امامِ اعظم امام ابو حنیفہؒ
Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa ra
تحریر: مسز انیلا یاسین سروری قادری۔ لاہور
سیدّنا حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جس دن سورۃ الجمعہ نازل ہوئی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) کے پاس موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی تلاوت فرمائی اور جب وَّاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ پر پہنچے تو ایک شخص نے عرض کیا ’’اللہ کے رسولؐ! یہ کون لوگ ہیں جو ابھی ہم سے نہیں ملے ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسیؓ بھی ان کے درمیان موجود تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے اپنا ہاتھ حضرت سلمانؓ کے کندھے پر رکھا اور فرمایا ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا پر بھی ہوگا تو بھی فارس کے کچھ لوگ اسے حاصل کر لیں گے۔‘‘ (ترمذی 3933)
علمائے کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس فرمان کو امام ابوحنیفہؒ کے متعلق پیش گوئی قرار دیا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنے مکتوبات میں لکھتے ہیں ’’ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) اس حدیث کے حکم میں داخل ہیں۔‘‘
امامِ اعظم امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) کا اسم مبارک نعمانؒ بن ثابت بن زوطا بن مرزبان ہے۔ آپؒ 80ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے، آپ عجمی النسل تھے۔ آپ کی کنیت ’’ابوحنیفہ ‘‘ تھی اور اسی کنیت سے آپ کو شہرت ملی۔ آپ حنفی فقہ کے امام ہیں۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید آپ کی صاحبزادی کا نام حنیفہ تھا اسی نسبت سے آپ کی کنیت ابوحنیفہ ہے لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔حنیف کا مطلب ہے کہ غلط راہ سے ہٹ کر صراطِ مستقیم پر آنے والا۔ آپ نے دینِ حنیف میں جو جزئیات اور فروعات اُمت کے سامنے پیش کیں یہ کنیت اسی اعتبار سے ہے یعنی ابو الملۃ الحنیفہ۔ (امام ابو حنیفہ سوانح و افکار)
امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) کے پوتے حضرت اسماعیلؒ بیان فرماتے ہیں ’’ہم لوگ ابنائے فارس یعنی فارسی النسل ہیں، واللہ کبھی ہمارا خاندان غلام نہیں تھا۔ میرے دادا ابو حنیفہ 80ھ میں پیدا ہوئے، میرے پردادا ’ثابت‘ بچپن میں حضرت علیؓ کی خدمت میں گئے، آپؓ نے ان کے اور ان کی اولاد کے حق میں خیرو برکت کی دعا فرمائی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کی یہ دعا قبول فرمائی۔‘‘ (تہذیب التہذیب، باب من اسمہ نعمان ۱/۴۴۹)
امامِ اعظم ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) وہ خوش قسمت ہستی ہیں جن کے بچپن میں متعدد صحابہ کرامؓ کوفہ میں حیات تھے۔ قاضی اطہر مبارکپوری نے متعدد محدثین کے حوالے سے نقل کیا کہ امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) نے کثیر صحابہ کی زیارت کی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
امام ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ امام صاحب کی 80ھ میں پیدا ئش کے وقت صحابہؓ کی ایک جماعت موجود تھی اور ان کی زیارت کی وجہ سے آپ تابعین کے زمرے میں شامل تھے۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ امام صاحب نے صحابہ کی ایک جماعت کا زمانہ پایا وہ کوفہ میں 80ھ میں پیدا ہوئے جہاں حضرت عبداللہ بن ابی اوفی موجود تھے، ان کی وفات 88ھ میں یا اس کے بعد ہوئی۔ (مبارکپوری، قاضی اطہر، سیرتِ آئمہ اربعہ)
غرضیکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ امامِ اعظم (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) طبقۂ تابعین میں سے ہیں اور یہ شرف دیگر آئمہ متبوعین میں سے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ سیدّنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں کوفہ علم و تحقیق میں حرمین شریفین کے بعد دوسرا بڑا روحانی اور علمی مرکز بن چکا تھا۔ امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) نے اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت، تفسیر و حدیث، حفظ اور دیگر ضروری و بنیادی علوم کوفہ میں ہی حاصل کیے۔
ولادت کی بشارتیں
حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میرے بعد ایک ایسا مرد پیدا ہوگا جو تمام اہلِ خراسان کے لیے آسمانِ علم پر چودھویں کے چاند کی طرح چمکے گا۔ اس کی کنیت ابوحنیفہ ہوگی۔‘‘ (مناقب الامام الاعظم للموفق)
حضرت عبداللہ بن مغفلؓ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ’’میں آج تمہیں ایسے مرد کی خبر سنانا چاہتا ہوں جو کوفہ کے اہلِ علم کے سردار ہوں گے بلکہ اپنے زمانہ میں عالمِ اسلام کے تمام شہروں کے رہنے والے اہلِ علم کے راہنما ہوں گے۔ وہ کوفہ میں ابوحنیفہ کی کنیت سے شہرت پائیں گے۔وہ علم و حلم کا خزانہ ہوں گے اور اس زمانہ میں ان کی وجہ سے ہزاروں لوگ تباہی و بربادی سے بچ جائیں گے۔(مناقب الامام الاعظم للموفق)
حضرت کعب الاخبارؒ نے بیان فرمایا ’’میں نے علمائے امتِ محمدیہ اور فقہائے عصر کے اسمائے گرامی الہامی کتابوں میں لکھے ہوئے پائے۔ ان اسمائے گرامی کے ساتھ ان حضرات کے اوصاف بھی درج تھے۔مجھے ان ناموں میں ایک نام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کا نظر آیا۔ آپ کے اوصاف میں آپ کے علوم، عبادات، ذہانت اور تقویٰ کے متعلق تفصیل دیکھی۔یہ بات خصوصی طور پر دیکھی کہ وہ اپنے زمانے کے اہلِ علم کے امام ہوں گے اور ان کی شخصیت آسمانِ علم پر چودھویں رات کے چاند کی طرح درخشاں ہوگی۔ لوگ ان کی زندگی پر بھی رشک کریں گے اور ان کی موت پر بھی۔ (مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ للکردری جلد۱، مناقب الامام الاعظم للموفق جلد۱)
حضرت امام عامربن شراحیل شعبیؒ کی نصیحت
ابتدائی ضروری تحصیلِ علم کے بعد امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa)نے اپنے آبائی پیشہ تجارت کو اختیار فرمایا اور اسے ترقی دی۔ ایک دن اسی سلسلہ میں بازار جا رہے تھے کہ راستے میں امام عامر بن شراحیل شعبیؒ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپؒ کے چہرے پر ذہانت اور فطانت کے آثار دیکھے تو آپ کو بلایا اور پوچھا کدھر کا ارادہ ہے۔آپؒ نے جواباً فرمایا بغرضِ تجارت بازار جا رہا ہوں۔امام شعبیؒ نے آپ کو ترغیب دلائی کہ علما کی صحبت اختیار کرو کیونکہ میں تمہارے چہرے پر علم و فضل کے روشن آثار دیکھ رہا ہوں۔
امام عامر بن شراحیل شعبیؒ کو تقریباً 500صحابہ کی زیارت کا شرف حاصل تھا۔ ان کی صحبت و نصیحت سے امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa)نے علمائے حق کی صحبت میں بیٹھنا شروع کر دیا یوں آپؒ نے تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع فرمایا۔
علمِ حدیث میں امام شعبیؒ کے متعلق علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں: وہ ابوحنیفہؒ کے شیخ ِاکبر ہیں۔ (ذہبی، تذکرۃ الحفاظ)
امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) فرماتے ہیں ’’امام شعبیؒ کی نصیحت کے بعد میں نے بازار آنا جانا کم کر دیااور علمائے حق کی مجلس میں آنے لگا، اللہ نے مجھے شعبیؒ کی بات سے بہت نفع پہنچایا۔‘‘ (مناقب للموفق ۱/۵۴)
امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) نے علم ِحدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا اوّل مقام کوفہ تھا جو آپ کی جائے پیدائش بھی تھا۔ کوفہ میں آپ نے متعدد صحابہ کرامؓ کی براہِ راست زیارت فرمائی اور ان سے احادیثِ نبویؐ سماعت کیں، دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ کا تھا جہاں سے آپ نے تقریباً چار ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
امام ابوحنیفہؒ تفسیر و حدیث اور دیگر علوم پہلے سے سیکھ چکے تھے لیکن امام شعبیؒ کی نصیحت کے بعد آپ نے فقہ کی طرف توجہ کی اور علم ِ فقہ کی تعلیم کوفہ کے مشہور امام اور استاد الوقت امام حماد بن ابی سلیمانؒ سے حاصل کی اور مرتبۂ اجتہاد پر فائز ہوئے۔
فقہ میں مرتبہ کمال
علم ِ فقہ کا تعلق انسان کی عملی زندگی کے تمام خاص و عام معاملات سے ہے۔ حدیثِ نبویؐ ہے ’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے گمراہ نہیں ہو گے، کتاب اللہ (قرآن) اور میری سنت۔‘‘ (موطا مالک)
کتاب اللہ اور سنت دین کی اساس ہیں جن پر شریعت کی پوری عمارت قائم ہے اور فقہ انہی دونوں سے ماخوذ قانونِ اسلامی کا ذخیرہ ہے۔ (امام ابو حنیفہؒ سوانح و افکار)
امامِ اعظم امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) علمِ تفسیر و حدیث، علمِ کلام ، علم ِتصوف اور علم فقہ و فتاویٰ میں غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کے ہم عصروں میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ انہی غیر معمولی خوبیوں کی بدولت آپ نے امامِ اعظم کا لقب پایا۔ حضرت امام شافعیؒ آپ کے بلند مقامِ فقہ کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) کے محتاج ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ ۱/۱۵۹)
جو شخص فقہ حاصل کرنا چاہے وہ امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) اور ان کے اصحاب کو لازم پکڑ لے کیونکہ تمام لوگ فقہ میں ان کے خوشہ چین ہیں۔ (امام ابو حنیفہؒ سوانح و افکار)
امانت علی قاسمی لکھتے ہیں:
عہدِ صحابہؓ میں ہی فقہ کی قانون سازی، مسائل کی تنقیح (کسی چیز کو عیوب سے پاک کرنا) و تخریخ (خارج کرنا، نکالنا ) اور اجتہاد(نئی بات پیدا کرنا، شرعی اصطلاح میں قرآن و حدیث اور اجماع پر قیاس کرتے ہوئے شرعی مسائل کا نتیجہ اخذ کرنا ) و استنباط (چننا، چھانٹنا، اخذ کرنا ) کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا لیکن اس کا باقاعدہ و باضابطہ آغاز عہدِ تابعین میں ہوا۔ دو صدی کے عرصے میں دس سے زائد مذاہب جلوہ گر ہوئے جن میں ائمہ اربعہ کے علاوہ امام عبدالرحمن اوزاعی (م۱۵۷) سفیان بن سعیدبن مسروق (م۱۶۰) امام لیث بن سعد(م ۱۷۵) سفیان بن عیینہ (م۱۹۸) ابوداؤد الظاہری(م۲۷۰) اسحاق بن راہویہ (م۲۳۸) کے مذاہب مشہور ہوئے لیکن پانچویں صدی سے قبل اکثر مذاہب کا سورج غروب ہو گیا ، صرف بعض مجتہدین کے مذاہب نقل و بیان کی حد تک باقی رہ گئے۔ جن مجتہدین کے فقہ کو بقا و دوام حاصل ہوا وہ آئمہ اربعہ امام اعظم ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa)(م۱۵۰) امام مالکؒ (م ۱۷۹) امام شافعیؒ (م ۲۰۴) امام احمد بن حنبلؒ (م ۲۴۱) کے مذاہب ہیں ان میں بھی اوّلیت و مرجعیت، امتیاز و تفوق اور بلند و برتری ابو حنیفہؒ کے فقہ کو ہی حاصل ہے اس لیے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے باقی تین فقہ جو اس وقت رائج ہیں فقہ حنفی سے ہی ماخوذ و مستفاد (فائدہ حاصل کیا ہوا) ہیں۔ (امام ابو حنیفہؒ سوانح و افکار)
امامِ ابوحنیفہؒ کا طریقۂ استنباط
امام ابوحنیفہؒ نے فقہ حنفی کی بنیاد حقیقی اسلامی قوانین کے مطابق رکھی جن پر اہلِ حق کے تمام مذاہب متحد و متفق ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ طریقۂ استنباط کے بارے میں فرماتے ہیں:ْ
میں (شرعی احکام میں) اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرتا ہوں جب کہ وہ احکام مجھے کتاب اللہ میں مل جائیں اور جو احکام مجھے قرآن میں نہیں ملتے تو پھر سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان صحیح آثار پر عمل کرتا ہوں جو ثقہ راویوں سے منقول ہوکر ثقہ راویوں میں پھیل چکے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ کتاب اللہ اور حدیثِ نبویؐ میں نہیں پاتا تو صحابہؓ کے اقوال میں سے جن کا قول کتاب و سنت کے قریب پاتا ہوں ان پر عمل کرتا ہوں (البتہ حضراتِ صحابہ کے اقوال سے باہر نہیں جاتا کہ) سارے صحابہؓ کے قول کو چھوڑ کر دوسرے قول کو اختیار کروں اور جب نوبت ابراہیم نخعی، عامر شعبی، محمد بن سیرین، حسن بصری، عطا، سعید بن مسیّب (متعدد حضرات تابعین کے نام شمار کیے) تک پہنچتی ہے تو ان حضرات نے اجتہاد کیا ہے لہٰذا مجھے بھی حق ہے کہ ان حضرات کی طرح اجتہاد کروں یعنی ان حضرات کے اقوال پر عمل کرنے کی پابندی نہیں کرتا ـ بلکہ ان آئمہ مجتہدین کی طرح خدائے ذوالمنن کی بخشی ہوئی اجتہادی صلاحیتوں کو کام میں لاتا ہوں اور اپنے فکر و اجتہاد سے پیش آمدہ مسائل حل کرنے کی سعی پیہم کرتا ہوں۔ (مناقب ابو حنیفہ للامام الموفق: ۱/۸۰، دارالکتب العربی بیروت ۱۹۸۱)
مجموعہ قوانین کی ترتیب
امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) نے فقہ کی تدو ین کا کام جس ترتیب سے فرمایا اسے کتاب ’مناقبِ ابی حنیفہؒ‘ کے مصنف موفق احمد مکی یوں تحریر کرتے ہیں:
امام ابوحنیفہؒ نے فقہ کی تدوین کا کام کیا تو اس کو ابواب اور کتب پر مرتب فرمایا۔ پہلے طہارت، پھر نماز پھر پے در پے دیگر عبادات کے ابواب کو مرتب کیا، اس کے بعد معاملات کا ذکر کیا اور سب سے آخر میں میراث کا ذکر کیا۔ (مناقب ابی حنیفہؒ للموفق ۱/۳۹۴، تبییض الصحیفہ)
تدوین فقہ کے بانی
مناقبِ ابی حنیفہ کے مصنف موفق احمد مکی تدوینِ فقہ کے متعلق تحریر کرتے ہیں:
امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) نے جس طرح فقہی قانون کا مجموعہ تیار فرمایا اور جس ترتیب سے اسے قائم فرمایا آپؒ خود ہی اس کے موجد ہیں۔ آپ نہ صرف تدوین کے اس اسلوب کے بانی ہیں جس کے بعد تمام مجتہدین نے اپنا اپنا فقہ مدون کیا بلکہ بعض مباحث ایسے ہیں جن پر آپ سے پہلے کسی نے مستقل بحث نہیں کی تھی مثلاً امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) پہلے شخص ہیں جنہوں نے کتاب الفرائض اور کتاب الشروط وضع کی، ان سے پہلے اس موضوع پر کسی کی کوئی مستقل تحریر نہیں تھی۔ (مناقب ابی حنیفہؒ للموفق ص:۳۹۴)
مجموعہ مسائل
امامِ ابوحنیفہؒ ؒنے ۲۲ سال کی طویل المیعاد مدت میں قانونِ اسلامی اور فقۂ حنفی کو مدون کیا ہے۔ محققین کی رائے ہے کہ امامِ اعظمؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) کی شوریٰ کے ذریعہ فیصل ہونے والا مجموعہ ۸۳ ہزار دفعات پر مشتمل تھا،جس میں ۳۸ ہزار مسائل عبادات سے متعلق تھے، ۴۵ ہزار مسائل کا تعلق معاملات و عقوبات سے تھا اور جب آپ کو کوفہ سے بغداد جیل میں منتقل کیا گیاتب بھی تدوین ِفقہ کا سلسلہ جاری رہا۔ امام محمدؒ کا تعلق امام ابو حنیفہؒ سے یہیں قائم ہوا اور اضافہ کے بعد اس دستوری خاکہ میں کل مسائل کی تعداد ۵ لاکھ تک پہنچ گئی۔ (دفاع امام ابو حنیفہؒ، ص:۱۲۶)
حضرت امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں سے چالیس نہایت جلیل المرتبت تھے اور درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِخاص بھی تھے۔ ان کے علاوہ صحیح البخاری کے مؤلف امام محمد اسماعیل بخاری اور دیگر بڑے محدثین کرام آپؒ کے شاگردوں میں شامل تھے۔
فقہ حنفی کی خصوصیات
علامہ شبلی نعمانیؒ نے سیرۃ النعمان میں فقہ حنفی کی خصوصیات پر مفصل کلام کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ فقہ حنفی کے مسائل اسرار و مصالح پر مبنی ہوتے ہیں۔
۲۔ فقہ حنفی پر عمل بہ نسبت دیگر تمام فقہوں کے نہایت آسان ہے۔
۳۔ فقہ حنفی میں معاملات کے متعلق جو قاعدے ہیں نہایت وسیع اور متمدن ہیں۔
۴۔ فقہ حنفی میں ذمیوں کے حقوق (یعنی وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہیں لیکن مسلمانوں کی حکومت میں مطیعانہ رہتے ہیں) نہایت فیاضی اور آزادی سے دئیے ہیں۔ یہ وہ خصوصیت ہے جس کی نظیر کسی امام اور مجتہد کے یہاں نہیں ملتی۔
۵۔ فقہ حنفی نصوصِ شرعیہ کے موافق ہے یعنی جو احکام نصوص سے ماخوذ ہیں اور جن میں آئمہ کا اختلاف ہے ان میں امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) جو پہلو اختیار فرماتے ہیں وہ عموماً قوی اور مدلل ہوتا ہے۔ (علامہ شبلی نعمانیؒ، سیرۃ النعمان) (امام ابو حنیفہؒ سوانح و افکار)
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں ’’میں نے قاضی حسن بن عمارہ کو اس حال میں دیکھا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ کے گھو ڑے کی لگام پکڑی تھی اور کہہ رہے تھے: خدا کی قسم! میں نے فقہ میں ان سے زیادہ فصیح و بلیغ کلام کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا اور نہ صابر اور حاضر جواب۔ یہ اپنے وقت کے سیدّ الفقہا ہیں۔ ان کی شان میں سوائے حاسدوں کے کوئی بکواس نہیں کرتا۔‘‘ (امام ابو حنیفہؒ سوانح و افکار)
امام ابو حنیفہؒ اور تصوف
اسلام کی حقیقت قربِ الٰہی کے لیے قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوکر باطنی پاکیزگی، زہد و تقویٰ، محبتِ الٰہی، حسنِ سلوک، دنیا سے بے رغبتی، تمام صفاتِ رذیلہ سے نفرت کرتے ہوئے ان سے نجات حاصل کرنا اور صفاتِ حمیدہ سے متصف ہونا ہے۔
امانت علی قاسمی فرماتے ہیں:
احادیث میں تصوف کو احسان سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن متعارفِ تصوف اور اس کا نام قرونِ اوّل اور قرونِ ثانی میں نہیں ملتا۔ عہدِصحابہ کرامؓ میں تصوف کی روح اور حقیقت یعنی زہد و تقویٰ، انابت الی اللہ اور عاجزی و انکساری وغیرہ جیسی روحانی صفات تو پائی جاتی تھیں لیکن تصوف کا لفظ عہد ِ صحابہ کرامؓ تک نہیں تھا۔ (امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa)سوانح و افکار)
تصوف کی اصطلاح کب سے رائج ہوئی؟ اس بارے میں مشہور صوفی بزرگ ابو القاسم القشیریؒ اپنی تصنیف الرسالۃ القشیریہ میں لکھتے ہیں:
خدا تم پر رحم کرے۔ جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد مسلمانوں کے لیے ان کے زمانہ میں کوئی نام بڑی فضیلت والا نہیں۔ تب ان کوصحابہ کہا گیااور جب دوسرے زمانے والوں نے ان کو پایا تو جن لوگوں نے صحابہ کی صحبت حاصل کی ان کا نام تابعین رکھا گیا اور ان کے بعد اس سے بڑھ کر اور کوئی نام نہ تھاپھر ان کے بعد والوں کو تبع تابعین کہا گیا، پھر مختلف قسم کے لوگ پیدا ہوئے اور ان کے مراتب میں فرق پڑ گیا۔ تب ان خواص لوگوں کو جنہیں دین کے کام میں زیادہ توجہ تھی زاہد، عابد کہا گیا۔ پھر بدعت ظاہر ہوگئی اور مختلف فرقوں کے مدعی پیدا ہو گئے۔ ہر ایک فریق نے دعویٰ کیا کہ ہم زاہد ہیں۔ تب اہلِ سنت کے خاص لوگوں نے جو خدا کے ساتھ اپنے نفسوں کی رعایت رکھنے والے اور اپنے دلوں کی غفلتوں کے آنے سے حفاظت کرنے والے تھے اس نام کو چھوڑ کر اپنا نام اہلِ تصوف رکھا اور دوسری صدی ہجری کے ختم ہونے سے پہلے ہی ان بزرگوں کے لئے یہ نام شہرت پا گیا۔ (روح تصوف۔ اردو ترجمہ الرسالۃ القشیریہ)
حضرت ابو القاسم القشیریؒ کے فرمان سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ عہد ِ صحابہؓ میں بھی تصوف کا آفتاب پوری آب و تاب سے روشن تھا لیکن اس وقت اس کا کوئی خاص نام نہ تھا۔
امام ابو حنیفہؒ کی حیاتِ طیبہ تصوف کی حقیقت سے بھرپور تھی۔ جہاں آپ حدیث و فقہ میں جلیل منصب پر فائز تھے وہیں اللہ پاک نے آپ کو تصوف و طریقت میں بھی اپنے ہم عصروں میں عظیم المرتبت مقام سے نوازا تھا۔ راہِ تصوف کا پہلا مقام صحبت حاصل کرنا ہے، اگر صحبت حاصل نہ ہو تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ صحابہ کرامؓ کو تمام مراتب صحبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی برکت سے ہی حاصل ہوئے تھے۔
امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) جب عالمِ ناسوت میں جلوہ افروز ہوئے تو اس وقت صحابہ کرام کی ایک خاص تعداد حیات تھی چنانچہ آپؒ متعدد صحابہ کرامؓ اور جلیل القدر تابعین کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ راہِ طریقت و تصوف میں امامِ اعظمؒ نے سب سے زیادہ فیوض و برکات حضرت امام جعفر صادقؓ کی صحبت سے حاصل کیے۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:
امام صاحب طریقت میں امام جعفر صادقؓ کے خلیفہ اور مجاز ہیں، آپ نے سلوک و طریقت کے مراحل امام جعفر صادقؓ سے دو سال میں طے کئے۔ (امام ابو حنیفہؒ سوانح و افکار)
ان دو سالوں کے متعلق امامِ اعظمؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) فرماتے ہیں: ’’اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان ہلاک ہوجاتا یعنی اگر میں دو سال تک امام جعفر صادقؓ کی خدمت میں نہ رہتاتو اصلاحِ باطن سے محروم ہوجاتا۔‘‘ (تحفۃ اثنا عشرۃ ، عربی ۱/۸، شاہ عبدالعزیز دہلوی، مترجم غلام محی الدین)
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ امام ابوحنیفہؒ کے مرتبہ تصوف و طریقت کے متعلق اپنا ایک خواب تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) کی زیارت کی اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) امام ابوحنیفہؒ کو اپنی گود میں اٹھائے ہوئے تشریف لا رہے ہیں۔ آپؒ لکھتے ہیں کہ خواب سے ظاہر ہوگیا کہ امام ابوحنیفہؒ ان پاک لوگوں میں سے تھے جو اوصافِ طبع میںفانی اور احکام شرع میں باقی ہیں، اس لیے حضورؐ آپ کو اٹھا کر لائے یعنی آپ کو چلانے والے سیدّ عالمؐ ہیں۔ چونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے آپ کو اٹھایا ہوا تھا اس لئے یقینا آپ کی ذاتی صفات فنا ہو چکی تھیں اور وہ آقاکریمؐ کی صفات کے ساتھ صاحب ِبقا تھے۔ (کشف المحجوب)
علامہ علاؤ الدین حصکفی نے الدر المختار میں لکھا:
ابو القاسم القشیری اپنے رسالہ میں باوجود اپنے مذہب (شافعی) میں سخت ہونے کے اور طریقت میں پیش پیش ہونے کے فرماتے ہیں کہ انہوں نے استاذ ابو علی دقاق سے سنا ’’وہ فرماتے تھے کہ میں نے طریقت کو حضرت ابو القاسم نصر آبادی سے حاصل کیا اور ابو القاسم فرماتے ہیں میں نے حضرت ابوبکر شبلیؒ سے حاصل کیا اور انہوں نے حضرت جنید بغدادیؒ سے اور انہوں نے حضرت سری سقطیؒ سے اور انہوں نے حضرت معروف کرخیؒ سے اور انہوں نے حضرت داؤد طائیؒ سے اور انہوں نے علمِ شریعت اور طریقت دونوں امام اعظم ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) سے حاصل کیے تھے۔‘‘ (امام ابو حنیفہؒ سوانح و افکار)
تواریخ اولیا کے بغور مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بیشمار جلیل القدر اولیا حنفی مسلک ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اولیا کرام فقہی اجتہاد کے باقی امامین پاک کا انکار کرتے ہیں۔ موجودہ دور کے عظیم المرتبت فقیر ِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس حنفی مسلک ہیں، آپ مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
چاروں امامین (حضرت امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa)، حضرت امام احمد بن حنبلؒ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام شافعیؒ) اجتہاد کے جس مقام تک پہنچے کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔ اُمت کا اجماع ہے کہ چاروں امامین برحق ہیں۔ فرقہ تب بنتا ہے جب کوئی ایک گروہ کسی ایک امام کے طریق یا فقہ میں اپنے نظریات کی آمیزش کرتا ہے۔ (سلطان العاشقین)
ستارھویں صدی عیسوی کے فقیر مالک الملکی سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ (Hazrat Sultan Bahoo) امام سلسلہ سروری قادری فقہ میں امامِ اعظم حضرت امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) کے پیروکار تھے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
میں حضرت نعمان امامِ اعظم کوفی باصفا صوفی کے مذہب پر ہوں جو شرک، کفر اور سرود کی بدعت سے تارک اور فارغ رہے۔ (کلید التوحید کلاں)
فقر میں بلند مرتبہ
امام ابو حنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa) نے فقر میں بہت بلند مرتبہ پایا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sultan Bahoo) فرماتے ہیں:
یاد رہے اصحابِ پاک رضی اللہ عنہم کے بعد فقر کی نعمت و دولت دو حضرات نے پائی، ایک غوثِ اعظم محی الدین حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ اور دوسرے حضرت امام ابوحنیفہ کوفی رحمتہ اللہ علیہ جو ایک تارکِ دنیا صوفی تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ستر سال تک نہ کوئی نماز قضا کی نہ روزہ۔ (محک الفقر کلاں)
راہِ فقر دیدارِ الٰہی کی راہ ہے۔ دیدارِ الٰہی کے حوالے سے امام علاؤ الدین حصکفیؒ نے الدر المختار میں بیان کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ نے خواب میں سو (100) مرتبہ اللہ ربّ العزت کا دیدار کیا۔
فضائل و مناقب امام ابوحنیفہؒ
ایک دن حضرت امام ابوحنیفہؒ امام جعفر صادقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ امام جعفر صادقؓ نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا ’’میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے نانا جان جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سنتیں تم زندہ کرو گے۔ یہ اس وقت ہوگا جب عام مسلمانوں میں سنتِ رسول کا احترام کم ہو جائے گا۔ تم ہر پریشان صاحبِ علم کی جائے پناہ ہوگے۔ حالات کی وجہ سے ہر غمزدہ تمہارے پاس فریاد لے کرآئے گا اور تم ان کی دادرسی کرو گے۔ تمہاری راہنمائی سے لوگوں کو صحیح راستہ ملے گا۔ وہ حیران اور پریشان ہوں گے تو تم انہیں سہارا دے کر صراطِ مستقیم پر ان کی راہنمائی کرو گے۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتنی توفیق حاصل ہوگی کہ زمانے بھر کے علمائے ربانی تمہاری وجہ سے صحیح مسلک اختیار کریں گے۔ (مناقب الامام الاعظم للموفق)
حضرت یحییٰ بن معاذ رازیؒ فرماتے ہیں ’’میں نے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) کی زیارت کی۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ کو کہاں تلاش کروں؟‘‘ آپ صلی اللہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’علمِ ابوحنیفہؒ کے پاس‘‘۔ (مناقب الامام الاعظم للموفق)
امام الجرح و التعدیل یحییٰ ابن سعید القطانؒ فرماتے ہیں ’’واللہ امام ابوحنیفہؒ اس اُمت میں خدا اور اس کے رسول سے جو کچھ وارد ہوا ہے اس کے سب سے بڑے عالم ہیں۔‘‘ (مقدمۃ کتاب التعلیم:۱۳۴)
حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں ’’جناب امام ابوحنیفہؒ فقیہ شخصیت تھے اور فقہ کے ساتھ بہت معروف تھے۔تقویٰ میں مشہور تھے، وسیع المال تھے، اپنے ماتحتوں پر بہت فضل و کرم فرمایا کرتے تھے، دن رات تعلیم و تعلم میں بڑے صابر تھے، راتوں کو عبادت کرنے والے اور دینی و تعلیمی معاملات کے علاوہ زیادہ تر خاموش رہنے والے، مسائل میں حلال اور حرام کی وضاحت کے علاوہ بہت کم گفتگو فرمانے والے تھے۔حق بات پر بڑے زبردست دلائل دیا کرتے اور بادشاہوں کے مال و دولت سے دور رہتے تھے۔‘‘ (سلطنتِ حنفیہ)
وفات
امام ابوحنیفہؒ (Imam-e-Azam Imam Abu Hanifa)کا ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا اور نہ ہی آپ نے کسی عہدے اور مرتبہ کے لیے کسی کی خوشامد یا ملازمت اختیار فرمائی۔ حق گوئی میں آپ اپنی مثال آپ تھے۔ عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور اپنی حکومت کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے آپؒ کی تائید و نصرت چاہتا تھا جس کے لیے اس نے آپ کو قاضی کا خاص عہدہ پیش کیا مگر آپ نے حکومتی معاملات میں دخل اندازی سے معذرت چاہی کیونکہ حکمرانوں کی سیاست سے آپ بخوبی آگاہ تھے۔ اسی وجہ سے 146ھ میں آپ کو قید کر دیا گیا اور سزا کے طور پر روزانہ بیس کوڑے بھی مارے جاتے۔ لیکن آپ نے پھر بھی حکومتی عہدہ قبول نہ کیا اور قید خانہ میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ یہاں بھی ایک خاص جماعت آپ سے مستفید ہوئی۔ حضرت امام محمدؒ جو کہ فقہ کے دستِ بازو ہیں انہوں نے قید خانہ میں ہی آپ سے تعلیم و تربیت پائی۔ قید خانہ میں آپؒ کی بڑھتی ہوئی غیر معمولی مقبولیت خلیفہ منصور کے لیے مزید خدشے کا باعث بننے لگی تو اس نے آپ کے کھانے میں زہر دلوا دیا۔ جب آپؒ کو زہر کا اثر محسوس ہوا توآپ نے فوراً سجدہ کیا اور سجدہ کی حالت میں ہی روح پرواز کر گئی۔ آپؒ نے 150ھ میں شہادت پائی۔ آپ کی نمازِ جنازہ چھ مرتبہ پڑھائی گئی اور ہر بار 50ہزار افراد جمع ہوئے۔ آپؒ کو خیزران کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔
استفادہ کتب:
۱۔امام ابو حنیفہؒ سوانح و افکار
۲۔انوارِ امامِ اعظم ابو حنیفہؒ؛ مرتب سیدّ محمد زین العابدین راشدی
۳۔سلطنتِ حنفیہ بنام امام اعظم ابوحنیفہؒ؛ تصنیف محمد علی رضا القادری الاشرفی
۴۔کشف المحجوب؛ تصنیف حضرت داتا گنج بخشؒ
۵۔روح تصوف اردو ترجمہ الرسالۃ القشیریہ