار کا ہے جو اہلِ دوزخ ہیں۔ بیت:
از ہیبت آں دو راہ خون شد دل من
تا از ہر دو بہ کدام راہ باشد منزلِ من
ترجمہ: ان دونوں راہوں کے خوف کی وجہ سے میرا دل خون رو رہا ہے کہ ان دونوں میں سے کس راہ سے میری منزل حاصل ہو گی؟
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْاِیْمَانُ بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرِّجَآئِ
ترجمہ: ایمان خوف اور رجا کے درمیان ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ فَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ ۔ (سورۃ الشوریٰ۔7)
ترجمہ: ایک گروہ جنت میں ہوگا اور دوسرا گروہ دوزخ میں۔
ان دو آیات میں اہلِ اسلام اور کفار کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَسِیْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی جَھَنَّمَ زُمَرًاط حَتّٰٓی اِذَا جَآئُوْھَا فُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَ قَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَآ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیٰتِ رَبِّکُمْ وَ یُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآئَ یَوْمِکُمْ ھٰذَاط قَالُوْا بَلٰی وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ۔ قِیْلَ ادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَھَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْھَاج فَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ۔ وَسِیْقَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا رَبَّھُمْ اِلَی الْجَنَّۃِ زُمَرًاط حَتّٰٓی اِذَا جَآئُوْھَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَابُھَا وَ قَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَا خٰلِدِیْنَ۔ وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ صَدَقَنَا وَعْدَہٗ وَ اَوْرَثَنَا الْاَرْضَ نَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّۃِ حَیْثُ نَشَآئُ ج فَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ۔ وَ تَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّھِمْ ج وَ قُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْحَقِّ وَ قِیْلَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (سورۃ الزمر۔71-75)
ترجمہ: اور جن لوگوں نے کفر کیا وہ دوزخ کی طرف گروہ در گروہ ہانکے جائیں گے یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دئیے جائیں گے اور اس کے نگران ان سے کہیں گے کیا تمہارے پاس تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے جو تم پر تمہارے ربّ کی آیات پڑھ کر سناتے تھے اور تمہیں اس دن کی پیشی سے ڈراتے تھے؟ وہ (دوزخی) کہیں گے ہاں (آئے تھے) لیکن کافروں پر فرمانِ عذاب ثابت ہو چکا ہو گا۔ ان سے کہا جائے گا دوزخ کے دروازوں میں داخل ہو جائو (تم) اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو سو غرور کرنے والوں کا ٹھکانہ کتنا برُا ہے۔ اور جو لوگ اپنے ربّ سے ڈرتے رہے انہیں (بھی) جنت کی طرف گروہ در گروہ لے جایا جائے گا یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں گے اور اس کے دروازے (پہلے ہی) کھولے جا چکے ہوں گے تو ان سے وہاں کے نگران کہیں گے تم پر سلامتی ہو۔ تم خوش و خرم رہو سو ہمیشہ کے لیے اس میں داخل ہو جائو۔ اور وہ (جنتی) کہیں گے تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے ہم سے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا اور ہمیں سرزمینِ جنت کا وارث بنا دیا کہ ہم (اس) جنت میں جہاں چاہیں قیام کریں۔ سو نیک عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا اجر ہے۔ اور (اے حبیب) آپ فرشتوں کو عرش کے اردگرد حلقہ باندھے ہوئے دیکھیں گے جو اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہوں گے اور (سب) لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ کلُ حمد اللہ ہی کے لائق ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔
ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلٰی لَھُمْ۔ (سورۃ محمد۔11)
ترجمہ: یہ اس لیے کہ مومنین کا مولیٰ اللہ ہے کافروں کا مولیٰ کوئی نہیں۔
پس معلوم ہوا کہ کافر کا نفس بھی کافر، قلب بھی کافر اور روح بھی کافر ہوتی ہے۔ منافق کا نفس بھی منافق، قلب بھی منافق اور روح بھی منافق ہوتی ہے۔ انبیا کا نفس بھی نبی، قلب بھی نبی اور روح بھی نبی ہوتی ہے۔ عارف باللہ کا نفس بھی عارف، قلب روشن ضمیر اور عارف اور روح بھی عارف اور سِرّ بھی عارف ہوتا ہے۔ جب عارف باللہ کو معرفتِ الٰہی حاصل ہوتی ہے تو وہ توفیقِ الٰہی سے حق کا رفیق بن جاتا ہے اور اس کے وجود کے اندر نفس، قلب، روح اور سِرّ ہر ایک صورتِ نور بن جاتے ہیں اور وہ (عارف باللہ) اللہ سے ہمکلام ہو کر جواب باصواب پاتا اور اسرارِ ربانی حاصل کرتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔
اور وہ مخلوق سے وحشت کھاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَمْ یَکُنْ لَہٗ لَذَّۃً مَعَ الْخَلْقِ
ترجمہ: جو اللہ کی معرفت حاصل کر لے وہ مخلوق سے کسی قسم کی لذت نہیں پاتا۔
(جاری ہے)