مرتبۂ نعم البدل (Martaba Naimul Badal)
(حضرت سخی سلطان باھوؒ (Hazrat Sultan Bahoo) کی تعلیمات کی روشنی میں)
تحریر: احسن علی سروری قادری
اکثر لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ فطرت کبھی نہیں بدل سکتی۔ جو انسان جیسی فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے وہی فطرت لے کر مر جاتا ہے۔ حالات کے پیشِ نظر اس میں وقتی بدلاؤ تو آسکتا ہے مگر اس کی اصل فطرت وہی رہتی ہے جیسی فطرت لے کر وہ پیدا ہوا اور جو اس کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ اسی طرح انسان جس قسم کے ماحول کا پروردہ ہوتا ہے اُسی طرح کی عادات کا حامل ہوجاتا ہے اور عادات کبھی نہیں بدلتیں۔ حالات اور ماحول کے بدلنے سے بظاہر تو وہ ویسا ہی رہتا ہے مگر اپنی فطرت کا اظہار نہ ہونے پر بے چینی محسوس کرتا ہے جیسے کہ ایک دیہاتی ماحول کا عادی شہری شور شرابہ اور رونق دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کچھ عرصہ شہر میں رہنے سے وہ اس کا عادی ہو جائے مگر اس کی اصل وہی دیہاتی پن ہے اور اسی ماحول میں جا کر وہ سکون محسوس کرے گااور ویسی خوشی اُسے کہیں اور میسر نہیں آسکتی۔ ایک مذہبی ماحول کا پروردہ آزاد خیال اور ماڈرن سوسائٹی میں جا کر بے چینی محسوس کرے گا کیونکہ وہ اس کی اصل نہیں ہے۔ انسان کی طبیعت میں جو خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں وہ وقت اور اچھے ماحول کے ساتھ مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہیں مگر بدلتی نہیں۔
مگر اس بات سے قطع نظر اہلِ بصیرت اور اہلِ عقیدت لوگ ہمیشہ اس بات کے قائل رہے ہیں کہ اولیا کرام کی مجالس اور اُن کی صحبت سے انسان کی شخصیت پر ایسے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور ان کی فطرت اس حد تک بدل جاتی ہے کہ ان کے واقف کار حیران رہ جاتے ہیں۔ بڑے بڑے شرابی، جواری، سودخور، چور، ڈاکو، نشئی غرض ہر طرح کی برائی رکھنے والے لوگ کسی مرشد کامل کی نگاہ کے فیض سے اس حد تک بدل گئے کہ ان کو جاننے والے سب لوگ حیران رہ گئے اور اس سوچ میں پڑ گئے کہ کوئی اتنا بھی بدل سکتا ہے! مرشد کامل اکمل کی نگاہ سے فیض پانے والے ولایت کے اعلیٰ ترین مقامات پر پہنچے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) کی نگاہِ کاملہ سے صحابہ کرامؓ کی زندگیاں ہی بدل گئیں اور وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) کی سیرتِ کاملہ کا عکس بن کر رہ گئے۔ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ (Syedna Ghous e Azam Sayyiduna Hazrat Abdul Qadir Jilani) کے سفرِ بغداد کے دوران قزاقوں کا پورا گروہ ان کے سردار سمیت سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ (Syedna Ghous e Azam Sayyiduna Hazrat Abdul Qadir Jilani) کے حسنِ اخلاق اور ان کی نگاہِ کامل کی تاثیر سے تائب ہوا اور ولایت کے اعلیٰ درجات پر پہنچا۔ حضرت امام احمد بن حنبلؒ جو فقہ کے امام ہیں، ابتدا میں اولیا کرام کے مخالف تھے، جب وہ حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں پہنچے اور حقیقت تک رسائی حاصل کی تو پکار اٹھے کہ اگر وہ حضرت بشر حافیؒ کی بارگاہ تک نہ پہنچے ہوتے تو ضائع ہو چکے ہوتے۔ اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ کچھ عرصہ بہلول دانا کی صحبت میں نہ رہتے تو وہ اس مقام تک ہرگز نہ پہنچ پاتے۔ بقول اقبالؒ:
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اگر اللہ پاک کسی پر اپنا فضلِ خاص اور کرم فرمائے اور وہ اپنے گناہوں پر پشیمانی کے باعث اللہ کے قرب کے حصول کے لیے کسی مرشد کامل اکمل کی تلاش میں نکلے جو اس کی باطنی رہنمائی کر سکے اور اس کی روحانی بیماریوں کا علاج کر سکے تو بعض ظاہر پرست پیر جو خود تو کسی مقام و مرتبے پر نہیں پہنچے ہوتے، ان طالبوں سے بھی یہی کہتے ہیں کہ پہلے وہ شریعت کے پابند بنیں اور فلاں فلاں برائی ترک کریں اور فلاں فلاں عادت اپنائیں تو پھر ان کو بیعت کیا جائے گا اور ان کی رہنمائی کی جائے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ طالب پہلے سے ہی شریعت اور حقیقت کے اسرار و رموز جانتا ہوتا تو مزید رہنمائی کے لیے کسی مرشد کے پاس کیونکر جاتا۔ اگر اس میں برائیوں کو ترک کرنے کی صلاحیت اور طاقت ہوتی تو وہ مرشد کی تلاش میں کیوں نکلتا؟ ایسے جعلی پیر اپنے ظاہر پر تو پرہیزگاری اور نیک نامی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں مگر اندر سے ان کی فطرت اور عادات و خصائل بد ہی رہتے ہیں اور ان کا کام لوگوں کو مزید گمراہ کر کے اللہ سے دور کرنا ہوتا ہے۔ خود کو بہت نیک اور پرہیزگار ظاہر کرتے ہیں مگر اندر سے ویسے ہی کمینہ خصلت ہوتے ہیں۔ تاہم اس پُرفریب اور دھوکہ کے زمانے میں حق کی تلاش میں نکلنے والے یا خود کو گناہوں سے بچانے کی کوشش کرنے والے طالبوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر زمانے میں ایک سروری قادری مرشد کامل اکمل موجود ہوتا ہے جسے نیک لوگوں اور مریدوں یا مسلمانوں کی تلاش نہیں ہوتی بلکہ اس کا در تو ہر ایک کے لیے کھلا ہوتا ہے چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو اور کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو۔ اس کا کام ہی دنیا سے عاجز اور ہر طرف سے دھتکارے اور ٹھکرائے ہوئے، گناہوں کی غلاظت سے لتھڑے ہوئے لوگوں کو اپنی پاکیزہ پناہ میں جگہ دینا اور اُن کی رہنمائی کرنا ہے، ان کے نفوس کا تزکیہ کر کے ان کے خصائلِ ذمیمہ و رذیلہ کو خصائلِ حمیدہ میں بدلنا ہے، گناہوں کو نیکیوں میں بدلنا اور مزید گناہوں سے بچانا ہے۔ اس عمل کے دوران سروری قادری مرشد کامل اکمل طالب کی شخصیت کو بدل دیتا ہے اور اُسے ایک نئی شخصیت عطا کرتا ہے۔ یہی نئی شخصیت مرتبہ نعم البدل ہے جس میں مرشد کامل اکمل اُس کے قلب کو حیاتِ نو اور اس کی باطنی حالت کو بدترین صورت سے تبدیل کر کے بہترین صورت عطا کرتا ہے۔
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ: ہم نے انسان کو بہترین صورت پر تخلیق کیا اور پھر اسے اسفل سافلین کی طرف بھیج دیا۔ (سورۃ التین4,5)
ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت اس کی باطنی صورت و شخصیت بہترین، پاک اور شفاف ہوتی ہے لیکن پھر اس کا ماحول، دنیا کی لذتوں کی رغبت و لالچ، اردگرد کے لوگوں کی رویے، نفس اور شیطان کے پے در پے حملے اس کی بہترین باطنی صورت کو مسخ کر دیتے ہیں۔ اس کا نفس میلا، اس کی روح لاغر و کمزور اور قلب حق سے دور اور پریشان ہو جاتا ہے۔ اگر وہ کسی مرشد کامل اکمل کی بارگاہ میں نہ پہنچ پائے اور دنیا و نفس و شیطان کے جال میں ہی الجھا رہے تو آخرت میں بھی اس کے قلب کا یہی حال ہوگا کیونکہ اس کی موت اسی باطنی بدصورتی پر ہوگی اور اسی بگڑی ہوئی حالت کے ساتھ وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پشیمانی و ندامت اور افسوس کے سوا کچھ حاصل نہ کر پائے گا۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) کی بارگاہ میں منظوری اور مقبولیت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بندہ اپنی باطنی و روحانی شخصیت کو نکھارنے اور اس کو اسی حالت میں واپس لانے کی کوشش کرے جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے تخلیق فرمایا تھا تاکہ روزِ قیامت وہ اسی احسن صورت میں اللہ کی بارگاہ میں پیش ہو کر ندامت اور پشیمانی سے بچ سکے۔
یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کسی بھی انسان کو اپنے قلب و باطن اور روح پر اختیار حاصل نہیں۔ لہٰذا ہر ایک کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے باطن کی درستی اور قلب کی حیات کے لیے اس سروری قادری مرشد کامل اکمل کو تلاش کرے جو روح و باطن کے اسرار و رموز سے واقف ہو اور ان پر اس قدر اختیار رکھتا ہو کہ ان کی تمام خامیاں، بیماریاں، کجیاں اور کمیاں دور کرنے کا علم اور صلاحیت اور تصرف رکھتا ہو۔ ایسا کامل مرشد ہی اللہ کے حکم یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ (سورۃ ابراہیم۔48) ترجمہ: ’’اور جس دن یہ (قلب کی) زمین (نئی زمین سے) بدل دی جائے گی‘‘ کے مطابق اس کے قلب و باطن کو ایک نئی جہت، نیا رُخ اور نئی صورت عطا کرتا ہے جو بالکل اس صورت جیسی ہوتی ہے جس پر اللہ نے اس شخص کو تخلیق کیا تھا، اس کے سب ٹیڑھے پن دور کر دیتا ہے، سب میل صاف کر دیتا ہے اور آئندہ کے لیے بھی اسے شیطان، نفس اور دنیا کے حملوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس کی نئی شخصیت اللہ اور رسول اللہ (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) کی بارگاہ میں حاضری کے لائق بنا کر اسے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Majlis e Mohammadi Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) میں پیش کرتا اور دائمی حضوری دلواتا ہے۔ اس کے قلب و باطن کو آئینۂ حق تعالیٰ بنا کر دیدار و وصالِ الٰہی کی منزل پر بھی پہنچا دیتا ہے جس کے بعد طالب کو حیاتِ جاودانی حاصل ہو جاتی ہے۔ وہ بدبخت سے نیک بخت، شقی سے سعید، راندۂ درگاہ سے مقبولِ بارگاہِ خداوندی اور فانی سے باقی بن جاتا ہے۔ یہی اصل مرتبہ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) فرماتے ہیں:
زندگانی قلب دانی از کجا
دست بیعت کرد آنرا مصطفیؐ
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے حیاتِ قلب کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ یہ نعمت اسے نصیب ہوتی ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود دستِ بیعت فرماتے ہیں۔
زندگانی قلب دانی از کجا
در نظر منظور وحدت با خدا
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے حیاتِ قلب کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اللہ کی نظر میں منظور ہو کر وحدت تک رسائی حاصل کرنے سے۔
زندگانی قلب دانی از کجا
باطنش معمور کلی دل صفا
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے حیاتِ قلب کسے حاصل ہوتی ہے؟ جس کا باطن معمور اور دل باصفا ہو۔
زندگانی قلب دانی از کجا
ذاکر قلبی مشرف با لقا
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے کہ حیاتِ قلب سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ ذاکر قلبی لقائے الٰہی سے مشرف ہو جاتا ہے۔
زندہ قلبش باز دارد از ہوا
ذاکر قلبی بسی ادب و حیا
ترجمہ: ذاکر ِقلبی انتہائی با ادب و باحیا ہوتا ہے اور اس کا زندہ قلب اسے نفسانی خواہشات سے باز رکھتا ہے۔
زندہ قلبش کی بود این گاؤخر
طالبی مردار جیفہ سیم و زر
ترجمہ: ان حیوان صفت انسانوں کا قلب زندہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ تو مردار دنیا کی دولت کے طالب ہیں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
اہلِ قلب ہمیشہ اللہ کی نظر میں منظور اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری سے مشرف رہتے ہیں۔ جان لے کہ انسان کے وجود میں نفس مثلِ یزید ہے ، قلب اسعدو سعید ہے، روح مثلِ بایزیدؒ ہے اور سرّ کا کام علمِ لدنیّ اور مرتبۂ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) کے ذریعے توحید حاصل کرنا ہے۔ مرتبۂ نعم البدل فقیرِکامل کی توجہ سے حاصل ہوتا ہے۔ توجہ کے کیا معنی ہیں؟ ’توجہ‘ کا لفظ ’وجہ‘ سے ماخوذ ہے اور ’وجہ‘ چہرے کو کہتے ہیں۔ جب مرشد کسی طالب پر توجہ فرمانے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا چہرہ اپنے روبرو لا کر اسے تمام مطالب سے بہرہ ور کر دیتا ہے۔ جو مرشد اس صفت سے متصف نہیں وہ مرتبۂ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) اور توجہ کی اہمیت سے واقف نہیں۔
ہر کہ نعم البدل را دریافتہ
ہر مقامی قید با خود ساختہ
ہر حقیقت را شناسد از خدا
دائماً ہم صحبتی بامصطفیؐ
ترجمہ: جسے مرتبۂ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) حاصل ہو جاتا ہے وہ تمام مقامات کو اپنی قید میں لے آتا ہے، ہر حقیقت کو اللہ سے جان لیتا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی صحبت میں رہتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
گنج بخشد مرشدی کامل عطا
سبق خواند طالب از کیمیا
سیماب را کشتہ کند کامل نظر
نظر کامل بہ بود نظر از خضرؑ
ترجمہ: مرشد کامل اکمل گنج بخش ہوتا ہے۔ وہ طالب کو علمِ کیمیا عطا کر کے خزانوں کا تصرف بخش دیتا ہے۔ کامل اپنی نظر سے سیماب کو کشتہ کر سکتا ہے کیونکہ کامل کی نظر خضر علیہ السلام کی نظر سے بہتر ہوتی ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
مرشد کامل کے اختیار میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ تقدیر کے لکھے ہوئے کو اور فطرت کو بدل سکتا ہے جیسا کہ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
زبان تاں میری کنُ برابر، موڑاں کم قلم دے ھوُ
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) کے فرمان کا یہی مطلب ہے کہ ان کی زبان میں اتنی طاقت ہے کہ وہ تقدیر کے لکھے ہوئے کو بدل سکتی ہے اور واقعی ایسا ہی ہوا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی نگاہِ کاملہ سے بہت سے شقی (بدبخت) سعید (نیک بخت) ہو گئے اور فقر کے اعلیٰ مقام پر پہنچے۔
مرشد کامل اکمل اپنی نگاہِ کاملہ سے طالب کے اندر موجود ہر برائی کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسے وہ اس کے اندر موجود ہی نہ تھی۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
کامل مرشد ایسا ہووے، جیہڑا دھوبی وانگوں چھٹے ھوُ
نال نگاہ دے پاک کریندا، وچ سجی صبون نہ گھتے ھوُ
میلیاں نوں کر دیندا چٹا، وچ ذرّہ میل نہ رکھے ھوُ
ایسا مرشد ہووے باھوؒ، جیہڑا لوں لوں دے وچ وسے ھوُ
مفہوم: مرشد کامل کو دھوبی کی طرح ہونا چاہیے، جس طرح دھوبی کپڑوں میں میل نہیں چھوڑتا اور میلے کپڑوں کو صاف کردیتا ہے اسی طرح مرشد کامل اکمل طالب کو ورد و وظائف ،چلہ کشی اور رنجِ ریاضت کی مشقت میں مبتلا نہیں کرتا بلکہ اسمِ اللہ ذات کی راہ دکھا کر اور صرف نگاہِ کامل سے تز کیہ ء نفس کر کے اس کے اندر سے قلبی اور روحانی امراض کا خاتمہ کرتا ہے اوراسے خواہشاتِ دنیااور نفس سے نجات دلاکر اور غیر اللہ کی محبت دل سے نکال کر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور عشق میں غرق کردیتا ہے۔ مرشد تو ایسا ہونا چاہیے جو طالب کے لوُں لوُں میں بستا ہو۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
مرشد وانگ سنارے ہووے، جیہڑا گھت کٹھالی گالے ھوُ
پا کٹھالی باہر کڈھے، بُندے گھڑے یا والے ھوُ
مفہوم: جس طرح سنار سونے کو کٹھالی میں ڈال کر مائع کی شکل دیتا ہے اور پھر اس سے اپنی مرضی کا زیور تیار کرتا ہے مرشد کامل اکمل بھی ایسا ہونا چاہیے کہ طالبِ مولیٰ کو عشق کی بھٹی میں ڈالے اور اسم اللہ ذات کی حرارت سے اس کے وجود میں سے غیر اللہ کو نکال باہر کرے یعنی اس کی پہلی عادات اور خواہشات کو ختم کر دے اور پھر اپنی رضا اور منشا کے مطابق اس کی تربیت کرے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) نے مرشد کے لیے مختلف اصطلاحات استعمال کی ہیں جیسا کہ:
مرشد کمہار کی مثل ہوتا ہے مٹی کی کیا مجال کہ اس کے سامنے دم مارے۔ کمہار مٹی کو اپنی مرضی سے گوندھتا ہے اور پھر اس سے نئے برتن تیار کرتا ہے۔ اسی طرح مرشد بھی طالب کو اس کی صلاحیتوں کے مطابق تیار کرتا ہے۔
مرشد رنگریز کی مثل ہوتا ہے جو طالب کے پرانے اور بوسیدہ رنگ کے اوپر ایک نیا رنگ چڑھاتا ہے جسے قران میں صبغتہ اللّٰہ یعنی ’’اللہ کا رنگ‘‘ کہا گیا ہے۔
مرشد تنبولی کی مثل ہوتا ہے جو پان کے خراب پتوں کو چھانٹ کر صاف پتے الگ کر لیتا ہے۔ مرشد بھی طالب کو برائیوں سے الگ کر دیتا ہے۔
مرشد طبیب کی مثل ہوتا ہے جو طالب کو کڑوی کسیلی دوائیں دیتا ہے اور اس کے بیمار نفس کو تندرست کرتا ہے اور اسے ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے۔
انسان کی تمام زندگی میں ہی خیر و شر کی کشمکش چلتی رہتی ہے۔ کبھی خیر غالب آ جاتا ہے اور کبھی شر۔ یعنی انسان خیر و شر کا مجموعہ ہے۔ اگر خیر غالب آجائے تو وہ مظہرِ رحمن ہے اور اگر شر غالب آجائے تو وہ مظہرِ شیطان ہے۔ طالب ِ دنیا کی زندگی کا خاتمہ شر پر اور طالبِ عقبیٰ کی زندگی کا خاتمہ خیر و شر کے بین بین ہی چلتا رہتا ہے۔ صرف طالبانِ مولیٰ ہی وہ خوش قسمت ہوتے ہیں جو خیر پر بقا حاصل کرتے ہیں۔ مرشد کامل اکمل کا ایک اصول ہے کہ اس کا اندازِ تربیت بالکل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ کے مطابق ہوتا ہے اور وہ طالب کے وجود میں موجود شر کو مغلوب کرتا ہے اور آہستہ آہستہ صفاتِ خیر سے متصف کرتا جاتا ہے۔ ان صفات سے متصف ہونا ہی مرتبہ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) ہے کیونکہ اس کے خصائلِ رذیلہ کو ختم کرنے کے بدلے میں طالب کو اوصافِ حمیدہ سے نوازا جا رہا ہوتا ہے۔ جس طرح ایک نیا مکان تعمیر کرنے کے لیے پہلے سے موجود بوسیدہ مکان کی عمارت کو گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا جاتا ہے اسی طرح طالب کی پہلے والی شخصیت کو باطنی طورپر فنا کر دیا جاتا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر طالب کو ایک نئی شخصیت عطا کی جاتی ہے۔
مرتبہ نعم البدل کی اقسام
مرتبہ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) دو طرح کا ہوتا ہے مرتبہ نعم البدل عام اور مرتبہ نعم البدل خاص۔
مرتبہ نعم البدل عام: یہ مرتبہ مرشد اپنے ہر طالب کو عطا کرتا ہے اور اس کی باطنی شخصیت میں سے شر کو مکمل طور پر نکال کر اسے خیر کی صورت عطا کرتا ہے اور شر کے مکمل خاتمے کے بعد مرشد طالب کو اپنی صفات سے متصف کرتے کرتے کسی ایک صفت میں کامل کر دیتا ہے اور وہ طالب اُسی صفت کا مظہر ہوتا ہے۔
مرتبہ نعم البدل خاص: یہ مرتبہ صرف ایک طالب ِ خاص کے حصے میں آتا ہے جو مرشد کا محرمِ راز ہوتا ہے اور وہ ہوبہو مرشد کی ذات کی حقیقت اور اس کا بدل ہوتا ہے اور مرتبۂ نعم البدل خاص کا جامع مظہر ہوتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسی حوالے سے فرماتے ہیں:
جے توُں چاہیں وحدت رب دی، مَل مرشد دیاں تلیاں ھوُ
مرشد لطفوں کرے نظارہ، گل تھیون سبھ کلیاں ھوُ
انہاں گلاں وچوں اِک لالہ ہوسی، گل نازک گل پھلیاں ھوُ
میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman) نے اس بیت کی شرح اس طرح فرمائی ہے:
اے طالب! اگر توُ وحدتِ حق تعالیٰ (فنا فی اللہ بقاباللہ) حاصل کرنا چاہتا ہے تو ظاہر و باطن سے مرشد کی اتباع کر۔ اگر مرشد کامل نے توجہ فرمائی تو تمام طالب جو کلیوں کی مانند ہیں، پُھول بن جائیں گے یعنی اپنے کمال کو پہنچ جائیں گے اور اُن میں توحید کی خوشبو ہو گی (وہ اولادِ معنوی ہوں گے) مگر اِن تمام پھولوں کا سرتاج ایک پھول لالہ ہے جو ایسا پھول دار پودا ہے جو سیدھا اوپر کو ہی جاتا ہے اوردیگر پھولدار پودوں کی طرح زمین کی طرف ہرگز نہیں جھکتا۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ طالبانِ مولیٰ میں ایک طالب ایسا ہوتا ہے جو کہ بالکل مرشد ہی کی ذات ہوتا ہے یا مرشد ہی اس کے لباس میں ملتبس ہوتا ہے اور دوسرے تمام طالبوں کے مقابلے میں علمِ توحید میں الگ، خاص اور نمایاں مقام رکھتا ہے یعنی وہ فرزندِحقیقی اور مرشد کا روحانی وارث ہے۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
مرتبہ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) کی ابتدا خصائلِ رذیلہ کو خصائلِ حمیدہ میں بدلنا ہے اور مرتبہ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) کی انتہا مرشد اور طالب دونوں کی ذات کا یکجا ہو جانا ہے۔
موجودہ دور کے سروری قادری مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman) ہیں۔ آپ اپنی نگاہِ کامل اور پاکیزہ و نورانی صحبت سے طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ نفس فرما کر انہیں اللہ کی معرفت اور قرب سے نواز رہے ہیں۔ تصور اسم اللہ ذات اور سلطان الاذکار ھوُ کا فیض جس قدر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman) نے عام فرمایا ہے اس سے پہلے کسی دور میں نہ ہوا۔ اسم اللہ ذات کے تصور، سلطان الاذکار ھوُ کے ذکر اور مشق مرقومِ وجودیہ کی کثرت سے طالبانِ مولیٰ کی شخصیت یکسر بدل جاتی ہے۔ وہ اپنی پرانی عادات کو ترک کرتے جاتے ہیں۔ مرشد ان کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کرتا جاتا ہے اور وہ اللہ کی رضا اور منشا کے مطابق ڈھلتے جاتے ہیں۔ یہی مرتبہ نعم البدل (Martaba Naimul Badal) ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman) کی نگاہِ کامل کا یہ فیض تاقیامت جاری رہے اور طالبانِ مولیٰ آپ کی نظرِکرم اور مہربانی سے اپنے نفوس کا تزکیہ اور قلوب کا تصفیہ کرواتے رہیں۔ آمین
استفادہ کتب:
۱۔ نور الہدیٰ کلاں؛ تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ
۲۔ ابیاتِ باھوؒ کامل؛ تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman)
۳۔ حیات و تعلیمات سیدّنا غوث الاعظمؓ؛ تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس (Sultan ul Ashiqeen Hazrat Sakhi Sultan Mohammad Najib ur Rehman)
۴۔ تزکیہ نفس کا نبویؐ طریق؛ ایضاً