اللہ سے عہد کی پاسداری| Allah sy Ehad ki Pasdari

Spread the love

Rate this post

اللہ سے عہد کی پاسداری

مراسلہ: عثمان صادق سروری قادری (لاہور)

ایک درویش دور اندیش دنیا سے منہ موڑ کر اپنے مالک سے ناتا جوڑ کر دشوار گزار پہاڑیوں میں رہا کرتا تھا۔ تن تنہا عبادتِ الٰہی کی خوشبو میں دن رات مست رہتا اور دنیا پرست لوگوں کے نفس کی بدبو سے پریشان دماغ ہو جاتا۔ جنگل میں ہزارہا درخت پھلوں اور میوؤں کے تھے۔ اس درویش خدا مست کی خوراک یہی جنگلی پھل اور میوے تھے۔ ان چیزوں کے علاوہ اور کچھ نہیں کھاتا تھا۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے نہ جانے کیا خیال آیا کہ خدا سے ایک عجیب و غریب عہد کر بیٹھا کہ اے میرے اللہ! میں آئندہ ان درختوں سے نہ خود میوہ توڑوں گا نہ کسی اور کو کہوں گا کہ مجھے پھل توڑ کر دے۔ میں وہ پھل نہ کھاؤں گا جسے ڈالیاں زمین سے اونچا رکھیں۔ میں وہ پھل اور میوہ کھاؤں گا جو ہوا کے جھونکوں سے خود جھڑ کر زمین پر آن گریں گے۔ غرض اس طرح کا عہد اس مردِ درویش نے خدا سے کر لیا اور مدتوں اس پر قائم رہا۔

ایک مرتبہ قدرتِ خدا سے ایسا ہوا کہ پانچ دن گزر گئے کسی درخت سے کوئی پھل نہ گرا۔ بھوک کی آگ نے درویش کو بیقرار اور مضطرب کر دیا۔ کسی پل چین نہ آ رہا تھا۔ اسی عالم میں جنگل سے گزرتے ہوئے امرود کا ایک درخت دیکھا جس کی ڈالیاں زرد زرد اور بڑے بڑے امرودوں سے بھری ہوئی تھیں۔ درویش وہاں کھڑا ہو کر حسرت بھری نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا۔ درویش نے بڑا صبر کیا اور خود کو قابو میں رکھا۔ یکایک زور کی ہوا چلی تو درویش کو تھوڑا سہارا ہوا مگر کافی دیر تک پھل ٹوٹ کر زمین پر نہ گرا۔ صبر حد سے گزر گیا اور درویش کا نفس بے قابو ہو گیا۔ معدے کے اندر سے ہوک اُٹھی اور خدا سے جو عہد استوار کیا تھا وہ توڑ بیٹھا۔ فوراً ہاتھ بڑھا کر امرود توڑ لیا اور پیٹ کی آگ بجھا لی۔ اللہ سے کیا عہد ٹوٹ گیا۔

غیرتِ خداوندی حرکت میں آئی۔ ان دشوار گزار پہاڑوں میں چوروں اور قزاقوں کا ایک گروہ آ گیا۔ راتوں کو وہ گروہ شہروں اور بستیوں میں جا کر لوٹتا اور دن کو واپس آ کر وہاں رہتا۔ کوتوال کو ان قزاقوں کے بارے میں اطلاع ہو گئی۔ کوتوال نے سپاہیوں کی ایک بڑی جماعت بھیجی۔ انہوں نے اس پہاڑی اور جنگل کا گھیراؤ کر لیا۔ اس درویش کا مسکن بھی قریب ہی تھا۔ سپاہیوں نے تمام چوروں کو گرفتار کر لیا۔ ان کے ساتھ ہی درویش کو بھی ان کا ساتھی سمجھ کر پکڑ لیا۔ کوتوال نے حکم دیا کہ انہیں جیل میں بند کر دو۔ چند دنوں کے بعد عدالت میں مقدمہ پیش ہوا۔ بعد میں یہ فرمان جاری ہوا کہ ہر ایک کا بایاں پاؤں اور دایاں ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ جلاد نے کوتوال کا حکم ملتے ہی تلوار چلانی شروع کر دی۔ وہ ساری جگہ نالہ و شور سے گونج اُٹھی اور درویش کا دایاں ہاتھ کٹ گیا۔

جلاد درویش کا بایاں پاؤں کاٹنے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ یکایک ایک گھڑ سوار تیزی سے وہاں نمودار ہوا اور جلاد کو للکارا ’’ارے مردود! ذرا دھیان کر، یہ شخص بڑا شیخ اور ابدالِ وقت ہے۔ تو کیا ظلم ڈھا رہا ہے۔ اب خدا کے عذاب کا انتظار کر۔‘‘ گھڑ سوار کی یہ بات سنتے ہی جلاد کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی۔ عالمِ وحشت میں بھاگا سیدھا کوتوال کے پاس گیا اور اسے اس حادثے سے آگاہ کیا۔ کوتوال کے ہوش اُڑ گئے۔ لرزاں و ترساں برہنہ سر اور برہنہ پاؤں درویش کی خدمت میں ہاتھ باندھے حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا ’’اے خدا کے مقبول بندے! مجھے خبر نہ تھی کہ آپ کون ہیں۔ میں نے آپ پر سخت زیادتی کی، لاعلمی میں یہ خطا سرزد ہو گئی ہے، خدا کے لیے ہمیں بخش دیجئے‘‘۔
درویش نے کہا ’’اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں۔ جس گناہ کی پاداش میں میرا ہاتھ کاٹا گیا اس کو میں جانتا ہوں۔ تجھے ان حالات کی کیا خبر، لہٰذا تم بے فکر رہو‘‘۔

درس:

جب کوئی مسلمان ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے ربّ سے عہد کرتا ہے کہ اے اللہ ربّ العزت! میں تیرے احکامات کی پیروی کروں گا۔ لیکن جو خدا کے ساتھ عہد کر کے توڑتا ہے اسے نقصان اُٹھانا پڑتا ہے۔ لہٰذا اپنے عہد کی پاسداری کرو۔

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں