اخلاقِ حسنہ اور عبادت کا تعلق Ikhlaq-e-Hasna Aur Ibadat Ka Taluq
تحریر: فقیہہ صابر سروری قادری
اسلام ایک ایسا مکمل دین ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی بنیاد دو اہم عناصر پر ہے، عبادات اور اخلاق۔
عبادت اور اخلاق
عبادت کا مفہوم اللہ تعالیٰ کی بندگی، عاجزی اور اطاعت ہے۔اسلام میں عبادت صرف چند مخصوص اعمال (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) تک محدود نہیں بلکہ ہروہ عمل جو اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے، عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔ جہاں عبادت انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جوڑتی ہے، وہیں اخلاق انسان کا تعلق انسانوں سے جوڑتا ہے۔ ان دونوں میں گہرا تعلق ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ واضح ہوتاہے کہ عبادات کا اصل مقصد انسان کے اخلاق و کردار کو بہتر بنانا ہے۔ اگر عبادت کے ساتھ اخلاقیات نہ ہوں تو وہ عبادت محض رسمی یا دکھاوا بن جاتی ہے۔
نماز اور اخلاق
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ (سورۃ العنکبوت۔ 45)
ترجمہ: بے شک نماز بے حیائی اور برُے کاموں سے روکتی ہے۔
یہ آیت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نماز کا مقصد محض جسمانی حرکتیں نہیں بلکہ انسان کو برُے اخلاق اور برُے اعمال سے روکنا ہے۔ کیونکہ عبادت صرف ظاہری اعمال نہیں بلکہ اللہ کے قرب، روح کی پاکیزگی اور انسان کی اخلاقی تربیت کا ذریعہ ہے۔
روزہ اور تقویٰ
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (سورۃ البقرۃ۔ 183)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
پرہیزگار بننے سے مراد ہے ہر اُس عمل سے اجتناب کرنا جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو۔ روزہ صرف ظاہری بھوک برداشت کرنا نہیں بلکہ روزہ نفس پر قابو، صبر اور زبان و کردار کی حفاظت سکھاتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
روزہ صرف کھانے پینے سے باز رہنے کا نام نہیں بلکہ لغو اور بیہودہ باتوں سے بچنا اصل روزہ ہے۔ (مستدرک حاکم۔1570)
اسی طرح فرمایا:
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزے سے صرف بھوک پیاس ملتی ہے اور بہت سے قیام کرنے والے ہیں جن کے حصے میں محض شب بیداری آتی ہے۔ (مسند احمد بن حنبل۔8843)
روزہ نفس کی تربیت کرتا ہے، غصے، جھوٹ، گالی گلوچ، بدتمیزی سے روکتا ہے۔
صحابہ کرامؓ کا طرزِعمل
صحابہ کرامؓ عبادت گزار بھی تھے اور بلند اخلاق کے حامل بھی۔ حضرت عمر بن خطابؓ فرمایا کرتے تھے:
جب تم کسی کو عبادت میں سرگرم دیکھو تواس کے اخلاق (امانت، معاملات، سچائی) بھی دیکھو کیونکہ دین صرف عبادت کا نام نہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے نبی مکرمؐ کے اخلاق کی یوں تعریف کی:
وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (سورۃالقلم۔4)
ترجمہ:اور بے شک آپ(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) عظیم الشان خلق پر فائز ہیں(یعنی آدابِ قرآنی سے مزین اور اخلاقِ الٰہیہ سے متصف ہیں)۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
آپ ؐکا اخلاق قرآن تھا۔ (سنن ابودائود۔1342)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں اس لیے بھیجا گیا ہوں تاکہ اخلاق کی خوبیوں کو مکمل کروں۔ (موطا امام مالک۔1616)
بد اخلاقی کے ساتھ عبادت کا فائدہ؟
اگر کوئی شخص عبادت کر رہا ہے مگر پھر بھی فحاشی، بد زبانی، بداخلاقی یا ظلم میں مبتلا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی عبادت و ریاضت روح اور مقصد سے خالی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
جو شخص (روزہ رکھ کر) جھوٹ بولنا اور دھوکہ دہی دینا نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ (صحیح بخاری۔1903)
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے:
بہت سے روزہ دار ایسے ہوتے ہیں ان کو روزے سے بھوک کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے رات کا قیام کرنے والے ایسے ہوتے ہیں جن کو تھکاوٹ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ (مستدرک حاکم۔1571)
عبادت کا مقصد صرف ظاہری عمل نہیں بلکہ دل و کردار کی اصلاح ہے۔ اگر عبادت کے ساتھ انسان بداخلاق، مغرور، جھوٹا، سخت مزاج یا ظالم ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ محض رسمی عبادت ادا کر رہا ہے، دل سے نہیں۔ ایسی عبادت کو ’’روح کے بغیر جسم‘‘ کہا جا سکتا ہے، ظاہر تو ہے مگر تاثیر نہیں۔عبادت اس وقت فائدہ مند ہے جب اخلاق بھی اچھے ہوں۔
افضل مومن کون؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اِنَّ مِنْ اَکْمَلِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا (ترمذی۔2612)
ترجمہ: ایمان والوں میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے بہتر ہے۔
اولیا و صوفیا کے اقوال
حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’عبادت بہت زیادہ کرنے والا وہ نہیں بلکہ وہ ہے جو اپنے اخلاق کو بہتر بنائے۔‘‘
حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں ’’جس کی نماز اس کو گناہوں سے نہ روکے، وہ نماز نہیں بلکہ صرف مشقت ہے۔‘‘
حضرت شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں: ’’عبادت کا حاصل اگر اخلاق کی صفائی نہ ہو تو وہ محض ریاکاری ہے۔‘‘
عبادت اور اخلاق ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں۔ عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کا مقصد صرف اللہ کی رضا حاصل کرنا ہی نہیں بلکہ انسان کے کردار، گفتار، معاملات اور رویوں کو بھی بہتر بنانا ہے۔ ایک نیک، نمازی انسان اگر بداخلاق ہو، بدزبان ہو یا دوسروں کے ساتھ بدسلوکی کرے تو اس کی عبادت کا اثر اس کے اخلاق میں نظر نہیں آتا۔ اسی لیے کامل مسلمان وہ ہے جو عبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقِ حسنہ کا بھی پیکر ہو۔
اخلاق بہترین عبادت ہے
کچھ لوگ دین کو صرف عبادات (نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ) تک محدود سمجھتے ہیں اور اخلاقیات، معاملات اور حقوق العباد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عبادت تبھی مکمل اور مقبول ہوتی ہے جب وہ انسان کے اخلاق و کردار میں بہتری لائے۔ ایسے روّیے کی چند نشانیاں:
بہت زیادہ نماز روزہ، لیکن جھوٹ بولنا یا بدزبانی کرنا۔
عبادت گزار ہونا مگر ملاوٹ، دھوکہ دہی یا وعدہ خلافی کرنا۔
اپنے عمل سے دوسروں کو تکلیف دینا مگر خود کو نیک سمجھنا۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں ردّ
1۔سورۃ الماعون میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے جو نماز تو پڑھتے ہیں لیکن یتیموں اور مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یہ وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا، پس تباہی ہے ان نمازیوں کے لیے جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ (سورۃ الماعون۔2-5)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
میزان میں رکھی جانے والی چیزوں میں سے اخلاقِ حسنہ سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں۔ (جامع ترمذی۔2003)
ایک اور حدیث میں ہے:
تم میں سب سے بہتر وہ آدمی ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ (صحیح بخاری۔6029)
اخلاق کے بغیر عبادات قبولیت کی منزل نہیں پاتیں۔اسلام انسان کو نہ صرف خدا سے جوڑتاہے بلکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی پابند کرتاہے۔ عبادت کا مقصد انسان کو بہتر انسان بناناہے۔سچی عبادت وہی ہے جو دل کو نرم کرے، زبان کو سچ بولنے والا بنائے اور ہاتھ کو ظلم سے روکے۔
اَلدِّیْنُ الْمُعَامَلَۃ ترجمہ:دین تو حسنِ سلوک کا نام ہے۔
اگر ہماری عبادات ہمیں جھوٹ، ظلم، بدتمیزی، غصے، تکبر اور حسد سے نہیں روکتیں توہمیں اپنے عبادات کے اخلاص اور اثر پر غور کرنا چاہیے۔ اخلاق وہ آئینہ ہے جس میں عبادت کی روشنی نظر آتی ہے۔
صرف عبادات پر زور دینا دین کا ادھورا تصور ہے۔ عبادت کے ساتھ ساتھ اخلاق، معاملات اور حقوق العباد کا خیال رکھنا لازم ہے، ورنہ انسان کے اعمال کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔
اچھے اخلاق کے لیے تزکیۂ نفس کی ضرورت
اخلاق انسان کی شخصیت کا سب سے روشن پہلو اور معاشرے کی اصل زینت ہے۔ ایک مہذب، بردبار اور خوش اخلاق انسان دلوں کو جیت لیتا ہے جبکہ بدزبان اور بداخلاق شخص اپنے علم، عبادت اور دولت کے باوجود لوگوں کے دلوں سے دور ہو جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اخلاق کی جڑکہاں ہے؟ اور انسان اچھا اخلاق کیسے اپنا سکتاہے؟اس کا سیدھا جواب ہے کہ تزکیۂ نفس کے بغیر اچھے اخلاق ممکن نہیں۔
تزکیۂ نفس کیا ہے؟
تزکیہ کا مطلب ہے ’’پاکیزگی‘‘۔تزکیۂ نفس یعنی انسان اپنے نفس کو حسد، غرور، کینہ، شہوت، غصے، بخل اور حرص جیسی اندرونی بیماریوں سے پاک کرے اور صبر، شکر، تواضع، عفو، عدل اور حلم جیسی صفات سے مزّین کرے۔ جیسے درخت کی شاخیں اور پھل اس کی جڑ کی طاقت پر منحصر ہوتے ہیں ویسے ہی اخلاق بھی انسان کے دل اور نفس کی کیفیت پر موقوف ہیں۔ اگر نفس بیمار ہو تو اخلاق محض بناوٹ ہوتے ہیں لیکن اگر نفس پاک ہو تو اخلاق خود بخود کردار میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
خبردار! جسم میں ایک ٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہو جائے تو پورا جسم درست ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو پورا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ خبردار! وہ دل ہے۔ (صحیح بخاری۔52)
تزکیہ کے بغیر اخلاق صرف ظاہری دکھاوا ہوتاہے اور اللہ ایسے لوگوں کی عبادت قبول نہیں کرتا۔
سیدّنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
جس نے گفتگو کا ہیر پھیر (باتیں بنانے کا ڈھنگ) اس لیے سیکھا کہ وہ اس کے ذریعے سے لوگوں کے دل موہ لے تو اللہ عزوجل قیامت کے روز اس کا کوئی نفل قبول کرے گا اور نہ فرض۔(سنن ابی داؤد۔ 5006)
آج کے دور میں بعض لوگ خوش اخلاقی کو محض سفارتی چالاکی، کاروباری ہنر یا وقتی مصلحت سمجھتے ہیں مگر جب مفاد ٹکرائے تو اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہی فرق ہے ’’تزکیۂ نفس‘‘ سے پیدا ہونے والے اخلاق اور ’’دنیاوی مصلحت‘‘ سے جڑے اخلاق میں۔ ایک شخص جو اندر سے پاک ہو، وہ سخت کلامی، غیبت، حسد، بغض سے بچتا ہے، نہ صرف سامنے بلکہ پسِ پشت بھی عزت کرتا ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا۔ (سورۃ الشمس۔ 9-10)
ترجمہ: بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا، اور وہ ناکام ہوا جس نے اسے گناہوں میں چھپا دیا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری۔10)
یہ اخلاقی تحفظ تبھی ممکن ہے جب انسان اپنی زبان اور دل کو قابو میں رکھے یعنی نفس کی تربیت کرے۔
تزکیہ اور عبادت کا تعلق
عبادت کا مقصد بھی یہی ہے کہ انسان کے نفس میں پاکیزگی آئے، اگر نماز، روزہ یا تلاوت کے باوجود زبان گندی، مزاج سخت اور دل بغض سے بھرا ہوا ہو تو یہ علامت ہے کہ عبادت کی روح یعنی تزکیہ حاصل نہیں ہو سکا۔
ابنِ قیم لکھتے ہیں :
عبادت صرف رکوع و سجود کا نام نہیں بلکہ دل کی نرمی، زبان کی پاکیزگی اور نفس کی پاکی بھی عبادت کا حصہ ہے۔
اخلاقی بلندی صرف علم، فلسفے یا ظاہری مذہبی عمل سے نہیں آتی بلکہ باطن کی صفائی یعنی تزکیہ نفس سے آتی ہے۔ تزکیہ نفس وہ زمین ہے جس میں اخلاق کے پودے اگتے ہیں، پروان چڑھتے ہیں اور پھل دیتے ہیں۔
اچھے اخلاق محض سیکھنے کی چیز نہیں بلکہ ایک اندرونی کیفیت ہے جو تزکیۂ نفس سے پیدا ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے دل کو صاف کرے گا، اپنی نیت کو درست کرے گا، اپنی خواہشات پر قابو پائے گا تبھی اس کے اخلاق دوسروں کے لیے راحت بنیں گے۔
تزکیۂ نفس کے بغیر اخلاق کا بگاڑ
نفس ہی وہ چیزہے جو انسان کو اچھائی یا برائی پر اُکساتا ہے۔ جب انسان کا نفس خواہشات، حسد، غصہ، خود غرضی اور حرص کے تابع ہو جاتا ہے تو:
سچ جھوٹ میں بدل جاتا ہے
عدل ظلم بن جاتا ہے
صبر غصے میں بدل جاتا ہے
ایسے میں کوئی بھی اخلاقی خوبی باقی نہیں رہتی چاہے عبادت کا ظاہری پہلو کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔
آج ہمیں عبادات کے ساتھ ساتھ تزکیۂ نفس کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم نہ صرف اللہ کے قریب ہوں بلکہ بندوں کے لیے بھی باعثِ امن و رحمت بن سکیں۔
تزکیۂ نفس اور مرشد کامل اکمل
نفس کی تربیت اور اللہ کی معرفت کا راستہ نہایت پیچیدہ، باریک اور خطرات سے بھرا ہوا ہے۔ انسان اکیلے اس راستے پر چلتے ہوئے گمراہ ہو سکتا ہے۔ مرشدِکامل اس سفر میں چراغ راہ کا کام دیتا ہے۔
جیسے ایک طبیب جسمانی بیماریوں کی تشخیص کرتا ہے، ویسے ہی مرشد کامل نفس کی بیماریوں مثلاً ریا، تکبر، حسد، حرص وغیرہ کو پہچان کر اس کا علاج بتاتا ہے۔نفس بڑی باریکی سے دھوکہ دیتا ہے۔ اس کی چالوں سے صرف مرشد کامل ہی بچا سکتا ہے۔
مرشدِکامل کا قلب اللہ کی تجلیات کا مرکز ہوتا ہے۔ اس سے وابستگی اور صحبت اختیار کرنے سے مرید کو باطنی نور حاصل ہوتا ہے۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
مرشد کامل اکمل کے فیض کی کوئی حد نہیں سچا طالب خواہ کہیں بھی ہو اُسے فیض ملتا ہے۔
آئیں!آج کے اس پرُ فتن دور میں تزکیۂ نفس کے لیے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی صحبت حاصل کریں۔
استفادہ کتب:
۱۔مرشد کامل اکمل: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین: ترتیب و تدوین مسز عنبرین مغیث سروری قادری
۳۔ حسنِ اخلاق: تصنیف ڈاکٹر طاہرالقادری