alif

alif | الف


Rate this post

الف

اصل بندگی کیا ہے؟؟

حدیثِ قدسی میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلْبَعْضُ عِبَادِیْ اِلٰی مَنْ عَبَدَنِیْ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ جَھَنَّمَ وَطَمَعَ الْجَنَّۃَ 
ترجمہ: میرے بعض بندے ایسے ہیں جو جہنم کے خوف اور جنت کی طمع میں میری عبادت کرتے ہیں۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ  ترجمہ: نماز مومنین کی معراج ہے۔

کیا تو جانتا ہے کہ کونسی نماز مومن کی معراج ہے؟ مومن کو چاہیے کہ دنیا سے وضو اور آخرت سے غسل کرے اور اپنے نفس کی قربانی دے کر فنا کے دریا میں غوطہ لگائے تب وہ ’’نماز مومن کی معراج ہے‘‘ کے مقام پر پہنچے گا۔ تکبیرِتحریمہ تکبیرِاولیٰ کو کہتے ہیں۔ تکبیرِ تحریمہ سے کیا مراد ہے؟ یعنی خود پر ماسویٰ اللہ کو حرام کر لیا جائے۔ مومن تین کاموں میں مشغول رہتا ہے اوّل عبادت، دوم عبودیت، سوم ذات۔ عبادت کیا ہے؟ جس کے عوض حور و قصور، غلمان، وِلدان اور جنت کی دیگر نعمتیں ملتی ہیں۔ عبودیت کیا ہے؟ اگر یہ اللہ کی محبت پر مبنی ہو تو اس کے عوض میں طالب اپنی حقیقت جان لیتا ہے۔ تاہم مومن کو چاہیے کہ ہر حال میں اللہ کا طالب رہے۔ ذات سے کیا مراد ہے؟ اپنے ارادے سے فارغ ہو جانا اور اللہ تعالیٰ کی عنایت اور فضل سے اللہ تعالیٰ کی ذات تک پہنچ جانا۔ اے عزیز! ہر شے کا معاوضہ ہے اور ذاتِ باری تعالیٰ کا معاوضہ طالب کی اپنی ذات ہے۔ جب تک طالب اپنی ذات سے فانی نہیں ہوتا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات تک نہیں پہنچ سکتا۔ اسی کے متعلق فرمان ہے:
دَعْ نَفْسَکَ وَ تَعَالَ اِلَی اللّٰہ  ترجمہ: اپنی ذات کو چھوڑ دو تاکہ اللہ تک پہنچ جاؤ۔
مومن کو چاہیے کہ خود کو حق تعالیٰ کے مدِنظر سمجھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰہَ یَرٰی  (سورۃ العلق۔ 14) ترجمہ: کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟

فِیْہِ اِشَارَۃٌ اِلَی الرُّؤْیَۃِ وَھُوَ تَعَلَّمَہٗ جِبْرَائِیْلُ صَلٰوۃُ اللّٰہِ اَنَّ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ سِرًّا وَ جَھْرًا (بخاری شریف۔50)
ترجمہ: اس (مندرجہ بالا آیت) میں دیدار کی طرف اشارہ ہے جس کے متعلق انہیں جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ اللہ کی عبادت ایسے کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا نہ کر سکو تو (یہ گمان رکھو کہ) وہ تمہیں پوشیدہ و ظاہر ہر جگہ دیکھ رہا ہے۔ 

اپنی حرکات و سکنات، احوال و اقوال اور افعال کے لحاظ سے بندہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم  بِالْعِبَادِ(سورۃ مومن۔44) ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔

(سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تصنیف مبارکہ ’’تلمیذ الرحمن‘‘ سے اقتباس)

 

اپنا تبصرہ بھیجیں