بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

Spread the love

3/5 - (2 votes)

بزمِ سلطان العاشقین (ملفوظات سلطان العاشقین) 
( Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen (Malfuzat Sultan-Ul-Ashiqeen

قسط نمبر 9                               مرتب: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

15اپریل 2024 بروز سوموار

فقیر مالک الملکی کون ہے؟

کسی نے پوچھا فقیر مالک الملکی کون ہوتا ہے؟
فرمایا: یہ فقیر کا آخری درجہ ہے۔ فقیر کی بات ہو رہی ہے طالب کی بات نہیں ہو رہی۔ فقیر مالک الملکی وہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ اپنے رازوں میں شریک کر لیتا ہے کہ وہ کائنات کیسے چلا رہا ہے اور اس نے کیوں بنائی ہے۔

ہر قدرت پر قادر

فرمایا: قدرت پر قادر تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے، وہ بندہ کدھر ہو سکتا ہے۔ ہاں!کسی حد تک بندے کو اللہ تعالیٰ اپنے رازوں میں شریک کر لیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک اہم راز ہے کہ یہ کائنات کیوں بنائی اور یہ کیسے چلا رہا ہے؟ یہ راز آسانی سے نہیں مل جاتا بلکہ بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے، بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اِسی کو کہتے ہیں راز ِپنہاں۔ اس لیے یہ نہ سمجھیں کہ کوئی فقیر بن کر ہر چیز پر قادر ہو گیا ہے اور جو چاہتا ہے کرے۔ قدرت پر قادر ہونے سے مراد یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کائنات کا نظام چلا رہا ہے ان حدود اور تعین سے باہر نہ جانا۔ یہ مقام فقیر کو آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ فقیر مالک الملکی اللہ تعالیٰ کے نظام کو ویسے ہی چلاتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے لکھا ہوا ہے، یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی کرے۔ ایک ولی اللہ تھے جو کہہ رہے تھے کہ سورج میری مرضی سے طلوع ہوتا ہے اور میری مرضی سے غروب ہوتا ہے۔ کسی نے پوچھا یہ کیسے؟ انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ کی مرضی میری مرضی ہے تو سورج اس کی مرضی سے ہی طلوع ہوتا ہے تواس کا مطلب یہ ہوا کہ میری مرضی سے طلوع ہوتا ہے۔

 سلطان محمد فاروق صاحب کا واقعہ ہے جو میرے مرشد پاک(سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ) کے چھوٹے بھائی تھے۔ وہ کہتے تھے اگر میرے والد و مرشد مجھے فقیری عطا کرتے تو میں نے دنیا بدل کر رکھ دینی تھی۔ تو میں نے کہا اسی لیے آپ کو ملی نہیں۔ 

 فقیر مالک الملکی اس کائنات کو ویسے ہی چلاتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے لکھا ہوا ہے۔ جتنا اللہ کریم ہے اُتنا کریم بننا ہوتاہے، جتنا اللہ رحیم ہے اُتنا رحیم بننا ہوتا ہے۔

انسانِ کامل کے مراحل

کسی نے انسانِ کامل کے بارے میں دریافت کیا توفرمایا: انسانِ کامل کے بھی مراحل ہوتے ہیں جس طرح فقیر کے مراحل ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ اور انسانِ کامل کا مرتبہ تب حاصل ہوتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچ جاتا ہے۔ جو لاھوت میں پہنچ جائے وہ بھی کامل ہے۔پھر لاھوت میں بھی ایک لاھوت کا آغاز ہے اور ایک آخری حد ہے اس میں بھی بہت فرق ہے۔ لیکن لاھوت سے آگے یاھوت ہے، جو ادھر پہنچ جائے وہ اور بھی کامل ہے اور پھر ھاھویت ہے۔ یہ بھی انسانِ کامل کا مقام ہے۔ 

اللہ کا پلان

فرمایا: اس کی ہر چیز پلان ہے۔ وہ یہ نہیں کرتا کہ آج کا کام آج کر لیا،کل والا کل پلان کر لیا۔ اس کی ہر چیز پلان ہے۔ لوحِ محفوظ پر ہر چیز اس نے لکھی ہوئی ہے۔

اللہ سے جو مانگو ۔۔۔ملے گا

فرمایا: ہمارے بعد ہماری قبر فقر کا مرکز بنے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ جو بندہ جمعہ کے روز عصر سے لے کر مغرب تک ہمارے مزار پر درود پڑھے گا اس کا جو بھی مسئلہ ہوگا اللہ پاک حل کرے گا اور جو 11 ربیع الاوّل عصر سے لے کر 12 ربیع الاوّل مغرب تک درودپڑھے گا تو وہ جو مانگے گا اللہ پاک اس کو عطا کرے گا، خاص طور پر اس میں فقر کی نعمت شامل ہے۔ 

امانت کی منتقلی

فرمایا: ہمارے بعد جو ہمارا خلیفہ ہوگا، جو ہمارا وارث ہوگا اس کو اتنی جلدی کوئی چیز منتقل نہیں ہوگی کیونکہ وہ ہماری زندگی میں اپنے آپ کو ثابت نہیں کر سکا۔ ہمارے بعد اس کے امتحانات ہوں گے اور اس طرح اس کو درجہ بدرجہ امانت منتقل ہوگی۔

طالب کے خصائص

فرمایا: ایک بات یاد رکھیے گا طالب کبھی سست اور کاہل نہیں ہوتا۔ طالب کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔ طالب کبھی دھوکے باز نہیں ہوتا۔  طالب کبھی غصے میں نہیں آتا۔طالب کبھی لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتا۔ طالب کبھی کسی کے خلاف بددعا نہیں کرتا۔ یہ طالب کے خصائص ہیں۔ ہر طالب کو غور کرنا چاہیے کہ میرے اندر یہ صفات ہیں یا نہیں۔ 

طالبِ مولیٰ کو اللہ تعالیٰ پر اتنا زیادہ توکل ہوتا ہے کہ اگر اس کا توکل دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے اور ساری مخلوق میں تقسیم کر دیا جائے تو سب مخلوق کو کافی ہو جائے۔ اس کی مثال حدیث سے سمجھی جا سکتی ہے جو کہ حضوراکرمؐ نے پل صراط کے متعلق فرمایا کہ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ وادیٔ صنعا تک نور عطا فرمائے گا اور کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ اتنا کم نور عطا کرے گا کہ اپنا پاؤں بھی نہ دیکھ سکیں گے۔

وادیٔ صنعا مدینہ سے دور یمن میں واقع ہے۔ یہ نور حاصل کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ دنیا میں فقر پر چلنا پل صراط ہے۔ جیسے جیسے آپ کا نور بڑھتا جائے گا، زیادہ نظر آتا جائے گا۔ نور کیسے حاصل ہوتا ہے یہ آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا۔

25مئی  2024باطنی آزمائش

فرمایا: باطنی آزمائش ہی تو سب سے مشکل ہوتی ہے۔ظاہری آزمائشیں اتنی سخت نہیں ہوتیں۔ کبھی کبھار باطنی آزمائشیں ظاہر میں بھی آجاتی ہیں۔ ہم نے اللہ سے اس کی رضا کے علاوہ کچھ نہیں مانگا۔ اب وہ آزماتا ہے کہ اس میں کتنی ہمت ہے اور کدھر تک جاتا ہے اور کب گرتا ہے، کب رضا سے ہٹتا ہے۔ اللہ ایک مشکل بھیجتا ہے تو دیکھتا ہے کہ بندہ میری رضا مانگتا ہے یا اس سے نکلنے کی دعا مانگتاہے۔ پھر کچھ دن بعد نئی آزمائش بھیجتا ہے اور دیکھتا ہے کہ اب رضا مانگتا ہے یا کچھ اور۔ پھر اس کے بعد اس سے بھی بڑی آزمائش آتی ہے۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور طالبِ مولیٰ کامل توحید پر پہنچ جاتا ہے۔ حضورسیدّنا غوث پاک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ان پر ایک آزمائش آئی تو انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ اسے ٹال دے۔ وہ آزمائش ختم ہوئی تو کچھ دن بعد اللہ نے اس سے بڑی آزمائش بھیج دی۔ پھر حضور غوث پاکؓ نے فرمایا کہ اے اللہ تیری مرضی ہے جو کرنا ہے کر۔

کسی نے پوچھا کہ آپ کے مرشد کی حیات میں بہت سے لوگ اپنے آپ کو فقیر ظاہر کرتے تھے لیکن ان کے وصال کے بعد نظر نہیں آتے جبکہ مرشد کے وصال کے بعد فیض زیادہ ملتا ہے؟

فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں کہ ظاہری حیات کے بعد فیض زیادہ ملتا ہے لیکن طالب اگر خالص ہو۔مرشد کی حیات میں اگر مرشد کے بارے میں برا خیال طالب کے ذہن میں آئے تو اللہ معاف کر دیتا ہے لیکن مرشد کی حیات کے بعد اگر برا خیال آئے تو وہ ہرگز معاف نہیں کرتا۔ میرے مرشد (سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ) کے اردگرد بہت لوگ فقیر بننے کا دعویٰ کرتے تھے۔ ہر کوئی یہ سمجھتا تھا کہ میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد ہوں اس لیے میرا ادب ضروری ہے۔ اور جو لوگ جب میرے مرشد کے پاس آتے تو انہیں وہ گھنٹوں اپنے پاس بٹھا لیتے تھے۔ جو مرید میرے مرشد تک پہنچتا وہ بہت چھانٹا ہوا ہوتا۔ 

مرشد کی دامادی

کسی نے پوچھا کہ امام شعرانی کا فرمان ہے کہ جو طالب اپنے مرشد کے داماد بنتے ہیں تو زیادہ تر گمراہ ہی ہوتے ہیں۔

فرمایا: یہ بات درست ہے لیکن ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ لوگ جب مرشد کی صاحبزادی کو تکلیف پہنچاتے ہیں تو دراصل مرشد کو تکلیف پہنچاتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے داماد تھے۔ ایک بار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی بات پر جھگڑا ہوا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ گھر سے باہر چلے گئے۔ تب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لائے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں پوچھا تو پتا چلا کہ وہ باہر چلے گئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی تلاش میں نکلے اور ایک جگہ ان کو مٹی پر سویا ہوا پایا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں فرمایا اٹھو ’’ابوتراب‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے تھے کہ آپؓ سب خود صبر و تحمل سے برداشت کرتے ہیں اور انتہا کے عاجز ہیں۔ اس لیے فرمایا’’ابوتراب‘‘ یعنی مٹی والا۔ مٹی کو عاجزی ہی سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ لوگ مٹی کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں لیکن مٹی سب کچھ برداشت کرتی ہے۔ اسی طرح حضرت صابرپیاؒ بھی اپنے مرشد کے داماد تھے لیکن انہوں نے بھی مرشد کی صاحبزادی کے حقوق پورے کیے اور اپنے مرشد کو کبھی بھی اس معاملے میں تکلیف نہ پہنچائی۔ ان کو بھی اللہ نے نوازا۔

ابرار لوگوں کی نیکیاں مقربین کے نزدیک گناہ

کسی نے پوچھا کہ حدیث ہے کہ ابرار لوگوں کی نیکیاں مقربین کے نزدیک گناہ سمجھی جاتی ہیں۔ 

فرمایا: ابرار کے معنی ہیں نیک لوگ اور مقربین وہ ہیں جو اللہ کے قرب میں ہوں۔ انسان دنیا میں کوئی بھی عمل کرتا ہے چاہے وہ مرد ہے یا عورت، اس کے سامنے اس کے دل میں ان تین چیزوں میں سے ایک چیز ہوتی ہے:

(۱)یا تو وہ یہ عمل دنیا کو دکھانے کے لیے کر رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ ریاکار ہے اور بدکار ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ’’جو لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرتا ہے وہ بدکار ہے‘‘۔

 ایسا شخص دنیا دار ہے، دنیا کو خوش کرنے کے لیے کرتا ہے چاہے اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے، نوافل پڑھتا ہے یا کوئی بھی کام کرتا ہے۔

(۲) دوسرے وہ لوگ ہیں جو جنت کے لیے نیک عمل کرتے ہیں۔ ان کامقصد ہوتا ہے کہ ہمیں جنت مل جائے، حوریں مل جائیں، جنت کی نعمتیں مل جائیں، بہشتیں مل جائیں۔۔۔ انہیں ’’ابرار‘‘ کہتے ہیں۔

(۳) مقربین وہ ہوتے ہیں جو نہ تو جنت کی طلب رکھتے ہیں نہ دوزخ سے ڈرتے ہیں اور نہ انہیں دنیا سے کوئی غرض ہوتی ہے۔ وہ صرف اللہ کو راضی کرنے کے لیے عمل کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اللہ کا راضی ہونا ہی سب سے بڑا کام ہے۔

اس لیے مقربین کے نزدیک جنت کے لیے کی جانے والی نیکیاں یا ابرار لوگوں کی نیکیاں گناہ کے برابر ہوتی ہیں۔ اب آپ لوگ بھی اپنے اندر دیکھ لیں کہ آپ کوئی بھی کام کرتے ہیں تو آپ کے دل میں کیا ہے۔ کیا دل میں یہ ہے کہ دنیا والے میری تعریف کریں، دنیا والے مجھے اچھا سمجھیں اور کہیں کہ بڑا نیک آدمی ہے، بڑا پرہیزگار ہے۔ یہ تو ریاکاری ہو گئی نا! یہ تو بدکاری ہو گئی۔ یہ تو طالبِ دنیا ہوتا ہے۔ یا آپ کے دل میں جنت کی طلب ہے؟یا اگر آپ کے دل میں یہ نیت ہے کہ میں جو کام کر رہا ہوں، اللہ کی راہ میںمال خرچ کر رہا ہوں، نوافل پڑھ رہا ہوں، لوگوں کی مدد کر رہا ہوں۔۔۔۔ ان سب کا مقصد یہ ہے کہ میرا اللہ مجھ سے راضی ہو جائے اور مجھے جنت سے اور دنیا سے کوئی غرض نہیں تو ایسا آدمی مقرب ہے۔ 

مقربین کی پکڑ ’’سوچ ‘‘سے ہوتی ہے

فرمایا: جو ابرار لوگ ہوتے ہیں ان کے عمل سے ان کی پکڑ ہوتی ہے مثلاً اگر وہ غلط بات سوچ لیں دل میں ان کی پکڑ نہیں ہوتی بلکہ وہ عمل کریں توپکڑ ہوتی ہے۔ جبکہ جو مقربین ہیں ان کے خیال پر پکڑ ہو جاتی ہے۔ مقربوں کا تومقام ہی اور ہوتا ہے اس لئے ان کے دل میں غلط خیال ہی نہیں گزرتا۔ 

دیکھیں ! تین آدمی اللہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ ایک کا مقصد دنیاہے، ایک کا جنت اور ایک کا مقصد اللہ کو راضی کرنا ہے۔ آپ کو تو تینوں ایک جیسے ہی نظر آئیں گے لیکن اللہ کی بارگاہ میں تینوں بہت مختلف ہیں۔اس لیے صوفیا کرام کہتے ہیں کہ’’عالم کی بارگاہ میں جاؤ تو زبان کو سنبھال کر رکھو اور اگر ولی کی بارگاہ میں جاؤ تو دل کو سنبھال کر رکھو۔‘‘

بد بختی

کسی نے پوچھا سب سے بڑی بدبختی کیا ہے؟

فرمایا: دونوں جہانوں میں محبوبِ حقیقی کے دیدار سے محرومی سب سے بڑی بد بختی ہے۔ جبکہ خوش نصیب وہ ہیں جنہوں نے اسمِ اللہ ذات کا رازِ حقیقی حاصل کر لیا۔

کون سا طالب مرشد سے فیض پاتاہے؟

کسی نے پوچھا کہ کونسا طالب مرشد سے فیض پاتا ہے؟

فرمایا: حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں کہ طالب کو ہوشیار ہونا چاہیے۔ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ طالب کو فطین ہوناچاہیے۔شہبازِ عارفاں پیرسیدّ محمدبہادر شاہ ؒصاحب اپنے مرشد پیر عبد الغفور شاہؒ کے متعلق فرماتے ہیں:

پاون فیض جو ہن ہوشیار

ترجمہ: یعنی وہ طالب فیض پاتے ہیں جو ہوشیار اور دانا ہوتے ہیں۔ 

کیونکہ مرشد نے زبان سے توکچھ کہنا نہیں ہوتا۔ زبان سے تو دنیا کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایک ہوتا ہے بیعت ہونا اور اسمِ اللہ ذات لے لینا اور ایک ہوتا ہے اس راہ پر چل کر اسمِ اللہ ذات کی حقیقت حاصل کرنا۔ ان دونوں میں کافی فرق ہے۔

تسلیم و رضا

طالب ِحق کبھی گلہ نہیں کرتے نہ اللہ کا اور نہ مرشد کا۔ جو بھی حالات آ جائیں یار کی خوشی میں خوش رہتے ہیں اور ہمہ وقت سر جھکائے رکھتے ہیں۔ عاشق تو وہی ہے کہ جب معشوق قتل کرنا چاہے تو اپنا سر خود آگے کر دے۔ جیساکہ حضرت اسماعیل ؑنے حضرت ابراہیم ؑسے خود کہا کہ آپ نے جو خواب دیکھا ہے یعنی مجھے ذبح کرنے کا اس پر عمل کریں۔

امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ امام الوقت اور اس دور کے انسانِ کامل تھے اور نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے منصب پر فائز تھے۔ انسانِ کامل کسی کی بیعت کر ہی نہیں سکتا۔ انسانِ کامل کی زبان کنُ کی زبان ہوتی ہے۔ اگر آپ رضی اللہ عنہٗ دریائے فرات کو اشارہ کرتے تو وہ چل کر خیموں تک آجاتا، آسمان کو اشارہ کرتے تو بارش برسنے لگتی، کربلا کی ریت کو اشارہ کرتے تو اس کا طوفان یزیدی لشکر کو غرق کر دیتا لیکن ایک طرف یہ سب کچھ تھا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا تھی۔ آپ رضی اللہ عنہٗ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا۔ عاشقِ حقیقی وہی ہوتا ہے جو معشوق کے ہاتھوں اپنا قتل ہونا قبول کر لے اور باوجود تکالیف اور مصائب کے نہ تو راہِ عشق سے منہ موڑے اور نہ ہی تسلیم و رضا کی راہ میں اس کے قدم ڈگمگائیں خواہ کروڑوں تلواریں اس کے جسم کو زخمی کر دیں۔ عاشق جس طرف محبوب کی رضا دیکھتا ہے اس طرف ہو جاتا ہے۔ ایک طرف اس طاقت اور تصرف کو دیکھتا ہے جو اللہ نے اس کو دیا ہے اور دوسری طرف اس کی رضا کو دیکھتا ہے۔ اس وقت اللہ کہتا ہے کہ میں منع نہیں کرتا، جو دل کرتا ہے اختیار کر لے۔ اس وقت عاشق رضا کو پسند کرتا ہے کہ رضا میں ہی سکون ہے، رضا میں ہی زندگی ہے اور فقر کی منزل بھی رضا ہی سے ہاتھ آتی ہے۔ یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ کئی فقیر رضا کی منزل سے گر جاتے ہیں کہ جب انہیں تکلیف پہنچی تو گر گئے۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ لیکن امام عالی مقام جیسا کوئی پیدا نہیں ہوا۔ سب کو آپ رضی اللہ عنہٗ کے سامنے ذبح کیا گیا، سب بچوں کو، بھائیوں کو اور آخر میں آپؓ کی باری آئی۔ آسان تو یہ تھا کہ پہلے آپ رضی اللہ عنہٗ شہید ہوں اور بعد میںجو بھی شہید ہوتا، ہوتا رہے، لیکن نہیں۔ رضا ئے الٰہی یہ ہے کہ پہلے سب آپ رضی اللہ عنہٗ کے سامنے شہید ہوں اور پھر آخر میں آپ رضی اللہ عنہٗ کی باری آئے تا کہ آپ رضی اللہ عنہٗ سب بچوں، بھائیوں اور بھتیجوں کو اپنے سامنے ذبح ہوتے دیکھیں۔ یہ ہے رضا۔ ان حالات میں بندے میں برداشت ہی نہیں رہتی۔ بچے پیاسے تھے بلکہ پیاس سے مرنے کے قریب تھے۔ یہاں انگلی سے اشارہ کرتے اور زمین سے پانی ابل پڑتا۔ یہ پانی حاصل کرنا کونسی بڑی بات ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ خود کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے پاؤں کی خاک ظاہر کرتے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کلر کہار میں کنکری پھینکی اور چشمہ جاری ہو گیا اور اب تک جاری ہے۔ 

واقعہ یہ ہے کہ ایک فقیر(حضرت شیخ فرید الدین گنج شکرؒ) کلر کہار سے گزرا جہاں ایک چشمہ تھا جہاں سے سارے کلرکہار کی آبادی پانی لاتی تھی۔ اس فقیر نے پانی مانگا تو عورتوں نے کہا بابا جی! پانی کڑوا ہے۔ انہوں نے کہا اگر کڑوا ہے تو کڑوا ہی سہی۔ جا کر دیکھا تو سارا چشمہ کڑوا ہو چکا تھا۔ سارے گاؤں والے فقیر کے پاس بھاگے کہ عورتوں سے غلطی ہو گئی۔ تو انہوں نے کہا میں کڑوے کو دوبارہ میٹھا نہیں کر سکتا یہ ایک ہی ہستی کر سکتی ہے وہ یہاں آئے گی کڑوے کو میٹھا کرنا اس کا کام ہے۔ اس وقت کا انتظار کرو۔ پھر ایک وقت حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسی پہاڑی پر گئے، روزے رکھے۔ رمضان شریف کے بعد لوگوں کو پتہ چلا کہ یہاں تو فقیر آیا ہے۔ انہوں نے میٹھے پانی کی درخواست کی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک کنکری اٹھائی اور ایک طرف دے ماری۔ کنکری جدھر لگی وہاں سے میٹھے پانی کا چشمہ جاری ہو گیا اور آج تک جا ری ہے۔ کلر کہار میں اس چشمہ سے جھیل بن چکی ہے۔ اب تو تفریح کا spot بن گیا ہے۔ وہاں پہ کشتیاں چلتی ہیں، بچے سیر کرنے جاتے ہیں۔ سکولوں کے ٹرپ جاتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے غلام کر سکتے ہیں تو خود ان کے لیے یہ کیا حیثیت رکھتا تھا۔ یہ ایک واقعہ میں نے بیان کیا ہے ایسے بے شمار واقعات ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے لیے کون سی مشکل بات تھی کہ دریائے فرات کو بھی نہ بلاتے بلکہ زمین کو اشارہ کرتے تو زمین سے پانی نکل آتا، چشمہ جاری ہو جاتا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑھیاں رگڑنے سے چشمہ جاری ہو سکتا ہے تو کیا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے اشارے سے نہیں ہو سکتا؟ لیکن عشق کہتا تھا رضا پر سر تسلیم خم کر دے تو آپ رضی اللہ عنہٗ نے سر تسلیم خم کر دیا۔ اسی لیے آپ رضی اللہ عنہٗ کو تسلیم و رضا کا بھی بادشاہ اور شہنشاہ کہا جاتا ہے۔

طالب خود مرشد کی بات کو پورا کرتا ہے

مرشد جو فرما دے اس کو طالب پورا کرتا ہے جیسے اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ 

قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَآ (سورۃ الصافات۔ 105)

ترجمہ: یقینا تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔

جب مرشد طالب سے کچھ کہتا ہے اس کا مطلب ہے کہ تقدیر میں لکھ دیا گیاہے اب اسے دلیل بنا کر وہ کام کرنا ہے جس سے وہ مقام یا چیز حاصل ہوتی ہے۔ اگر وہ اتنی محنت کرے تو اسے وہ چیز حاصل ہو جاتی ہے۔

سارے دکھ انسان کے خود بنائے ہوئے ہیں

فرمایا: اللہ انسان کو دکھ نہیں دیتا بلکہ سارے دکھ انسان کے خود بنائے ہوئے ہیں۔ 

وَ مَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ (سورۃالشوری ۔30)

ترجمہ:اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تواس (بد اعمالی) کے سبب ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی (کوتاہیوں سے) تووہ درگزر بھی فرمادیتا ہے۔

انسان خواہشات چھوڑ دے تو اس کے دکھ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ 

(جاری ہے)

 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں