لیلۃ القدر انوار و تجلیات کی برسات کی رات | Laylat al-Qadr Anwar e Tajalliyat ki Barsaat Ki Raat


Rate this post

لیلۃ القدر. انوار و تجلیات کی برسات کی رات

مسز عنبرین مغیث سروری قادری۔ ایم  اے ابلاغیات

عربی زبان میں رات کے لیے لفظ ’’لیلۃ‘‘ اور فارسی میں ’’شب‘‘ مروج ہے۔ قدر کے معنی اہمیت، عظمت اور قیمت کے ہیں۔ لیلۃ القدر کا مفہوم یہ ہوا کہ اہمیت و عظمت والی رات۔ اللہ ربّ العزت نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اپنے محبوب کی امت کو ایک ایسی رات عطا فرمائی کہ جس کی عبادت اجر و ثواب کے لحاظ سے ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

موطا امام مالکؒ میں ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سابقہ امتوں کے لوگوں کی لمبی عمروں پر آگاہ فرمایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِن کے مقابلے میں اپنی اُمت کے لوگوں کی کم عمر کو دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری اُمت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ اُمتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو لیلۃ القدر عطا فرما دی جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے شخص کا تذکرہ کیا گیا جس نے ایک ہزار ماہ تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس پر تعجب کا اظہار فرمایا اور اپنی اُمت کے لیے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا کی  ’’اے میرے ربّ! میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم ہوں گے‘‘ تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شبِ قدر عطا فرمائی۔ (تفسیر الخازن)

امام قرطبی تفسیر قرطبی میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی  اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کے سامنے حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت حزقیل علیہ السلام اور حضرت یوشع علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے اَسی اَسی سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور پلک جھپکنے کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی۔ صحابہ کرامؓ کو اس بات پر اُن پررشک آیا تو جبرائیل علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ’’اے اللہ کے حبیبؐ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے لوگ ان سابقہ امتوں کے لوگوں کی اَسی اَسی سالہ عبادت پررشک کر رہے ہیں تو آپ کے ربّ نے آپ کو اس سے بہتر عطا فرما دیا ہے‘‘ پھر سورۃ القدر کی تلاوت کی اس پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا چہرہ مبارک مسرت سے چمک اُٹھا۔
امام جلال الدین سیوطیؒ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:  لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ نے فقط میری اُمت کو عطا فرمائی ہے، سابقہ اُمتوں میں یہ فضیلت کسی امت کو حاصل نہیں ہوئی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ القدر کے ذریعہ یہ رات اُمتِ محمدیہ  کو عطا فرمائی۔ سورہ قدر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک ہم نے اس (قرانِ مجید) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔

اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس رات میں فرشتے اور روح الامین (حضرت جبرائیلؑ) اپنے ربّ کے حکم سے ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بعض رسولوں کو بعض پر، بعض انسانوں کو بعض پر، بعض مقامات کو بعض پر، بعض دنوں کو بعض پر اور بعض راتوں کو بعض راتوں پر فضیلت دی ہے۔ جس طرح اُمتِ محمدیہ اگر مسجد الحرام میں ایک وقت میں ایک نماز پڑھتی ہے تو ایک لاکھ نمازوں کا ثواب، مسجدِ نبویؐ میں پچاس ہزار نمازوں کا اور مسجدِ اقصیٰ میں پچیس ہزار نمازوں کا ثواب پاتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس رات کو ہزار مہینوں یعنی 83 سال اور 4 ماہ سے بہتر قرار دیا ہے۔ شبِ قدر کو دوسری راتوں سے افضل قرار دینے کی بعض وجوہات ہیں:
انسان اس جہان میں آیا ہے تو اس کے خالق نے اس کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے جامع ہدایت نامہ یعنی قرآنِ مجید اسے عطا کیا آسمانِ دنیا پر اس کا نزول اسی شب ہوا۔ جب نزولِ قرآن کا آغاز غارِ حرا میں ہوا تو بھی یہی شب تھی۔
اس رات شام سے لے کر سحر تک اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت کا نزول ہوتا ہے اور ربّ العالمین کی تجلّیات اس کے بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔
اس رات میں عبادت میں لذت اور حلاوت محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس رات ملائکہ اور سردارِ ملائکہ روح الامین حضرت جبرائیلؑ اللہ کے حکم سے اس کے صالح بندوں کی زیارت کے لیے زمین پر اترتے ہیں کیونکہ انسان اشرف المخلوقات اور مسجودِ ملائکہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ برکتیں اور رحمتیں طلوعِ فجر تک جاری رہتی ہیں۔

شبِ قدر۔ انعامِ عظیم

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جوآدمی حالتِ ایمان میں طلبِ ثواب کے لیے شبِ قدر میں قیام کرتا ہے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تمہارے اوپر ایک ایسا مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا وہ گویا ساری  خیر سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے وہی محروم رہتا ہے جو حقیقتاً محروم ہی ہے۔
جمہور علمائے کرام کہتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان کے آخری عشرے میں پوشیدہ ہے خاص کر طاق راتوں میں۔ طاق راتوں کا بھی علاقوں کے اختلاف کی وجہ سے اختلاف ہوتا ہے۔
حضرت ابی بن کعبؓ، ابنِ عباسؓ، شیخ عبدالقادر جیلانیؓ، امام ابو حنیفہؓ اور اکثر مفسرین اور علمائے کرام اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ یہ ستائیسویں رمضان کی رات ہے۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ بیان کرتے ہیں کہ شبِ قدر رمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔
لیلۃ القدر کا لفظ 9 حروف پر مشتمل ہے۔ یہ کلمہ سورۃ القدر میں تین مرتبہ استعمال کیا گیا ہے۔ اس طرح 3 کو 9 سے ضرب دینے سے 27 حاصل ہوتا ہے جو اس بات کا غماز ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں کو ہوتی ہے۔
سورۃ القدر تیس الفاظ سے مزین ہے۔ ستائیسواں کلمہ وہی ہے جس کا مرکز لیلۃ القدر ہے گویا خداوند عظیم کی طرف سے عقل مندوں اور اللہ والوں کے لیے یہ اشارہ ہے کہ رمضان شریف کی ستائیسویں شب کو شبِ قدر ہوتی ہے۔ (تفسیر عزیزی 259)

شبِ قدر کے عدم تعین کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ لوگ اس بات پر اعتماد نہ کر بیٹھیں کہ ہم ایسی رات میں عبادت کر چکے ہیں جو ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اللہ نے ہماری مغفرت کر دی، ہمیں بارگاہِ ایزدی سے بڑے بڑے مراتب حاصل ہوگئے، جنت بھی مل چکی۔ یہ خیال کر کے وہ عمل سے کنارہ کش ہو جائیں گے، مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں گے اور امید میں پھنس کر رہ جائیں گے۔ جس کا نتیجہ بربادی ہوگا۔ شبِ قدر کے تعین سے مطلع نہ کرنے کی یہی وجہ ہے جو موت کے وقت سے مطلع نہ کرنے کی ہے تاکہ اپنی موت کا وقت جاننے والا یہ نہ کہنے لگے کہ ابھی تو میری بہت عمر پڑی ہے، موت کا وقت آئے گا تو اس وقت توبہ کر لوں گا اور عبادت میں مشغول ہو جاؤں گا اور نیکوکاروں کی حالت میں میرا خاتمہ ہو جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے مرنے کا وقت اس لیے پوشیدہ رکھا تاکہ ان کو ہمیشہ موت کا دھڑکا لگا رہے اور نیک عمل میں مصروف رہیں اور اعمال کی اصلاح میں مشغول رہیں، ان پر موت اس حال میں آئے کہ وہ نیکی پر قائم ہوں۔ اسی طرح دنیا میں بھی وہ جائز لذتوں سے محظوظ ہوں اور آخرت میں اللہ کی رحمت کے باعث عذاب سے بچ جائیں۔

شبِ قدر۔ علامات/ مشاہدات

اس رات کی علامات میں سے اہم یہ ہیں کہ:
یہ رات کھلی ہوئی چمک دار ہوتی ہے۔
نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈی بلکہ معتدل۔
صاف شفاف گویا کہ اس میں (انوار کی کثرت کی وجہ سے) چاند کھلا ہوا ہے۔
اس رات صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے یعنی شہابِ ثاقب  نہیں ٹوٹتے۔
اس رات کے پچھلے پہر بے حد کیف و سرور ہوتا ہے۔
آسمان کی طرف دیکھنے سے نور زمین کی طرف آتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔
رات میں ایمان والوں کے دل عبادت کرنے میں سکون محسوس کرتے ہیں۔ ان کی طبیعت قدرتی طور پر عبادت کی طرف کچھ زیادہ ہی راغب ہوتی ہے۔
بعض اسلاف نے اس شب میں سمندر کا پانی چکھا تو میٹھا و شیریں معلوم ہوا۔
بعض بزرگوں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ شبِ قدر میں ہر چیز سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ درخت بھی اس رات میں سجدہ کرتے ہیں اور زمین پر گر پڑتے ہیں‘ پھر اپنی جگہ پر آجاتے ہیں۔
عام لوگوں کی نسبت اہلِ نظر کو شبِ قدر کا زیادہ مشاہدہ ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس شب کا ظہور صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ ظاہر فرمانا چاہتا ہے ورنہ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے دو انسانوں میں سے ایک اس رات کا جلوہ پا جاتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے۔ دراصل اس رات کا مزہ اور سرور الفاظ میں کیسے بیان کیا جاسکتا ہے‘ جو لذت انسان کے ذاتی تجربے اور مشاہدے میں آتی ہے وہ اوراق میں کیسے پیدا کی جاسکتی ہے!

اثرات

شبِ قدر کے بعد والی صبح کو سورج میں تیزی نہیں ہوتی۔ بغیر شعاع بالکل ہموار ٹکیہ کی طرح ہوتا ہے جیسا کہ چودھویں رات کا چاند۔
اللہ جل شانہٗ نے اس دن کے آفتاب کے طلوع کے وقت شیطان کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا ہے‘ برخلاف اور دنوں کے کہ طلوعِ آفتاب کے وقت شیطان کا اس جگہ ظہور ہوتا ہے۔ 

وظیفۂ خاص

اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ لیلۃ القدر فلاں رات ہے تو میں اس رات کیا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ دعا مانگو ’’اے معبود! توُ معاف فرمانے والا ہے، معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، تو مجھے معاف فرما دے۔‘‘

حاصل تحریر یہ کہ لیلۃ القدر اپنے محبوب کی اُمت کے لیے اللہ عزّوجل کا انعام ہے تاکہ وہ اس ایک رات میں اللہ کی خوب عبادت کر کے اس سے اس کا قربِ خاص طلب کریں کہ اس طلب سے بڑھ کر طالبِ مولیٰ کے لیے اور کوئی طلب نہیں۔ اس رات میں خلوصِ دل سے مانگی جانے والی کوئی بھی دعا ردّ نہیں کی جاتی۔ سارا سال انسان اللہ کی ذات سے غفلت میں گزارتا ہے۔ طرح طرح کے گناہوں کی لذت میں دھنسا رہتا ہے تو دعا مانگیں اللہ سے تقویٰ کے حصول کی، اللہ اور اس کے محبوب کی اتباع اور اطاعت و رضا کی۔ دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس رات کو پانے اور اس کی رحمتوں، برکتوں اور فضائل سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


28 تبصرے “لیلۃ القدر انوار و تجلیات کی برسات کی رات | Laylat al-Qadr Anwar e Tajalliyat ki Barsaat Ki Raat

  1. ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
    نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ لیلۃ القدر فلاں رات ہے تو میں اس رات کیا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ دعا مانگو ’’اے معبود! توُ معاف فرمانے والا ہے، معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، تو مجھے معاف فرما دے۔‘‘

  2. لیلۃ القدر اپنے محبوبؐ کی اُمت کے لیے اللہ عزّوجل خاص کا انعام ہے۔

    1. ماشاءاللہ بہت اچھے انداز سے اس رات کی فضلیت و اہمیت کو اس مضمون میں بیان کیا گیا ہے۔

    1. ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
      نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ لیلۃ القدر فلاں رات ہے تو میں اس رات کیا کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ دعا مانگو ’’اے معبود! توُ معاف فرمانے والا ہے، معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، تو مجھے معاف فرما دے۔

    2. حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جوآدمی حالتِ ایمان میں طلبِ ثواب کے لیے شبِ قدر میں قیام کرتا ہے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری)

  3. حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جوآدمی حالتِ ایمان میں طلبِ ثواب کے لیے شبِ قدر میں قیام کرتا ہے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (بخاری)

  4. ماشااللہ
    بہت حوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے اس رات کی فضیلت اور اہمیت کو

  5. حقیقت یہ ہے کہ اس شب کا ظہور صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اللہ تعالیٰ ظاہر فرمانا چاہتا ہے ورنہ ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے دو انسانوں میں سے ایک اس رات کا جلوہ پا جاتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے۔ دراصل اس رات کا مزہ اور سرور الفاظ میں کیسے بیان کیا جاسکتا ہے‘ جو لذت انسان کے ذاتی تجربے اور مشاہدے میں آتی ہے وہ اوراق میں کیسے پیدا کی جاسکتی ہے!

      1. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: لیلۃ القدر اللہ تعالیٰ نے فقط میری اُمت کو عطا فرمائی ہے، سابقہ اُمتوں میں یہ فضیلت کسی امت کو حاصل نہیں ہوئی۔

  6. سبحان اللہ
    اللہ پاک میں اس رات کے صدقے میں ہماری بخشش فرمائے ۔آمین

  7. اللہ پاک ہم سب کو لیلۃ القدر کے انوار و تجلیات سے مستفید فرمائے.

  8. لیلۃ القدر اپنے محبوبؐ کی اُمت کے لیے اللہ عزّوجل خاص کا انعام ہے

  9. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #ramzan2021 #ramdanmubarak #ramzanspecial #lailatulqadar #27ramzn #shabeqadar

  10. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #ramzan2021 #ramdanmubarak #ramzanspecial #lailatulqadar #27ramzn #shabeqadar

  11. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #ramzan2021 #ramdanmubarak #ramzanspecial #lailatulqadar #27ramzn #shabeqadar

اپنا تبصرہ بھیجیں