مرتبہ سلطان الفقر- حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کی روشنی میں | Martaba Sultan-ul-Faqr in the light of teachings of sultan bahoo


3/5 - (1 vote)

مرتبہ سلطان الفقر 

حضرت سخی سلطان باھُوؒ کی تعلیمات کی روشنی میں
Martaba Sultan-ul-Faqr in the light of teachings of sultan bahoo

تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس

مرتبہ سلطان الفقر

حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo)  مرتبہ ’’سلطان الفقر  ‘‘ پر فائز ہیں۔ مرتبہ سلطان الفقر کے بارے میں آپ رحمتہ اللہ علیہ  ’رسالہ روحی شریف‘ میں فرماتے ہیں:
جان لے جب نورِ احدی نے وحدت کے گوشۂ تنہائی سے نکل کر کائنات (کثرت) میں ظہور کا ارادہ فرمایا تو اپنے حسن کی تجلّی کی گرم بازاری سے (تمام عالموں کو) رونق بخشی ‘ اِس کے حسن ِبے مثال اور شمعٔ جمال پر دونوں جہان پروانہ وار جل اٹھے اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی۔ پھر جذبات اور ارادات کی کثرت سے سات بار جنبش فرمائی جس سے سات ارواحِ فقرا باصفا فنا فی اللہ ‘بقا باللہ تصورِ ذات میں محو ‘ تمام مغز بے پوست حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ستر ہزار سال پہلے ‘ اللہ تعالیٰ کے جمال کے سمندر میں غرق آئینہ یقین کے شجر پر رونما ہوئیں۔ انہوں نے ازل سے ابد تک ذات ِ حق کے سوا کسی چیز کی طرف نہ دیکھا اور نہ غیر حق کو کبھی سنا۔ وہ حریم ِکبریا میں ہمیشہ وصال کا ایسا سمندر بن کر رہیں جسے کوئی زوال نہیں۔ کبھی نوری جسم کے ساتھ تقدیس و تنزیہہ میں کوشاں رہیں اور کبھی قطرہ سمندر میں اور کبھی سمندر قطرہ میں ‘ اور اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہیں اللہ ہے ۔) کے فیض کی چادر ان پر ہے۔ پس انہیں ابدی زندگی حاصل ہے اور وہ اَلْفَقْرُ لَا یُحْتَاجُ اِلٰی رَبِّہٖ وَلَا اِلٰی غَیْرِہٖ (وہ نہ تو اپنے ربّ کے محتاج ہیں نہ ہی اس کے غیر کے۔) کی جاودانی عزت کے تاج سے معزز و مکرم ہیں۔ انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور قیامِ قیامت کی کچھ خبر نہیں ۔ ان کا قدم تمام اولیا اللہ، غوث و قطب کے سر پر ہے۔ اگر انہیں خدا کہا جائے تو بجا ہے اور اگر بندۂ خدا سمجھا جائے تو بھی روا ہے۔ اس راز کو جس نے جانا اس نے پہچانا۔ اُن کا مقام حریمِ ذاتِ کبریا ہے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے سوائے اللہ تعالیٰ کے کچھ نہ مانگا، حقیر دنیا اور آخرت کی نعمتوں، حور و قصور اور بہشت کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا اور جس ایک تجلّی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام سراسیمہ ہو گئے اور کوہِ طور پھٹ گیا تھا، ہر لمحہ ، ہر پل جذباتِ انوارِ ذات کی ویسی تجلیات ستر ہزار بار ان پر وارِد ہوتی ہیں لیکن وہ نہ دم مارتے ہیں اور نہ آہیں بھرتے ہیں بلکہ مزید تجلیات کا تقاضا کرتے رہتے ہیں ۔وہ سلطان الفقر (فقر کے بادشاہ) اور دونوں جہانوں کے سردار ہیں ۔(رسالہ روحی شریف)

یہ مبارک ارواح سات ہیں۔ اِن کے ناموں کا انکشاف کرتے ہوئے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) فرماتے ہیں:
 ان میں ایک خاتونِ قیامت(فاطمۃ الزہرا) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روح مبارک ہے۔ ایک حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) کی روح مبارک ہے ۔ایک ہمارے شیخ، حقیقتِ حق، نورِ مطلق، مشہود علی الحق حضرت سیدّ محی الدین عبد القادر جیلانی محبوبِ سبحانی قدس سرہُ العزیز کی روح مبارک ہے۔ اور ایک سلطانِ انوار سرّالسرمد حضرت پیر عبدالرزاق فرزندِ حضرت پیر دستگیر  (قدس سرہُ العزیز) کی روح مبارک ہے۔ ایک ھاھویت کی آنکھوں کا چشمہ سرِّ اسرار ذاتِ یاھوُ فنا فی ھوُ فقیر باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (قدس سرّہُ العزیز ) کی روح مبارک ہے اور دو ارواح دیگر اولیاکی ہیں۔ اِن ارواحِ مقدسہ کی برکت و حرمت سے ہی دونوں جہان قائم ہیں۔ جب تک یہ دونوں ارواح وحدت کے آشیانہ سے نکل کر عالمِ کثرت میں نہیں آئیں گی قیامت قائم نہیں ہوگی۔ ان کی نظر سراسر  نورِ وحدت اور کیمیا ئے عزت ہے۔ جس طالب پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے وہ مشاہدۂ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کر نے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نور بن گیا ہو۔ انہیں طالبوں کو ظاہری وردوظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے ۔ (رسالہ روحی شریف)

حقیقتِ سلطان الفقر

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo)  سلطان الفقر کی حقیقت کے بارے میں فرماتے ہیں:
جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے معراج کی رات حق تعالیٰ کے حضور میں سلطان الفقر سے ملاقات کی اور اس سے بغلگیر ہو کر سر سے پاؤں تک روبرو ہو کر فقر سے لپٹ گئے تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود فقر میں بدل گیا۔ (جامع الاسرار)

جب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم معراج پر تشریف لے گئے تو پہلے براق پر سوار ہوئے اور پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دونوں جہان اور اٹھارہ ہزار قسم کی مخلوق کو ہر طرح سے آراستہ و پیراستہ کر کے دکھایا لیکن آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا،ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی آنکھ (دیدارِ الٰہی سے) نہ پھری اور نہ ہی (مقررہ) حد سے بڑھی۔ 

یہ حالت ہر اعلیٰ اور ادنیٰ مقامات پر رہی اسی لیے حق تعالیٰ کے حضور قابَ قوسین کے مقام پر پہنچے اور دو کے مابین پیاز کے چھلکے کا سا پردہ رہ گیا۔ جب حبیب عین بعین ہوئے تو آواز آئی’’ اے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) جب میں نے دونوں جہان تجھ پر قربان کر دئیے اور دونوں جہان اور اٹھارہ ہزار عالم کا نظارہ آپ کو کرادیا تو ان میں کیا چیز آپ کو پسند آئی جو آپ کو عطا کی جائے۔‘‘ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرض کی! ’’اللہ تعالیٰ مجھے فقر عطا کیا جائے کیونکہ فقر کے برابر کسی کو قربِ الٰہی اور مقام فنا فی اللہ حاصل نہیں ہے اور ایسا قرب کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ یہی فقر سلطان الفقر ہے ۔جو شخص ظاہر و باطن میں اس فقر کو دیکھتا ہے وہ صاحبِ اختیار ہو جاتا ہے اور مرتبہ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس پر غالب آجاتا ہے۔ (جامع الاسرار)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’ اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! میں نے سلطان الفقر کا مرتبہ آپ کو عطا کیا ہے اور آپ کے فقرا کو بھی اور آپ کے اہلِ بیتؓ کو بھی اور آپ کے متقی اور صالح اُمتیوں کو بھی۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرض کیا کہ ہزار ہزار شکر ہے۔ (جامع الاسرار)

سلطان الفقر کی عظمت

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo)  سلطان الفقر کی عظمت اور شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
نورِ سلطان الفقر آفتاب سے بھی روشن تر ہے اور اس کی خوشبو مشک، گلاب اور عنبر سے بھی زیادہ خوشبودار ہے۔ جو سلطان الفقر کو خواب میں دیکھ لے وہ لایحتاج فقیر بن جاتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے باطن میں دستِ بیعت فرما کر تعلیم و تلقین کرتے ہیں۔ میرا یہ قول میرے حال کے عین مطابق ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
 ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی ہوتا ہے جو سلطان الفقر کی لازوال معرفت حاصل کرتا ہے اور عین جمالِ حق کے وصال سے فقر کی انتہا تک پہنچ کر فقر کا مشاہدہ کرتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جو فقر کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں لیکن ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی فقر کی تمامیت تک پہنچتا ہے۔ آخر فقر کسے کہتے ہیں اور فقر کیا ہے؟ فقر ایک نور ہے کہ جس کا نام سلطان الفقر ہے اور وہ اللہ کی نگاہ اور اس کی بارگاہ میں ہمیشہ منظور ہوتا ہے۔ (امیرا لکونین)
حضرت خضر علیہ السلام کی مجلس اُسے نصیب ہوتی ہے جس کی باطنی خضر سے ملاقات ہو جائے، باطنی خضر ’’سلطان الفقر‘‘ کو کہتے ہیں ۔ جس کی ملاقات باطنی خضر سے ہوجائے اُسے علمِ ظاہری بھول جاتا ہے کیونکہ اس کے باطن کو علمِ باطن ، نورِ معرفت اور توحیدِ الٰہی کی تجلیات اس قدر معمور کر دیتی ہیں کہ وہ ہر وقت قرب و وصال کی حضوری میں غرق رہتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
فقر کے مراتب سے وہی شخص واقف ہوتا ہے جو فقرتک پہنچا ہو اور جس نے فقر کی لذت چکھی ہو اور فقر اختیار کیا ہو اور ’’سلطان الفقر‘‘ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ (اسرارِ قادری)
جب طالب مراتبِ رضا و قضا سے گزر کر وحدتِ لقا کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو قربِ حضور سے ایک صورتِ نور پیدا ہوتی ہے جو نور سے روشن تر اور بہشت و بہار کی ہر نعمت سے زیادہ حسین ہوتی ہے۔ معرفت و مشاہدہ ٔ دیدار میں محو اورمحبتِ الٰہی میں سوختہ اس صورت کا نام ’’سلطان الفقر‘‘ ہے ۔ یہ صورت عاشقِ ہوشیار کے سامنے ظاہر ہوتی ہے اور اس سے بغل گیر ہو جاتی ہے جس سے وہ سر سے قدم تک لایحتاج ہو جاتا ہے اور اس کے وجود میں دنیا و عقبیٰ کا کوئی غم باقی نہیں رہتا ۔ (نور الہدیٰ کلاں)
آدمی اس وقت تک مراتب ِ فقر تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ باطن میں سرِّالٰہی کی صورتِ خاص ’’سلطان الفقر‘‘ اُسے اپنے ساتھ بغل گیر کرکے زیارت اور تعلیم و تلقین سے مشرف نہیں کر لیتی ۔ چاہے کوئی ریاضت کے پتھر سے سر ہی کیوں نہ پھوڑتا پھرے، جب تک ’’سلطان الفقر‘‘ کی طرف سے اشارہ نہیں ہو گا وہ فقر کی خوشبو تک بھی نہیں پہنچ سکے گا کہ ’’سلطان الفقر‘‘ کی وہ باطنی صورت ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حا ضر رہتی ہے۔ (محک الفقر کلاں)
سلطان الفقر کی مجلس توحید ِ باری تعالیٰ کا ایک دریا ہے۔ جوطالب اس دریاکے کنارے پر پہنچ جاتا ہے وہ صاحب ِکنار (باوصال) ہو جاتا ہے۔  (محکم الفقرا)
جان لے کہ سلطان الفقرا کی ابتدا غیر مخلوق نورِ ایمان ہے اور انتہا غیر مخلوق نورِ ذاتِ رحمن ہے۔ (قربِ دیدار)

 ایک غلط فہمی کا ازالہ

اس سلسلہ میں سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جا تا ہے کہ رسالہ روحی شریف میں دنیا کے تمام اولیا کرام میں سے صرف سات اولیائے کرام کو سلطان الفقر اور سیدّ الکونین کے جلیل القدر لقب سے یاد کیا گیا ہے اور ان میں صحابہ کرامؓ،  آئمہ و مجتہدین اور دیگر اولیا ئے مقربین میں سے کسی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔

پہلے اس مسئلہ کو منطق اور دلائل سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیساکہ ظاہر میں مختلف فنون اور کمالات ہیں، ایک ہنر اور کمال دوسرے ہنر اور کمال سے کوئی لگاؤ نہیں رکھتا مثلاً کوئی معاشیات اور اکاؤنٹنگ میں ماہر ہے تو کوئی فزکس، کیمسٹری،بیالوجی اور باٹنی میں ید ِ طولیٰ رکھتا ہے ۔کسی کو کرکٹ اور کسی کوہاکی میں کمال حاصل ہے تو کوئی صحافت ‘ خوش نویسی اور دوسرے شعبوں میں ماہر ہے۔ یعنی ہر فن میں خاص صاحبِ کمال انسان ہوتے ہیں اور ہر انسان کے لئے ایک خاص فن ہوتا ہے۔سو مختلف فنون میں ماہر لوگوں کی آپس میں نہ تو کوئی نسبت قائم کی جاسکتی ہے اور نہ ہی مقابلہ۔ مثلاً یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں ڈاکٹر اورکھلاڑی میں سے کون بہتر ہے ۔

اسی طرح باطنی دنیا کے مراتب، کمالات اور فنون کے مختلف شعبے اور قسمیں ہیں یعنی بعض اولیا صدق میں، بعض عدل و محاسبہ نفس میں، بعض حیا میں، بعض زُہد میں، بعض ترک میں، بعض ریاضت میں،بعض صبر میں، بعض شکر میں،بعض جوُد و سخا میں مشہور ِزمانہ ہوئے ہیں۔ اسی طرح انبیا علیہم السلام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام زاہد البشر، حضرت داؤد علیہ السلام عبد البشر اور حضرت ایوب علیہ السلام ا صبر البشر ہوئے یعنی ہر نبی کسی خاص باطنی صفت اور مرتبہ میں صاحب  ِ کمال ہوا ہے۔

اسی طرح ’’فقر ‘‘ ایک خاص باطنی مرتبہ اور کمال ہے۔ اس کے مقابلہ میں باطن میں نہ کوئی کمال ہے اور نہ مرتبہ اور یہ خزانہ تمام انبیائے کرام میں سے بدرجہ اُتم ّہمارے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا جس میں نہ کوئی نبی اورنہ کوئی رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمسر اور برابر ہو سکتا ہے۔ اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فخر فرمایا ہے اور فقر کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمام انبیا اور مرسلین کے درمیان سربلند اور ممتازہیں۔ مقامِ غور بات یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام تمام ظاہری اور باطنی کمالات کے جامع ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی کمال پر فخر نہیں فرمایا یعنی نہ شجاعت پر، نہ سخاوت پر، نہ تقویٰ و صبر پر، نہ ترک و توکل پر اور نہ فصاحت و بلاغت پر لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ’’فقر ‘‘ پر فخر کا اظہار فرمایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فقر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اصل ترکہ اور ورثہ ہے۔غرض باطن میں صدق ووفا، عدل و محاسبہ نفس، حیا، صحابیت، امامت،شہادت، فقہ، اجتہاد، ولایت،غوثیت،قطبیت، صدیقیت، تقویٰ، زہد، صبر، شکر، تسلیم، رضا، خوف، رجا، جودو کرم،عِلم، شجاعت اور شفقت وغیرہ کے بے شمار الگ الگ منصب اور مراتب ہیں لیکن فقران سب سے اعلیٰ اور افضل مرتبہ ہے ۔

اب آتے ہیں اعتراضات کی طرف ۔اس فقیر کو اپنی زندگی میں کچھ بے بصیرت لوگوں سے ’’مرتبہ سلطان الفقر‘‘ پر جن اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا وہ مندرجہ ذیل ہیں:

1) اِن سات ہستیوں میں بابِ فقر، امام الفقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو سلاسل قادری، چشتی اور سہروردی کے امام ہیں اور یہ سلاسل اِن ہی کے وسیلہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتے ہیں،کا نام شامل نہیں ہے ۔کیا اُن کو وراثتِ فقر منتقل نہیں ہوئی؟

2) کیا حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے یارِ غار،امامِ صدیقین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) جن سے سلسلہ نقشبندیہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچتا ہے، کو فقر منتقل نہیں ہوا؟

3) کیا دیگر دو خلفائے راشدین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) کو فقر منتقل نہیں ہوا؟

4) کیا امامینِ پاک حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ورثہ فقر نہیں ملا؟

5) کیا صحابہ کرامؓ جو تمام امت کا سب سے اعلیٰ ترین طبقہ ہے، کو فقر نہیں ملا؟

6) کیا تمام مجتہدین اور امت میں دوسرے اولیاکرام کو فقر نہیں ملا؟

ان تمام اعتراضات کا جواب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo)  خود اپنی تصانیف میں فرماچکے ہیں۔ہم انہی کے اقوال کے ذریعے ان اعتراضات کا جواب دیتے ہیں۔

فقر اور خلفائے راشدینؓ

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo)  فرماتے ہیں کہ’’ پیر چار ہیں۔‘‘

صدیقؓ صدق و عدل عمرؓ و پُر حیا عثمانؓ بود
گوئی فقرش از پیغمبرؐ شاہِ مردانؓ می ربود

ترجمہ: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) صاحبِ صدق ہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) صاحبِ عدل ہیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ پرُ حیا ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ شاہِ مرداں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کیا ہے۔ (عین الفقر،محک الفقر کلاں) 

چار پیروں کو شناخت کر لو کہ اوّل صدیقوں کے پیر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ، دوم عادلوں کے پیر حضرت عمر خطاب رضی اللہ عنہٗ  (Radi Allahu Anhu)، تیسرے اہلِ حیا کے پیر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) اور فقراکے پیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ (جامع الاسرار)

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) اس عبار ت میں فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وراثت اور متاع یعنی فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل ہوئی۔ آپؓ بابِ فقر اور ورثہ فقر کو منتقل کرنے والے ہیں اس لیے یہ اعتراض قابلِ  توجہ نہیں ہے۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) کو صدق، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ  (Radi Allahu Anhu)کو عدل اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) کو حیا کے مراتب نصیب ہوئے ۔پھر آپ  رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں طالبِ مولیٰ کو صدق میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ (Radi Allahu Anhu) کی طرح، عدل میں (محاسبہ نفس میں) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ(Radi Allahu Anhu) کی طرح، شرم و حیا میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور فقر میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرح ہونا چاہیے۔ یہ چاروں مراتب یکساں نہ ہوں تو فقر کا کامل مرتبہ حاصل نہیں ہوتا۔

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ’’چار پیر‘‘ فرمایا ہے کیونکہ چاروں کی ’’توجہ‘‘ سے باطن میں فقر کی تکمیل ہوتی ہے لیکن ’’بابِ فقر‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ہیں ۔ سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo)  کی بیعت کے واقعہ سے اس بات کی تصدیق ہوجائے گی کہ اِن ’’چار پیر‘‘ کی ’’توجہ ‘‘ سے کیا مراد ہے۔

ایک روز کا ذکر ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ (سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ) شورکوٹ کے گردو نواح میں کھڑے تھے کہ اچانک ایک صاحبِ نور، صاحبِ حشمت اور بارعب گھڑ سوار نمودار ہوا جس نے آپؒکا ہاتھ پکڑ کر آپ کوپیچھے بٹھا لیا۔ آپ  رحمتہ اللہ علیہ ڈرے، کانپے اور پوچھا کہ آپ کون ہیں؟پہلے ’’توجہ‘‘ کی اور بعدازاں فرمایا کہ میں علی ابن ابی طالبؓ ہوں۔پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی کہ مجھے کہاں لے جارہے ہیں؟ فرمایا حسب الارشاد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  کے حضورِ پرُ نور میں لیے جاتا ہوں۔ اسی وقت لے جاکر مجلسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) میں حاضر کر دیا۔ اس وقت حضرت صدیق اکبر، حضرت امیر عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی مجلسِ اہل ِبیتؓ میں حاضر تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھتے ہی پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ  (Radi Allahu Anhu)نے مجلسِ منوّر سے ا ٹھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ  سے ملاقات کی اور’’ توجہ‘‘ فرما کر مجلس سے رخصت ہوئے۔ بعد ازاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ، حضرت عثمان ذوالنوّرین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ باری باری اٹھے اور ’’توجہ‘‘اور ملاقات کے بعد مجلس شریف سے رخصت ہوگئے تو مجلس شریف میں صرف اہل ِبیت علیہم الصلوٰۃ والسلام رہ گئے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) فرماتے ہیں ’’مجھے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے چہرہ مبارک سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میری بیعت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد فرمائیں گے لیکن بظاہر خاموش تھے، چونکہ امیر المومنین اسد اللہ الغالب حضرت علی مرتضیٰ ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ میرے پہلے وسیلہ اور اکمل ہادی تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھا کر فرمایا ’میرے ہاتھ پکڑو‘ اور مجھے دونوں ہاتھوں سے بیعت اور تلقین فرمایا۔ مجھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک مرتبہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ِ    تلقین فرمایا تو درجات اور مقامات کا کوئی حجاب نہ رہا۔ چنانچہ اوّل و آخر یکساں ہوگیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تلقین سے مشرف ہوا تو خاتونِ جنت سیدّۃ النسا فاطمتہ الز ہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے فرمایا ’تو میرا فرزند ہے‘۔ میں نے امامین پاک حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے قدم مبارک چومے اور اپنے گلے میں غلامی کا حلقہ پہنا۔‘‘ (مناقب ِ سلطانی)

اس فقیر کے خیال میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo)  کی اس عبارت سے یہ اعتراض کہ جناب خلفائے راشدین کا ذکر مرتبہ سلطان الفقرمیں نہیں ہے، دور ہو جانا چاہیے اور چاروں پیروں کی ’’توجہ‘‘ کی بات بھی سمجھ میں آجانی چاہیے کہ ان ’’چار پیروں‘‘ کی ’’توجہ‘‘ کے بغیر فقر کامل نہیں ہوتا ۔

فقر اور اہلِ بیتؓ

حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ سے وصل اوروصال کے دو طریقے اور راستے ہیں۔ ایک نبوت کا طریقہ اور راستہ ہے۔ اس طریق سے اصلی طور پر واصل اور موصل محض انبیا علیہم السلام ہیں اور یہ سلسلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی پر ختم ہوا۔ دوسرا طریقہ ولایت کا ہے اس طریق والے واسطے (وسیلہ) کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے واصل اور موصل ہوتے ہیں۔ یہ گروہ اقطاب، اوتاد، ابدال، نجبا وغیرہ اور عام اولیا پر مشتمل ہے اور اس طریقے کا راستہ اور وسیلہ حضرت سیدّنا علی کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ منصبِ عالی آپ رضی اللہ عنہٗ کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہے۔ اس مقام میں خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قدم مبارک حضرت امیر کرم اللہ وجہہ کے سر پر ہے اور حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اس مقام پر سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ شامل اور مشترک ہیں۔ (مکتوباتِ امام ربانی، مکتوب123بنام نور محمد تہاری)

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں:
حضرت علی کرم اللہ وجہہ شاہِ مرداں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کیا ہے۔ (عین الفقر۔ محک الفقر کلاں)
فقرا کے پیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ (جامع الاسرار)

سیدّہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے بارے میں تو پہلے ہی بیان ہو چکا ہے کہ وہ سلطان الفقر ہیں۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) ’جامع الاسرار‘ میں فرماتے ہیں :
حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا فقر کی پلی ہوئی تھیں اور انہیں فقر حاصل تھا ۔جو شخص فقر تک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔

حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے بارے میں سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ  (فقر) میں کمال امامین پاک حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو نصیب ہوا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ (محک الفقر کلاں)

مندرجہ بالا عبارت سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ فقر کے کمال فنا فی اللہ بقا باللہ کے مقام اور مرتبہ پر یہ چاروں ہستیاں یکتا اور متحد ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب تک ان چاروں ہستیوں کے مقام اور مرتبہ کے بارے میں طالب ِ مولیٰ بھی یکتا نہیں ہو جاتا فقر کی خوشبو تک کو نہیں پا سکتا۔

فقر اور صحابہ رضی اللہ عنہم

کیا تما م اصحاب کبارؓ کو فقر کی نعمت ملی ؟حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) فرماتے ہیں:
یاد رہے اصحابِ پاک رضی اللہ عنہم کے بعد (الفاظ ’’اصحاب ِپاک کے بعد ‘‘پر غور فرمائیں اس کا مطلب ہے اصحابِ پاک رضی اللہ عنہم کو فقر کی نعمت ملی) فقر کی نعمت و دولت دو حضرات نے پائی، ایک غوث ا لاعظم محی الدین حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے حضرت امام ابوحنیفہ کوفی رحمتہ اللہ علیہ جو ایک تارکِ دنیا صوفی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ستر سال تک نہ کوئی نماز قضا کی نہ روزہ ۔ اور ایسا ہی کمال (اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ میں) صالحہ و ساجدہ ولیہ حضرت بی بی رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کو نصیب ہوا۔ (محک الفقر کلاں)

مندرجہ بالا عبارت سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اصحابِ پاک رضی اللہ عنہم نے مراتب بہ مراتب فقر کی نعمت پائی اور اس کے بعد غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ، حضرت امام ابوحنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کو یہ نعمت نصیب ہوئی ۔ اور یہ اعتراض کہ اصحاب پاکؓ اور ان کے بعد کسی ولی یا مجتہد کو فقر ملا یا نہیں، سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo)  کی اس تحریر سے دور ہو جاتا ہے۔ 

معترضین کے مرتبہ سلطان الفقر پر چھ اعتراضات جو اس فقیر نے درج فرمائے تھے اُن اعتراضات کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) کی تصانیف سے ہی دور کر دیا گیا ہے۔

بناتِ رسولؐ میں حضرت فاطمتہ الزہرارضی اللہ عنہا کی فضیلت فقر کی وجہ سے ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اصل وراثت فقرِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حاصل کی اور اسی وراثت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہا کی اولاد آلِ نبیؐ ہوئی۔ اس لیے آپ رضی اللہ عنہا پہلی سلطان الفقر ہوئیں تاکہ دنیا کو آپؓ کی فضیلت معلوم ہوسکے ورنہ آپؓ نے تلقین و ارشاد کا فریضہ تو سر انجام ہی نہیں دیا۔ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ تو ہیں ہی بابِ فقرکیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ورثہ فقر اُمت کو آپ کرم اللہ وجہہ کے وسیلہ سے منتقل ہوا۔ دوسرے سلطان الفقر حضرت خواجہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ کو ورثہ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منتقل ہونا اس حقانیت کو ثابت کرتا ہے کہ ورثہ فقر موروثی نہیں ہے ورنہ امامین پاک حسنین کریمین رضی اللہ عنہم فقر کے کمال پر ہیں اور سلطان الفقر دوم حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ اور سلطان الفقر پنجم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) امامین پاک کی غلامی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

المختصر فقر کی یہ نعمتِ عظمیٰ معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کوعطاہوئی اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں یہ مرتبہ عالی جناب خاتونِ جنت سیدّۃ النسا حضرت فاطمۃ الزہراؓ کو عطا ہوا اور بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو خرقہ فقر پہنایا گیا اور آپ کرم اللہ وجہہ سے ہی فقر اُمت کو منتقل ہوا۔ پھر حسنین کریمین علیہ السلام اور صحابہ کرامؓ نے فقر پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں سے چھ اور ایسی ہستیوں کا انتخاب کیا گیا جن کو بعض پر فضیلت عطا کی گئی اور ان کو فقر میں ایک خاص مرتبہ ’’سلطان الفقر ‘‘ کا تاج پہنایا گیا ۔ ان کی نشانی یہ بیان فرمائی گئی :
ان کی نظر سراسر  نورِوحدت اور کیمیا ئے عزت ہے۔ جس طالب پر ان کی نگاہ پڑ جاتی ہے وہ مشاہدۂ ذاتِ حق تعالیٰ ایسے کر نے لگتا ہے گویا اس کا سارا وجود مطلق نور بن گیا ہو ۔انہیں طالبوں کو ظاہری وردووظائف اور چلہ کشی کی مشقت میں ڈالنے کی حاجت نہیں ہے۔  (رسالہ روحی شریف)

 یعنی یہ طالبانِ مولیٰ کو ورد وظائف، چلہ کشی اور مشقت میں نہیں ڈالتے بلکہ ان کی نظر ہی نور ہے جس پر پڑ جاتی ہے وہ بھی نور بن جاتا ہے۔ اس فقیر کو یہ طویل بحث اس لیے کرنا پڑی کہ فقیر کو ان سوالات سے اکثر واسطہ پڑتا رہا ہے اور لوگوں کے ذہن میں یہ سوالات جنم لیتے رہتے ہیں اور خاص طور پر وہ جن کا تعلق طبقہ ظاہر سے ہے۔ امید ہے اس بحث سے بہت سے شکوک و شبہات رفع ہوگئے ہوں گے۔ لیکن ایک بات ذہن میں رہے کہ ’’فقر کے مختارِ کل‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ فقر ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اصل وراثت ہے اور اہلِ بیتؓ اس وراثت کے وارث اور اس کو منتقل کرنے والے ہیں۔

(ماخوذ از کتاب ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘۔ تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس)

استفادہ کتب:
۱۔رسالہ روحی شریف؛ تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ (Hazrat Sultan Bahoo)
۲۔نور الہدیٰ کلاں؛ایضاً
۳۔کلید التوحید کلاں؛ایضاً
۴۔محک الفقر کلاں؛ایضاً
۵۔عین الفقر؛ایضاً
۶۔قربِ دیدار؛ایضاً
۷۔جامع الاسرار؛ایضاً
۸۔اسرارِ قادری؛ایضاً

 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں